مطالعے کا مضمون نمبر 35
”ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہیں“
”ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہیں اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہیں۔“—1-تھس 5:11۔
گیت نمبر 90: ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھائیں
مضمون پر ایک نظر *
1. پہلا تھسلُنیکیوں 5:11 کے مطابق ہم سب کون سا کام کر سکتے ہیں؟
کیا آپ کی کلیسیا نے کبھی عبادتگاہ کو بنانے یا اِس کی مرمت کرنے کے کام میں حصہ لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو بےشک آپ کو اُس نئی عبادتگاہ میں پہلا اِجلاس ضرور یاد ہوگا۔ آپ کا دل یہوواہ کے لیے شکرگزاری سے بھر گیا تھا۔ شاید آپ اِتنے جذباتی ہو گئے تھے کہ آپ سے اِجلاس کا پہلا گیت بھی گایا نہیں جا رہا تھا۔ بےشک ہماری اچھی عبادتگاہوں سے یہوواہ کی بڑائی ہوتی ہے۔ لیکن ایک کام ایسا ہے جس سے یہوواہ کی اَور بھی زیادہ بڑائی ہوتی ہے اور یہ عبادتگاہیں بنانے کے کام سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ کام ہماری عبادتگاہوں میں آنے والے لوگوں کا حوصلہ بڑھانا ہے۔ یہی بات پولُس رسول نے ہماری مرکزی آیت یعنی 1-تھسلُنیکیوں 5:11 میں کہی۔—اِس آیت کو پڑھیں۔
2. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
2 پولُس رسول نے اپنے ہمایمانوں کا حوصلہ بڑھانے کے حوالے سے بہت اچھی مثال قائم کی۔ اُن کے دل میں اپنے ہمایمانوں کے لیے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ پولُس نے اِن تین معاملوں میں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کیسے کی: (1) مشکلوں کو برداشت کرنے میں، (2) ایک دوسرے کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے میں اور (3) یہوواہ پر اُن کے ایمان کو مضبوط کرنے میں۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ ہم پولُس رسول کی طرح اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ کیسے بڑھا سکتے ہیں۔—1-کُر 11:1۔
پولُس نے مشکلوں کو برداشت کرنے میں اپنے ہمایمانوں کی مدد کی
3. پولُس یہوواہ کی خدمت اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے کیسی سوچ رکھتے تھے؟
3 پولُس اپنے بہن بھائیوں سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ چونکہ پولُس نے خود بھی بہت سی مشکلوں کا سامنا کِیا تھا اِس لیے وہ اپنے اُن ہمایمانوں کے لیے ہمدردی دِکھا سکتے تھے جو مشکلوں سے گزر رہے تھے۔ ایک وقت تو ایسا آیا تھا کہ پولُس کے سارے پیسے ختم ہو گئے تھے اور اُنہیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کام ڈھونڈنا تھا۔ (اعما 20:34) وہ خیمے بنانے کا کام کرتے تھے۔ اِس لیے جب وہ کُرنتھس پہنچے تو شروع شروع میں اُنہوں نے اکوِلہ اور پرِسکِلّہ کے ساتھ خیمے بنانے کا کام کِیا۔ لیکن”ہر سبت کے دن“ وہ یہودیوں اور یونانیوں کو گواہی دیتے تھے۔ پھر جب سیلاس اور تیمُتھیُس وہاں آئے تو پولُس ”خدا کا کلام سنانے پر پورا دھیان دینے لگے۔“(اعما 18:2-5) پولُس نے کبھی بھی اپنا دھیان اِس بات سے نہیں ہٹنے دیا کہ اُن کی زندگی کا سب سے اہم مقصد یہوواہ کی خدمت کرنا ہے۔ پولُس نے یہوواہ کی خدمت اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے حوالے سے بہت اچھی مثال قائم کی تھی اِس لیے وہ اپنے ہمایمانوں کا بھی حوصلہ بڑھا سکتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے ہمایمانوں کو یاد دِلایا کہ وہ زندگی کی پریشانیوں کو یا گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرنے کو خود پر اِتنا سوار نہ کر لیں کہ وہ ”زیادہ اہم“ باتوں کو ہی بھول جائیں یعنی اُن باتوں کو جو یہوواہ کی عبادت سے تعلق رکھتی ہیں۔—فل 1:10۔
4. پولُس اور تیمُتھیُس نے اذیت برداشت کرنے میں اپنے ہمایمانوں کی مدد کیسے کی؟
4 جب تھسلُنیکے میں کلیسیا قائم ہوئی تو اِس کے تھوڑے ہی دیر بعد نئے مسیحیوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب غصے سے بھری ہوئی لوگوں کی بِھیڑ کو پولُس اور سیلاس نہیں ملے تو وہ ”کچھ اَور بھائیوں کو گھسیٹ کر شہر کے حاکموں کے پاس“ لے گئی اور اُونچی آواز میں کہنے لگی: ”یہ سب کے سب قیصر کے حکموں کی خلافورزی کرتے ہیں۔“ (اعما 17:6، 7) ذرا سوچیں کہ جب اِن نئے مسیحیوں نے دیکھا ہوگا کہ شہر کے لوگ اُن کے خلاف ہو گئے ہیں تو وہ کتنا ڈر گئے ہوں گے! اِس سب کی وجہ سے یہوواہ کی خدمت میں اِن مسیحیوں کا جوش ٹھنڈا پڑ سکتا تھا۔ لیکن پولُس نہیں چاہتے تھے کہ ایسا ہو۔ حالانکہ اُنہیں اور سیلاس کو وہ شہر چھوڑنا پڑا لیکن اُنہوں نے اِس با ت کا خاص خیال رکھا کہ اِس نئی کلیسیا کی اچھی طرح سے دیکھبھال ہوتی رہے۔ پولُس نے تھسلُنیکے کے مسیحیوں کو یاد دِلایا کہ اُنہوں نے اُن کے ایمان کو مضبوط کرنے اور اُن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ’تیمُتھیُس کو اُن کے پاس بھیجا تھا تاکہ اُن میں سے کوئی بھی اذیتوں کا سامنا کرتے وقت ڈگمگائے نہیں۔‘ (1-تھس 3:2، 3) غالباً تیمُتھیُس نے اپنے شہر لِسترہ میں خود بھی اذیت کا تجربہ کِیا تھا اور دیکھا تھا کہ پولُس نے وہاں کے بہن بھائیوں کا حوصلہ کیسے بڑھایا تھا۔ اور اِس کا جو نتیجہ نکلا تھا، اُس کی وجہ سے تیمُتھیُس تھسلُنیکے کے بہن بھائیوں کو یقین دِلا سکتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔—اعما 14:8، 19-22؛ عبر 12:2۔
5. بھائی برائنٹ کو کلیسیا کے ایک بزرگ کی مدد سے کیا فائدہ ہوا؟
5 پولُس نے اَور کس طرح سے اپنے ہمایمانوں کا حوصلہ بڑھایا؟ جب وہ اور برنباس لِسترہ، اِکُنیُم اور انطاکیہ واپس گئے تو اُنہوں نے ”کلیسیا میں بزرگ مقرر کیے۔“ (اعما 14:21-23) بےشک وہ بزرگ کلیسیاؤں کے لیے ویسے ہی تسلی کا باعث بنے ہوں گے جیسے آج ہماری کلیسیاؤں کے بزرگ ہیں۔ اِس سلسلے میں ذرا برائنٹ نام کے ایک بھائی کی بات پر غور کریں جنہوں نے کہا: ”جب مَیں 15 سال کا تھا تو میرے ابو گھر چھوڑ کر چلے گئے اور میری امی کو کلیسیا سے خارج کر دیا گیا۔ مَیں بالکل ٹوٹ گیا اور خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔“ بھائی برائنٹ اِس مشکل وقت میں خود کو کیسے سنبھال پائے؟ اُنہوں نے کہا: ”ہماری کلیسیا میں ایک بزرگ تھے جن کا نام ٹونی تھا۔ وہ اِجلاسوں پر اور دوسرے موقعوں پر بھی مجھ سے بات کرتے تھے۔ اُنہوں نے مجھے بہت سے ایسے لوگوں کی مثالیں دیں جنہیں بہت سی مشکلوں کا سامنا ہوا لیکن وہ پھر بھی خوش رہے۔ اُنہوں نے میرے ساتھ زبور 27:10 پڑھی اور وہ اکثر میرے ساتھ بادشاہ حِزقیاہ کے بارے میں بات کرتے تھے جنہوں نے وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی حالانکہ اُن کے ابو بہت بُری مثال تھے۔“ اُس بزرگ کی مدد سے بھائی برائنٹ کو کیا فائدہ ہوا؟ ”بھائی ٹونی نے جس طرح سے میرا حوصلہ بڑھایا، اُس کی وجہ سے مَیں کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کر سکا جس سے مجھے بہت سکون ملا۔“ بزرگو! بھائی برائنٹ جیسے بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہیں جن کا کسی ”اچھی بات“ سے حوصلہ بڑھ سکتا ہے۔—امثا 12:25۔
6. پولُس نے بائبل میں بتائے گئے خدا کے بندوں کی آپبیتیاں بتانے سے اپنے ہمایمانوں کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟
6 پولُس رسول نے اپنے ہمایمانوں کو بتایا کہ ’گواہوں کا بڑا بادل‘ اِس لیے سخت مشکلوں میں بھی یہوواہ کا وفادار رہ پایا کیونکہ یہوواہ نے اُسے اِن مشکلوں کو برداشت کرنے کی طاقت دی تھی۔ (عبر 12:1) پولُس جانتے تھے کہ ماضی کے خدا کے بندوں کی آپبیتیاں بتانے سے اُن کے ہمایمانوں میں دلیری پیدا ہو سکتی ہے اور وہ اپنا دھیان ’زندہ خدا کے شہر‘ پر رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ (عبر 12:22) آج بھی یہ بات سچ ہے۔ بھلا ہم میں سے کس کو جدعون، برق، داؤد، سموئیل اور خدا کے اَور بھی بہت سے بندوں کے بارے میں پڑھ کر حوصلہ نہیں ملتا؟ (عبر 11:32-35) ہمیں جدید زمانے کے خدا کے بندوں کے بارے میں پڑھ کر بھی بہت حوصلہ ملتا ہے جنہوں نے ایمان کی اِتنی اچھی مثال قائم کی۔ ہمارے مرکزی دفتر میں اکثر ایسے بہن بھائیوں کے خط آتے رہتے ہیں جن کا ایمان اُس وقت بہت بڑھا جب اُنہوں نے جدید زمانے کے خدا کے کسی بندے کی آپبیتی پڑھی۔
پولُس نے اپنی مثال سے اپنے ہمایمانوں کو سکھایا کہ اُنہیں آپس میں امن سے رہنا چاہیے
7. رومیوں 14:19-21 میں پولُس نے جو نصیحت کی، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
7 جب ہم اپنی باتوں اور کاموں سے کلیسیا میں امن قائم رکھتے ہیں تو ہم اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ہم سب کی رائے ایک دوسرے سے فرق ہو سکتی ہے۔ لیکن اِس وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دُور نہیں ہو جاتے۔ اور اگر بائبل کا کوئی اصول نہیں ٹوٹ رہا ہوتا تو ہم اپنی خواہشوں اور مرضی کو بدل لیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ روم کی کلیسیا میں یہودی اور غیریہودی دونوں طرح کے مسیحی تھے۔ جب موسیٰ کی شریعت ختم ہو گئی تو مسیحیوں کے لیے یہ لازمی نہیں رہا تھا کہ وہ اُن چیزوں کو کھانے سے گریز کریں جنہیں کھانے سے شریعت میں منع کِیا گیا تھا۔ (مر 7:19) اِس لیے کچھ یہودی مسیحی ہر طرح کا کھانا کھانے لگے جبکہ کچھ مسیحیوں کو لگ رہا تھا کہ اِن کھانوں کو کھانا ٹھیک نہیں۔ اِس مسئلے کی وجہ سے کلیسیا بٹ گئی۔ پولُس نے کلیسیا میں امن کو قائم رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: ”اچھا ہوگا کہ آپ گوشت نہ کھائیں یا مے نہ پئیں یا ایسا کوئی اَور کام نہ کریں جس کی وجہ سے آپ کا بھائی گمراہ ہو۔“ (رومیوں 14:19-21 کو پڑھیں۔) اِس طرح پولُس نے اپنے ہمایمانوں کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ ایسے اِختلافات کی وجہ سے نہ صرف اُنہیں بلکہ پوری کلیسیا کو نقصان ہو سکتا ہے۔ پولُس خود بھی ہر وہ کام چھوڑنے کو تیار تھے جس کی وجہ سے دوسروں کا ایمان کمزور پڑ سکتا تھا۔ (1-کُر 9:19-22) اگر ہم بھی اپنی پسند ناپسند پر اَڑے نہیں رہیں گے تو ہم دوسروں کا حوصلہ بڑھائیں گے اور امن قائم رکھیں گے۔
8. پولُس نے اُس وقت کیا کِیا جب کلیسیا میں ایک ایسا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے کلیسیا کا امن تباہ ہو سکتا تھا؟
8 پولُس اُن مسیحیوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہے جو کچھ اہم معاملوں کے حوالے سے دوسرے مسیحیوں سے متفق نہیں تھے۔ مثال کے طور پر پہلی صدی عیسوی کی کلیسیا میں کچھ مسیحی اِس بات پر زور دے رہے تھے کہ غیریہودی مسیحیوں کو ختنہ کروانا چاہیے۔ شاید وہ ایسا اِس لیے کہہ رہے تھے تاکہ غیرایمان والے اُن پر تنقید نہ کریں۔ (گل 6:12) حالانکہ پولُس اُن کی اِس بات سے بالکل متفق نہیں تھے لیکن اُنہوں نے دوسروں پر اپنی رائے تھوپنے کی بجائے بڑی خاکساری سے یروشلیم میں رسولوں اور بزرگوں سے مشورہ مانگا۔ (اعما 15:1، 2) پولُس نے جس طرح سے معاملے کو حل کِیا، اُس کی وجہ سے وہ مسیحی اپنی خوشی اور کلیسیا میں امن برقرار رکھ پائے۔–اعما 15:30، 31۔
9. ہم پولُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
9 جب کلیسیا میں کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو ہم اُن بھائیوں سے مدد لے سکتے ہیں جنہیں یہوواہ نے کلیسیا کی دیکھبھال کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم امن کو فروغ دے رہے ہوں گے۔ اکثر ہمیں مسئلوں کا حل تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں یا کتابوں اور ویڈیوز وغیرہ میں مل سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی رائے پر زور دینے کے بجائے اپنا دھیان اِن ہدایتوں پر عمل کرنے پر رکھیں گے تو ہم کلیسیا میں امن قائم رکھ رہے ہوں گے۔
10. پولُس نے کلیسیا میں امن کو فروغ دینے کے لیے اَور کیا کِیا؟
10 پولُس نے کلیسیا میں امن کو فروغ دینے کے لیے اپنے بہن بھائیوں کی خامیوں کی بجائے اُن کی خوبیوں پر بات کی۔ مثال کے طور پر رومیوں کے نام اپنے خط کے آخر میں اُنہوں نے بہت سے بہن بھائیوں کا نام لے کر ذکر کِیا اور اِن میں سے زیادہتر کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ اُن میں کون کون سی خوبیاں ہیں۔ پولُس رسول کی طرح ہمیں بھی اپنے بہن بھائیوں کی خوبیوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہمارے بہن بھائیوں کے بیچ گہری دوستی ہو جائے گی اور وہ ایک دوسرے سے اَور زیادہ پیار کرنے لگیں گے۔
11. جب کسی بہن یا بھائی کے ساتھ ہماری اَنبن ہو جاتی ہے تو ہم صلح کیسے کر سکتے ہیں؟
11 کبھی کبھار پُختہ مسیحیوں کی بھی کسی بات کو لے کر آپس میں اَنبن ہو سکتی ہے یا بحث ہو سکتی ہے۔ پولُس اور اُن کے قریبی دوست برنباس کے بیچ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اُن دونوں کی اِس بات پر سخت بحث ہوئی کہ وہ اگلے دورے پر مرقس کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے یا نہیں۔ وہ ”ایک دوسرے پر بھڑک اُٹھے“ اور اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ اِکٹھے دورہ کرنے نہیں جائیں گے۔ (اعما 15:37-39) لیکن پولُس، برنباس اور مرقس نے آپس کے تعلقات کو ٹھیک کر لیا اور اِس طرح ثابت کِیا کہ اُن کی نظر میں کلیسیا کا امن اور اِتحاد زیادہ اہم ہے۔ بعد میں پولُس نے برنباس اور مرقس کے بارے میں بہت اچھی باتیں کہیں۔ (1-کُر 9:6؛ کُل 4:10) اگر ہماری بھی کسی بہن یا بھائی سے اَنبن ہو گئی ہے تو ہمیں بھی مسئلے کو حل کرنا چاہیے اور اپنے بہن بھائیوں کی خوبیوں پر دھیان دیتے رہنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہم امن اور اِتحاد کو فروغ دے رہے ہوں گے۔–اِفس 4:3۔
پولُس نے اپنے ہمایمانوں کے ایمان کو مضبوط کِیا
12. کچھ ایسے مسئلے بتائیں جن کا ہمارے بہن بھائیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
12 ہم اپنے بہن بھائیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے سے اُن کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ کچھ بہن بھائیوں کے غیرایمان رشتےدار، اُن کے ساتھ کام کرنے والے یا اُن کے ساتھ سکول میں پڑھنے والے اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ کچھ کو کوئی خطرناک بیماری ہے یا پھر کچھ بہن بھائیوں کا کسی نے دل دُکھایا ہے۔ اور کچھ بہن بھائیوں کو بپتسمہ لیے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں اور وہ کافی لمبے عرصے سے اِس دُنیا کے خاتمے کا اِنتظار کر رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہیں جن کی وجہ سے ایک مسیحی کے ایمان کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ پہلی صدی عیسوی کی کلیسیا کے مسیحیوں کو بھی ایسے ہی مسئلوں کا سامنا تھا۔ پولُس نے اپنے اِن بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کیا کِیا؟
13. پولُس نے اپنے اُن بہن بھائیوں کی مدد کیسے کی جن کا اُن کے عقیدوں کی وجہ سے مذاق اُڑایا جا رہا تھا؟
13 پولُس نے پاک کلام سے اپنے بہن بھائیوں کا ایمان مضبوط کِیا۔ مثال کے طور پر یہودی مسیحیوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے اُن غیرایمان رشتےداروں کو کیسے جواب دیں جو یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہودی مذہب، مسیحی مذہب سے اُونچا ہے۔ پولُس نے عبرانیوں کے نام جو خط لکھا، اُس سے اِن مسیحیوں کو یقیناً حوصلہ ملا ہوگا۔ (عبر 1:5، 6؛ 2:2، 3؛ 9:24، 25) پولُس نے جو دلیلیں دیں، اُنہیں یہ مسیحی اِستعمال کر کے اپنے مخالفوں کو جواب دے سکتے تھے۔ آج ہمارے جن ہمایمانوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے، ہم اُن کی مدد کر سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو اپنے عقیدوں کے بارے میں بتانے کے لیے تنظیم کی کتابوں اور ویڈیوز وغیرہ کو کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہمارے نوجوانوں کا اِس وجہ سے مذاق اُڑایا جاتا ہے کہ وہ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا نے سب چیزوں کو بنایا ہے تو ہم اُن کی مدد کر سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو جواب دینے کے لیے سلسلہ وار مضمون ”کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟“ سے معلومات کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
14. حالانکہ پولُس مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام میں بہت مصروف رہتے تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے کیا کِیا؟
14 پولُس نے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کی کہ وہ ”اچھے کاموں“ کے ذریعے ایک دوسرے کے لیے محبت دِکھائیں۔ (عبر 10:24) پولُس نے نہ صرف اپنی باتوں بلکہ اپنے کاموں سے بھی اپنے ہمایمانوں کی مدد کی۔ مثال کے طور پر جب یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑا تو پولُس نے اُن کے لیے ضرورت کی چیزیں بھیجیں۔ (اعما 11:27-30) حالانکہ پولُس رسول مُنادی کرنے اور تعلیم دینے میں بہت مصروف رہتے تھے لیکن وہ یہ دیکھتے تھے کہ وہ کن کن طریقوں سے اپنے بہن بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ (گل 2:10) اِس طرح اُنہوں نے اپنے بہن بھائیوں کا اِس بات پر ایمان مضبوط کِیا کہ یہوواہ اُن کا خیال رکھے گا۔ آج جب ہم بھی خوشی سے اپنا وقت، طاقت اور صلاحیتیں آفت سے متاثر بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں تو ہم اُن کا ایمان مضبوط کرتے ہیں۔ ہم عالمگیر کام کے لیے عطیات دینے سے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ جب ہم اِن طریقوں اور دوسرے طریقوں سے اپنے بہن بھائیوں کے کام آتے ہیں تو ہم اُن کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ یہوواہ اُنہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
15-16. ہمیں اُن بہن بھائیوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے جن کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے؟
15 پولُس نے اُن بہن بھائیوں کی مدد کرنے میں ہمت نہیں ہاری جن کا ایمان کمزور پڑ گیا تھا۔ اُنہوں نے اُن کے لیے ہمدردی دِکھائی اور بڑے پیار سے اُن سے اچھی باتیں کیں۔ (عبر 6:9؛ 10:39) مثال کے طور پر عبرانیوں کے نام اپنے پورے خط میں اُنہوں نے اکثر لفظ ”ہم“ اِستعمال کِیا جس سے اُنہوں نے یہ ظاہر کِیا کہ جو نصیحت وہ اُنہیں دے رہے ہیں، اُنہیں خود بھی اُس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ (عبر 2:1، 3) پولُس کی طرح ہمیں بھی اُن بہن بھائیوں کی مدد کرنے میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے جن کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔ اِس کی بجائے اُن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہمیں اُن کی فکر ہے۔ ایسا کرنے سے ہم اُن کے لیے محبت دِکھا رہے ہوں گے۔ جب ہم پیار اور شفقت سے اُن سے بات کریں گے تو ہماری باتوں کا اُن پر اَور اچھا اثر ہوگا۔
16 پولُس نے اپنے بہن بھائیوں کو اِس بات کا یقین دِلایا کہ یہوواہ اُن کے اچھے کاموں کو جانتا ہے۔ (عبر 10:32-34) ہم بھی اُس وقت ایسا کر سکتے ہیں جب ہم کسی ایسی بہن یا بھائی کی مدد کر رہے ہوتے ہیں جس کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔ ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ سچائی میں کیسے آیا یا اُسے ایسے موقعوں کو یاد کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں جب یہوواہ نے اُس کی مدد کی۔ اِس موقعے پر ہم اُسے یقین دِلا سکتے ہیں کہ یہوواہ اُس محبت کو نہیں بھولا جو اُس نے ماضی میں یہوواہ کے لیے ظاہر کی تھی اور وہ اُسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ (عبر 6:10؛ 13:5، 6) اِس طرح کی باتچیت سے ہمارے اِن بہن بھائیوں میں یہوواہ کی عبادت کرتے رہنے کا جذبہ پیدا ہو سکتا ہے۔
”ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہیں“
17. ہم اپنے اندر کس مہارت کو اَور زیادہ نکھار سکتے ہیں؟
17 جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ ایک مستری اپنے کام میں ماہر بن جاتا ہے اُسی طرح ہم بھی ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے میں ماہر بن سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کو بتاتے ہیں کہ ماضی میں کس طرح سے یہوواہ کے بندے مشکلوں کے باوجود اُس کے وفادار رہے تو ہمارے بہن بھائیوں کو مشکلوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ہم دوسروں کی خوبیوں کے بارے میں بات کرنے سے امن کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم اُس وقت بھی امن کو فروغ دیتے ہیں جب کلیسیا میں ہماری کسی کے ساتھ اَنبن ہو جاتی ہے اور ہم اُس سے صلح کر لیتے ہیں۔ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں، مسئلے کھڑے ہو جانے پر کلیسیا کے اِتحاد کو قائم رکھتے ہیں اور آپس کے اِختلافات کو دُور کر لیتے ہیں تو ہم امن کو فروغ دیتے ہیں۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے پاک کلام سے اُن کی مدد کر سکتے ہیں، ضرورت کے وقت اُن کی مالی مدد کر سکتے ہیں اور اُن بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں جن کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔
18. آپ نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟
18 جو بہن بھائی تنظیم کی عمارتوں کو بنانے کے کام میں حصہ لیتے ہیں، اُنہیں بہت خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ جب ہم یہوواہ کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں کی دوستی مضبوط بناتے ہیں تو ہمیں بھی بہت خوشی اور سکون ملتا ہے۔ عمارتیں آج نہیں تو کل ختم ہو جاتی ہیں لیکن ہمارے کاموں کا جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ آئیں، اِس بات کا عزم کریں کہ ہم ”ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہیں“ گے۔—1-تھس 5:11۔
گیت نمبر 100: مہماننوازی کریں
^ اِس دُنیا میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارے بہن بھائیوں پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ لیکن جب ہم اِس بارے میں سوچتے ہیں کہ ہم کن کن طریقوں سے اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں تو ہم اُن کے لیے بہت بڑی برکت ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہمیں پولُس رسول کی مثال پر غور کرنے سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
^ تصویر کی وضاحت: (اُوپر والی تصویر) ایک باپ ہماری ویبسائٹ پر ایک مضمون سے اپنی بیٹی کو سمجھا رہا ہے کہ جب لوگ اُسے کرسمس منانے کو کہتے ہیں تو وہ کیا کر سکتی ہے۔
^ تصویر کی وضاحت: (بیچ والی تصویر) ایک میاں بیوی اِمدادی کام میں حصہ لینے کے لیے کسی اَور شہر میں گئے ہیں۔
^ تصویر کی وضاحت: (نیچے والی تصویر) ایک بزرگ ایک ایسے بھائی سے ملنے گیا ہے جس کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے۔ وہ اُسے اُس وقت کی تصویریں دِکھا رہا ہے جب وہ دونوں کئی سال پہلے اِکٹھے پہلکاروں کے لیے سکول میں گئے تھے۔ یہ تصویریں دیکھ کر اُس بھائی کے ذہن میں پُرانے وقت کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ اُس کا دل کر رہا ہے کہ وہ پھر سے یہوواہ کی عبادت کرنا شروع کر دے۔ کچھ وقت بعد وہ کلیسیا میں لوٹ آ تا ہے۔