مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایمان—‏خدا کے ساتھ ہمارے رشتے کی جان

ایمان—‏خدا کے ساتھ ہمارے رشتے کی جان

ایمان میں بےپناہ طاقت ہے۔‏ اِس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ چاہے شیطان یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے کو تباہ کرنے کے لیے کتنا ہی زور لگا لے،‏ ایمان کے ذریعے ہم اُس کے ’‏تمام جلتے تیروں کو بجھانے‘‏ کے قابل ہوتے ہیں۔‏ (‏اِفس 6:‏16‏)‏ ایمان کی بدولت ہم پہاڑ جیسی مشکلات کا سامنا کر پاتے ہیں۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏اگر آپ میں رائی کے دانے جتنا ایمان ہے تو آپ اِس پہاڑ سے کہیں گے کہ ”‏یہاں سے وہاں چلا جا“‏ اور یہ چلا جائے گا۔‏“‏ (‏متی 17:‏20‏)‏ چونکہ ایمان یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے کو مضبوط کرتا ہے اِس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اِن سوالوں پر غور کریں:‏ ایمان کیا ہے؟‏ ایمان کا ہمارے دل کی حالت سے کیا تعلق ہے؟‏ ہم اپنے ایمان کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟‏ اور ہمیں کس پر ایمان رکھنا چاہیے؟‏—‏روم 4:‏3‏۔‏

ایمان کیا ہے؟‏

ایمان رکھنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم بائبل کی سچائیوں کو مانیں۔‏ یوں تو ”‏بُرے فرشتے بھی [‏خدا کے وجود کو]‏ مانتے ہیں اور خوف کے مارے کانپتے ہیں۔‏“‏ (‏یعقو 2:‏19‏)‏ تو پھر ایمان کیا ہے؟‏

جس طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ دن چڑھنے اور رات ہونے کا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا اُسی طرح ہمیں یہ یقین ہے کہ خدا کے کلام کی باتیں ہمیشہ پوری ہوں گی۔‏

بائبل میں ایمان کے دو پہلوؤں کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ پہلا یہ کہ ”‏ایمان اِس بات کی ضمانت ہے کہ ہماری اُمید ضرور پوری ہوگی۔‏“‏ (‏عبر 11:‏1 کا پہلا حصہ)‏ اگر آپ ایمان رکھتے ہیں تو آپ کو پکا یقین ہوتا ہے کہ یہوواہ نے جو کچھ کہا ہے،‏ وہ سچ ہے اور وہ ضرور پورا ہوگا۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو بتایا:‏ ”‏اگر تُم میرا وہ عہد جو مَیں نے دن سے اور رات سے کِیا توڑ سکو کہ دن اور رات اپنے اپنے وقت پر نہ ہوں۔‏ تو میرا وہ عہد بھی جو مَیں نے اپنے خادم داؔؤد سے کِیا ٹوٹ سکتا ہے۔‏“‏ (‏یرم 33:‏20،‏ 21‏)‏ کیا آپ کو کبھی یہ ڈر ستایا ہے کہ سورج نکلنا اور غروب ہونا بند کر دے گا اور یوں دن چڑھنے اور رات ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا؟‏ اگر آپ کو اُن قدرتی قوانین پر کبھی شک نہیں ہوا جن کے تحت زمین اپنے محور کے گرد اور سورج کے گرد گھومتی ہے اور دن اور رات کا سبب بنتی ہے تو کیا آپ کو اِس بات پر شک ہونا چاہیے کہ جس ہستی نے اِن قوانین کو بنایا ہے،‏ اُس کی باتیں پوری ہوں گی؟‏—‏یسع 55:‏10،‏ 11؛‏ متی 5:‏18‏۔‏

بائبل میں ایمان کا جو دوسرا پہلو بتایا گیا ہے،‏ وہ یہ ہے کہ ایمان ”‏اُن حقیقتوں کا ثبوت ہے جو ہم دیکھ نہیں سکتے۔‏“‏ (‏عبر 11:‏1 کا دوسرا حصہ)‏ ایمان کو اُن حقیقتوں یا چیزوں کا ثبوت کہا گیا ہے جو نظر تو نہیں آتیں مگر وجود رکھتی ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ ایک بچہ آپ سے پوچھتا ہے:‏ ”‏آپ کو کیسے پتہ کہ ہوا موجود ہے؟‏“‏ حالانکہ آپ نے ہوا کو کبھی نہیں دیکھا لیکن آپ اُس بچے کو سمجھانے کے لیے ایسے ثبوت دیں گے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوا وجود رکھتی ہے جیسے کہ سانس لینے کا عمل اور تیز ہوا کے اثرات۔‏ جب بچے کو ہوا کے وجود کے ٹھوس ثبوت مل جاتے ہیں تو اِن ثبوتوں کی بنیاد پر وہ ہوا کی موجودگی پر یقین رکھنے لگتا ہے۔‏ اِسی طرح خدا پر اور پاک کلام کی سچائیوں پر ہمارا ایمان بھی ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر قائم ہے۔‏—‏روم 1:‏20‏۔‏

ایمان کا دل کی حالت سے تعلق

ہم نے دیکھا ہے کہ ایمان ثبوتوں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔‏ اور ثبوتوں کے لیے علم ہونا ضروری ہے۔‏ لہٰذا ایمان پیدا کرنے کے لیے ایک شخص کو ”‏سچائی کے بارے میں صحیح علم حاصل“‏ کرنا چاہیے۔‏ (‏1-‏تیم 2:‏4‏)‏ لیکن اِتنا ہی کافی نہیں ہے۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏دل میں ایمان رکھنے سے نیکی حاصل ہوتی ہے۔‏“‏ (‏روم 10:‏10‏)‏ لہٰذا ایک شخص کو نہ صرف سچائی کو ماننا چاہیے بلکہ دل سے اِس کی قدر بھی کرنی چاہیے۔‏ تبھی اُسے یہ ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے ایمان کا مظاہرہ کرے یعنی سچائی کے مطابق زندگی گزارے۔‏ (‏یعقو 2:‏20‏)‏ جس شخص کے دل میں سچائی کے لیے قدر نہیں ہوتی،‏ وہ اپنی من‌مانی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے اور اُن نظریات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو اُس نے پہلے سے قائم کیے ہوتے ہیں۔‏ ایسے شخص کو چاہے کتنے ہی ٹھوس ثبوت دیے جائیں،‏ وہ اِنہیں قبول نہیں کرتا۔‏ (‏2-‏پطر 3:‏3،‏ 4؛‏ یہوداہ 18‏)‏ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں بہت سے لوگوں نے معجزات تو دیکھے لیکن وہ سب ایمان نہیں لائے۔‏ (‏گن 14:‏11؛‏ یوح 12:‏37‏)‏ خدا کی پاک روح صرف اُن لوگوں میں ایمان پیدا کرتی ہے جن کے دل میں سچائی کے لیے محبت ہوتی ہے۔‏—‏گل 5:‏22؛‏ 2-‏تھس 2:‏10،‏ 11‏۔‏

داؤد نے مضبوط ایمان کیسے پیدا کِیا؟‏

بادشاہ داؤد کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ایمان کی عمدہ مثال قائم کی۔‏ (‏عبر 11:‏32،‏ 33‏)‏ لیکن داؤد کے سب گھر والوں کا ایمان اُن جتنا مضبوط نہیں تھا۔‏ مثال کے طور پر جب داؤد اِسرائیلی فوجیوں سے یہ بات کر رہے تھے کہ جولیت کو اُس کے طعنوں کا مُنہ توڑ جواب ملنا چاہیے تو اُن کے سب سے بڑے بھائی الیاب نے اُنہیں چپ کرا دیا۔‏ اِس سے الیاب کے ایمان کی کمی ظاہر ہوئی۔‏ (‏1-‏سمو 17:‏26-‏28‏)‏ کسی بھی شخص میں ایمان پیدائشی طور پر نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ والدین سے ورثے میں ملتا ہے۔‏ لہٰذا داؤد کے مضبوط ایمان کی بنیاد یہوواہ کے ساتھ اُن کا رشتہ تھا۔‏

زبور 27 میں داؤد نے بتایا کہ اُن کا ایمان مضبوط کیسے ہوا۔‏ (‏آیت 1)‏ داؤد نے اِس بات پر سوچ بچار کی کہ یہوواہ نے اُنہیں کیسے اُن کے دُشمنوں سے بچایا۔‏ (‏آیت 2،‏ 3)‏ وہ اُس اِنتظام کے لیے بہت شکرگزار تھے جس کے تحت بنی‌اِسرائیل یہوواہ کی عبادت کر سکتے تھے۔‏ (‏آیت 4)‏ وہ خیمۂ‌اِجتماع میں اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کرتے تھے۔‏ (‏آیت 6)‏ اُنہوں نے دل کی گہرائیوں سے یہوواہ سے دُعا کی۔‏ (‏آیت 7،‏ 8)‏ اِس کے علاوہ وہ خدا سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے تھے۔‏ (‏آیت 11)‏ داؤد کی نظر میں ایمان کی خوبی اِس قدر اہم تھی کہ اُنہوں نے کہا:‏ ’‏اگر میرا ایمان نہ ہوتا تو میرا کیا بنتا؟‏‘‏—‏آیت 13،‏ ‏”‏ترجمہ نئی دُنیا۔‏“‏

اپنے ایمان کو مضبوط کیسے کریں؟‏

اگر آپ بھی داؤد جیسی سوچ رکھیں گے اور وہ کام کریں گے جن کا ذکر اُنہوں نے زبور 27 میں کِیا تو آپ کا ایمان بھی مضبوط ہوگا۔‏ چونکہ ایمان پیدا کرنے کے لیے صحیح علم حاصل کرنا ضروری ہے اِس لیے آپ خدا کے کلام اور اِس پر مبنی مطبوعات کو جتنا زیادہ پڑھیں گے،‏ آپ کے لیے پاک روح کے پھل کے اِس حصے کو پیدا کرنا اُتنا ہی آسان ہوگا۔‏ (‏زبور 1:‏2،‏ 3‏)‏ جب آپ خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اِس پر سوچ بچار کرنے کے لیے وقت نکالیں۔‏ سوچ بچار کرنے کے عمل کو مٹی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس میں شکرگزاری کا پودا پھلتا پھولتا ہے۔‏ جیسے جیسے یہوواہ کی نعمتوں کے لیے آپ کی شکرگزاری بڑھے گی ویسے ویسے آپ کی یہ خواہش بھی بڑھے گی کہ آپ اِجلاسوں میں جانے اور دوسروں کو اپنی اُمید کے بارے میں بتانے سے اپنے ایمان کا مظاہرہ کریں۔‏ (‏عبر 10:‏23-‏25‏)‏ ہم ”‏ہمیشہ دُعا کرنے اور ہمت نہ ہارنے“‏ سے بھی اپنے ایمان کو ظاہر کرتے ہیں۔‏ (‏لُو 18:‏1-‏8‏)‏ لہٰذا یہوواہ سے ”‏ہر وقت دُعا کریں“‏ اور اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ ”‏اُس کو آپ کی فکر ہے۔‏“‏ (‏1-‏تھس 5:‏17؛‏ 1-‏پطر 5:‏7‏)‏ ایمان ہمیں صحیح کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور جب ہم صحیح کام کرتے ہیں تو ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔‏—‏یعقو 2:‏22‏۔‏

یسوع مسیح پر ایمان ظاہر کریں

اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏خدا پر ایمان ظاہر کریں۔‏ مجھ پر بھی ایمان ظاہر کریں۔‏“‏ (‏یوح 14:‏1‏)‏ لہٰذا ہمیں نہ صرف یہوواہ خدا پر بلکہ یسوع مسیح پر بھی ایمان ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہم یسوع مسیح پر ایمان کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ تین طریقوں پر غور کریں۔‏

یسوع مسیح پر ایمان ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏

پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم فدیے کو خدا کی طرف سے ایک ایسا تحفہ خیال کریں جو ہمیں ذاتی طور پر دیا گیا ہے۔‏ پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏مَیں جو زندگی جی رہا ہوں،‏ وہ خدا کے بیٹے پر ایمان کے مطابق جی رہا ہوں جس نے مجھ سے محبت کی اور میرے لیے جان دے دی۔‏“‏ (‏گل 2:‏20‏)‏ ہم اُس وقت یسوع مسیح پر ایمان ظاہر کرتے ہیں جب ہمیں پورا یقین ہوتا ہے کہ فدیے سے ہمیں ذاتی طور پر فائدہ ہوتا ہے؛‏ اِس کی بِنا پر ہمارے گُناہ معاف ہوتے ہیں؛‏ اِس کے ذریعے ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ملتی ہے اور یہ ہمارے لیے خدا کی محبت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔‏ (‏روم 8:‏32،‏ 38،‏ 39؛‏ اِفس 1:‏7‏)‏ فدیے سے ملنے والے فائدوں کی بِنا پر ہم اپنی غلطیوں اور خامیوں کی وجہ سے احساسِ‌شرمندگی میں مبتلا نہیں رہتے۔‏—‏2-‏تھس 2:‏16،‏ 17‏۔‏

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دُعا کے ذریعے یہوواہ کے قریب جائیں جو کہ یسوع کی قربانی کی بِنا پر ممکن ہوا۔‏ فدیے کی بدولت ہم دُعا میں ’‏خدا کے تخت کے سامنے بِلاجھجک حاضر ہوتے ہیں تاکہ ہم پر رحم کِیا جائے اور ہمیں ضرورت کے وقت رحمت عطا کی جائے۔‏‘‏ (‏عبر 4:‏15،‏ 16؛‏ 10:‏19-‏22‏)‏ دُعا کے ذریعے ہمارا یہ عزم مضبوط ہوتا ہے کہ ہم آزمائشوں کے آگے گھنٹے نہیں ٹیکیں گے۔‏—‏لُو 22:‏40‏۔‏

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم یسوع مسیح کے فرمانبردار رہیں۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏جو بیٹے پر ایمان ظاہر کرتا ہے،‏ اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے گی لیکن جو بیٹے کا کہنا نہیں مانتا،‏ اُسے زندگی نہیں ملے گی بلکہ خدا اُس سے ناراض رہے گا۔‏“‏ (‏یوح 3:‏36‏)‏ ذرا غور کریں کہ اِس آیت میں یوحنا رسول نے ایک طرف تو یسوع پر ایمان ظاہر کرنے کو رکھا اور دوسری طرف اُن کا کہنا نہ ماننے کو۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع پر ایمان ظاہر کرنے کے لیے اُن کی بات ماننا ضروری ہے۔‏ اور ہم یسوع کی بات تب مانتے ہیں جب ہم ”‏مسیح کی شریعت“‏ پر یعنی اُس کے تمام احکامات اور تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔‏ (‏گل 6:‏2‏)‏ یسوع کی بات ماننے کا ایک اَور طریقہ اُن ہدایات پر عمل کرنا ہے جو وہ ”‏وفادار اور سمجھ‌دار غلام“‏ کے ذریعے دیتے ہیں۔‏ (‏متی 24:‏45‏)‏ اگر ہم یسوع کی فرمانبرداری کرتے رہیں گے تو ہم طوفان جیسی مشکلات کا سامنا کر پائیں گے۔‏—‏لُو 6:‏47،‏ 48‏۔‏

‏”‏اپنے ایمان کی بنیاد پر مضبوط بنتے جائیں“‏

ایک بار ایک شخص یسوع کے پاس آیا اور اُن سے مِنت کرنے لگا:‏ ”‏مَیں ایمان رکھتا ہوں!‏ میری مدد کریں تاکہ میرا ایمان مضبوط ہو جائے!‏“‏ (‏مر 9:‏24‏)‏ اُس شخص میں کسی حد تک ایمان تھا لیکن اُس نے خاکساری سے تسلیم کِیا کہ اُسے اپنے ایمان کو اَور مضبوط کرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔‏ اُس شخص کی طرح ہم سب کی زندگی میں بھی ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جب ہمیں اَور مضبوط ایمان کی ضرورت ہو۔‏ اور ہم اپنے ایمان کو بڑھانے کے لیے ابھی سے اِقدام اُٹھا سکتے ہیں۔‏ ہم نے سیکھا ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں خدا کے کلام کو پڑھنا چاہیے اور اِس پر سوچ بچار کرنی چاہیے اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمارے دل میں یہوواہ کی نعمتوں کے لیے شکرگزاری بڑھتی ہے۔‏ ہمارا ایمان اُس وقت بھی مضبوط ہوتا ہے جب ہم اپنے ہم‌ایمانوں کے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں،‏ دوسروں کو اپنی اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں اور دُعا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔‏ جب ہم اپنے ایمان کو بڑھاتے ہیں تو یہوداہ 20،‏ 21 کے مطابق ہمیں سب سے بیش‌قیمت اِنعام ملتا ہے۔‏ اِن آیتوں میں لکھا ہے:‏ ”‏عزیزو،‏ آپ اپنے ایمان کی بنیاد پر مضبوط بنتے جائیں .‏ .‏ .‏ تاکہ آپ خدا کی محبت میں قائم رہ سکیں۔‏“‏