کیا آپ حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں؟
”جو بات [”حقائق،“ ”ترجمہ نئی دُنیا“] سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔“—امثال 18:13۔
1، 2. (الف) ہمیں خود کو کس قابل بنانا چاہیے اور کیوں؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
اگر آپ کو کسی بارے میں معلومات دی جائیں تو آپ یہ کیسے طے کریں گے کہ وہ معلومات سچی ہیں یا نہیں؟ دراصل مسیحیوں کے طور پر ہم سب کو اِس قابل ہونا چاہیے کہ ہم معلومات کو پرکھ سکیں اور اِن کی بِنا پر صحیح نتائج پر پہنچ سکیں۔ (امثال 3:21-23؛ 8:4، 5) اگر ہم خود کو اِس قابل نہیں بنائیں گے تو شیطان اور اُس کی دُنیا کے لیے ہماری سوچ کو بگاڑنا آسان ہو جائے گا۔ (اِفسیوں 5:6؛ کُلسّیوں 2:8) بِلاشُبہ ہم تبھی کسی معاملے میں صحیح نتیجے پر پہنچ پائیں گے جب ہم تمام حقائق سے واقف ہوں گے۔ امثال 18:13 میں لکھا ہے: ”جو بات [”حقائق،“ ترجمہ نئی دُنیا] سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔“
2 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہمارے لیے حقائق حاصل کرنا اور صحیح نتائج پر پہنچنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ ہم بائبل کے اصولوں اور مثالوں کے ذریعے یہ سیکھیں گے کہ ہم معلومات کو کیسے پرکھ سکتے ہیں۔
”ہر بات کا یقین“ نہ کریں
3. ہمیں امثال 14:15 میں درج اصول پر عمل کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
3 آجکل معلومات کی بھرمار ہے۔ ہمیں یہ معلومات اِنٹرنیٹ، ٹیلیویژن اور دیگر ذرائع سے ملتی ہیں۔ امثال 14:15 میں درج یہ اصول بہت فائدہمند ثابت ہو سکتا ہے: ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“
اِس کے علاوہ ہمیں اپنے دوستوں اور جان پہچان والوں کی طرف سے ایمیلز، میسجز اور طرح طرح کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ معلومات کا یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے گا۔ شاید ہمارے دوست تو غلط نیت سے ہم تک خبریں نہ پہنچائیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جان بُوجھ کر غلط معلومات پھیلاتے ہیں یا حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمیں جو معلومات دی جا رہی ہیں، وہ درست ہیں یا نہیں۔ معلومات کو پرکھنے کے سلسلے میں4. (الف) فِلپّیوں 4:8، 9 کی مدد سے ہم یہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ ہم کس قسم کا مواد پڑھیں گے؟ (بکس ”صحیح معلومات فراہم کرنے والے چند ذرائع“ کو بھی دیکھیں۔) (ب) درست معلومات حاصل کرنا اہم کیوں ہے؟
4 اچھے فیصلے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس صحیح معلومات ہوں۔ اِس لیے ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے کہ ہم کس قسم کا مواد پڑھتے ہیں۔ (فِلپّیوں 4:8، 9 کو پڑھیں۔) آجکل خبروں والی بہت سی ویبسائٹس قابلِبھروسا نہیں ہیں اِس لیے ہمیں اِنہیں دیکھنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اِس کے علاوہ ہمیں ایسی ایمیلز پڑھنے میں اپنا وقت برباد نہیں کرنا چاہیے جن میں افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ ہمیں خاص طور پر ایسی ویبسائٹس پر جانے سے گریز کرنا چاہیے جہاں خدا سے برگشتہ لوگ اپنے نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ سچائی کو توڑمروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ خدا کے بندوں کے ایمان کو کمزور کر سکیں۔ غلط معلومات غلط فیصلے کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ لہٰذا کبھی اِس بھول کا شکار نہ ہوں کہ غلط معلومات کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔—1-تیمُتھیُس 6:20، 21۔
5. بنیاِسرائیل کو کون سی منفی خبریں دی گئیں اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
5 جھوٹی خبروں کی وجہ سے بڑے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ موسیٰ کے زمانے میں 12 جاسوسوں کو ملک کنعان کا حال دریافت کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ دس جاسوسوں نے کنعان کے بارے میں منفی خبریں دیں۔ (گنتی 13:25-33) اُنہوں نے حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کِیا جس کی وجہ سے خدا کے بندے خوفزدہ اور بےحوصلہ ہو گئے۔ (گنتی 14:1-4) لوگوں نے اِن منفی خبروں پر کیوں یقین کر لیا؟ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہتر جاسوسوں نے ایک جیسی بات کہی تھی۔ اِس لیے لوگوں نے اُن دو جاسوسوں کی بات ماننے سے اِنکار کر دیا جو ملک کنعان کے بارے میں اچھی خبر لائے تھے۔ (گنتی 14:6-10) حقائق تک پہنچنے اور یہوواہ پر بھروسا کرنے کی بجائے لوگوں نے بےوقوفی کا مظاہرہ کِیا اور منفی باتوں پر یقین کر لیا۔
6. جب یہوواہ کے بندوں کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کی جاتی ہیں تو ہمیں پریشان کیوں نہیں ہونا چاہیے؟
6 ہمیں خاص طور پر اُس وقت محتاط رہنا چاہیے جب ہمیں یہوواہ کے بندوں کے بارے میں طرح طرح کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہمارے دُشمن شیطان کو ’ہمارے بھائیوں پر اِلزام لگانے والا‘ کہا گیا ہے۔ مکاشفہ 12:10) یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو خبردار کِیا تھا کہ مخالفین اُن کے ’خلاف جھوٹی باتیں پھیلائیں‘ گے۔ (متی 5:11) اگر ہم اِس بات پر دھیان دیں گے تو ہم اُس وقت پریشان نہیں ہوں گے جب یہوواہ کے بندوں کے بارے میں اُلٹی سیدھی باتیں کی جائیں گی۔
(7. کسی خبر کے حوالے سے دوسروں کو ایمیل یا میسج بھیجنے سے پہلے ہمیں خود سے کیا پوچھنا چاہیے؟
7 کیا آپ کو اپنے دوستوں اور رشتےداروں کو ایمیلز اور میسجز کرنا اچھا لگتا ہے؟ جب آپ کوئی دلچسپ خبر سنتے یا پڑھتے ہیں تو کیا آپ ایک رپورٹر کی طرح محسوس کرتے ہیں جو سب سے پہلے دوسروں تک خبر پہنچانا چاہتا ہے؟ لیکن اِس سے پہلے کہ آپ دوسروں کو ایمیل یا میسج کے ذریعے وہ بات بتائیں، خود سے پوچھیں: ”کیا مجھے پکا یقین ہے کہ یہ خبر سچی ہے؟ کیا مَیں تمام حقائق سے واقف ہوں؟“ اگر آپ کو ذرا سا بھی شک ہے تو دوسروں کو یہ خبر نہ بھیجیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اِس طرح آپ جھوٹی معلومات پھیلا رہے ہوں۔ اِس ایمیل یا میسج کو ڈیلیٹ کر دیں۔
8. بعض ملکوں میں مخالفین نے کیا کِیا اور ہم انجانے میں اُن کا ساتھ دینے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟
8 بِلاسوچے سمجھے دوسروں کو ایمیلز یا میسجز بھیجنے کا ایک اَور نقصان بھی ہے۔ بعض ملکوں میں ہماری کچھ سرگرمیوں پر جبکہ بعض میں ہمارے کام پر مکمل طور پر پابندی ہے۔ اِن ملکوں میں ہمارے مخالفین شاید جان بُوجھ کر ایسی باتیں پھیلائیں جن کی وجہ سے بہن بھائی خوفزدہ ہو جائیں یا ایک دوسرے پر اُن کا اِعتماد ڈگمگانے لگے۔ کچھ ایسا ہی سابقہ سوویت یونین میں ہوا۔ وہاں کی خفیہ پولیس نے خدا کی تنظیم میں خاص ذمےداریاں رکھنے والے بعض بھائیوں کے خلاف یہ افواہیں پھیلائیں کہ اُنہوں نے یہوواہ کے بندوں سے غداری کی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بہت سے بہن بھائیوں نے اِن افواہوں پر یقین کر لیا اور یہوواہ کی تنظیم کو چھوڑ دیا۔ بعد میں اِن میں سے بہت سے بہن بھائی یہوواہ کی تنظیم میں لوٹ آئے مگر کچھ کبھی واپس نہیں آئے۔ اِن جھوٹی خبروں پر یقین کرنے کی وجہ سے اُن کے ایمان کا بیڑا غرق ہو گیا۔ (1-تیمُتھیُس 1:19) ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارا ایمان اِس طرح سے تباہ نہ ہو جائے؟ ایسی معلومات نہ پھیلائیں جو منفی ہوں اور جن کی تصدیق نہ ہوئی ہو۔ ہر سنی سنائی بات پر بھروسا نہ کریں۔ اِس کی بجائے اِس بات کا پکا یقین کر لیں کہ آپ کے پاس مکمل حقائق موجود ہیں۔
آدھی ادھوری معلومات
9. درست نتائج تک پہنچنا اَور کس وجہ سے مشکل ہو سکتا ہے؟
9 کبھی کبھار ہمیں ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جن میں آدھا سچ پایا جاتا ہے۔ اور بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں تمام حقائق کا علم نہیں ہوتا۔ ایسی خبروں پر بھروسا نہیں کِیا جا سکتا اور اِن کی وجہ سے درست نتائج تک پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ایسی خبروں کے جھانسے میں نہ آئیں؟—اِفسیوں 4:14۔
10. بعض اِسرائیلی اپنے بھائیوں کے خلاف جنگ کیوں کرنے والے تھے اور وہ یہ غلطی کرنے سے کیسے بچ گئے؟
10 ذرا غور کریں کہ یشوع کے زمانے میں دریائےاُردن (دریائےیردن) کے مغرب کی طرف رہنے والے اِسرائیلیوں کے ساتھ کیا ہوا۔ (یشوع 22:9-34) اُنہیں یہ خبر ملی کہ دریائےاُردن کے مشرق کی طرف رہنے والے اِسرائیلیوں (رُوبن اور جد اور منسّی کے آدھے قبیلے) نے دریا کے قریب ایک بڑی قربانگاہ بنائی ہے۔ یہ بات سچ تو تھی لیکن تمام حقائق سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے مغرب کی طرف رہنے والے اِسرائیلیوں کو لگا کہ اُن کے بھائیوں نے یہوواہ کے خلاف بغاوت کی ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے اُن سے جنگ لڑنے کا منصوبہ باندھا۔ (یشوع 22:9-12 کو پڑھیں۔) اِس سے پہلے کہ وہ اُن پر حملہ کرتے، اُنہوں نے مشرق کی طرف رہنے والے اپنے بھائیوں کے پاس کچھ آدمیوں کو حقائق کا پتہ لگانے کے لیے بھیجا۔ اُن کے سامنے یہ حقیقت آئی کہ مشرق کی طرف رہنے والے اِسرائیلیوں نے جھوٹے دیوتاؤں کے حضور قربانیاں چڑھانے کے لیے قربانگاہ نہیں بنائی تھی۔ اُنہوں نے یہ قربانگاہ اِس بات کی یادگار کے طور پر بنائی تھی کہ وہ بھی یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ جب مغرب کی طرف رہنے والے اِسرائیلیوں کو یہ سچ پتہ چلا ہوگا تو اُنہیں بہت خوشی ہوئی ہوگی کہ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کے خلاف جنگ کرنے کی بجائے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی۔
11. (الف) مفیبوست کے ساتھ کیا نااِنصافی ہوئی؟ (ب) داؤد کو کیا کرنا چاہیے تھا تاکہ مفیبوست کو نااِنصافی کا سامنا نہ کرنا پڑتا؟
11 ہو سکتا ہے کہ لوگ آپ کے بارے میں ایسی باتیں پھیلائیں جو مکمل طور پر سچ نہ ہوں اور اِس وجہ سے آپ کو ٹھیس پہنچے۔ اِس سلسلے میں ذرا مفیبوست کی مثال پر غور کریں۔ بادشاہ داؤد نے بہت فیاضی سے اُنہیں وہ ساری زمین دے دی تھی جو اُن کے دادا ساؤل کی تھی۔ (2-سموئیل 9:6، 7) مگر بعد میں داؤد نے مفیبوست کے بارے میں کچھ منفی باتیں سنیں۔ داؤد نے اِن باتوں کی تصدیق کیے بغیر مفیبوست کی جائیداد اُن سے لے لی۔ (2-سموئیل 16:1-4) بعد میں جب داؤد نے مفیبوست سے بات کی تو اُنہیں پتہ چلا کہ اُن سے غلطی ہوئی ہے۔ اِس پر اُنہوں نے مفیبوست کی کچھ جائیداد اُنہیں لوٹا دی۔ (2-سموئیل 19:24-29) اگر داؤد نے آدھی ادھوری معلومات کی بِنا پر فوراً کارروائی کرنے کی بجائے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کی ہوتی تو مفیبوست کو نااِنصافی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
12، 13. (الف) جب لوگوں نے یسوع کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلائیں تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ (ب) اگر کوئی ہمارے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
12 اگر کوئی آپ کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ لوگوں نے یسوع اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے میں بھی جھوٹی باتیں پھیلائی تھیں۔ (متی 11:18، 19 کو پڑھیں۔) یسوع مسیح نے اِس صورت میں کیا کِیا؟ اُنہوں نے اپنا سارا وقت اور توانائی لوگوں کو صفائیاں دینے میں ضائع نہیں کی۔ دراصل وہ چاہتے تھے کہ لوگ حقائق کو پرکھیں یعنی اُن کی تعلیم اور کاموں پر توجہ دیں۔ اُنہوں نے کہا: ”دانشمندی اپنے کاموں سے سچ ثابت ہوتی ہے۔“—متی 11:19، فٹنوٹ۔
13 ہم یسوع مسیح کی مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار شاید لوگ ہم پر بِلاوجہ تنقید کریں یا ہمارے بارے میں منفی باتیں پھیلائیں جن کی وجہ سے ہماری نیک نامی پر دھبا لگ جائے۔ ایسی صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر کوئی ہمارے بارے میں افواہیں پھیلاتا ہے تو ہم اِس طرح سے زندگی گزار سکتے ہیں کہ دوسروں کو صاف نظر آئے کہ ہم کس قسم کے شخص ہیں۔ یسوع مسیح کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا اچھا چالچلن ہم پر لگے اِلزامات کو بےبنیاد ثابت کر سکتا ہے۔
اپنی سمجھ پر بھروسا نہ کریں
14، 15. ہمیں اپنی عقل پر بھروسا کیوں نہیں کرنا چاہیے؟
14 ہم نے دیکھا ہے کہ صحیح نتائج تک پہنچنے کی راہ میں ایک رُکاوٹ یہ ہے کہ درست معلومات حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اِس حوالے سے ایک اَور مسئلہ یہ ہے کہ ہم عیبدار ہیں۔ شاید ہم کئی سال سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں اور اِس عرصے کے دوران ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں بہتری آ گئی ہے۔ چونکہ ہم سمجھداری سے کام لیتے ہیں اِس لیے شاید دوسرے ہماری عزت کرتے ہیں۔ لیکن یہ صلاحیت ہماری کمزوری بھی بن سکتی ہے۔
بائبل میں ہمیں خبردار کِیا گیا ہے کہ ہمیں اپنی عقل اور سمجھ پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔
15 ہم اپنی عقل اور سمجھ پر بھروسا کرنے لگ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے احساسات اور ذاتی نظریات ہماری سوچ پر حاوی ہو جائیں۔ ہم یہ سوچنے لگ سکتے ہیں کہ ہم تمام حقائق جانے بغیر بھی کسی صورتحال کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ بائبل میں ہمیں خبردار کِیا گیا ہے کہ ہمیں اپنی عقل اور سمجھ پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔—امثال 3:5، 6؛ 28:26۔
16. ٹام نے کیا دیکھا اور وہ کیا سوچنے لگے؟
16 ذرا اِس فرضی صورتحال پر غور کریں۔ ایک شام ٹام نامی بھائی جو کئی سال سے بزرگ کے طور پر خدمت کر رہے ہیں، ایک ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں۔ وہاں اُنہیں جان نامی ایک دوسرا بزرگ کسی عورت کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے جو اُس کی بیوی نہیں ہے۔ وہ دونوں بہت خوش نظر آ رہے ہیں اور ہنس ہنس کے باتیں کر رہے ہیں۔ پھر وہ ایک دوسرے کو گلے
لگاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ٹام پریشان ہو جاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں: ”کیا جان اور اُن کی بیوی کی طلاق ہو جائے گی؟ اُن کے بچوں کا کیا بنے گا؟“ ٹام نے پہلے بھی اِس طرح سے گھروں کو ٹوٹتے دیکھا ہے۔ اگر آپ ٹام کی جگہ ہوتے تو آپ اِس صورتحال کو دیکھ کر کیا نتیجہ نکالتے؟17. بعد میں ٹام کو کیا پتہ چلا اور اِس مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
17 لیکن ذرا رُکیں اور سوچیں۔ حالانکہ ٹام سوچ رہے ہیں کہ جان اپنی بیوی سے بےوفائی کر رہے ہیں مگر کیا ٹام تمام حقائق سے واقف ہیں؟ اُسی شام بعد میں ٹام، جان کو فون کرتے ہیں اور اُنہیں پتہ چلتا ہے کہ جان جس عورت کے ساتھ ریسٹورنٹ میں تھے، وہ اُن کی بہن تھی۔ وہ کسی دوسرے ملک میں رہتی تھی اور کئی سال سے جان سے نہیں ملی تھی۔ چونکہ وہ بس کچھ ہی گھنٹوں کے لیے آئی تھی اِس لیے اُس کے پاس صرف اِتنا ہی وقت تھا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں کھانا کھا سکے۔ جان کی بیوی کسی وجہ سے وہاں نہیں پہنچ سکی تھی۔ ٹام کو خوشی تھی کہ جو وہ سوچ رہے تھے، اُس کے بارے میں اُنہوں نے کسی سے بات نہیں کی۔ اِس مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ چاہے ہم کتنے ہی عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہوں، ہمیں کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے تمام حقائق اِکٹھے کر لینے چاہئیں۔
18. ہم کسی بہن یا بھائی کے بارے میں منفی باتوں پر یقین کرنے کی طرف مائل کیوں ہو سکتے ہیں؟
18 ہمارے لیے اُس وقت بھی صحیح نتیجے پر پہنچنا مشکل ہو سکتا ہے جب ہم کلیسیا کے کسی ایسے بھائی یا بہن کے بارے میں کوئی منفی بات سنتے ہیں جس سے ہماری نہیں بنتی۔ اگر ہم اُن باتوں کے بارے میں سوچتے رہیں گے جو ہمارے اِختلافات کی وجہ ہیں تو ہم اُس بھائی یا بہن کو شک کی نظر سے دیکھنے لگیں گے۔ اور پھر جب ہمیں اُس کے بارے میں کوئی منفی بات پتہ چلے گی تو ہم اُس پر یقین کرنے کی طرف مائل ہوں گے پھر چاہے اُس بات کی صداقت کا کوئی ثبوت بھی نہ ہو۔ اِن باتوں میں ہمارے لیے کون سا سبق پایا جاتا ہے؟ اگر ہم اپنے دل میں کسی بہن یا بھائی کے لیے غلط احساسات کو پلنے دیتے ہیں تو ہم اُس کے بارے میں ایسی رائے قائم کر لیتے ہیں جو حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔ (1-تیمُتھیُس 6:4، 5) لہٰذا ہمیں اپنے دل میں بہن بھائیوں کے لیے حسد اور ناراضگی کے جذبات کو جڑ نہیں پکڑنے دینی چاہیے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں سے پیار کریں اور اُنہیں دل سے معاف کریں۔—کُلسّیوں 3:12-14 کو پڑھیں۔
بائبل کے اصولوں کی رہنمائی میں صحیح نتائج تک پہنچیں
19، 20. (الف) بائبل کے کن اصولوں کی مدد سے ہم صحیح طرح سے معلومات کو پرکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟
19 آجکل درست معلومات حاصل کرنا اور صحیح نتائج پر پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثر معاملات میں ہمیں جو معلومات ملتی ہیں، وہ یا تو نامکمل یا آدھی سچ ہوتی ہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم عیبدار ہیں۔ تو پھر ہم کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمیں بائبل کے اصولوں سے واقف ہونا اور اِن پر عمل کرنا چاہیے۔ بائبل کا ایک اصول یہ ہے کہ حقائق سننے سے پہلے جواب دینا بےوقوفی ہے۔ (امثال 18:13) ایک اَور اصول یہ ہے کہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر لینا سمجھداری نہیں ہے۔ (امثال 14:15) اور تیسری بات یہ ہے کہ چاہے ہم لمبے عرصے سے یہوواہ کی خدمت کیوں نہ کر رہے ہوں، ہمیں اپنی سمجھ بُوجھ پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ (امثال 3:5، 6) بائبل کے اصول ہمیں معلومات کو پرکھنے، صحیح نتائج پر پہنچنے اور سمجھداری سے فیصلے کرنے کے قابل بنائیں گے۔
20 لیکن کسی بات کی صداقت کو معلوم کرنا ایک اَور وجہ سے بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ چونکہ ہم عیبدار ہیں اِس لیے اکثر ہم صرف اُن باتوں کی بِنا پر رائے قائم کر لیتے ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم کن حلقوں میں یہ غلطی کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور سیکھیں گے کہ ہم ایسا کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔