کیا آپ کو معلوم ہے؟
یسوع مسیح نے قسم کھانے کو غلط قرار کیوں دیا؟
موسیٰ کی شریعت کے مطابق اِسرائیلی کچھ خاص وعدے کرتے وقت یہ کہہ سکتے تھے کہ ”مَیں خدا کی قسم کھاتا ہوں“ یا ”مَیں یہوواہ کے نام کی قسم کھاتا ہوں۔“ لیکن یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے یہودیوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی قسم کھانے کی عادت تھی۔ وہ ایسا اِس لیے کرتے تھے تاکہ وہ دوسروں کو اپنی بات کا یقین دِلا سکیں۔ البتہ یسوع مسیح نے دو مرتبہ اپنے پیروکاروں کو قسم کھانے سے منع کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”آپ کی ہاں کا مطلب ہاں ہو اور آپ کی نہیں کا مطلب نہیں۔“—متی 5:33-37؛ 23:16-22۔
یونانی صحیفوں کی ایک لغت کے مطابق یہودیوں کی مذہبی کتاب تالمود سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی اکثر اپنی بات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے قسمیں کھاتے تھے۔ دراصل تالمود میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کون سی قسمیں پوری کرنا لازمی تھا اور کون سی قسمیں توڑی جا سکتی تھیں۔
صرف یسوع مسیح نے ہی قسم کھانے کی مذمت نہیں کی تھی۔ مثال کے طور پر یہودی تاریخدان فلاویس یوسیفس نے ایک یہودی فرقے کا ذکر کِیا جو قسم نہیں کھاتا تھا۔ اِس فرقے کے ارکان مانتے تھے کہ قسم کھانا جھوٹ بولنے سے بھی بُرا کام ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایک شخص کو اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لیے قسم کھانی پڑتی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے۔ یہودیوں کی ایک مذہبی کتاب میں کہا گیا ہے: ”جو قسم کھانا . . . نہیں چھوڑتا وہ پاک نہ ٹھہرے گا۔“ یسوع مسیح نے چھوٹے موٹے معاملات میں قسم کھانے سے منع کِیا۔ اگر ہم ہمیشہ سچ بولیں گے تو ہمیں اپنی بات کو قابلِیقین ثابت کرنے کے لیے قسم کھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔