مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 6

گیت نمبر 18‏:‏ فدیے کے لیے شکرگزار

ہم یہوواہ کی طرف سے ملنے والی معافی کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

ہم یہوواہ کی طرف سے ملنے والی معافی کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

‏”‏خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا دے دیا۔“‏ —‏یوح 3:‏16‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

یہوواہ نے ہمارے گُناہوں کو معاف کرنے کے لیے کیا کچھ کِیا ہے اور ہم اِس کے لیے اپنی قدر کیسے بڑھا سکتے ہیں۔‏

1-‏2.‏ اِنسانوں کی صورتحال کس لحاظ سے اُس جوان آدمی کی صورتحال جیسی ہے جس کا ذکر پیراگراف نمبر 1 میں ہوا ہے؟‏

 ذرا ایک ایسے جوان آدمی کا تصور کریں جو بہت ہی امیر گھرانے میں پلا بڑھا ہے۔ ایک دن اُسے بہت ہی بُری خبر سننے کو ملتی ہے۔ اُسے پتہ چلتا ہے کہ اُس کے ماں باپ ایک حادثے میں فوت ہو گئے ہیں۔ یہ سُن کر وہ بالکل ٹوٹ جاتا ہے۔ ابھی وہ اپنے اِس غم سے نکل بھی نہیں پاتا کہ اُس پر دُکھ کا ایک اَور پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ اُسے پتہ چلتا ہے کہ اُس کے ماں باپ قرضے میں ڈوبے ہوئے تھے اور وہ اُس کے لیے دولت چھوڑ جانے کی بجائے اُس کے سر پر بہت سا قرضہ چھوڑ گئے ہیں۔ اب قرضہ دینے والے اُسے پیسہ چُکانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ قرضہ اِتنا زیادہ ہے کہ اُس جوان آدمی کے لیے اِسے چُکانا ممکن ہی نہیں ہے۔‏

2 ایک طرح سے ہماری صورتحال اِس جوان آدمی کی صورتحال جیسی ہے۔ ہمارے پہلے ماں باپ یعنی آدم اور حوّا بے‌عیب اِنسان تھے اور وہ ایک بہت ہی خوب‌صورت فردوس میں رہ رہے تھے۔ (‏پید 1:‏27؛‏ 2:‏7-‏9‏)‏ اُن کے پاس ہمیشہ تک خوشیوں بھری زندگی گزارنے کا موقع تھا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس کی وجہ سے سب کچھ بدل گیا۔ آدم اور حوّا نے گُناہ کِیا جس کے نتیجے میں اُنہوں نے فردوس میں اپنا گھر کھو دیا اور ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع گنوا دیا۔ اُنہوں نے اپنی ہونے والی اولاد کے لیے کون سی میراث چھوڑی؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏ایک آدمی[‏آدم]‏کے ذریعے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے ذریعے موت آئی اور موت سب لوگوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گُناہ کِیا۔“‏ (‏روم 5:‏12‏)‏ تو آدم نے اپنی اولاد کو ورثے میں گُناہ دیا جس کی وجہ سے اُن سب پر موت آئی۔ ہمیں آدم سے ورثے میں جو گُناہ ملا ہے، وہ ایک بہت بڑے قرضے کی طرح ہے۔—‏زبور 49:‏8‏۔‏

3.‏ ہمارے گُناہ کس لحاظ سے ”‏قرض“‏ کی طرح ہیں؟‏

3 بائبل میں گُناہ کو ”‏قرض“‏ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (‏متی 18:‏32-‏35‏)‏ جب ہم گُناہ کرتے ہیں تو ایک طرح سے ہم یہوواہ کے قرض‌دار بن جاتے ہیں اور اِس قرض کی قیمت موت ہے۔ لیکن یہوواہ نے ہمارے گُناہوں کو معاف کرنے کا بندوبست کِیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ہمارے گُناہوں کا قرض صرف ہماری موت پر ہی ختم ہوتا اور ہمارے لیے پھر سے زندہ ہو جانے کی کوئی اُمید نہ ہوتی۔—‏روم 6:‏7،‏ 23‏۔‏

4.‏ (‏الف)‏اگر یہوواہ نے تمام گُناہ‌گار اِنسانوں کی مدد نہ کی ہوتی تو اُن کے ساتھ کیا ہوتا؟ (‏زبور 49:‏7-‏9‏)‏ (‏ب)‏بائبل میں لفظ ”‏گُناہ“‏ کن باتوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے؟ (‏بکس ”‏ گُناہ‏“‏ کو دیکھیں۔)‏

4 کیا ہمارے لیے اُن سب چیزوں کو حاصل کرنا ممکن ہے جنہیں آدم اور حوّا نے کھو دیا تھا؟ اپنی طاقت سے تو نہیں۔ ‏(‏زبور 49:‏7-‏9 کو پڑھیں۔)‏ اگر یہوواہ نے ہماری مدد نہ کی ہوتی تو ہمارے پاس ہمیشہ کی زندگی پانے یا فوت ہو جانے کے بعد پھر سے زندہ ہو جانے کی کوئی اُمید نہ ہوتی۔ دراصل ہماری موت اور جانوروں کی موت میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ جانوروں کو نہ تو ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لیے بنایا گیا ہے اور نہ ہی اُن کے پاس مرنے کے بعد زندہ ہو جانے کی اُمید ہے۔—‏واعظ 3:‏19؛‏ 2-‏پطر 2:‏12‏۔‏

5.‏ ہمارے شفیق آسمانی باپ نے ہمارے گُناہوں کا قرض چُکانے میں ہماری مدد کیسے کی ہے؟ (‏تصویر کو دیکھیں۔)‏

5 آئیے پھر سے اُس جوان آدمی کی بات کرتے ہیں جس کا مضمون کے شروع میں ذکر ہوا تھا۔ ذرا سوچیں کہ اُسے اُس وقت کیسا لگے گا اگر ایک امیر آدمی اُس سے یہ کہے کہ وہ اُس کا سارا قرضہ چُکا دے گا؟ بے‌شک وہ جوان آدمی دل سے اُس امیر آدمی کی فراخ‌دلی کے لیے شکرگزار ہوگا!‏ ہمارا شفیق آسمانی باپ یہوواہ بھی اُس امیر آدمی کی طرح ہے۔ اُس نے ہمیں دل کھول کر ایک ایسی نعمت دی ہے جس کی وجہ سے ہمارے گُناہوں کا وہ قرض ادا ہو جاتا ہے جو ہمیں آدم سے ورثے میں ملا ہے۔ یسوع مسیح نے اِس حوالے سے کہا:‏ ”‏خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا دے دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان ظاہر کرے، وہ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“‏ (‏یوح 3:‏16‏)‏ یہوواہ کی دی ہوئی اِس نعمت کی وجہ سے ہمارے لیے اُس کے ساتھ دوستی کرنا بھی ممکن ہو گیا۔‏

یسوع مسیح نے یہ خوش‌خبری سنائی کہ یہوواہ فدیے کی بِنا پر ہمارے گُناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ (‏یوح 3:‏​16‏)‏ پھر اُنہوں نے یہ فدیہ ادا کرنے کے لیے ہماری خاطر خوشی سے اپنی جان قربان کر دی۔ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔)‏


6.‏ اِس مضمون میں ہم بائبل کی کن اِصطلا‌حوں پر غور کریں گے اور کیوں؟‏

6 ہم یہوواہ کی اُس شان‌دار نعمت سے فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو اُس نے ہمارے گُناہوں کو معاف کرنے کے لیے دی ہے؟ اِس سوال کا جواب ہمیں بائبل میں اِستعمال ہونے والی کچھ اِصطلا‌حوں کو سمجھنے سے مل سکتا ہے جیسے کہ خدا کے ساتھ صلح، گُناہوں کا کفارہ، فدیہ، چھڑایا جانا اور نیک قرار دیا جانا۔‏ اِس مضمون میں اِن سبھی اِصطلا‌حوں کی وضاحت کی جائے گی۔ اِن اِصطلا‌حوں پر غور کرتے وقت ہمارے دل میں اِس بات کے لیے قدر اَور زیادہ بڑھ جائے گی کہ یہوواہ نے ہمارے گُناہوں کو معاف کرنے کے لیے کتنا کچھ کِیا ہے۔‏

مقصد:‏ خدا کے ساتھ صلح

7.‏ (‏الف)‏آدم اور حوّا نے اَور کیا کھو دیا تھا؟ (‏ب)‏آدم اور حوّا کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمیں کس چیز کی سخت ضرورت ہے؟ (‏رومیوں 5:‏10، 11‏)‏

7 جب آدم اور حوّا نے گُناہ کِیا تھا تو اُنہوں نے نہ صرف ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع گنوا دیا تھا بلکہ اُن کا اپنے آسمانی باپ یہوواہ کے ساتھ رشتہ بھی ٹوٹ گیا تھا۔ گُناہ کرنے سے پہلے آدم اور حوّا یہوواہ کے خاندان کا حصہ تھے۔ (‏لُو 3:‏38‏)‏ لیکن جب اُنہوں نے یہوواہ کی نافرمانی کی تو اُن کا یہوواہ کے خاندان سے ناتا ٹوٹ گیا۔ یہ اُس وقت ہوا تھا جب اُن کی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ (‏پید 3:‏23، 24؛‏ 4:‏1‏)‏ آدم اور حوّا کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمیں یہوواہ سے صلح کرنے کی ضرورت تھی۔ ‏(‏رومیوں 5:‏10، 11 کو پڑھیں۔)‏ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ہمیں یہوواہ کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کی ضرورت تھی۔ اِس حوالے سے یونانی صحیفوں کی ایک لغت میں بتایا گیا ہے کہ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏صلح“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ”‏دُشمن کو دوست بنانا“‏ ہو سکتا ہے۔ یہ کتنی زبردست بات ہے نا کہ دوستی کا ہاتھ پہلے یہوواہ نے ہماری طرف بڑھایا حالانکہ اُس سے دُشمنی کی شروعات ہمارے ماں باپ یعنی آدم اور حوّا نے کی تھی!‏ لیکن یہوواہ نے ہماری طرف دوستی کا ہاتھ کیسے بڑھایا؟‏

بندوبست:‏ گُناہوں کا کفارہ

8.‏ گُناہوں کا کفارہ کیا ہے؟‏

8 گُناہوں کا کفارہ وہ بندوبست ہے جو یہوواہ نے اپنے اور گُناہ‌گار اِنسانوں کے بیچ دوستی کا رشتہ قائم کرنے کے لیے کِیا۔ اِس بندوبست کے ذریعے یہ ممکن ہوا کہ آدم نے جو کچھ کھو دیا تھا، اُسے پانے کے لیے برابر کی قیمت ادا کی جائے۔ رومیوں 3:‏25 میں جس یونانی اِصطلا‌ح کا ترجمہ ”‏گُناہوں کا کفارہ“‏ کِیا گیا ہے، اُس کا ترجمہ ”‏صلح کی قربانی“‏ بھی کِیا جا سکتا ہے۔ اِس کے ذریعے گُناہ‌گار اِنسانوں کے لیے یہوواہ کو خوش کرنا ممکن ہوا۔‏

9.‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کے گُناہوں کو معاف کرنے کے لیے کون سا عارضی بندوبست کِیا تھا؟‏

9 پُرانے زمانے میں یہوواہ خدا نے ایک ایسا عارضی بندوبست کِیا تھا جس کی بِنا پر بنی‌اِسرائیل کے گُناہ معاف ہو سکتے تھے اور وہ یہوواہ کے ساتھ دوستی کر سکتے تھے۔ بنی‌اِسرائیل سال میں ایک دن ایک خاص عید مناتے تھے جسے یومِ‌کفارہ کہا جاتا تھا۔ اُس دن کاہنِ‌اعظم سب لوگوں کی طرف سے یہوواہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کرتا تھا۔ ظاہری بات ہے کہ جانوروں کی قربانیاں بنی‌اِسرائیل کے گُناہوں کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپ سکتی تھیں کیونکہ جانور اِنسانوں سے کم‌تر ہیں۔ لیکن یہوواہ اُن اِسرائیلیوں کو معاف کرنے کو تیار تھا جو اُس سے معافی پانے کے لیے ایسی قربانیاں پیش کرتے تھے جن کی یہوواہ اُن سے توقع کرتا تھا۔ (‏عبر 10:‏1-‏4‏)‏ بنی‌اِسرائیل کفارے کے دن اور عام دنوں میں اپنے گُناہوں کی معافی کے لیے جو قربانیاں چڑھاتے تھے، اُس سے وہ یہ یاد رکھ پاتے تھے کہ وہ گُناہ‌گار ہیں اور اُنہیں ایک ایسی قربانی کی ضرورت ہے جو اُن کے گُناہوں کو مکمل طور پر ڈھانپ دے۔‏

10.‏ یہوواہ نے اِنسانوں کے گُناہوں کو معاف کرنے کے لیے کون سا دائمی بندوبست کِیا ہے؟‏

10 یہوواہ خدا نے اِنسانوں کے گُناہوں کو مکمل طور پر ڈھانپے کے لیے کیا کِیا؟ اُس نے اپنے پیارے بیٹے کو ”‏ایک ہی بار بہت سے لوگوں کے گُناہوں کے لیے قربان“‏ کر دیا۔ (‏عبر 9:‏28‏)‏ یسوع مسیح نے ”‏بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر“‏ دے دی۔ (‏متی 20:‏28‏)‏ لیکن فدیہ کیا ہے؟‏

قیمت:‏ فدیہ

11.‏ (‏الف)‏بائبل کے مطابق فدیہ کیا ہے؟ (‏ب)‏یہ فدیہ صرف کون ادا کر سکتا تھا؟‏

11 بائبل کے مطابق فدیہ وہ قیمت ہے جو ہمارے گُناہوں کے کفارے کے لیے اور یہوواہ کے ساتھ ہماری صلح کرانے کے لیے ادا کی گئی۔ فدیے کے ذریعے وہ سب کچھ حاصل کِیا جا سکتا تھا جو آدم نے کھو دیا تھا۔ وہ کیسے؟ یاد کریں کہ آدم اور حوّا بے‌عیب اِنسان تھے اور اُنہوں نے ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع کھو دیا تھا۔ اِس لیے اِن چیزوں کو واپس پانے کے لیے فدیے کی یعنی برابر کی قیمت کی ضرورت تھی۔ (‏1-‏تیم 2:‏6‏)‏ یہ فدیہ صرف وہی آدمی ادا کر سکتا تھا جو (‏1)‏بے‌عیب ہوتا، (‏2)‏زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہ سکتا اور (‏3)‏خوشی سے ہمارے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوتا۔ صرف ایسے شخص کی زندگی ہی اُس زندگی کے برابر ہو سکتی تھی جو آدم نے گنوا دی تھی۔‏

12.‏ یسوع مسیح ہمارے لیے فدیہ کیوں ادا کر سکتے تھے؟‏

12 آئیے تین ایسی وجوہات پر غور کریں جن کی بِنا پر یسوع مسیح ہمارے لیے فدیہ ادا کر سکتے تھے۔ (‏1)‏وہ بے‌عیب تھے۔ اُنہوں نے ”‏کوئی گُناہ نہیں کِیا“‏ تھا۔ (‏1-‏پطر 2:‏22‏)‏ (‏2)‏بے‌عیب ہونے کی وجہ سے وہ زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے تھے اور (‏3)‏وہ ہمارے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھے۔ (‏عبر 10:‏9، 10‏)‏ یسوع مسیح ایک بے‌عیب اِنسان تھے بالکل اُسی طرح جس طرح آدم گُناہ کرنے سے پہلے تھے۔ (‏1-‏کُر 15:‏45‏)‏ تو یسوع مسیح نے اپنی جان دے کر اُس چیز کے لیے برابر کی قیمت ادا کر دی جو آدم نے کھو دی تھی۔ (‏روم 5:‏19‏)‏ اِس طرح یسوع مسیح ”‏آخری آدم“‏ بن گئے۔ اب کسی اَور بے‌عیب اِنسان کی ضرورت نہیں تھی جو آ کر اُس زندگی کی قیمت ادا کرتا جو آدم نے گنوا دی تھی۔ یسوع مسیح نے ”‏اپنے آپ کو قربان کر کے ایک ہی بار ہمیشہ کے لیے قربانی چڑھا دی۔“‏—‏عبر 7:‏27؛‏ 10:‏12‏۔‏

13.‏ یہوواہ نے کیا کِیا تاکہ ہم اُس سے دوستی کر سکیں؟‏

13 ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کفارے کے بندوبست کے ذریعے یہوواہ نے یہ ممکن بنایا کہ ہمارے گُناہ معاف ہو سکیں تاکہ ہم پھر سے اُس سے دوستی کر سکیں۔ لیکن اِس بندوبست سے ہمیں تبھی فائدہ ہو سکتا تھا اگر ہمارے لیے فدیے کی قیمت ادا کی جاتی۔ یسوع مسیح نے ہماری خاطر اپنا بیش‌قیمت خون بہا کر ہمارے گُناہوں کی قیمت چُکائی۔ (‏اِفِس 1:‏7؛‏ عبر 9:‏14‏)‏ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ آئیے دیکھتے ہیں۔‏

نتیجہ:‏ گُناہ اور موت سے آزادی اور نیک قرار دیا جانا

14.‏ اب ہم کس بات پر غور کریں گے اور کیوں؟‏

14 کفارے کے بندوبست سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم بائبل سے دو اِصطلا‌حوں پر غور کریں گے۔ حالانکہ اِن اِصطلا‌حوں کا مطلب ایک دوسرے سے کافی ملتا جلتا ہے لیکن ہر اِصطلا‌ح میں ایک ایسے پہلو کو نمایاں کِیا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی معافی سے ہمیں کتنے فائدے ہوتے ہیں۔‏

15-‏16.‏ (‏الف)‏فدیے کی وجہ سے کیا ممکن ہوا؟ (‏ب)‏ہمیں یہ جان کر کیسا لگتا ہے کہ ہمیں گُناہ اور موت سے چھٹکارا ملا ہے؟‏

15 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ فدیے کے ذریعے ہمیں چھڑایا یا آزاد کرایا گیا ہے۔ پطرس رسول نے اِس حوالے سے کہا:‏ ”‏آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنے باپ‌دادا کے فضول طورطریقوں سے سونے اور چاندی کے ذریعے آزاد نہیں ہوئے[‏یونانی میں:‏ ”‏سونے اور چاندی کے فدیے کے ذریعے چھڑائے نہیں گئے“‏]‏جو خراب ہو جاتے ہیں بلکہ آپ مسیح کے قیمتی خون کے ذریعے آزاد ہوئے جو ایک بے‌داغ اور بے‌عیب میمنے کے خون کی طرح ہے۔“‏—‏1-‏پطر 1:‏18، 19‏، فٹ‌نوٹ۔‏

16 فدیے کی وجہ سے ہم گُناہ اور موت کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔ (‏روم 5:‏21‏)‏ بے‌شک ہم دل کی گہرائیوں سے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے شکرگزار ہیں کہ اُنہوں نے ہمیں گُناہ اور موت کی غلامی سے چھڑایا۔ ایسا اِس لیے ہوا کیونکہ یسوع مسیح نے ہمارے لیے اپنا بیش‌قیمت خون بہایا۔—‏1-‏کُر 15:‏22‏۔‏

17-‏18.‏ (‏الف)‏نیک قرار دیے جانے کا کیا مطلب ہے؟ (‏ب)‏جب یہوواہ ہمیں نیک قرار دیتا ہے تو اِس سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟‏

17 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کو نیک قرار دیتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ اُن سے اُن کے گُناہوں کا قرض چُکانے کی توقع نہیں کرتا۔ وہ اُن کے گُناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے وہ اپنے اِنصاف کے معیاروں کو نہیں توڑتا۔ یہوواہ ہمیں اِس لیے نیک قرار نہیں دیتا کیونکہ ہم اِس کے لائق ہیں یا اُس کی نظر میں ہمارے گُناہ جائز ہیں۔ وہ ہمیں ہمارے ایمان کی وجہ سے نیک قرار دیتا ہے۔ یہوواہ ہمارے گُناہوں کو اِس لیے معاف کر دیتا ہے کیونکہ ہم گُناہوں کے کفارے کے بندوبست پر ایمان رکھتے ہیں اور یسوع مسیح ہمارے گُناہوں کا فدیہ ادا کر چُکے ہیں۔—‏روم 3:‏24؛‏ گل 2:‏16‏۔‏

18 جب یہوواہ ہمیں نیک قرار دیتا ہے تو اِس سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟ جن لوگوں کو یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کے لیے چُنا گیا ہے، اُنہیں خدا کے بچوں کے طور پر پہلے سے ہی نیک قرار دیا جا چُکا ہے۔ (‏طِط 3:‏7؛‏ 1-‏یوح 3:‏1‏)‏ یہوواہ نے اُن کے گُناہ معاف کر دیے ہیں۔ یہوواہ کی نظر میں یہ ایسے ہے جیسے اُنہوں نے وہ گُناہ کبھی کیے ہی نہیں تھے۔ اِس طرح یہ لوگ آسمان پر حکمرانی کرنے کے لائق ٹھہرتے ہیں۔ (‏روم 8:‏1، 2،‏ 30‏)‏ لیکن جو لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں، اُنہیں خدا کے دوستوں کے طور پر نیک قرار دیا گیا ہے اور خدا نے اُن کے گُناہ معاف کر دیے ہیں۔ (‏یعقو 2:‏21-‏23‏)‏ نئی دُنیا میں ہرمجِدّون سے بچ جانے والی بڑی بِھیڑ اور مُردوں میں سے زندہ ہو جانے والے ”‏نیکوں اور بدوں“‏ کے پاس یہ موقع ہوگا کہ وہ ہمیشہ کی زندگی پائیں اور ”‏خدا کی اولاد کی شان‌دار آزادی کا مزہ لیں۔“‏ (‏اعما 24:‏15؛‏ روم 8:‏21؛‏ یوح 5:‏28، 29؛‏ 11:‏26‏)‏ ذرا سوچیں کہ کفارے کے بندوبست کی وجہ سے ہمیں کتنی شان‌دار برکت ملے گی!‏ ہماری اپنے آسمانی باپ سے پوری طرح سے صلح ہو جائے گی!‏

19.‏ یہوواہ اور یسوع مسیح نے ہمارے لیے جو کچھ کِیا ہے، اُس سے ہماری صورتحال کیسے بہتر ہوئی ہے؟ (‏بکس ”‏ یہوواہ کی طرف سے ملنے والی معافی کے فائدے‏“‏ کو بھی دیکھیں۔)‏

19 ذرا پھر سے اُس جوان آدمی کے بارے میں سوچیں جس کا اِس مضمون کے شروع میں ذکر ہوا تھا۔ اُس نے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا اور اُس کے سر پر اِتنا بڑا قرضہ تھا کہ اِسے چُکانا اُس کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہماری صورتحال بھی بالکل ایسی ہی تھی۔ لیکن یہوواہ کا شکر ہے کہ اُس نے ہماری مدد کی۔ اُس نے ہمارے گُناہوں کو معاف کرنے کے لیے کفارے کا بندوبست کِیا اور یسوع مسیح نے فدیے کی قیمت چُکائی۔ یسوع مسیح پر ایمان رکھنے سے ہمیں گُناہوں اور موت سے چھٹکارا ملتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہوواہ ہمارے گُناہوں کو اِتنی اچھی طرح سے مٹا دیتا ہے جیسے یہ کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ سب سے بڑھ کر ہم ابھی اُس کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔‏

20.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟‏

20 یہوواہ اور یسوع نے ہمارے لیے جو کچھ کِیا ہے، اُس پر غور کرنے سے ہمارے دل اُن کے لیے شکرگزاری سے بھر گئے ہیں۔ (‏2-‏کُر 5:‏15‏)‏ اگر اُنہوں نے ہماری مدد نہ کی ہوتی تو ہمارے پاس تو کوئی اُمید ہی نہ ہوتی!‏ لیکن یہوواہ کی طرف سے ملنے والی معافی سے ہمیں ذاتی طور پر کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اگلے مضمون میں اِسی بارے میں بات کی جائے گی۔‏

گیت نمبر 10‏:‏ یہوواہ کی حمد کریں!‏