اِطمینان کیسے حاصل کریں؟
ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو پریشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اِس لیے اِطمینان حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ * اور اِطمینان پانے کے بعد اِسے برقرار رکھنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ البتہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہم حقیقی اور دائمی اِطمینان کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اِس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہم ایسا کرنے میں دوسروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔
اِطمینان حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے؟
حقیقی اِطمینان حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو محفوظ محسوس کریں۔ اِس کے علاوہ ہمیں اچھے دوستوں کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر ہمیں خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
جب ہم یہوواہ کے حکموں اور اصولوں پر چلتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس پر بھروسا رکھتے ہیں اور اُس کے دوست بننا چاہتے ہیں۔ (یرمیاہ 17:7، 8؛ یعقوب 2:22، 23) اِس طرح یہوواہ ہمارے قریب آتا ہے اور ہمیں ذہنی سکون اور اِطمینان دیتا ہے۔ یسعیاہ 32:17 میں لکھا ہے: ”صداقت کا انجام صلح ہوگا اور صداقت کا پھل ابدی آرامواطمینان ہوگا۔“ لہٰذا ہمیں حقیقی ”سلامتی“ [”سکون،“ نیو اُردو بائبل ورشن] تبھی ملے گی جب ہم دل سے خدا کی فرمانبرداری کریں گے۔—یسعیاہ 48:18، 19۔
یہوواہ نے ہمیں ایک نعمت بھی دی ہے جس کی بدولت ہم دائمی اِطمینان حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ یہ نعمت اُس کی پاک روح ہے۔—اعمال 9:31۔
پاک روح حقیقی اِطمینان اور امن پیدا کرتی ہے
پولُس رسول نے کہا کہ اِطمینان ’روح کے پھل‘ کا حصہ ہے۔ (گلتیوں 5:22، 23) چونکہ حقیقی اِطمینان اور امن خدا کی پاک روح کے ذریعے پیدا ہوتا ہے اِس لیے حقیقی اِطمینان حاصل کرنے اور دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے کے لیے ہمیں پاک روح کی رہنمائی میں چلنا چاہیے۔ آئیں، دیکھیں کہ اِس کے لیے ہمیں کون سے دو کام کرنے ہوں گے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں باقاعدگی سے بائبل پڑھنی چاہیے۔ (زبور 1:2، 3) جب ہم اُن باتوں پر گہرائی سے سوچ بچار کرتے ہیں جو ہم بائبل میں پڑھتے ہیں تو خدا کی پاک روح ہمیں مختلف معاملات کے سلسلے میں خدا کی سوچ کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ سمجھ پاتے ہیں کہ خدا پُرامن کیسے رہتا ہے اور اُس کی نظر میں امن اِتنا اہم کیوں ہے۔ جب ہم بائبل سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں تو ہم امنوسلامتی سے زندگی گزار پاتے ہیں۔—امثال 3:1، 2۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں خدا سے اُس کی پاک روح مانگنی چاہیے۔ (لُوقا 11:13) اگر ہم یہوواہ کی مدد کے طلبگار ہوں گے تو وہ ہمیں ایسا ”اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے اور یہ اِطمینان مسیح یسوع کے ذریعے [ہمارے] دل اور سوچ کو محفوظ رکھے گا۔“ (فِلپّیوں 4:6، 7) لہٰذا جب ہم یہوواہ کے قریب رہتے ہیں اور اُس کی پاک روح کی رہنمائی میں چلتے ہیں تو وہ ہمارے دلوں کو اِطمینان سے بھر دیتا ہے۔—رومیوں 15:13۔
بہت سے لوگوں نے بائبل کی مدد سے اپنی زندگی میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اِس طرح اُن کی خدا کے ساتھ صلح ہو گئی ہے، اُنہیں ذہنی اِطمینان حاصل ہوا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے لگے ہیں۔ لیکن وہ لوگ ایسی تبدیلیاں کرنے کے قابل کیسے ہوئے ہیں؟
پہلے غصیلے مگر اب امنپسند
ہمارے کچھ بہن بھائی سچائی میں آنے سے پہلے غصیلے اور متشدد تھے۔ لیکن اُنہوں نے اپنی شخصیت کو بدلنے کے لیے کڑی محنت کی اور اب وہ مہربان بن گئے ہیں، تحمل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ امن سے رہتے ہیں۔ * (امثال 29:22) اِس حوالے سے ذرا ڈیوِڈ نامی بھائی اور ریچل نامی بہن کی مثال پر غور کریں۔
سچائی میں آنے سے پہلے ڈیوِڈ اکثر دوسروں پر تنقید کرتے تھے اور اپنے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ بڑے سخت لہجے میں بات کرتے
تھے۔ لیکن پھر اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کس چیز نے امنپسند بننے میں ڈیوِڈ کی مدد کی؟ وہ کہتے ہیں: ”مَیں نے بائبل کے اصولوں پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مَیں اپنے گھر والوں کی عزت کرنے لگا اور اُن کی نظر میں میری عزت بڑھی۔“ریچل پر اُس ماحول کا بڑا اثر تھا جس میں اُنہوں نے پرورش پائی تھی۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں ایک ایسے خاندان میں پلی بڑھی تھی جس کے سب افراد بہت غصے والے تھے۔ اِس لیے مجھے اب بھی اپنے غصے پر قابو پانا مشکل لگتا ہے۔“ ریچل امنپسند بننے کے قابل کیسے ہوئیں؟ وہ کہتی ہیں: ”یہوواہ سے دُعا کرنے اور اُس پر بھروسا رکھنے سے۔“
ڈیوِڈ اور ریچل کے علاوہ بھی بہت سے لوگ بائبل کے اصولوں پر عمل کرنے اور پاک روح کی رہنمائی میں چلنے سے حقیقی اِطمینان حاصل کرنے اور امنپسند بننے کے قابل ہوئے ہیں۔ اگرچہ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جس میں لوگ بات بات پر بھڑک اُٹھتے ہیں پھر بھی ہم ذہنی اِطمینان حاصل کر سکتے اور پُرامن رہ سکتے ہیں۔ یوں ہم اپنے گھر والوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہوواہ ہمیں نہ صرف اپنے گھر والوں اور ہمایمانوں کے ساتھ بلکہ ”سب کے ساتھ امن“ سے رہنے کی نصیحت کرتا ہے۔ (رومیوں 12:18) کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ اور جب ہم سب کے ساتھ امن سے رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
سب کے ساتھ امن سے رہیں
مُنادی کے دوران ہم لوگوں کو امنوسلامتی کا پیغام سناتے ہیں۔ (یسعیاہ 9:6، 7؛ متی 24:14) بہت سے لوگ ہمارے پیغام کو قبول کرتے ہیں۔ یوں وہ غصے اور مایوسی کے اُن جذبات سے باہر نکل پاتے ہیں جو دُنیا کے حالات کو دیکھ کر اُن میں پیدا ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہیں مستقبل کے سلسلے میں ایک شاندار اُمید ملتی ہے اور وہ امن اور ’صلح کے طالب‘ بن جاتے ہیں۔—زبور 34:14۔
لیکن ہر کوئی ہمارے پیغام کو قبول نہیں کرتا، خاص طور پر شروع شروع میں۔ (یوحنا 3:19) ہمارا پیغام سننے کے بعد چاہے لوگ جیسا بھی ردِعمل دِکھائیں، خدا کی پاک روح ہمیں اِس قابل بناتی ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ احترام سے بات کر سکیں اور امن برقرار رکھ سکیں۔ یوں ہم یسوع کی اِس ہدایت پر عمل کرنے کے قابل ہوتے ہیں: ”جب آپ کسی گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں کے لیے سلامتی چاہیں۔ اگر وہ گھر اِس لائق ہے تو اُس پر سلامتی ہوگی اور اگر وہ گھر اِس لائق نہیں ہے تو وہ سلامتی آپ پر لوٹ آئے گی۔“ (متی 10:11-13) اگر ہم اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو ہمارا ذہنی اِطمینان قائم رہتا ہے پھر چاہے ہمارا پیغام سننے کے بعد لوگوں کا رویہ کچھ بھی ہو۔ اِس کے علاوہ ہم یہ اُمید رکھ پاتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں پھر سے اُن لوگوں کی مدد کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
ہم اُس وقت بھی امن کو فروغ دیتے ہیں جب ہم حکومتی اہلکاروں کے ساتھ احترام سے بات کرتے ہیں، یہاں تک کہ ایسے اہلکاروں کے ساتھ بھی جو ہمارے کام کی مخالفت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر افریقہ کے ایک ملک کی حکومت نے وہاں کنگڈم ہال بنانے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ ہمارے بھائی جانتے تھے کہ اُنہیں اِس مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنا ہوگا۔ لہٰذا اُنہوں نے ایک بھائی کو جو کہ افریقہ کے اُس ملک میں مشنری رہ چُکا تھا، لندن میں اُس ملک کے ہائی کمشنر سے ملنے کو بھیجا۔ اُس بھائی نے ہائی کمشنر کو بتانا تھا کہ یہوواہ کے گواہوں کے کام سے امن کو کیسے فروغ ملتا ہے۔
اُس بھائی نے کہا: ”جب مَیں ہائی کمشنر سے ملنے گیا تو ریسیپشن پر بیٹھی عورت کے لباس کو دیکھ کر مَیں سمجھ گیا کہ اُس کا تعلق اُس قبیلے سے ہے جس کی زبان مَیں نے سیکھی تھی۔ اِس لیے مَیں نے اُس کی زبان میں اُسے سلام کِیا۔ وہ اِس پر حیران ہوئی۔ پھر اُس نے مجھ سے پوچھا: ”آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں؟“ مَیں نے نرمی سے اُسے بتایا کہ مجھے ہائی کمشنر سے ملنا ہے۔ اُس نے اُسے فون لگایا جس پر وہ مجھ سے ملنے آیا۔ اُس نے مجھ سے مقامی زبان میں سلام دُعا کی۔ اِس کے بعد مَیں نے اُسے یہوواہ کے گواہوں کی پُرامن سرگرمیوں کے بارے میں بتایا اور اُس نے بڑے دھیان سے میری بات سنی۔“
اُس بھائی کی بات سننے کے بعد ہمارے کام کے حوالے سے ہائی کمشنر کی غلطفہمیاں دُور ہو گئیں اور اُس کے دل میں ہمارے لیے جو تعصب تھا، وہ بھی کافی حد تک کم ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد افریقہ کے اُس ملک کی حکومت نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور یہوواہ کے گواہوں کو کنگڈم ہال بنانے کی اِجازت دے دی۔ اِس پر بھائیوں کے دل باغ باغ ہو گئے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم دوسروں کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں تو ہم امن کو فروغ دیتے ہیں۔
ابدی زندگی اور دائمی اِطمینان
آج یہوواہ کے بندے ایک روحانی فردوس کا حصہ ہیں جس میں پُرامن ماحول پایا جاتا ہے۔ اِس امن کو فروغ دینے کے لیے ہمیں سب کے ساتھ صلح صفائی سے رہنا چاہیے۔ یوں یہوواہ ہم سے خوش ہوگا اور نئی دُنیا میں ہمیں ایسا اِطمینان بخشے گا جو ہمیشہ قائم رہے گا۔—2-پطرس 3:13، 14۔
^ پیراگراف 2 بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ ”اِطمینان“ کِیا گیا ہے، اُس کا ترجمہ سیاقوسباق کے مطابق ”امن،“ ”صلح،“ ”سلامتی“ اور ”سکون“ بھی کِیا گیا ہے۔ اِس مضمون میں ہم اپنا ذہنی اِطمینان برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ امن سے رہنے پر بھی بات کریں گے۔
^ پیراگراف 13 مضامین کے اِس سلسلے کے آنے والے ایک مضمون میں مہربانی کی خوبی پر بات کی جائے گی۔