1919ء—ہماری تاریخ کا ایک اہم سال
سن 1919ء تک پہلی عالمی جنگ اپنے اِختتام کو پہنچ گئی جو چار سال سے زیادہ عرصے سے چلی آ رہی تھی۔ 1918ء کے آخر میں قوموں نے ایک دوسرے سے لڑنا بند کر دیا اور 18 جنوری 1919ء میں امن قائم کرنے کی غرض سے پیرس میں ایک کانفرنس شروع کی گئی۔ اِس کانفرنس کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ اِس میں ایک ایسا معاہدہ کِیا گیا جس کے تحت پہلی عالمی جنگ کو باقاعدہ طور پر ختم کِیا گیا۔ اِس معاہدے پر 28 جون 1919ء کو دستخط کیے گئے۔
اِسی معاہدے میں ایک نئی تنظیم کو بھی تشکیل دینے کا فیصلہ کِیا گیا جسے ”انجمنِاقوام“ کہا گیا۔ اِس تنظیم کا مقصد ”بینالاقوامی سطح پر امن اور تحفظ کو قائم کرنا تھا۔“ بہت سے مسیحی فرقوں نے اِس تنظیم کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی۔ مثال کے طور پر امریکہ میں چرچز آف کرائسٹ کی کونسل نے اِعلان کِیا کہ یہ تنظیم ”زمین پر خدا کی بادشاہت کی نمائندگی کرتی ہے۔“ اِس کونسل نے تنظیم کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرتے ہوئے اپنے کچھ نمائندے پیرس میں ہونے والی امن کانفرنس میں بھیجے۔ اِن میں سے ایک نمائندے نے کہا کہ اِس کانفرنس کے ذریعے ”اِنسانی تاریخ کے ایک نئے دَور کی شروعات ہوئی۔“
واقعی ایک نیا دَور شروع تو ہوا لیکن اِس کی شروعات اُن آدمیوں نے نہیں کی تھی جو امن کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ دراصل 1919ء میں ہمارے مُنادی کے کام کے حوالے سے ایک نیا دَور شروع ہوا۔ اُس وقت یہوواہ نے اپنے بندوں کو طاقت دی تاکہ وہ پہلے کی نسبت اَور زیادہ مُنادی کریں۔ لیکن اِس سے پہلے کہ ایسا ہوتا، بائبل سٹوڈنٹس کی صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی آنا ضروری تھا۔
ایک مشکل فیصلہ
ہفتہ، 4 جنوری 1919ء کو واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے ڈائریکٹروں کو منتخب کرنے کے لیے سالانہ الیکشن ہونے والے تھے۔ اُس وقت بھائی جوزف رتھرفورڈ جو کہ یہوواہ کے بندوں کی پیشوائی کر رہے تھے اور دیگر سات بھائی بےبنیاد اِلزامات کی وجہ سے امریکہ کی ریاست جارجیا کی جیل میں قید تھے۔ اِس صورتحال کے پیشِنظر یہ سوال اُٹھا کہ کیا قیدشُدہ بھائیوں کو دوبارہ سے اُن کے عہدوں پر فائز کِیا جائے یا اُن کی جگہ دوسرے بھائیوں کو چُنا جائے؟
جیل میں بھائی رتھرفورڈ کو تنظیم کے مستقبل کے حوالے سے فکر ستانے لگی۔ وہ جانتے تھے کہ حالات کے پیشِنظر کچھ بھائی اُن کی جگہ کسی اَور بھائی کو صدر منتخب کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لہٰذا اُنہوں نے الیکشن کے لیے جمع ہونے والے بھائیوں کو خط لکھا جس میں اُنہوں نے بھائی ایوینڈر کاورڈ کو صدر منتخب کرنے کی سفارش کی۔ بھائی رتھرفورڈ نے بھائی کاورڈ کے بارے میں کہا کہ وہ ”نرممزاج، سمجھدار اور مالک کے وفادار ہیں۔“ البتہ بہت سے بھائیوں نے مسئلے کا ایک اَور حل پیش کِیا۔
اُنہوں نے کہا کہ اچھا ہوگا اگر الیکشن کو چھ مہینوں کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ تنظیم کے وکیل جو ہمارے قیدشُدہ بھائیوں کا مُقدمہ لڑ رہے تھے، اِس تجویز سے متفق تھے۔ اِس نازک موقعے پر بھائیوں میں تھوڑی بحثوتکرار بھی ہو گئی۔پھر ایک بھائی نے کچھ ایسا کہا جس کے بارے میں بھائی باربر نے بعد میں کہا کہ اُس نے آگ پر پانی ڈالنے کا کام کِیا تھا۔ اِجلاس کے دوران اُس بھائی نے کہا: ”مَیں وکالت کی الف ب تو نہیں جانتا لیکن جب بات وفاداری کی آتی ہے تو مَیں اُس کے بارے میں ضرور کچھ جانتا ہوں۔ خدا ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اُس کے وفادار رہیں۔ اور اُس کے لیے اپنی وفاداری ظاہر کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم الیکشن کریں اور بھائی رتھرفورڈ کو دوبارہ سے صدر کے طور پر منتخب کریں۔“
اُس وقت بھائی میکمِلن بھی بھائی رتھرفورڈ کے ساتھ جیل میں قید تھے۔ اُنہوں نے بعد میں بتایا کہ الیکشن کے اگلے دن بھائی رتھرفورڈ نے اُن کے قیدخانے کی دیوار کو کھٹکھٹاتے ہوئے کہا: ”اپنا ہاتھ باہر نکالیں۔“ اِس کے بعد بھائی رتھرفورڈ نے ایک چھوٹا سا رُقعہ اُن کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اُس رُقعے میں یہ بتایا گیا تھا کہ بھائی رتھرفورڈ، بھائی وائز، بھائی وان، بھائی باربر، بھائی اینڈرسن، بھائی بُولی اور بھائی سپل کو دوبارہ سے ڈائریکٹر بنا دیا گیا ہے اور اِن میں سے بھائی جوزف رتھرفورڈ اور بھائی ولیم وان کو پھر سے اُن کے عہدوں پر فائز کر دیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب تھا کہ بھائی رتھرفورڈ نے صدر کے طور پر خدمت جاری رکھی۔
وہ رِہا ہو گئے!
جب وہ آٹھ بھائی جیل میں تھے تو بائبل سٹوڈنٹس نے لوگوں سے ایک عرضی پر دستخط کرنے کی درخواست کی جس میں حکومت سے اِن بھائیوں کی رِہائی کی مانگ کی گئی تھی۔ اُن بہادر بہن بھائیوں نے 7 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے دستخط لیے۔ لیکن اِس عرضی کے دائر ہونے سے پہلے ہی بدھ، 26 مارچ 1919ء کو بھائی رتھرفورڈ اور باقی بھائیوں کو رِہا کر دیا گیا۔
جن بہن بھائیوں نے بھائی رتھرفورڈ کا خیرمقدم کِیا، اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنہوں نے کہا: ”مجھے پورا یقین ہے کہ جس صورتحال سے ہم سب گزر چُکے ہیں، اُس نے ہمیں اَور کٹھن وقت کے لیے تیار کِیا ہے۔ . . . آپ کی لڑائی دراصل بھائیوں کو قید سے رِہا کرانے کی لڑائی نہیں تھی۔ یہ بات اِتنی اہمیت نہیں رکھتی . . . جو لڑائی آپ نے لڑی ہے، وہ خدا کی بڑائی کے لیے تھی اور جو یہ لڑائی لڑ چُکے ہیں، اُنہیں شاندار برکت ملی ہے۔“
جس طرح بھائیوں کو رِہائی ملی، اُس سے یہ لگ رہا تھا کہ یہوواہ معاملے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رہا ہے۔ 14 مئی 1919ء کو عدالت نے یہ فیصلہ سنایا: ”جس طرح سے ملزموں پر مُقدمہ چلایا گیا، اُس میں اِنصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ لہٰذا اُنہیں تمام اِلزامات سے بَری کِیا جاتا ہے۔“ بھائیوں پر نہایت سنگین جرائم کا اِلزام لگایا گیا تھا اور اگر اُن کی سزا محض معاف یا کم کر دی جاتی تو اُن پر سے یہ اِلزامات کبھی نہ ہٹتے۔ اِس کے بعد اُن پر مزید کوئی اِلزام نہیں لگایا گیا۔ اِس سب کے نتیجے میں بھائی رتھرفورڈ * اپنی وکالت جاری رکھ سکے اور یوں رِہا ہونے کے بعد کئی بار امریکہ کی عدالتِعظمیٰ کے سامنے یہوواہ کے بندوں کا دِفاع کر پائے۔
مُنادی کے کام کے لیے پُرعزم
بھائی میکمِلن نے کہا: ”یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہتے اور اِس بات کا اِنتظار کرتے رہتے کہ مالک ہمیں آسمان پر اُٹھا لیں۔ ہم سمجھ گئے تھے کہ مالک کی مرضی جاننے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔“
لیکن مرکزی دفتر میں موجود بھائی دوبارہ سے وہ کام شروع نہیں کر سکتے تھے جو وہ سالوں سے کرتے آ رہے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیونکہ جب وہ قید میں تھے تو اِس دوران چھپائی کے لیے اِستعمال ہونے والا کچھ سامان تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ بھائیوں کے لیے بڑی مایوسکُن بات تھی اور اِس وجہ سے کچھ بھائی یہ سوچنے لگے تھے کہ اب مُنادی کا کام ختم ہو گیا ہے۔
تو کیا اب کوئی ایسا شخص تھا جو بائبل سٹوڈنٹس کے بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی لیتا؟ اِس سوال کے جواب کے لیے بھائی رتھرفورڈ نے ایک تقریر کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اِس تقریر پر ہر شخص کو آنے کی دعوت دی گئی۔ بھائی میکمِلن نے کہا کہ ”اگر اِس اِجلاس پر کوئی بھی نیا شخص نہیں آیا تو اِس کا مطلب ہوگا کہ اب مُنادی کا کام ختم ہو گیا ہے۔“
لہٰذا اِتوار، 4 مئی 1919ء کو بھائی رتھرفورڈ نے سخت بیمار ہونے کے باوجود ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تقریر کی جس کا عنوان تھا: ”دُکھی اِنسانیت کے لیے اُمید۔“ اِس تقریر کو تقریباً 3500 لوگوں نے سنا جبکہ سینکڑوں لوگوں کو جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔ پھر اگلے دن اَور 1500 لوگ تقریر سننے آئے۔ بھائیوں کو اُن کے سوال کا جواب مل گیا! لوگوں کو واقعی بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی تھی۔
اِس کے بعد اُن بھائیوں نے جو کِیا، اُس کا اثر آج بھی یہوواہ کے گواہوں کے مُنادی کے کام پر ہو رہا ہے۔
مستقبل میں ہونے والے کام کے لیے تیار
یکم اگست 1919ء کے ”دی واچٹاور“ میں یہ اِعلان کِیا گیا کہ ستمبر کے مہینے کے شروع میں ریاست اوہائیو میں سیڈر پوائنٹ پر ایک اِجتماع منعقد کِیا جائے گا۔ مسوری سے تعلق رکھنے والے ایک جوان بائبل سٹوڈنٹ نے جس کا نام کلیرینس تھا، بتایا: ”ہم سب کو لگا کہ ہمیں اِس اِجتماع پر ضرور جانا چاہیے۔“ اِجتماع پر 6000 سے زیادہ بہن بھائی حاضر ہوئے جو توقع سے کہیں زیادہ تھے۔ اِس موقعے پر بہن بھائیوں کی خوشیوں کو چار چاند تب لگے جب 200 سے زیادہ لوگوں نے قریب واقع ایک جھیل میں بپتسمہ لیا۔
اِجتماع کے پانچویں دن یعنی 5 ستمبر 1919ء کو بھائی رتھرفورڈ نے اپنی تقریر ”ہمخدمتوں سے مخاطب“ میں ایک نئے رسالے کے شائع ہونے کا اِعلان کِیا جس کا نام ”دی گولڈن ایج“ * تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اِس رسالے میں ”تازہترین اہم واقعات درج ہوں گے اور صحیفوں کی روشنی میں بتایا جائے گا کہ یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں۔“
تمام بائبل سٹوڈنٹس کی حوصلہافزائی کی گئی کہ وہ مُنادی کے دوران اِس رسالے کو زیادہ سے زیادہ اِستعمال کریں۔ اور اِس کام کو منظم کرنے کے حوالے سے ایک خط میں بتایا گیا: ”ہر بپتسمہیافتہ شخص یہ یاد رکھے کہ خدا کی خدمت کرنا ایک بہت بڑا شرف ہے۔ لہٰذا ابھی موقعے کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے دُنیا بھر میں ہونے والے اِس عظیم کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں۔“ اِس پر مبشروں کا ردِعمل بڑا ہی زبردست تھا! بادشاہت کے مُنادوں کی اَنتھک محنت کی وجہ سے دسمبر کے مہینے تک 50 ہزار سے زیادہ لوگوں نے یہ رسالہ لگوا لیا۔
1919ء کے آخر تک یہوواہ کے بندوں کا مُنادی کا کام دوبارہ منظم کِیا گیا اور یہوواہ نے اُنہیں مُنادی کرنے کے لیے اَور زیادہ طاقت بخشی۔ اِس کے علاوہ اُس وقت آخری زمانے کے بارے میں کی گئی بہت سی اہم پیشگوئیاں بھی پوری ہوئیں۔ مثال کے طور پر ملاکی 3:1-4 میں درج پیشگوئی کے مطابق خدا کے بندوں کو پرکھا گیا اور اُنہیں پاک کِیا گیا۔ یہوواہ کے بندوں کو بابلِعظیم کی قید سے رِہائی دِلائی گئی اور یسوع مسیح نے ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کو مقرر کِیا۔ * (مکا 18:2، 4؛ متی 24:45) اب بائبل سٹوڈنٹس اُس کام کے لیے پوری طرح تیار تھے جو یہوواہ اُن سے کروانا چاہتا تھا۔
^ پیراگراف 13 بھائی رتھرفورڈ ایک وکیل اور جج تھے اور اُنہیں ”جج رتھرفورڈ“ بھی کہا جاتا تھا۔
^ پیراگراف 22 سن 1937ء میں اِس رسالے کا نام ”کونسولیشن“ (یعنی تسلی) اور پھر 1946ء میں ”اویک!“ (یعنی ”جاگو!“) میں بدل دیا گیا۔
^ پیراگراف 24 اِس سلسلے میں ”مینارِنگہبانی،“ 15 جولائی 2013ء، صفحہ 10-12، 21-23 اور ”مینارِنگہبانی،“ مارچ 2016ء، صفحہ 29-31 کو دیکھیں۔