خوشی کی راہ
معاف کریں
”جب مَیں چھوٹی تھی تو میرے گھر میں ایک دوسرے کی بےعزتی کرنا اور چیخنا چلّانا روز کی بات تھی۔“ یہ بات پیٹریشیا نامی عورت نے کہی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا: ”مَیں نے دوسروں کو معاف کرنا نہیں سیکھا تھا۔ بڑے ہونے کے بعد بھی مَیں کئی کئی دن تک دوسروں کی غلطیوں کے بارے میں کڑھتی رہتی تھی اور سو نہیں پاتی تھی۔“ واقعی جو شخص غصے اور رنجش کو دل میں پالتا رہتا ہے، وہ نہ تو خوش رہتا ہے اور نہ ہی صحتمند۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں کو معاف نہ کرنے والے لوگ شاید . . .
-
غصے اور تلخ رویے کی وجہ سے اپنے پیاروں سے دُور ہو جائیں اور تنہائی کا شکار ہو جائیں۔
-
چھوٹی چھوٹی باتوں پر بُرا مان جائیں، پریشان ہو جائیں، یہاں تک بہت زیادہ مایوس ہو جائیں۔
-
کسی غلطی کو سر پر اِتنا سوار کر لیں کہ زندگی سے لطف نہ اُٹھا پائیں۔
-
محسوس کریں کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔
-
بہت زیادہ ذہنی دباؤ اور طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں جیسے کہ ہائی بلڈپریشر، دل کی بیماریاں، جوڑوں کا درد اور سر درد وغیرہ۔ *
معافی سے کیا مُراد ہے؟ اِس کا مطلب دوسروں کی غلطیوں کو بخش دینا اور اپنے دل سے غصہ، ناراضگی اور بدلہ لینے کی خواہش نکال دینا ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کو یہ تاثر دیا جائے کہ اُنہوں نے جو کِیا ہے، وہ صحیح ہے؛ اُن کی غلطی اِتنی سنگین نہیں ہے یا پھر کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ دراصل معافی ایک ایسا قدم ہے جو سوچ سمجھ کر اُٹھایا جاتا ہے۔ دوسروں کو معاف کرنے سے ایک شخص یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس کے لیے دوسروں سے صلح کرنا اور اُن کے ساتھ اچھا رشتہ قائم کرنا یا برقرار رکھنا بہت اہم ہے کیونکہ اُسے دوسروں سے محبت ہے۔
دوسروں کو معاف کرنے والا شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہم سب عیبدار ہیں اور اپنی باتوں اور کاموں کے ذریعے غلطیاں یا گُناہ کرتے ہیں۔ (رومیوں 3:23) اِسی لیے پاک کلام میں نصیحت کی گئی ہے کہ ”اگر آپ کو ایک دوسرے سے شکایت بھی ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کریں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کریں۔“—کُلسّیوں 3:13۔
لہٰذا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ دوسروں کو معاف کرنا محبت کا ایک اہم پہلو ہے جو کہ ”ایک ایسا بندھن ہے جو لوگوں کو پوری طرح متحد کرتا ہے۔“ (کُلسّیوں 3:14) مایو کلینک کی ویبسائٹ کے مطابق اگر ایک شخص دوسروں کو معاف کرتا ہے تو . . .
-
اُن کے ساتھ اُس کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور اُس کے دل میں اُن کے لیے ہمدردی اور مہربانی جیسے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔
-
اُسے ذہنی سکون ملتا ہے اور وہ خدا کے اَور قریب ہو جاتا ہے۔
-
اُس کی پریشانی اور ذہنی دباؤ کم ہو جاتا ہے اور اُس کے دل سے ہر طرح کی رنجش ختم ہو جاتی ہے۔
-
اُس میں ڈپریشن کی علامات کم ہوتی ہیں۔
خود کو معاف کریں۔ ایک طبی رسالے کے مطابق خود کو معاف کرنا ”سب سے مشکل کام ہے“ لیکن ”یہ ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے سب سے اہم ہے۔“ آپ خود کو معاف کرنے کے حوالے سے کن باتوں کو ذہن میں رکھ سکتے ہیں؟
-
خود سے یہ توقع نہ کریں کہ آپ سے کبھی غلطی نہیں ہوگی بلکہ اِس حقیقت کو تسلیم کریں کہ باقی سب لوگوں کی طرح آپ سے بھی غلطیاں ہوں گی۔—واعظ 7:20۔
-
اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں تاکہ آپ اِنہیں دوبارہ نہ دُہرائیں۔
-
صبر سے کام لیں کیونکہ کچھ خامیاں اور بُری عادتیں شاید راتوں رات ختم نہ ہوں۔—اِفسیوں 4:23، 24۔
-
ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو آپ کی حوصلہافزائی کریں، آپ پر اچھا اثر ڈالیں اور مہربان ہوں لیکن آپ کو آپ کی غلطیوں کے بارے میں بھی بتائیں۔—امثال 13:20۔
-
اگر آپ نے کسی کو دُکھ پہنچایا ہے تو اپنی غلطی مان لیں اور فوراً معافی مانگیں۔ اُس شخص سے صلح کرنے کے بعد آپ کو دلی سکون حاصل ہوگا۔—متی 5:23، 24۔
پاک کلام کے اصولوں پر عمل کرنا واقعی فائدہمند ہے!
پیٹریشیا نے جن کا مضمون کے شروع میں ذکر کِیا گیا ہے، پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لیا۔ وہ کہتی ہیں: ”مجھے لگتا ہے کہ اب مَیں غصے کی قید سے آزاد ہو گئی ہوں جس نے میری زندگی میں زہر گھول رکھا تھا۔ . . . اب مَیں نہ تو خود تکلیف میں رہتی ہوں اور نہ دوسروں کو تکلیف دیتی ہوں۔ پاک کلام کے اصولوں سے اِس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے اور ہماری بھلائی چاہتا ہے۔“
رون نامی شخص نے کہا: ”مَیں دوسروں کی سوچ اور کاموں کو تو اپنے قابو میں نہیں کر سکتا لیکن اپنی سوچ اور کاموں پر قابو پانا میرے بس میں ہے۔ اگر مَیں ذہنی سکون حاصل کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اپنے دل سے رنجش نکالنی ہوگی۔ مَیں سمجھ گیا کہ رنجش اور صلح ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مَیں اپنے دل میں رنجش بھی پالوں اور ساتھ میں صلحپسند بھی ہوں۔ اب میرا ضمیر بالکل صاف ہے۔“
^ پیراگراف 8 یہ معلومات مایو کلینک اور جانز ہاپکنز میڈیسن کی ویبسائٹس اور رسالے ”سوشل سائیکیٹری اینڈ سائیکیٹرک ایپیڈیمولوجی“ سے لی گئی ہیں۔