آپبیتی
’اب مجھے مُنادی کرنے میں مزہ آنے لگا ہے‘
مَیں شہر بالکوتھا میں پلی بڑھی جو نیو زیلینڈ کے جنوبی جزیرے میں واقع ہے۔ جب مَیں چھوٹی تھی تو مَیں یہوواہ سے بہت پیار کرتی تھی اور مجھے اِس احساس سے بہت خوشی ملتی تھی کہ مَیں سچائی سے واقف ہوں۔ مجھے اِجلاسوں پر جانا بہت اچھا لگتا تھا اور کلیسیا میرے لیے ایک ایسی جگہ تھی جہاں مجھے محبت اور تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ حالانکہ مَیں شرمیلی تھی لیکن پھر بھی مَیں ہر ہفتے بڑے شوق سے مُنادی کرنے جایا کرتی تھی۔ مَیں اپنے سکول کے بچوں اور دوسروں کو گواہی دینے سے بالکل نہیں گھبراتی تھی۔ مجھے اِس بات پر بڑا ناز تھا کہ مَیں یہوواہ کی ایک گواہ ہوں اِس لیے 11 سال کی عمر میں مَیں نے اپنی زندگی خدا کے لیے وقف کر دی۔
مَیں نے اپنی خوشی کھو دی
مجھے یہ کہتے ہوئے بڑا افسوس ہوتا ہے کہ جب مَیں نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو یہوواہ کے ساتھ میری دوستی کمزور پڑ گئی۔ جب مَیں اپنے ہمجماعتوں کو دیکھتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ آزادی کی زندگی جی رہے ہیں۔ مَیں بھی اُنہی جیسی زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔ مجھے اپنے والدین کے بنائے ہوئے اصولوں سے اور یہوواہ کے معیاروں سے اُکتاہٹ ہونے لگی۔ مجھے یہوواہ کی عبادت کرنا بہت مشکل لگنے لگا۔ حالانکہ مَیں نے کبھی اِس بات پر شک نہیں کِیا کہ یہوواہ موجود ہے لیکن اب مَیں خود کو اُس کے قریب بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔
مَیں بس خانہ پوری کے لیے مُنادی کرنے جاتی تھی کیونکہ مَیں نہیں چاہتی تھی کہ میرا شمار اُن بہن بھائیوں میں ہو جنہوں نے مُنادی کرنا چھوڑ دیا ہے۔ چونکہ مُنادی پر جانے سے پہلے مَیں نے تیاری نہیں کی ہوتی تھی اِس لیے مجھے لوگوں سے باتچیت شروع کرنا اور اِسے جاری رکھنا بہت مشکل لگتا تھا۔ اِس وجہ سے میرے پاس نہ تو کوئی واپسی ملاقات تھی اور نہ ہی مَیں کسی کو بائبل کورس کروا رہی تھی۔ مُنادی کرنے میں میرا جوش بالکل ٹھنڈا پڑ گیا اور مجھے اِس کام سے اَور زیادہ بیزاری ہونے لگی۔ مَیں خود سے کہتی: ”بھلا یہ کام کوئی ہر ہفتے، ہر مہینے کیسے کر سکتا ہے؟“
جب مَیں 17 سال کی ہوئی تو میرے دل میں آزادی کی زندگی جینے کی
خواہش عروج پر پہنچ گئی۔ لہٰذا مَیں آسٹریلیا منتقل ہو گئی۔ جب مَیں گھر چھوڑ رہی تھی تو میرے امی ابو بہت دُکھی تھے۔ اُنہیں میری بڑی فکر تھی لیکن اُنہوں نے یہ سوچ کر خود کو دِلاسا دیا کہ مَیں وہاں جا کر بھی یہوواہ کی خدمت کرنا جاری رکھوں گی۔آسٹریلیا جا کر تو مَیں یہوواہ کی خدمت کرنے میں اَور ڈھیلی پڑ گئی۔ مَیں آئے دن اِجلاسوں سے غیرحاضر رہنے لگی۔ مَیں نے کلیسیا میں ایسے جوان لوگوں سے دوستی کی جو میری طرح اِجلاسوں پر تو جاتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ اُنہیں نائٹ کلبوں میں جا کر شراب پینے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اب جب مَیں اپنے ماضی کو یاد کرتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ مَیں دو کشتیوں میں سوار تھی۔ میرا ایک پاؤں تو سچائی کی کشتی میں تھا اور دوسرا دُنیا کی کشتی میں۔ لیکن سچ کہوں تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ مَیں چاہتی کیا ہوں۔
ایک بہن کی عمدہ مثال
تقریباً دو سال بعد میری ملاقات ایک بہن سے ہوئی جس کی مثال سے مَیں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ مَیں اپنی زندگی کیسے گزار رہی ہوں۔ اُس بہن کو تو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ اُس کی مثال نے مجھ پر کیا اثر ڈالا ہے۔ مَیں پانچ غیرشادیشُدہ بہنوں کے ساتھ ایک گھر میں رہ رہی تھی اور جب ہماری کلیسیا میں حلقے کا دورہ چل رہا تھا تو حلقے کے نگہبان اور اُن کی بیوی ٹمارا ایک ہفتے کے لیے ہمارے گھر رُکے۔ جب بہن ٹمارا کے شوہر کلیسیا کے کاموں میں مصروف ہوتے تھے تو وہ ہم لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارتی تھیں۔ وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ وہ بہت ہی خاکسار تھیں اور ہم اُن سے بِلاجھجک بات کر سکتے تھے۔ مَیں بہت حیران تھی کہ بھلا ایک شخص جو خدا کی خدمت میں اِتنا مصروف ہے، اِتنی چلبلیُ طبیعت کا مالک کیسے ہو سکتا ہے۔
بہن ٹمارا کو سچائی اور مُنادی سے بڑا لگاؤ تھا۔ اُنہیں دیکھ کر میرے دل میں بھی سچائی کے لیے محبت جاگی اور مُنادی کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مَیں محض خانہ پوری کرنے کے لیے یہوواہ کی خدمت کر رہی تھی اِس لیے مَیں خوش نہیں رہتی تھی لیکن مَیں نے دیکھا کہ بہن ٹمارا کتنے جی جان سے یہوواہ کی خدمت کرتی ہیں اور کتنی خوش رہتی ہیں۔ اُن کے مثبت رویے اور خوشمزاجی نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ اُن کی عمدہ مثال سے مجھے پاک کلام کی اِس سچائی پر سوچنے کی ترغیب ملی کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم سب ’خوشی سے اُس کی عبادت کریں۔‘—زبور 100:2۔
مجھ میں پھر سے مُنادی کرنے کی خواہش جاگی
مَیں بھی اُس خوشی کو محسوس کرنا چاہتی تھی جو بہن ٹمارا کو حاصل تھی۔ لیکن اُس خوشی کو پانے کے لیے مجھے اپنی زندگی میں کچھ بڑی تبدیلیاں کرنی تھیں۔ یہ تبدیلیاں راتوں رات نہیں آ گئیں۔ مَیں نے چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے شروعات
کی۔ مَیں مُنادی پر جانے سے پہلے تیاری کرنے لگی۔ اِس کے علاوہ مَیں وقتاًفوقتاً مددگار پہلکار کے طور پر بھی خدمت کرنے لگی۔ یوں مَیں مُنادی کے دوران اپنی گھبراہٹ پر قابو پا سکی اور زیادہ پُراِعتماد ہو گئی۔ چونکہ مَیں مُنادی کرتے وقت زیادہ سے زیادہ بائبل کو اِستعمال کرنے لگی اِس لیے مجھے اِس کام میں اَور مزہ آنے لگا۔ پھر جلد ہی مَیں ہر مہینے مددگار پہلکار کے طور پر خدمت کرنے لگی۔مَیں نے کلیسیا میں ہر عمر کے لوگوں سے دوستی کرنا شروع کر دی جو بڑی لگن سے یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے۔ اُن کی اچھی مثال سے مجھے یہ سوچنے میں مدد ملی کہ مجھے اپنی زندگی میں کن باتوں کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ لہٰذا مَیں نے ہر روز بائبل کو پڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے مُنادی کرنے میں اِتنا زیادہ مزہ آنے لگا کہ مَیں پہلکار بن گئی۔ سالوں بعد مجھے خوشی ملی اور مَیں خود کو کلیسیا کا ایک فرد سمجھنے لگی۔
لگن سے خدا کی خدمت کرنے والا ساتھی
ایک سال بعد میری ملاقات ایلکس سے ہوئی جو بہت ہی مہربان شخص تھے۔ وہ یہوواہ سے محبت کرتے تھے اور دل لگا کر مُنادی کرتے تھے۔ وہ کلیسیا میں ایک خادم تھے اور چھ سال سے پہلکار کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔ اِس دوران اُنہوں نے کچھ عرصے تک ملاوی میں بھی خدمت کی جہاں کم مبشر تھے۔ اُس دوران اُنہوں نے مشنریوں کے ساتھ وقت گزارا جنہوں نے اُن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور اُن کی یہ حوصلہافزائی کی کہ وہ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے رہیں۔
سن 2003ء میں ہم نے شادی کر لی۔ اِس کے بعد بھی ہم نے کُلوقتی طور پر خدمت کرنی جاری رکھی اور ابھی تک ایسا کر رہے ہیں۔ اِس دوران ہم نے بہت سے عمدہ سبق سیکھے ہیں اور یہوواہ نے ہمیں بےشمار برکتیں دی ہیں۔
نئی خدمت، نئی برکتیں
سن 2009ء میں ہمیں مشرقی تیمور نامی ایک چھوٹے ملک میں مشنریوں کے طور پر خدمت کرنے کے لیے کہا گیا جو اِنڈونیشیائی جزیروں میں سے ایک پر واقع ہے۔ ہمارے بڑے ملے جلے جذبات تھے۔ ہم خوش بھی تھے، حیران بھی تھے اور تھوڑے ڈرے ہوئے بھی تھے۔ پانچ مہینے بعد ہم مشرقی تیمور کے دارالحکومت دیلی پہنچے۔
اِس نئی جگہ پر زندگی گزارنا آسٹریلیا میں زندگی گزارنے سے بہت فرق تھا۔ہمیں نئی ثقافت کے مطابق ڈھلنا پڑا، نئی زبان سیکھنی پڑی، نئے کھانے *
کھانے پڑے اور رہنسہن کے نئے طریقے اپنانے پڑے۔ مُنادی کے دوران ہم اکثر ایسے لوگوں سے ملتے تھے جو بڑے غریب اور کم پڑھے لکھے تھے۔ بہت سے لوگ تو ایسے تھے جنہیں جنگ اور تشدد کی وجہ سے کئی جسمانی اور جذباتی گھاؤ لگے تھے۔مشرقی تیمور میں مُنادی کرنا بڑا ہی زبردست تھا! مثال کے طور پر ایک بار میری ملاقات ایک 13 سالہ لڑکی سے ہوئی جو بڑی ہی دُکھی تھی۔ اُس کا نام ماریہ تھا۔ * اُس کی ماں کو فوت ہوئے کچھ ہی سال ہوئے تھے اور اپنے باپ کا چہرہ بھی وہ کبھی کبھار ہی دیکھا کرتی تھی۔ اپنی عمر کے بہت سے بچوں کی طرح ماریہ بھی یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ تو وہ رو رو کر مجھے اپنے احساسات بتا رہی تھی۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی کیونکہ اُس وقت مَیں اُس کی زبان سمجھ نہیں سکتی تھی۔ لیکن مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُس کا حوصلہ بڑھانے میں میری مدد کرے۔ پھر مَیں اُس کے ساتھ بائبل سے ایسی آیتیں پڑھنے لگی جن سے اُسے تسلی ملے۔ اگلے چند سالوں کے دوران مَیں نے دیکھا کہ پاک کلام کی تعلیم کی وجہ سے ماریہ کا رویہ، حلیہُ، پہناوا، یہاں تک کہ پوری زندگی کتنی بدل گئی۔ اُس نے بپتسمہ لے لیا اور اب وہ خود لوگوں کو بائبل کورس کرواتی ہے۔ اب ماریہ یہوواہ کے خاندان کا حصہ ہے جہاں اُسے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔
یہوواہ نے مشرقی تیمور میں گواہی دینے کے کام پر بڑی برکت ڈالی ہے۔ حالانکہ زیادہتر مبشروں کا بپتسمہ پچھلے دس سالوں کے دوران ہوا ہے لیکن پھر بھی اِن میں سے بہت سے پہلکاروں، خادموں یا بزرگوں کے طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ دیگر بہن بھائی ترجمے کے دفتر میں کام کرتے ہیں تاکہ مبشروں کو اُن کی مقامی زبانوں میں روحانی کھانا مل سکے۔ جب مَیں اِجلاسوں پر بہن بھائیوں کو مسکراتے، گیت گاتے اور روحانی لحاظ سے آگے بڑھتا دیکھتی تھی تو مجھے بہت خوشی ہوتی تھی۔
مَیں نے اِتنی اچھی زندگی کا سوچا بھی نہیں تھا
حالانکہ مشرقی تیمور میں زندگی آسٹریلیا میں زندگی گزارنے سے بالکل فرق تھی لیکن وہاں ہمیں جتنا مزہ آیا، اُس کا مَیں نے تصور بھی نہیں کِیا تھا۔ سچ ہے کہ کبھی کبھار ہمیں چھوٹی بسوں میں سفر کرنا پڑا جو لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوتی تھی اور جن میں بازار سے خریدی ہوئی خشک مچھلیوں اور سبزیوں کی بو ہوتی تھی۔ اور کچھ دن تو ایسے ہوتے تھے جب ہم بہت ہی گرمی اور حبس میں لوگوں کے چھوٹے سے گھروں میں اُنہیں بائبل کورس کراتے تھے۔ اِن گھروں کے فرش مٹی کے بنے ہوتے تھے جہاں مُرغیاں اِدھر اُدھر بھاگ رہی ہوتی تھیں۔ لیکن اِن سب کے باوجود مَیں اکثر یہ سوچا کرتی تھی: ”یہی بہترین زندگی ہے!“
اب جب مَیں ماضی کو یاد کرتی ہوں تو مَیں بڑا شکر ادا کرتی ہوں کہ میرے امی ابو نے مجھے یہوواہ کی راہوں کی تعلیم دی اور سہارا دیا، اُس وقت بھی جب نوجوانی میں یہوواہ کے ساتھ میری دوستی کمزور پڑ گئی تھی۔ امثال 22:6 مجھ پر سچ ثابت ہوتی ہے۔ میرے امی ابو کو مجھ پر اور ایلکس پر بہت ناز ہے۔ اُنہیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہوواہ ہمیں اپنی خدمت کے لیے اِستعمال کر رہا ہے۔ 2016ء سے ایلکس آسٹریلیشیا کی برانچ کے علاقوں میں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب مجھے مُنادی کرنا بوجھ لگا کرتا تھا لیکن اب مجھے اِسے کرنے میں مزہ آنے لگا ہے۔ مَیں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ چاہے زندگی میں کتنے ہی اُتار چڑھاؤ کیوں نہ آئیں، سچی خوشی دلوجان سے یہوواہ کی خدمت کرنے سے ہی ملتی ہے۔ مَیں اور ایلکس پچھلے 18 سال سے مل کر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں اور یہ ہماری زندگی کے سب سے خوشگوار سال رہے ہیں۔ اب مَیں سمجھ گئی ہوں کہ داؤد کی یہ بات کتنی سچ ہے جو اُنہوں نے یہوواہ سے کہی: ”وہ سب جو تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں شادمان ہوں۔ وہ سدا خوشی سے للکاریں . . . اور جو تیرے نام سے محبت رکھتے ہیں تجھ میں شاد رہیں۔“—زبور 5:11۔
^ پیراگراف 21 لوگ اِنڈونیشیائی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔ اِس لیے 1975ء سے مشرقی تیمور میں جنگ چھڑی جو 20 سال سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی۔
^ پیراگراف 22 فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔