اعمال 25‏:1‏-‏27

  • فیستُس کے سامنے پولُس کی پیشی (‏1-‏12‏)‏

    • ‏”‏مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!‏“‏ (‏11‏)‏

  • فیستُس، بادشاہ اگرِپا سے مشورہ کرتے ہیں (‏13-‏22‏)‏

  • اگرِپا کے سامنے پولُس کی پیشی (‏23-‏27‏)‏

25  جب فیستُس صوبے میں آیا تو عہدہ سنبھالنے کے تین دن بعد وہ قیصریہ سے یروشلیم گیا۔ 2  وہاں یہودیوں کے اعلیٰ کاہن اور بااثر لوگ اُس کے پاس آئے اور پولُس کے خلاف اِلزام عائد کرنے لگے۔ اُنہوں نے فیستُس سے اِلتجا کی کہ 3  وہ مہربانی کر کے پولُس کو یروشلیم بلوائے۔ دراصل اُن کا منصوبہ تھا کہ وہ راستے میں پولُس پر حملہ کر کے اُنہیں قتل کر دیں گے۔ 4  لیکن فیستُس نے جواب دیا:‏ ”‏وہ قیصریہ میں ہی رہے گا۔ مَیں کچھ دنوں میں وہاں واپس جانے والا ہوں۔ 5  اگر اُس نے واقعی کوئی جُرم کِیا ہے تو آپ اپنے رہنماؤں کو میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ اُس پر اِلزام عائد کر سکیں۔“‏ 6  آٹھ دس دن وہاں رہنے کے بعد فیستُس قیصریہ گیا اور اگلے دن تختِ‌عدالت پر بیٹھا۔ پھر اُس نے پولُس کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ 7  جب پولُس کو لایا گیا تو یروشلیم سے آئے ہوئے یہودی اُن کے اِردگِرد کھڑے ہو گئے۔ اُنہوں نے پولُس پر بہت سے سنگین اِلزام لگائے مگر اِنہیں ثابت نہیں کر سکے۔‏ 8  لیکن پولُس نے اپنی صفائی میں کہا:‏ ”‏مَیں نے نہ یہودیوں کی شریعت کے خلاف، نہ ہیکل*‏ کے خلاف اور نہ ہی قیصر کے خلاف کوئی گُناہ کِیا ہے۔“‏ 9  فیستُس یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اِس لیے اُس نے پولُس سے کہا:‏ ”‏کیا تُم یروشلیم جانا چاہتے ہو تاکہ وہاں میرے سامنے تُم پر مُقدمہ چلایا جائے؟“‏ 10  پولُس نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں قیصر کے تختِ‌عدالت کے سامنے کھڑا ہوں۔ میرا مُقدمہ یہیں ہونا چاہیے۔ مَیں نے یہودیوں کے خلاف کچھ نہیں کِیا اور آپ کو بھی اِس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔ 11  اگر مَیں نے واقعی کوئی غلط کام کِیا ہے یا کوئی ایسا جُرم کِیا ہے جس کی سزا موت ہے تو مَیں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن اگر اِن آدمیوں کے اِلزامات میں کوئی سچائی نہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ مجھے اِن کی خوشی کے لیے اِن کے حوالے کرے۔ مَیں قیصر سے اپیل کرتا ہوں!‏“‏ 12  فیستُس نے اپنے مشیروں سے مشورہ کِیا اور پھر پولُس سے کہا:‏ ”‏تُم نے قیصر سے اپیل کی ہے؛ تُم قیصر کے پاس جاؤ گے۔“‏ 13  کچھ دن بعد بادشاہ اگرِپا، برنیکے کے ساتھ فیستُس سے ملنے قیصریہ آیا۔ 14  وہ دونوں کچھ دن تک وہاں رہے۔ اِس لیے فیستُس نے پولُس کا مُقدمہ بادشاہ کے سامنے پیش کِیا۔ اُس نے کہا:‏ ‏”‏یہاں ایک آدمی ہے جسے فیلکس حراست میں چھوڑ گیا ہے۔ 15  جب مَیں یروشلیم میں تھا تو یہودیوں کے اعلیٰ کاہن اور بزرگ میرے پاس آئے اور اُس پر اِلزام عائد کرنے لگے۔ وہ چاہتے تھے کہ مَیں اُسے سزاوار ٹھہراؤں۔ 16  لیکن مَیں نے اُنہیں جواب دیا کہ رومی قانون کے مطابق ملزم کو محض اُس کے مخالفوں کی خوشی کے لیے اُن کے حوالے نہیں کِیا جاتا بلکہ پہلے ملزم اور اُس کے مخالفوں کو بلا‌یا جاتا ہے اور اُسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ 17  اِس لیے جب وہ یہاں پہنچے تو مَیں نے دیر نہیں کی بلکہ اگلے ہی دن تختِ‌عدالت پر بیٹھا اور اُس آدمی کو لانے کا حکم دیا۔ 18  میرا خیال تھا کہ اُس نے کوئی بہت سنگین جُرم کِیا ہوگا۔ لیکن جب اُس کے مخالف اُس پر اِلزام لگانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اُنہوں نے کسی ایسے جُرم کا ذکر نہیں کِیا۔ 19  اُن کا جھگڑا اُن کے مذہب اور یسوع نامی ایک آدمی کی وجہ سے تھا جو مر چُکا ہے لیکن پولُس دعویٰ کرتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ 20  مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اِس جھگڑے کو کیسے ختم کروں اِس لیے مَیں نے پولُس سے پوچھا:‏ ”‏کیا تُم یروشلیم جانا چاہتے ہو تاکہ تُم پر وہاں مُقدمہ چلایا جائے؟“‏ 21  لیکن پولُس نے اپیل کی کہ جب تک شہنشاہِ‌اعظم اُس کا فیصلہ نہ سنائیں، اُسے حراست میں رہنے دیا جائے۔ اِس لیے مَیں نے حکم دیا کہ جب تک مَیں اُسے قیصر کے پاس نہ بھیجوں تب تک اُسے یہیں رکھا جائے۔“‏ 22  پھر اگرِپا نے فیستُس سے کہا:‏ ”‏مَیں بھی اُس آدمی کی بات سننا چاہتا ہوں۔“‏ فیستُس نے جواب دیا:‏ ”‏کیوں نہیں؟ کل اُسے آپ کے سامنے پیش کِیا جائے گا۔“‏ 23  لہٰذا اگلے دن اگرِپا اور برنیکے بڑی دھوم دھام سے آئے اور فوجی کمانڈروں اور شہر کے بااثر آدمیوں کے ساتھ دربار میں داخل ہوئے۔ پھر فیستُس کے حکم پر پولُس کو پیش کِیا گیا۔ 24  فیستُس نے کہا:‏ ”‏بادشاہ اگرِپا اور آپ سب جو یہاں موجود ہیں، آپ اُس آدمی کو دیکھ رہے ہیں جس کے خلاف یروشلیم میں اور یہاں بھی تمام یہودیوں نے چلّا چلّا کر مطالبہ کِیا ہے کہ اِسے سزائے‌موت دی جائے۔ 25  لیکن مجھے اندازہ ہو گیا کہ اِس آدمی نے کوئی ایسا کام نہیں کِیا کہ اِسے سزائے‌موت دی جائے۔ لہٰذا جب اِس آدمی نے شہنشاہِ‌اعظم سے اپیل کی تو مَیں نے اِسے اُن کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کِیا۔ 26  مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ مَیں اپنے مالک کو اِس مُقدمے کے سلسلے میں کیا لکھوں۔ اِس لیے مَیں نے اِس آدمی کو آپ سب کے سامنے پیش کِیا ہے اور خاص طور پر آپ کے سامنے بادشاہ اگرِپا، تاکہ اِس سے تفتیش کرنے کے بعد مَیں اپنے مالک کو کچھ لکھ سکوں۔ 27  کیونکہ یہ مناسب نہیں کہ مَیں قیدی کو تو اُن کے پاس بھیجوں لیکن اُن کو اِس پر لگے اِلزامات سے آگاہ نہ کروں۔“‏

فٹ‌ نوٹس

یعنی خدا کا گھر