ہم عظیم رحمت کے ذریعے گُناہ سے آزاد ہیں
”گُناہ کو آپ کا مالک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ . . . عظیم رحمت کے تحت ہیں۔“—روم 6:14۔
1، 2. یہوواہ کے گواہ رومیوں 5:12 کو اکثر کیوں اِستعمال کرتے ہیں؟
فرض کریں کہ آپ ایسی آیتوں کی فہرست بنا رہے ہیں جو یہوواہ کے گواہ اکثر اِستعمال کرتے ہیں۔ یقیناً آپ اِس فہرست میں رومیوں 5:12 کو بھی شامل کریں گے جس میں لکھا ہے: ”ایک آدمی کے ذریعے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے ذریعے موت آئی اور موت سب لوگوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گُناہ کِیا۔“
2 یہ آیت کتاب ”پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں“ میں بار بار اِستعمال ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ کسی کو اِس کتاب کے ذریعے بائبل کورس کراتے ہیں تو آپ اِس آیت کو باب نمبر 3، 5 اور 6 میں پڑھیں گے۔ اِن ابواب میں یہ آیت اِس بات کی وضاحت کرنے کے لیے اِستعمال کی گئی ہے کہ خدا نے زمین کو کس مقصد کے لیے بنایا ہے، فدیہ خدا کی طرف سے ایک بیشقیمت تحفہ کیوں ہے اور مرنے پر کیا واقع ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی اپنے اعمال، اپنے مستقبل اور یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کے حوالے سے بھی رومیوں 5:12 پر غور کِیا ہے؟
3. ہم کس حقیقت سے نظر نہیں چُرا سکتے؟
3 ہم اِس حقیقت سے نظر نہیں چُرا سکتے کہ ہم سب گُناہگار ہیں اور ہر روز غلطیاں کرتے زبور 103:13، 14) جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھائی تو اُنہوں نے یہ درخواست بھی شامل کی کہ ”ہمارے گُناہ معاف کر۔“ (لُو 11:2-4) جب خدا ہمارا کوئی گُناہ معاف کرتا ہے تو ہمیں اِس گُناہ کے لیے خود کو کوستے نہیں رہنا چاہیے۔ لیکن ہمیں اِس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ خدا ہمیں کس بِنا پر معاف کرتا ہے۔
ہیں۔ لیکن یہوواہ خدا کو یاد ہے کہ ہم خاک ہیں اور وہ ہم پر رحم کرنے کو تیار ہے۔ (یہوواہ کس بِنا پر ہمیں معاف کرتا ہے؟
4، 5. (الف) ہمیں رومیوں 5:12 کی وضاحت کہاں سے مل سکتی ہے؟ (ب) اِصطلاح ”عظیم رحمت“ کا کیا مطلب ہے؟
4 رومیوں 5:12 میں بتائی گئی بات کی وضاحت رومیوں کے خط کے باقی ابواب میں اور خاص طور پر اِس کے چھٹے باب میں کی گئی ہے۔ اِس خط میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ خدا ہمارے گُناہ کس بِنا پر معاف کرتا ہے۔ مثال کے طور پر رومیوں 3 باب میں لکھا ہے: ”سب نے گُناہ کِیا ہے . . .۔ یہ تو ایک نعمت ہے کہ اُن کو خدا کی عظیم رحمت کے ذریعے نیک قرار دیا جا رہا ہے اور اُس فدیے کے ذریعے رِہائی دِلائی جا رہی ہے جو مسیح یسوع نے ادا کِیا تھا۔“ (روم 3:23، 24) اِصطلاح ”عظیم رحمت“ کا کیا مطلب ہے؟ پولُس رسول نے اِس اِصطلاح کے لیے جو یونانی لفظ اِستعمال کِیا، اِس کے بارے میں ایک لغت میں یہ کہا گیا ہے: ”اِس لفظ کا اِشارہ ایسی نعمت کی طرف ہے جو بڑی فیاضی سے دی جاتی ہے اور جس کے بدلے میں کسی چیز کی توقع نہیں کی جاتی۔“
5 عالم جان پارکہرسٹ نے کہا: ”جب یہ [یونانی] لفظ خدا یا مسیح کے سلسلے میں اِستعمال ہوتا ہے تو عام طور پر اِس کا اِشارہ اُس رحمت کی طرف ہے جس کی بِنا پر اُنہوں نے اِنسانوں کو نجات دِلائی ہے۔ یہ رحمت نہ تو کمائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اِنسان اِس کے مستحق ہیں۔“ اِس وجہ سے ”ترجمہ نئی دُنیا“ میں اِس یونانی لفظ کا ترجمہ ”عظیم رحمت“ کِیا گیا ہے۔ لیکن خدا نے عظیم رحمت کیسے ظاہر کی؟ اور اِس کا آپ کے مستقبل اور خدا کے ساتھ آپ کی دوستی سے کیا تعلق ہے؟
6. اِنسانوں کو خدا کی عظیم رحمت سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
6 آدم ہی وہ شخص تھے جن کے ذریعے گُناہ اور موت دُنیا میں آئے۔ یوں ”ایک آدمی کے گُناہ کی وجہ سے موت نے . . . حکمرانی کی۔“ لیکن پولُس رسول نے یہ بھی کہا کہ ”ایک آدمی یعنی یسوع مسیح . . . کے ذریعے“ خدا نے تمام اِنسانوں کو کثرت سے عظیم رحمت عطا کی۔ (روم 5:12، 15، 17) دراصل ”ایک آدمی کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگوں کو نیک ٹھہرایا جائے گا“ اور خدا کی عظیم رحمت کی بِنا پر اُنہیں ’ہمیشہ کی زندگی دی جائے گی۔‘—روم 5:19، 21۔
7. فدیے کے بندوبست سے خدا کی عظیم رحمت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟
7 خدا پر فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجے تاکہ وہ ہمارے گُناہوں کے لیے فدیہ عطا کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام اِنسان عیبدار اور گُناہگار ہیں اور خدا کی عظیم رحمت کے لائق نہیں ہیں۔ لیکن خدا اور یسوع مسیح نے عظیم رحمت ظاہر کی اور فدیے کے ذریعے اِنسانوں کے گُناہ معاف کرنے کے لیے راہ کھول دی اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیا۔ خدا کی عظیم رحمت واقعی ایک نعمت ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں اِس نعمت کے لیے قدر ظاہر کرنی چاہیے۔
خدا کی عظیم رحمت کی قدر کریں
8. ہمیں کس غلط سوچ سے خبردار رہنا چاہیے؟
8 آدم کی اولاد ہونے کے ناتے ہم سب گُناہ کرنے کی طرف مائل ہیں۔ مگر یہ سوچنا غلط ہوگا کہ ”گُناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ خدا تو رحیم ہے، وہ مجھے معاف کر دے گا۔“ ایسی سوچ خدا کی عظیم رحمت کی ناقدری کرنے کے برابر ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلی صدی عیسوی میں بھی کچھ مسیحی اِس غلط سوچ میں مبتلا تھے۔ (یہوداہ 4 کو پڑھیں۔) ہمیں خبردار رہنا چاہیے کہ ایسی سوچ ہمارے دل میں جڑ نہ پکڑے۔
9، 10. پولُس رسول اور اُن کے زمانے کے باقی مسیحی گُناہ اور موت کی غلامی سے کیسے آزاد ہو گئے؟
رومیوں 6:1، 2 کو پڑھیں۔) پولُس کی اِس بات کا کیا مطلب ہے؟
9 پولُس رسول نے اِس بات پر زور دیا کہ مسیحیوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ خدا اُن کے گُناہوں کو اِس لیے نظرانداز کر دے گا کیونکہ وہ بہت رحیم ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مسیحی ”گُناہ کے حوالے سے مر گئے ہیں۔“ (10 خدا نے فدیے کی بِنا پر پولُس رسول اور اُن کے زمانے کے باقی مسیحیوں کے گُناہ معاف کر دیے، اُنہیں پاک روح سے مسح کِیا اور اُنہیں اپنے بیٹوں کے طور پر قبول کِیا جس کے نتیجے میں وہ آسمان پر جانے کی اُمید رکھ سکتے تھے۔ جو مسیحی خدا کے وفادار رہے، اُنہیں آسمان پر مسیح کے ساتھ حکمرانی کرنے کا شرف عطا کِیا گیا۔ مگر پولُس رسول نے اِن مسیحیوں کے بارے میں یہ کیوں کہا کہ وہ ”گُناہ کے حوالے سے مر گئے ہیں“ جبکہ وہ اُس وقت زمین پر زندہ تھے؟ کیونکہ اُن کی زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ پولُس رسول نے اُن کی زندگی کا موازنہ یسوع مسیح کی زندگی سے کِیا جو اِنسان کے طور پر مر گئے لیکن روحانی مخلوق کے طور پر زندہ کیے گئے۔ تب موت اُن کی مالک نہیں رہی۔ اِسی طرح یہ مسیحی بھی مسح ہونے کے بعد اپنے پُرانے طرزِزندگی کے حوالے سے مر گئے تھے۔ اب وہ اپنی غلط خواہشوں کے غلام نہیں رہے تھے اور اِن کے اِشاروں پر نہیں چلتے تھے۔ اِس لیے پولُس رسول اُن سے کہہ سکتے تھے کہ ”آپ . . . گُناہ کے حوالے سے مر گئے ہیں لیکن مسیح یسوع کے ذریعے خدا کے حوالے سے جی رہے ہیں۔“—روم 6:9، 11۔
11. کیا وہ مسیحی بھی ”گُناہ کے حوالے سے مر گئے ہیں“ جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں؟
11 لیکن جو مسیحی زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں، کیا وہ بھی ”گُناہ کے حوالے سے مر گئے ہیں“؟ سچ تو یہ ہے کہ مسیحی ہونے سے پہلے ہم سب اکثر گُناہ کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں احساس بھی نہیں تھا کہ ہمارے کام خدا کی نظر میں کتنے بُرے تھے۔ ہم ’ناپاکی اور بُرائی کے غلام‘ تھے۔ (روم 6:19، 20) پھر ہم نے بائبل کی تعلیم حاصل کی، اپنی زندگی میں تبدیلیاں لائیں، خود کو خدا کے لیے وقف کِیا اور بپتسمہ لے لیا۔ اُس وقت سے ہم خدا کی تعلیمات کے ’دل سے فرمانبردار‘ ہیں اور ”گُناہ کے غلام“ نہیں رہے بلکہ ”نیکی کے غلام“ بن گئے ہیں۔ (روم 6:17، 18) اِس وجہ سے ہمارے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ”ہم گُناہ کے حوالے سے مر گئے ہیں۔“
12. رومیوں 6:12 کے مطابق کون سی بات ہمارے ہاتھ میں ہے؟
12 پولُس رسول نے ہدایت دی کہ ”اپنے جسم کی خواہشوں کا کہنا نہ مانیں اور یوں گُناہ کو اپنے فانی جسم پر حکمرانی نہ کرنے دیں۔“ (روم 6:12) اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنی غلط خواہشوں پر عمل کریں گے یا نہیں۔ لہٰذا خود سے پوچھیں: ”جب کبھی میرے دل میں کوئی غلط خواہش پیدا ہوتی ہے تو مَیں کیا کرتا ہوں؟ کیا مَیں اِس کا مقابلہ کرتا ہوں یا پھر اِس کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہوں؟ کیا مَیں واقعی گُناہ کے حوالے سے مر گیا ہوں؟“ اگر ہم دل سے اِس بات کی قدر کرتے ہیں کہ خدا نے اپنی عظیم رحمت کی بِنا پر ہمارے گُناہ معاف کیے ہیں تو ہم اپنی غلط خواہشوں کا مقابلہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
گُناہ کا مقابلہ کرتے رہیں
13. اِس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ غلط روِش کو چھوڑنا ممکن ہے؟
13 خدا کے بندے اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اِس لیے اُنہوں نے ایسا پھل لانا چھوڑ دیا ہے جس کا ”انجام موت ہے۔“ ماضی میں اُن کا طرزِزندگی ایسا تھا ’جس کی وجہ سے اب وہ شرمندہ ہیں‘ لیکن پھر وہ بدل گئے۔ (روم 6:21) ذرا غور کریں کہ پولُس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کے بارے میں کیا لکھا۔ اُن میں سے کچھ بُتپرست، حرامکار، ہمجنسپرست، چور، شرابی وغیرہ تھے۔ لیکن اُنہیں ”پاک صاف“ کِیا گیا۔ (1-کُر 6:9-11) ہو سکتا ہے کہ روم کی کلیسیا میں بھی کچھ ایسے مسیحی تھے کیونکہ پولُس رسول نے اُن کو لکھا: ”اپنے اعضا کو گُناہ کے حضور بُرائی کے ہتھیار کے طور پر پیش نہ کریں بلکہ اپنے اعضا کو خدا کے حضور نیکی کے ہتھیار کے طور پر پیش کریں اور اپنے آپ کو خدا کے حضور ایسے لوگوں کے طور پر پیش کریں جو مُردوں میں سے زندہ ہوئے ہیں۔“ (روم 6:13) پولُس رسول کو پکا یقین تھا کہ یہ مسیحی اپنی سوچ اور اپنے چالچلن کو پاک صاف رکھ سکتے ہیں اور یوں خدا کی عظیم رحمت کے سائے میں رہ سکتے ہیں۔
14، 15. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم ’دل سے خدا کے فرمانبردار‘ ہیں؟
14 آج بھی کچھ ایسے مسیحی ہیں جن کی روِش ایک زمانے میں بہت بُری تھی۔ لیکن پھر اُنہوں نے اپنی غلط روِش کو چھوڑ دیا، وہ مسیحی بن گئے اور اُنہیں ”پاک صاف“ کِیا گیا۔ سچائی میں آنے سے پہلے چاہے ہماری روِش کچھ بھی تھی لیکن اب یہ کیسی ہے؟ خدا نے اپنی عظیم رحمت کی بِنا پر ہمارے گُناہ معاف کر دیے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کیا ہم نے پکا عزم کِیا ہے کہ ہم آئندہ ’اپنے اعضا کو گُناہ کے حضور بُرائی کے ہتھیار کے طور پر پیش نہیں کریں گے‘ بلکہ اِنہیں ’خدا کے حضور نیکی کے ہتھیار کے طور پر پیش کریں گے‘؟
15 اگر ہم نے یہ عزم کِیا ہے تو ہم اُن سنگین گُناہوں سے دُور رہیں گے جو کُرنتھس کے کچھ مسیحیوں نے ایک زمانے میں کیے تھے۔ ورنہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے خدا کی عظیم رحمت کو قبول کر لیا ہے اور ’گُناہ ہمارا مالک نہیں رہا‘؟ لیکن کیا ہم نے ’دل سے خدا کے فرمانبردار‘ ہونے کا عزم بھی کِیا ہے؟ تو پھر ہم ایسے گُناہوں سے بھی کنارہ کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے جن کو اِتنا سنگین خیال نہیں کِیا جاتا۔—روم 6:14، 17۔
16. ہم کیسے جانتے ہیں کہ مسیحیوں کے لیے صرف سنگین گُناہوں سے بچنا کافی نہیں ہے؟
16 اِس سلسلے میں ذرا پولُس رسول کی بات پر غور کریں۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں جسمانی ہوں اور مجھے گُناہ کا غلام بننے کے لیے بیچ دیا گیا ہے۔ کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں۔ کیونکہ مَیں وہ کام نہیں کرتا جو مَیں چاہتا ہوں بلکہ وہ کام کرتا ہوں جس سے مجھے نفرت ہے۔“ (روم 7:14، 15) یقیناً پولُس رسول کوئی ایسا کام نہیں کر رہے تھے جس کا ذکر 1-کُرنتھیوں 6:9-11 میں ہوا ہے۔ لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے کہا کہ اُن سے گُناہ ہو جاتے ہیں۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولُس رسول ایسے کاموں کو بھی گُناہ خیال کرتے تھے جو سنگین گُناہ کے زمرے میں نہیں آتے اور وہ اِن کا مقابلہ کر رہے تھے۔ (رومیوں 7:21-23 کو پڑھیں۔) دُعا ہے کہ ہم بھی اُن کی طرح ’دل سے خدا کے فرمانبردار‘ ہوں اور ہر طرح کے گُناہ کا مقابلہ کریں۔
17. ہم ہمیشہ سچ کیوں بولنا چاہتے ہیں؟
17 ایمانداری ہی کو لے لیں۔ خدا مسیحیوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں۔ (امثال 14:5؛ اِفسیوں 4:25 کو پڑھیں۔) شیطان ”جھوٹ کا باپ ہے۔“ اِس کے علاوہ حننیاہ اور اُن کی بیوی جھوٹ بولنے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم اِن بُری مثالوں پر عمل نہیں کرنا چاہتے اِس لیے ہم جھوٹ نہیں بولتے۔ (یوح 8:44؛ اعما 5:1-11) سچ بولنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خدا کی عظیم رحمت کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ لیکن کیا سچ بولنے کا مطلب بس یہی ہے کہ ہم جھوٹ نہ بولیں؟
18، 19. سچ بولنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
18 دراصل یہوواہ خدا اپنے بندوں سے صرف اِس بات کی توقع نہیں کرتا کہ وہ جھوٹ نہ بولیں۔ اُس نے بنیاِسرائیل سے کہا: ”تُم پاک ہو کیونکہ مَیں جو [یہوواہ] تمہارا خدا ہوں پاک ہوں۔“ پھر اُس نے اُن کو بتایا کہ پاک ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔ مثال کے طور پر اُس نے کہا: ”تُم . . . نہ دغا دینا اور نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولنا۔“ (احبا 19:2، 11) ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جھوٹ تو نہ بولے لیکن اگر وہ ایک بات کو ایسے زاویے سے پیش کرتا ہے جس سے دوسروں کو غلط تاثر ملے تو وہ سچ بھی نہیں بول رہا ہوتا کیونکہ وہ اُن کو دغا دیتا ہے۔
رومیوں 6:19 پر عمل کر رہے ہوتے ہیں جہاں لکھا ہے کہ ”اپنے اعضا کو نیکی کے حضور غلام کے طور پر پیش کریں جس کا انجام پاکیزگی ہے“؟
19 ذرا اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ ایک آدمی اپنے مینیجر سے کہتا ہے کہ وہ اگلے روز کام پر نہیں آ سکتا کیونکہ اُسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔ لیکن اصل میں اُسے ڈاکٹر سے بس چند منٹ کا کام ہے کیونکہ اُسے بِل ادا کرنا ہے۔ کام پر نہ جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے جانا چاہتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اُس کی بات ایک حد تک سچی ہے کیونکہ اُس کو واقعی ڈاکٹر سے کام ہے۔ لیکن کیا اُس نے پورا سچ بولا؟ یا پھر کیا اُس نے اپنے مینیجر کو دغا دیا؟ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ اپنے فائدے کے لیے یا پھر سزا سے بچنے کے لیے دوسروں کو اِس طرح سے دھوکا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جھوٹ نہیں بولتے لیکن کیا وہ خدا کی اِس ہدایت پر عمل کر رہے ہوتے ہیں کہ ’تُم دغا نہ دینا‘؟ کیا وہ واقعی20، 21. اگر ہم خدا کی عظیم رحمت کی قدر کرتے ہیں تو ہم کس طرح کے کاموں سے گریز کریں گے؟
20 اگر ہم واقعی خدا کی عظیم رحمت کی قدر کرتے ہیں تو ہم نہ صرف حرامکاری کرنے اور حد سے زیادہ شراب پینے جیسے سنگین گُناہوں سے گریز کریں گے بلکہ ہم اُن کاموں سے بھی گریز کریں گے جو اِن گُناہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر حرامکاری سے بچنے کے لیے ہم گندی تصویریں یا فلمیں بھی نہیں دیکھتے۔ اِسی طرح ہم شراب کے نشے میں دُھت ہونے سے ہی گریز نہیں کرتے بلکہ اِتنی بھی نہیں پیتے کہ ہمیں چڑھ جائے۔ بےشک غلط کاموں اور خواہشوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن ہم اِس مقابلے میں جیت ضرور سکتے ہیں۔
21 سنگین گُناہوں سے بچنے کے علاوہ ہمیں اُن گُناہوں سے بھی بچنے کا عزم کرنا چاہیے جو اِتنے سنگین نہیں ہوتے۔ سچ ہے کہ کبھی کبھار ہم سے بھول چُوک ہو جائے گی لیکن ہمیں پولُس رسول کی مثال پر عمل کرنا چاہیے جنہوں نے یہ ہدایت دی: ”اپنے جسم کی خواہشوں کا کہنا نہ مانیں اور یوں گُناہ کو اپنے فانی جسم پر حکمرانی نہ کرنے دیں۔“ (روم 6:12؛ 7:18-20) جب ہم ہر طرح کے گُناہوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں تو ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی عظیم رحمت کے لیے قدر ظاہر کرتے ہیں۔
22. خدا کی عظیم رحمت کی قدر کرنے والے لوگوں کو کیا صلہ ملے گا؟
22 خدا نے اپنی عظیم رحمت کی وجہ سے ہمارے گُناہ معاف کیے ہیں اور وہ آئندہ بھی ایسا کرے گا۔ اگر ہم اِس بات کی واقعی قدر کرتے ہیں تو ہم اُن غلط کاموں سے بھی دُور رہنے کی بھرپور کوشش کریں گے جنہیں دوسرے لوگ گُناہ خیال نہیں کرتے۔ اِس کا صلہ بہت ہی شاندار ہوگا۔ پولُس رسول نے کہا: ”اب جبکہ آپ کو گُناہ سے آزاد کِیا گیا ہے اور آپ خدا کے غلام بن گئے ہیں، آپ ایسا پھل لا رہے ہیں جو پاک ہے اور جس کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔“—روم 6:22۔