مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیں چوکس کیوں رہنا چاہیے؟‏

ہمیں چوکس کیوں رہنا چاہیے؟‏

‏”‏آپ نہیں جانتے کہ آپ کا مالک کس دن آئے گا۔‏“‏‏—‏متی 24:‏42‏۔‏

گیت:‏ 16،‏  54

1.‏ مثال دے کر بتائیں کہ اِس بات پر دھیان دینا کیوں اہم ہے کہ ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں اور ہمارے اِردگِرد کیا ہو رہا ہے۔‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

اِجتماع شروع ہونے والا ہے۔‏ سکرین پر گھڑی کو دیکھ کر حاضرین جان جاتے ہیں کہ اب سیٹوں پر بیٹھ جانے کا وقت ہے۔‏ چیئرمین پلیٹ‌فارم پر آ کر سب کو خوش‌آمدید کہہ رہا ہے۔‏ موسیقی شروع ہوتی ہے۔‏ زیادہ‌تر حاضرین اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گیتوں کی خوب‌صورت دھنوں کو سُن رہے ہیں اور آنے والے پروگرام کے منتظر ہیں۔‏ لیکن کچھ لوگ اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں اور اپنے دوستوں سے بات‌چیت کر رہے ہیں۔‏ اُنہیں پتہ بھی نہیں چلا کہ چیئرمین پلیٹ‌فارم پر آ چُکا ہے اور موسیقی شروع ہو گئی ہے۔‏ اُنہیں نہ تو وقت کا احساس ہے اور نہ ہی اِس بات کا کہ اُن کے اِردگِرد کیا ہو رہا ہے۔‏ اِس سے ہم ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ دُنیا میں ایک بہت بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے اور اِس کی نشانیاں صاف دِکھائی دے رہی ہیں۔‏ کیا ہم اِن نشانیوں پر دھیان دے رہے ہیں؟‏ کیا ہمیں احساس ہے کہ ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں؟‏

2.‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو چوکس رہنے کی ہدایت کیوں دی؟‏

2 جب یسوع مسیح ”‏دُنیا کے آخری زمانے“‏ کے بارے میں بات کر رہے تھے تو اُنہوں نے شاگردوں کو ہدایت دی کہ ”‏چوکس رہیں،‏ جاگتے رہیں،‏ کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ مقررہ وقت کب آئے گا۔‏“‏ اِس کے بعد اُنہوں نے اپنے شاگردوں  سے دوبارہ کہا کہ ”‏چوکس رہیں۔‏“‏ ‏(‏متی 24:‏3؛‏ مرقس 13:‏32-‏37 کو پڑھیں۔‏)‏ متی کی اِنجیل میں بھی یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دی کہ ”‏چوکس رہیں کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کا مالک کس دن آئے گا۔‏ .‏ .‏ .‏ تیار رہیں کیونکہ اِنسان کا بیٹا ایسے وقت پر آئے گا جب آپ کو توقع بھی نہیں ہوگی۔‏“‏ اِس کے بعد اُنہوں نے پھر سے کہا:‏ ”‏چوکس رہیں کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ یہ کس دن اور کس گھنٹے ہوگا۔‏“‏—‏متی 24:‏42-‏44؛‏ 25:‏13‏۔‏

3.‏ ہم یسوع مسیح کی ہدایت پر کیوں عمل کر رہے ہیں؟‏

3 یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم یسوع مسیح کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔‏ ہمیں احساس ہے کہ ہم ’‏آخری زمانے‘‏ کے آخری مرحلے میں رہ رہے ہیں اور جلد ہی ”‏بڑی مصیبت“‏ شروع ہونے والی ہے۔‏ (‏دان 12:‏4؛‏ متی 24:‏21‏)‏ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دُنیا میں جنگوں،‏ بےحیائی،‏ ظلم‌وتشدد،‏ جھوٹے مذاہب،‏ قحط،‏ وباؤں اور زلزلوں میں اِضافہ ہو رہا ہے۔‏ ہم یہ بھی  دیکھ رہے ہیں کہ پوری دُنیا میں بہت ہی بڑے پیمانے پر بادشاہت کی خوش‌خبری سنائی جا رہی ہے۔‏ (‏متی 24:‏7،‏ 11،‏ 12،‏ 14؛‏ لُو 21:‏11‏)‏ ہم شدت سے اُس وقت کا اِنتظار کر رہے ہیں جب یسوع مسیح آئیں گے اور یہوواہ خدا کی مرضی پوری کریں گے۔‏—‏مر 13:‏26،‏ 27‏۔‏

بڑی مصیبت کا وقت طے ہے

4.‏ ‏(‏الف)‏ ہم یہ نتیجہ کیوں اخذ کر سکتے ہیں کہ اب یسوع مسیح کو ہرمجِدّون کی جنگ کے شروع ہونے کا وقت معلوم ہے؟‏ (‏ب)‏ حالانکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ بڑی مصیبت کب شروع ہوگی لیکن ہم کس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

4 اِجتماع کے پروگرام کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ  یہ کس وقت شروع ہوگا۔‏ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ بڑی مصیبت کس سال،‏ دن یا گھنٹے شروع ہوگی۔‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اُس دن یا گھنٹے کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ،‏ نہ آسمان کے فرشتوں کو،‏ نہ بیٹے کو بلکہ صرف باپ کو۔‏“‏ (‏متی 24:‏36‏)‏ لیکن اب یسوع مسیح آسمان پر ہیں اور اُنہیں شیطان کی دُنیا کو تباہ کرنے کا اِختیار دیا گیا ہے۔‏ (‏مکا 19:‏11-‏16‏)‏ اِس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اب یسوع مسیح کو معلوم ہے کہ ہرمجِدّون کی جنگ کب شروع ہوگی۔‏ لیکن ہم یہ  بات  نہیں  جانتے اِس لیے ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ خدا بڑی مصیبت کا وقت طے کر چُکا ہے اور یہ مصیبت ”‏تاخیر نہ کرے گی“‏ بلکہ عین وقت پر شروع ہوگی۔‏ ‏(‏حبقوق 2:‏1-‏3 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم اِس بات پر پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

5.‏ اِس بات کی ایک مثال دیں کہ یہوواہ خدا کی پیش‌گوئیاں ہمیشہ عین وقت پر پوری ہوتی ہیں۔‏

5 یہوواہ خدا کی پیش‌گوئیاں ہمیشہ عین وقت پر پوری  ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر اُس نے عین وقت پر بنی‌اِسرائیل کو مصریوں سے چھڑایا۔‏ موسیٰ نے 14 نیسان 1513 قبل‌ازمسیح کے بارے میں کہا:‏ ”‏چار سو تیس برسوں کے گذر جانے پر ٹھیک اُسی روز [‏یہوواہ]‏ کا سارا لشکر ملکِ‌مصر سے نکل گیا۔‏“‏ (‏خر 12:‏40-‏42‏)‏ چار سو تیس سال کا یہ عرصہ 1943 قبل‌ازمسیح میں شروع ہوا۔‏ یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ عہد نافذ ہوا جو یہوواہ خدا نے ابراہام کے ساتھ باندھا تھا۔‏ (‏گل 3:‏17،‏ 18‏)‏ اِس کے کچھ عرصے بعد یہوواہ خدا نے ابراہام سے کہا:‏ ”‏یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں جو اُن کا نہیں پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلا‌می کریں گے اور وہ [‏لوگ]‏ چار سو برس تک اُن کو دُکھ دیں گے۔‏“‏ (‏پید 15:‏13؛‏ اعما 7:‏6‏)‏ اذیت کا یہ عرصہ 1913 قبل‌ازمسیح میں شروع ہوا جب اِسمٰعیل نے اِضحاق کا مذاق اُڑایا اور یہ 400 سال بعد یعنی 1513 قبل‌ازمسیح میں ختم ہوا جب بنی‌اِسرائیل مصر سے نکلے۔‏ (‏پید 21:‏8-‏10؛‏ گل 4:‏22-‏29‏)‏ واقعی یہوواہ خدا نے چار سو سال پہلے کی گئی اِس پیش‌گوئی کو عین وقت پر پورا کِیا۔‏

6.‏ ہم اِس بات پر پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو نجات دِلائے گا؟‏

6 یشوع اُن اِسرائیلیوں میں شامل تھے جو مصر سے نکل آئے تھے۔‏ اِس واقعے کے بہت عرصے بعد اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل سے کہا:‏ ”‏تُم خوب جانتے ہو کہ اُن سب اچھی باتوں میں سے جو [‏یہوواہ]‏ تمہارے خدا نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چُھوٹی۔‏ سب تمہارے حق میں پوری ہوئیں اور ایک بھی اُن میں سے رہ نہ گئی۔‏“‏ (‏یشو 23:‏2،‏ 14‏)‏ یہوواہ  خدا  نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو بڑی مصیبت کے دوران محفوظ رکھے گا اور نئی دُنیا میں لے آئے گا۔‏ ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اُس کا یہ وعدہ بھی ضرور پورا ہوگا۔‏ لیکن اگر ہم  اُس وقت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ابھی چوکس رہنا پڑے گا۔‏

چوکس رہیں اور جان بچائیں

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ قدیم زمانے میں پہرےداروں کی کیا ذمےداری تھی اور ہم اِس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مثال دے کر بتائیں کہ جب پہرےدار سو جاتے تھے تو اِس کا کیا انجام ہو سکتا تھا۔‏

7 قدیم زمانے میں بڑے شہروں کے گِرد اُونچی اُونچی  دیواریں ہوتی تھیں۔‏ اِن دیواروں کی وجہ سے دُشمن شہر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‏ اِس کے علا‌وہ پہرےدار اِن پر کھڑے ہو کر پورے علا‌قے پر نظر رکھ سکتے تھے۔‏ وہ دن رات شہر کی دیواروں اور دروازوں پر پہرہ دیتے تھے۔‏ اُن کی ذمےداری یہ تھی کہ وہ شہر کے باشندوں کو خطروں سے آگاہ کریں۔‏ (‏یسع 62:‏6‏)‏ اگر پہرےدار جاگتے اور چوکس نہ رہتے تو شہر کے باشندوں کی جانیں خطرے میں ہوتیں۔‏—‏حِز 33:‏6‏۔‏

8 یہودی تاریخ‌دان یوسیفس نے بتایا کہ 70ء میں رومی فوجیں اِس لیے یروشلیم میں داخل ہو سکیں کیونکہ قلعہِ‌اینٹونیا کے پہرےدار سو گئے تھے۔‏ یہ قلعہ یروشلیم کی دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا۔‏ قلعے کے ذریعے رومی فوجیں ہیکل میں داخل ہوئیں اور اِسے آگ لگا دی۔‏ یہ اُس بڑی مصیبت کا آخری مرحلہ تھا جو یروشلیم اور یہودی قوم پر آئی تھی۔‏

9.‏ آج‌کل زیادہ‌تر لوگ کس بات سے بےخبر ہیں؟‏

9 آج‌کل زیادہ‌تر حکومتیں جدید ٹیکنالوجی اور فوجی دستوں کے ذریعے اپنی سرحدوں کی نگرانی کراتی ہیں تاکہ کوئی دُشمن اُن کے ملک میں نہ آ سکے۔‏ لیکن یہ حکومتیں ایک بہت ہی طاقت‌ور آسمانی حکومت کے وجود سے بےخبر ہیں جو جلد ہی اِن سے جنگ کرے گی۔‏ یہ حکومت یسوع مسیح کی بادشاہت ہے۔‏ (‏یسع 9:‏6،‏ 7؛‏ 56:‏10؛‏ دان 2:‏44‏)‏ مگر ہم اِس حکومت کے بارے میں نہ صرف جانتے ہیں بلکہ اِس کے آنے کے منتظر بھی ہیں۔‏—‏زبور 130:‏6‏۔‏

خود پر روحانی غنودگی طاری نہ ہونے دیں

10،‏ 11.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں کس بات سے خبردار رہنا چاہیے اور یہ اِتنا اہم کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کو اِس بات کا یقین کیوں ہے کہ شیطان نے لوگوں کے ذہن پر پردہ ڈالا ہے؟‏

10 جو پہرےدار پوری رات  پہرہ  دیتے  ہیں،‏  عموماً  اُنہیں پہرے کے آخری گھنٹوں کے دوران زیادہ نیند آتی ہے۔‏ اِسی طرح جوں‌جوں بُری دُنیا کے خاتمے کا وقت قریب آ رہا ہے،‏ ہمارے لیے چوکس رہنا زیادہ مشکل ہو رہا ہے۔‏ یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر ہم روحانی طور پر سو جائیں۔‏ اِس لیے آئیں،‏ تین ایسی باتوں پر غور کریں جن کی وجہ سے ہم پر روحانی غنودگی طاری ہو سکتی ہے۔‏

11 شیطان لوگوں کو روحانی نیند سلا رہا  ہے۔‏ یسوع مسیح نے اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے اپنے شاگردوں کو تین بار اِس ”‏دُنیا کے حاکم“‏ سے خبردار کِیا۔‏ (‏یوح 12:‏31؛‏ 14:‏30؛‏ 16:‏11‏)‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ شیطان لوگوں کے ذہن پر پردہ ڈالے گا تاکہ وہ دُنیا کے خاتمے کے بارے میں کی گئی پیش‌گوئیوں کو نظرانداز کریں۔‏ (‏صفن 1:‏14‏)‏  اور  واقعی شیطان جھوٹے مذاہب کے ذریعے لوگوں کو روحانی طور پر اندھا کر رہا ہے۔‏ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ جب آپ لوگوں کو دُنیا کے خاتمے اور مسیح کی حکمرانی کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ آپ کی بات سننا ہی نہیں چاہتے۔‏ کیا یہ اِس بات کا ثبوت نہیں کہ شیطان نے زیادہ‌تر لوگوں کی ’‏عقلوں کو اندھا‘‏ کر رکھا ہے؟‏—‏2-‏کُر 4:‏3-‏6‏۔‏

12.‏ ہمیں شیطان کے دھوکے میں کیوں نہیں آنا چاہیے؟‏

12 لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے خود چوکس رہنا  نہ  چھوڑ دیں۔‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏آپ تو جانتے ہی  ہیں کہ یہوواہ کا دن بالکل ویسے ہی آنے والا ہے جیسے رات کو چور آتا ہے۔‏“‏ ‏(‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏1-‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ اور یسوع مسیح نے یہ آگاہی دی:‏ ”‏تیار رہیں کیونکہ اِنسان کا بیٹا ایسے وقت پر آئے گا جب آپ کو توقع بھی نہیں ہوگی۔‏“‏ (‏لُو 12:‏39،‏ 40‏)‏ بہت جلد شیطان لوگوں کو یقین دِلائے گا کہ زمین پر ”‏امن اور سلا‌متی“‏ کا دَور شروع ہو گیا ہے اور زیادہ‌تر لوگ اِس دھوکے میں آ جائیں گے۔‏ مگر پھر یہوواہ کا دن ایک چور کی طرح اچانک آ جائے گا اور اُن سب کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔‏ اگر ہم نہیں چاہتے کہ وہ دن ہم پر بھی ’‏اچانک آ پڑے‘‏ تو ہمیں اِس ہدایت پر عمل کرنا ہوگا:‏ ”‏جاگتے رہیں اور اپنے ہوش‌وحواس قائم رکھیں۔‏“‏ اِس کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم ہر روز خدا کے کلام کو پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔‏

13.‏ دُنیا کی روح لوگوں پر کیسے اثر کر رہی ہے اور ہم اِس کے اثر سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

13 دُنیا کی روح لوگوں کو روحانی سُستی میں مبتلا کر رہی ہے۔‏ بہت سے لوگوں کو زندگی کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ ”‏اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔‏“‏ (‏متی 5:‏3‏)‏ یہ دُنیا ایسی چیزوں کی  پیشکش  کرتی ہے جن کی وجہ سے لوگوں کا دھیان ”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش“‏ کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے۔‏ (‏1-‏یوح 2:‏16‏)‏ یہ دُنیا تفریح کرنے کے نت‌نئے طریقے بھی پیش کرتی ہے جن کی وجہ سے لوگوں پر ”‏موج مستی“‏ کرنے کا نشہ چڑھا رہتا ہے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏4‏)‏ اِن سب باتوں کی وجہ سے لوگوں پر روحانی سُستی چھا جاتی ہے۔‏ اِسی لیے پولُس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ وہ ”‏جسم کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے منصوبے نہ باندھیں۔‏“‏—‏روم 13:‏11-‏14‏۔‏

14.‏ لُوقا 21:‏34،‏ 35 میں کس بات سے خبردار کِیا گیا ہے؟‏

14 ہم دُنیا کی روح کے مطابق  نہیں  بلکہ  خدا  کی  روح  کے مطابق چلنا چاہتے ہیں۔‏ خدا نے اپنی روح کے ذریعے ہمیں بتایا  ہے کہ مستقبل میں کون کون سے واقعات پیش آئیں گے۔‏ ‏[‏1]‏   (‏1-‏کُر 2:‏12‏)‏ لیکن ہمیں خبردار رہنا چاہیے کیونکہ ہم بڑی آسانی سے روحانی غنودگی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا دھیان عام سی باتوں کی وجہ سے بھی خدا کی خدمت سے ہٹ سکتا ہے۔‏ ‏(‏لُوقا 21:‏34،‏ 35 کو پڑھیں۔‏)‏ شاید لوگ یہ دیکھ کر ہمارا مذاق اُڑائیں کہ ہم اِس دُنیا کے خاتمے کے منتظر ہیں۔‏ لیکن ہم چوکس رہیں گے کیونکہ ہمارے پاس اِس بات کے ثبوت ہیں کہ خاتمہ واقعی نزدیک ہے۔‏ (‏2-‏پطر 3:‏3-‏7‏)‏ خدا کی پاک روح حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے اِجلا‌سوں پر جائیں۔‏

کیا آپ چوکس رہنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 11-‏16 کو دیکھیں۔‏)‏

15.‏ پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کے ساتھ کیا ہوا اور ہم ایسا کرنے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟‏

15 گُناہ کرنے کے رُجحان کی وجہ سے چوکس رہنے کا اِرادہ کمزور پڑ سکتا ہے۔‏ یسوع مسیح جانتے تھے  کہ اِنسان گُناہ کرنے کے رُجحان کی وجہ  سے  اپنی  جسمانی  خواہشوں کے سامنے جھکنے کے خطرے میں ہیں۔‏ ذرا غور کریں کہ اُس رات کیا ہوا جب یسوع مسیح کو گِرفتار کِیا گیا۔‏ وہ جانتے تھے کہ  خدا  کا وفادار رہنے کے لیے اُنہیں اُس کی مدد مانگنے کی ضرورت  ہے۔‏ وہ پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا کو چوکس رہنے کی ہدایت  دے  کر خود دُعا کرنے چلے گئے۔‏ لیکن اِن تینوں نے نیند  کے  غلبے  کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔‏ یسوع مسیح بھی تھکے  ہوئے  تھے  مگر وہ چوکس رہے اور اپنے باپ سے دُعا کرتے  رہے۔‏  بِلا‌شُبہ  ایسے نازک وقت میں پطرس،‏ یعقوب اور  یوحنا  کو  بھی  دُعا  کرنے  میں لگے رہنا چاہیے تھا۔‏—‏مر 14:‏32-‏41‏۔‏

16.‏ لُوقا 21:‏36 کے مطابق چوکس رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

16 یہ کافی نہیں کہ ہم چوکس رہنے کی بس خواہش  رکھیں  بلکہ ہمیں کچھ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‏ اپنی موت سے کچھ دن پہلے یسوع مسیح نے پطرس،‏ یعقوب اور یوحنا سے کہا کہ اُنہیں یہوواہ خدا سے مدد مانگتے رہنے کی ضرورت ہے۔‏ ‏(‏لُوقا 21:‏36 کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا ہمیں بھی دُعا کرنے میں مگن رہنا چاہیے تاکہ ہم اِس آخری زمانے میں چوکس رہ سکیں۔‏—‏1-‏پطر 4:‏7‏،‏ فٹ‌نوٹ۔‏

آئندہ بھی چوکس رہیں

17.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم آنے والے واقعات کے لیے تیار رہیں؟‏

17 یسوع مسیح نے کہا تھا کہ خاتمہ ”‏ایسے وقت پر  آئے  گا جب آپ کو توقع بھی نہیں ہوگی۔‏“‏ (‏متی 24:‏44‏)‏ لہٰذا اب روحانی طور پر اُونگھنے کا وقت نہیں ہے۔‏ یہ اُن خوابوں کے پیچھے بھاگنے کا وقت بھی نہیں جو شیطان اور اُس کی دُنیا ہمیں دِکھاتے ہیں۔‏ خدا اور یسوع مسیح نے پاک کلام کے ذریعے ہمیں آگاہ کِیا ہے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ہم چوکس رہنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‏ ہمیں خدا کی عبادت کے معمول پر قائم رہنا چاہیے،‏ اُس کی قربت میں رہنا چاہیے اور بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہیے۔‏ ہمیں اِس بات پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ ہم کس زمانے میں رہ رہے ہیں اور ہمارے اِردگِرد کیا ہو رہا ہے۔‏ یوں ہم آنے والے واقعات کے لیے تیار رہیں گے اور اپنی جان بچا سکیں گے۔‏—‏مکا 22:‏20‏۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 14)‏ مینارِنگہبانی،‏ 15 جولائی 2015ء،‏ صفحہ 14-‏19 کو دیکھیں۔‏