یوحنا 3‏:1‏-‏36

  • یسوع اور نیکُدیمس (‏1-‏21‏)‏

    • اِنسان دوبارہ سے پیدا کیسے ہو سکتا ہے؟ (‏3-‏8‏)‏

    • خدا کو دُنیا سے محبت ہے (‏16‏)‏

  • یسوع کے بارے میں یوحنا کی آخری گواہی (‏22-‏30‏)‏

  • جو شخص اُوپر سے آتا ہے (‏31-‏36‏)‏

3  اب ایک فریسی تھا جس کا نام نیکُدیمس تھا۔ نیکُدیمس یہودیوں کے ایک پیشوا تھے۔ 2  وہ رات کے وقت یسوع کے پاس آئے اور اُن سے کہا:‏ ”‏ربّی، ہم جانتے ہیں کہ آپ ایک ایسے اُستاد ہیں جسے خدا نے بھیجا ہے کیونکہ جیسے معجزے آپ کر رہے ہیں ویسے معجزے صرف وہ کر سکتا ہے جس کے ساتھ خدا ہو۔“‏ 3  یسوع نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جب تک ایک شخص دوبارہ سے پیدا*‏ نہ ہو، وہ خدا کی بادشاہت کو نہیں دیکھ سکتا۔“‏ 4  اِس پر نیکُدیمس نے اُن سے کہا:‏ ”‏ایک اِنسان بڑا ہو کر دوبارہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ وہ واپس اپنی ماں کے پیٹ میں جا کر دوبارہ پیدا تو نہیں ہو سکتا!‏“‏ 5  یسوع نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جب تک ایک شخص پانی اور روح سے پیدا نہ ہو، وہ خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ 6  جو جسم سے پیدا ہوا ہے، وہ جسمانی ہے اور جو پاک روح سے پیدا ہوا ہے، وہ روحانی ہے۔ 7  میری اِس بات پر حیران نہ ہوں کہ آپ لوگوں کو دوبارہ سے پیدا ہونا پڑے گا۔ 8  ہوا جس طرف کو چاہے، چل پڑتی ہے۔ آپ اِس کی آواز سنتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ کہاں سے آ رہی ہے اور کہاں جا رہی ہے۔ یہی بات ہر اُس شخص پر لاگو ہوتی ہے جو پاک روح سے پیدا ہوا ہے۔“‏ 9  اِس پر نیکُدیمس نے اُن سے کہا:‏ ”‏یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“‏ 10  یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏آپ اِسرائیل کے اُستاد ہو کر بھی اِن باتوں کے بارے میں نہیں جانتے؟ 11  مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جو باتیں ہم جانتے ہیں، وہ بتاتے ہیں اور جو باتیں ہم دیکھتے ہیں، اُن کی گواہی دیتے ہیں لیکن آپ لوگ ہماری گواہی قبول نہیں کرتے۔ 12  مَیں نے آپ کو زمینی چیزوں کے بارے میں بتایا لیکن آپ نے یقین نہیں کِیا۔ اب اگر مَیں آپ کو آسمانی چیزوں کے بارے میں بتاؤں تو آپ کیسے یقین کریں گے؟ 13  کوئی بھی شخص آسمان پر نہیں گیا سوائے اُس کے جو آسمان سے آیا ہے یعنی اِنسان کا بیٹا۔‏* 14  اور جس طرح موسیٰ نے ویرانے میں سانپ کو لٹکایا اُسی طرح اِنسان کے بیٹے کو بھی لٹکایا جائے گا 15  تاکہ جو بھی شخص اُس پر ایمان لائے، وہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرے۔‏ 16  کیونکہ خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا*‏ دے دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان ظاہر کرے، وہ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ 17  خدا نے اپنے بیٹے کو دُنیا میں اِس لیے نہیں بھیجا کہ وہ دُنیا کے خلاف سزا سنائے بلکہ اِس لیے کہ اُس کے ذریعے دُنیا نجات پائے۔ 18  جو بھی اُس پر ایمان ظاہر کرتا ہے، اُسے سزاوار نہیں ٹھہرایا جائے گا اور جو کوئی ایمان ظاہر نہیں کرتا، اُسے سزاوار ٹھہرایا جا چُکا ہے کیونکہ اُس نے خدا کے اِکلوتے بیٹے*‏ کے نام پر ایمان ظاہر نہیں کِیا۔ 19  اب لوگوں کو اِس بِنا پر سزاوار ٹھہرایا جائے گا کہ روشنی دُنیا میں آئی لیکن اُنہوں نے روشنی کی بجائے تاریکی سے محبت رکھی کیونکہ اُن کے کام بُرے تھے۔ 20  جو شخص بُرے کام کرتا ہے، وہ روشنی سے نفرت کرتا ہے اور اِس میں نہیں آتا تاکہ اُس کے کاموں کا پردہ فاش نہ ہو۔‏* 21  لیکن جو شخص اچھے کام کرتا ہے، وہ روشنی میں آتا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اُس کے کام خدا کی مرضی کے مطابق ہیں۔“‏ 22  اِس کے بعد یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ یہودیہ کے دیہاتوں میں گئے۔ وہاں اُنہوں نے شاگردوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور لوگوں کو بپتسمہ دیا۔ 23  لیکن یوحنا، عینون میں لوگوں کو بپتسمہ دے رہے تھے جو شالیم کے نزدیک ہے کیونکہ وہاں کافی پانی تھا اور لوگ اُن کے پاس آ کر بپتسمہ لے رہے تھے۔ 24  ابھی تک یوحنا کو قید میں نہیں ڈالا گیا تھا۔‏ 25  اب یوحنا کے شاگردوں اور ایک یہودی میں طہارت کے حوالے سے بحث چھڑ گئی۔ 26  لہٰذا وہ یوحنا کے پاس آئے اور اُن سے کہا:‏ ”‏ربّی، دیکھیں، جو آدمی دریائے‌اُردن کے پار آپ کے ساتھ تھا اور جس کے بارے میں آپ نے گواہی دی تھی، وہ لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے اور سب لوگ اُس کے پاس جا رہے ہیں۔“‏ 27  یوحنا نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏ایک شخص کو تب تک کچھ بھی نہیں مل سکتا جب تک خدا اُسے نہ دے۔ 28  آپ اِس بات کے گواہ ہیں کہ مَیں نے کہا تھا کہ ”‏مَیں مسیح نہیں ہوں لیکن مجھے اُس کے آگے بھیجا گیا ہے۔“‏ 29  دُلہا وہی ہوتا ہے جس کی دُلہن ہوتی ہے۔ لیکن جب دُلہے کا دوست دُلہے کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اُس کی آواز سنتا ہے تو اُس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ اِسی طرح مَیں بھی بہت خوش ہوں۔ 30  یہ لازمی ہے کہ وہ آگے بڑھتا رہے اور مَیں پیچھے رہوں۔“‏ 31  جو شخص اُوپر سے آتا ہے، وہ دوسروں سے عظیم ہے۔ جو شخص زمین سے ہے، وہ زمینی ہے اور اِس لیے وہ زمینی چیزوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ جو شخص آسمان سے آتا ہے، وہ دوسروں سے عظیم ہے۔ 32  وہ اُن باتوں کی گواہی دیتا ہے جو اُس نے دیکھی اور سنی ہیں لیکن کوئی اُس کی گواہی کو قبول نہیں کرتا۔ 33  جو بھی اُس کی گواہی کو قبول کرتا ہے، وہ اِس بات کی تصدیق کرتا ہے*‏ کہ خدا سچا ہے۔ 34  خدا جس شخص کو بھیجتا ہے، وہ خدا کی باتیں بتاتا ہے کیونکہ خدا پاک روح ناپ تول کر نہیں دیتا۔ 35  باپ، بیٹے سے محبت کرتا ہے اور اُس نے سب کچھ بیٹے کے سپرد کر دیا ہے۔ 36  جو بیٹے پر ایمان ظاہر کرتا ہے، اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے گی لیکن جو بیٹے کا کہنا نہیں مانتا، اُسے زندگی نہیں ملے گی بلکہ خدا اُس سے ناراض رہے گا۔‏

فٹ‌ نوٹس

یا شاید ”‏اُوپر سے پیدا“‏
‏”‏الفاظ کی وضاحت‏“‏ کو دیکھیں۔‏
یعنی وہ واحد بیٹا جسے خدا نے براہِ‌راست بنایا تھا۔‏
یعنی وہ واحد بیٹا جسے خدا نے براہِ‌راست بنایا تھا۔‏
یونانی میں:‏ ”‏تاکہ اُس کے کاموں کی اِصلاح نہ ہو۔“‏
یونانی میں:‏ ”‏اِس بات پر مُہر لگاتا ہے“‏