مشکل
مسئلے کی بنیادی وجہ کو سمجھنا
کیا آپ مانتے ہیں کہ اِنسان ایسے بہت سے مسئلوں کو حل کر سکتے ہیں جو ہمارے تحفظ، سلامتی اور مستقبل کے لیے خطرہ ہیں؟ اِن مسئلوں کو کامیابی سے حل کرنے کے لیے اِن کی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے۔
ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ ٹام نامی ایک مریض بہت بیمار تھا اور بعد میں وہ فوت ہو گیا۔ ٹام کس وجہ سے فوت ہوئے؟ اُن کے فوت ہونے سے پہلے اُنہیں جس ہسپتال میں لے جایا گیا، اُس کے ڈاکٹر نے کہا: ”جب اُن کی بیماری کی اِبتدائی علامات ظاہر ہوئیں تو کسی نے بھی اِن کی بنیادی وجہ جاننے کے بارے میں نہیں سوچا۔“ ایسا لگتا ہے کہ جن ڈاکٹروں نے پہلے ٹام کا علاج کِیا تھا، اُنہوں نے ٹام کو محض ایسی دوائیاں دیں جن سے وہ بہتر محسوس کریں۔
کیا اِنسان دُنیا کے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے یہی طریقہ اپنا رہے ہیں؟ مثال کے طور پر حکومتیں جُرم کے خلاف لڑنے کے لیے قوانین بناتی ہیں، سیکیورٹی کیمرے لگاتی ہیں اور پولیس کے محکمے کو مضبوط بناتی ہیں۔ یہ اِقدام کسی حد تک تو فائدہمند ہوتے ہیں لیکن اِن کے ذریعے مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ دراصل لوگ جو کچھ کرتے ہیں، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں، کیا محسوس کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔
ڈینئل جنوبی امریکہ کے ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”ایک زمانے میں ہماری زندگی کافی اچھی چل رہی تھی۔ لوگوں کو یہ ڈر نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ہتھیار کے زور پر اُنہیں لوٹ لے گا۔ لیکن اب تو کوئی ایسا شہر یا گاؤں نہیں جہاں ایسا نہ ہوتا ہو۔ معاشی حالات کے بگڑنے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بہت سے لوگ لالچی ہیں اور اُن کی نظر میں دوسروں کے جانومال کی کوئی قدر نہیں ہے۔“
الیاس * نامی ایک شخص مشرقِوسطیٰ میں ہونے والی ایک جنگ کی وجہ سے اپنے شہر سے بھاگ گیا اور بعد میں اُس نے پاک کلام کا کورس کِیا۔ الیاس کہتے ہیں: ”میرے شہر کے بہت سے نوجوانوں کو اُن کے خاندان والے اور مذہبی اور سیاسی رہنما یہ کہتے تھے کہ وہ جنگ میں حصہ لیں اور لوگوں کی نظروں میں ہیرو بنیں۔ لیکن دوسری طرف اُن کے دُشمنوں کو بھی یہی بات سکھائی جاتی تھی۔ اِس سب سے مَیں نے دیکھا کہ اِنسانی حکمرانوں پر بھروسا کرنے سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔“
دانشمندی سے پُر ایک قدیم کتاب میں بالکل صحیح لکھا ہے:
-
”اِنسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔“—پیدایش 8:21۔
-
”دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہباز [یعنی دھوکےباز] اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟“—یرمیاہ 17:9۔
-
”بُری سوچ، قتل، زِناکاری، حرامکاری، چوری، جھوٹی گواہی اور کفر اِنسان کے دل سے آتا ہے۔“—متی 15:19۔
اِنسان ایسے نقصاندہ رُجحانات پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں جو اُن کے اندر پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ اِنسانوں کے پاس پہلے سے کہیں زیادہ علم ہے اور دوسروں سے بات کرنے کے لیے زیادہ سہولتیں ہیں لیکن پھر بھی یہ رُجحانات دن بہ دن عام ہوتے جا رہے ہیں جیسے کہ پچھلے مضمون میں بتائے گئے مسئلوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ (2-تیمُتھیُس 3:1-5) لیکن ہم اِس دُنیا کو محفوظ اور پُرامن کیوں نہیں بنا سکتے؟ کیا ہم کچھ ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے بس سے باہر ہے؟ کیا ہم کوئی ناممکن کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
کیا ہم ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں؟
اگر ہم کسی نہ کسی طرح سے اپنے اندر پائے جانے والے نقصاندہ رُجحانات پر قابو پا بھی لیں تو بھی ہم اِس دُنیا کو تمام اِنسانوں کے لیے محفوظ اور پُرامن نہیں بنا سکتے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ یہ کہ ہم اِنسانوں کی صلاحیتیں محدود ہیں۔
یرمیاہ 10:23) واقعی ہمیں اِس طرح سے نہیں بنایا گیا کہ ہم اپنی رہنمائی کر سکیں۔ دراصل ہمیں دوسرے اِنسانوں پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں دی گئی، بالکل ویسے ہی جیسے ہمیں پانی کے اندر یا خلا میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں دی گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ ”اِنسان . . . اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔“ (ذرا سوچیں کہ کیا زیادہتر لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ دوسرے اُنہیں بتائیں کہ اُنہیں کس طرح زندگی گزارنی چاہیے یا کن معیاروں پر چلنا چاہیے؟ کیا لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ دوسرے اُنہیں بتائیں کہ اُنہیں بچہ گِرانے کے حوالے سے کیا نظریہ رکھنا چاہیے یا اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرنی چاہیے؟ یہ صرف چند ایسے معاملے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں اِختلاف ہو جاتا ہے۔ لہٰذا چاہے اِس بات کو تسلیم کرنا کتنا ہی مشکل لگے، پاک کلام میں درج بات بالکل صحیح ہے۔ ہمیں یہ صلاحیت یا اِختیار نہیں دیا گیا کہ ہم دوسروں پر حکمرانی کریں۔ تو پھر ہم رہنمائی کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
اِس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے خالق کی طرف رُجوع کریں کیونکہ اُس نے ہمیں بنایا ہے۔ شاید کچھ لوگ سوچیں کہ خدا ہمیں بھول گیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ خدا کے کلام میں پائی جانے والی دانشمندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے ہماری کتنی فکر ہے۔ جب ہم اِس منفرد اور خاص کتاب میں لکھی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو بھی بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی جان جاتے ہیں کہ اِنسانی تاریخ اِتنی دردناک کیوں ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک جرمن فلسفی نے یہ کیوں کہا کہ ”لوگوں اور حکومتوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اِس لیے اُن کے رویوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔“
ہمیں محفوظ رکھنے والی دانشمندی
یسوع مسیح نے ایک مرتبہ کہا کہ ”دانشمندی اپنے کاموں [یا کاموں کے نتائج] سے نیک ثابت ہوتی ہے۔“ (لُوقا 7:35) اِس دانشمندی کی ایک مثال یسعیاہ نبی کی اِس بات سے ملتی ہے: ”اِنسان پر بھروسا کرنا چھوڑ دو۔“ (یسعیاہ 2:22، نیو اُردو بائبل ورشن) اِس نصیحت پر عمل کرنے سے ہم جھوٹی اُمیدیں لگانے اور ایسی توقعات کرنے سے محفوظ رہتے ہیں جن کے پورے ہونے کا اِمکان نہ ہو۔ کینتھ شمالی امریکہ کے ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جہاں ظلموتشدد عام ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”ایک کے بعد ایک سیاستدان یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ حالات کو بہتر بنا دے گا۔ لیکن کوئی بھی سیاستدان اپنے وعدوں پر پورا نہیں اُترتا۔ اُن کی ناکامی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پاک کلام میں لکھی باتیں بالکل سچ اور دانشمندی سے پُر ہیں۔“
ڈینئل جن کا پہلے ذکر ہو چُکا ہے، کہتے ہیں: ”ہر روز میرا یہ یقین پکا ہوتا جاتا ہے کہ اِنسان اچھی طرح حکمرانی نہیں کر سکتے . . . اگر آپ کے بینک میں پیسہ ہو یا آپ نے کہیں سرمایہ لگایا ہو تو یہ اِس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ مَیں نے بہت سے لوگوں کو اِس حوالے سے مایوسی کا شکار ہوتے دیکھا ہے۔“
پاک کلام ہمیں نہ صرف ایسی توقعات کرنے سے محفوظ رکھتا ہے جو پوری نہیں ہو سکتیں بلکہ اُمید بھی دیتا ہے۔ اِس کے متعلق ہم اگلے مضامین میں سیکھیں گے۔
^ فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔