قارئین کے سوال
پولُس رسول نے 1-کُرنتھیوں 15:29 میں جو بات کہی، کیا اُس کا یہ مطلب ہے کہ اُن کے زمانے میں کچھ مسیحی، مُردوں کی خاطر بپتسمہ لے رہے تھے؟
جی نہیں۔ نہ تو بائبل میں اور نہ ہی تاریخ کی کسی کتاب میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مسیحی اُن لوگوں کی خاطر بپتسمہ لے رہے تھے جو فوت ہو گئے تھے۔
البتہ بائبل کے بہت سے ترجموں میں اِس آیت کا جس طرح سے ترجمہ کِیا گیا ہے، اُس سے بعض کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ پولُس کے زمانے میں مسیحی، مُردوں کی خاطر بپتسمہ لیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بائبل کے ایک ترجمے میں یہ آیت اِس طرح سے ہے: ”اگر مُردے واقعی جی نہیں اُٹھتے تو پھر وہ لوگ کیا کریں گے جو مُردوں کی خاطر بپتسمہ لیتے ہیں؟ اگر مُردے جی نہیں اُٹھیں گے تو پھر وہ اُن کی خاطر کیوں بپتسمہ لیتے ہیں؟“—”اُردو جیو ورشن۔“
اِس نظریے کے حوالے سے ذرا بائبل کے دو عالموں کے بیان پر غور کریں۔ ڈاکٹر گریگری لاکوڈ نے کہا کہ ”نہ تو بائبل میں اور نہ ہی کسی تاریخی کتاب میں اِس بات کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ کسی شخص نے ایک مُردہ شخص کی خاطر بپتسمہ لیا ہو۔“ بائبل کے ایک اَور عالم پروفیسر گورڈن ڈانلڈ بھی اِس بات سے متفق تھے۔ اُنہوں نے لکھا: ”نہ ہی بائبل میں اور نہ ہی تاریخ کی کسی کتاب میں اِس بات کی کوئی مثال ملتی ہے کہ اِس طرح کا بپتسمہ ہوا کرتا تھا۔ نئے عہدنامے میں اِس بات کا کبھی ذکر نہیں کِیا گیا اور نہ ہی اِس میں کوئی ایسا ثبوت ملتا ہے کہ اِبتدائی مسیحیوں میں سے کسی نے اِس طرح کا بپتسمہ لیا تھا یا رسولوں کی موت کے بعد صدیوں تک چرچوں نے ایسا کِیا تھا۔“
بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ”سب قوموں کے لوگوں کو شاگرد بنائیں اور اُن کو . . . بپتسمہ دیں۔ اور اُن کو اُن سب باتوں پر عمل کرنا سکھائیں“ جن کا اُنہوں نے حکم دیا تھا۔ (متی 28:19، 20) ایک شخص کو بپتسمہ لینے سے پہلے یہوواہ اور اُس کے بیٹے کے بارے میں سیکھنے، اُن پر ایمان لانے اور اُن کی فرمانبرداری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ ایک ایسا شخص جو مر چُکا ہے اور قبر میں ہے، ایسا نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی زندہ مسیحی اُس کی خاطر ایسا کر سکتا ہے۔—واعظ 9:5، 10؛ یوح 4:1؛ 1-کُر 1:14-16۔
تو پھر پولُس رسول 1-کُرنتھیوں 15:29 میں کیا کہہ رہے تھے؟
کُرنتھس میں رہنے والے کچھ لوگ اِس بات سے اِنکار کرتے تھے کہ مُردے زندہ ہو جائیں گے۔ (1-کُر 15:12) پولُس نے اُنہیں سمجھایا کہ اُن کی یہ سوچ غلط ہے۔ اُنہوں نے ایسا کیسے کِیا؟ اُنہوں نے کہا کہ وہ ’ہر روز موت کا سامنا کرتے ہیں۔‘ ظاہری بات ہے کہ جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تو وہ زندہ تھے۔ لیکن وہ اِس یقین کے ساتھ خطروں کا سامنا کرنے کو تیار تھے کہ مرنے کے بعد اُنہیں ایک طاقتور روحانی جسم کے ساتھ زندہ کر دیا جائے گا جیسے یسوع کو کِیا گیا تھا۔—1-کُر 15:30-32، 42-44۔
کُرنتھس کے مسحشُدہ مسیحیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ اِس سے پہلے کہ اُنہیں زندہ کِیا جائے، اُنہیں ہر روز مشکلوں کا سامنا کرنا ہوگا اور مرنا ہوگا۔ ”اپنے بپتسمے سے مسیح یسوع کے شریک ہونے“ سے وہ ”اُن کی موت میں بھی شریک“ ہوئے تھے۔ (روم 6:3) اِس کا مطلب تھا کہ یسوع کی طرح اُنہیں بھی مشکلوں کو برداشت کرنا تھا اور موت تک وفادار رہنا تھا تاکہ اُنہیں آسمان پر زندگی پانے کے لیے زندہ کِیا جا سکے۔
یسوع کو اُس وقت پانی میں بپتسمہ لیے دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا تھا جب اُنہوں نے اپنے رسولوں میں سے دو سے کہا: ”جو بپتسمہ مَیں لے رہا ہوں، آپ ضرور لیں گے۔“ (مر 10:38، 39) دراصل یسوع پانی میں بپتسمہ لینے کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اپنے دَورِخدمت کے دوران یہوواہ کا وفادار رہنے کی وجہ سے اُنہیں مار ڈالا جائے گا۔ پولُس نے مسحشُدہ مسیحیوں کو لکھا کہ اُنہیں ”مسیح کی طرح تکلیف“ سہنی ہوگی تاکہ وہ ”اُس جیسی عظمت بھی پائیں۔“ (روم 8:16، 17؛ 2-کُر 4:17) لہٰذا مسحشُدہ مسیحیوں کو بھی آسمان پر زندگی حاصل کرنے کے لیے موت تک خدا کا وفادار رہنے کی ضرورت ہے۔
اِن باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے 1-کُرنتھیوں 15:29 میں پولُس کی بات کا درست ترجمہ یہ کِیا جا سکتا ہے: ”اگر مُردے زندہ نہیں ہوں گے تو اُن کا کیا بنے گا جو مرنے کے لیے بپتسمہ لیتے ہیں؟ وہ مرنے کے لیے بپتسمہ لیتے ہی کیوں ہیں؟“