مطالعے کا مضمون نمبر 49
مُردوں کا زندہ ہو جانا—ایک پکی اُمید
”میرا . . . ایمان ہے کہ خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“—اعما 24:15۔
گیت نمبر 151: خدا مُردوں کو آواز دے گا
مضمون پر ایک نظر *
1-2. یہوواہ کے بندے کس بات کی اُمید رکھتے ہیں؟
اُمید ہماری زندگی میں روشنیاں بکھیرتی ہے۔ لوگ مختلف باتوں کی اُمید رکھتے ہیں، مثلاً یہ کہ اُن کی شادیشُدہ زندگی خوشیوں سے بھری ہو، اُن کے بچے صحتمند رہیں اور اگر وہ یا بچوں میں سے کوئی بیمار ہے تو وہ صحتیاب ہو جائے۔ خدا کے بندوں کے طور پر ہم بھی اِن باتوں کی اُمید رکھتے ہیں۔ لیکن ہم ایک ایسی بات کی بھی اُمید رکھتے ہیں جو ہمیں دوسری اُمیدوں سے زیادہ خوشی بخشتی ہے۔ اور وہ اُمید یہ ہے کہ ہم مستقبل میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے اور اپنے اُن پیاروں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔
2 پولُس رسول نے کہا: ”میرا . . . ایمان ہے کہ خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“ (اعما 24:15) پولُس وہ پہلے شخص نہیں تھے جنہوں نے اِس اُمید کا ذکر کِیا کہ مُردے زندہ ہو جائیں گے۔ ایوب نے بھی اِس بارے میں بات کی۔ اُنہیں اِس بات کا پکا یقین تھا کہ اگر وہ مر گئے تو خدا اُنہیں یاد رکھے گا اور اُنہیں دوبارہ زندہ کر دے گا۔—ایو 14:7-10، 12-15۔
3. پہلا کُرنتھیوں 15 باب پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
3 مُردوں کا زندہ ہو جانا مسیحیوں کی ”اِبتدائی تعلیمات“ میں سے ایک ہے۔ (عبر 6:1، 2) پہلا کُرنتھیوں 15 باب میں پولُس نے اِسی موضوع پر بات کی۔ اِس حوالے سے اُنہوں نے جو کچھ لکھا، اُس سے یقیناً پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو حوصلہ ملا ہوگا۔ اِس باب میں لکھی باتوں سے آپ کو بھی حوصلہ ملے گا اور آپ کی یہ اُمید اَور مضبوط ہوگی کہ مُردے ضرور زندہ ہو جائیں گے۔
4. ہم اِس بات پر پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ ہمارے وہ عزیز دوبارہ زندہ ہو جائیں گے جو فوت ہو گئے ہیں؟
4 یسوع مسیح کے زندہ ہو جانے کی وجہ سے ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارے وہ عزیز دوبارہ زندہ ہو جائیں گے جو فوت ہو گئے ہیں۔ یسوع کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا اُس خوشخبری میں شامل تھا جو پولُس نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو دی۔ (1-کُر 15:1، 2) اُنہوں نے کہا کہ اگر ایک مسیحی، یسوع کے زندہ ہونے پر یقین نہیں رکھتا تو اُس کا ایمان بالکل فضول ہے۔ (1-کُر 15:17) لہٰذا یسوع کے زندہ ہونے پر ایمان رکھنا مسیحیوں کی اُمید کی بنیاد ہے۔
5-6. پہلا کُرنتھیوں 15:3، 4 میں درج بات ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟
5 جب پولُس نے مُردوں کے زندہ ہو جانے کے بارے میں لکھا تو شروع میں اُنہوں نے اِن تین حقیقتوں کا ذکر کِیا: (1) مسیح نے ”ہمارے گُناہوں کے لیے جان دے دی،“ (2) ”اُسے دفن کِیا گیا“ اور (3) اُسے ”تیسرے دن زندہ کِیا گیا۔“—1-کُرنتھیوں 15:3، 4 کو پڑھیں۔
6 یسوع مسیح کا جان دینا، اُن کا دفنایا جانا اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنا ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟ یسعیاہ نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح ”زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا“ جائے گا اور ’اُس کی قبر شریروں کے درمیان ٹھہرائی‘ جائے گی۔ لیکن ایک اَور بات بھی ہونی تھی۔ وہ کیا؟ یسعیاہ نے آگے بتایا کہ مسیح ”بہتوں کے گُناہ اُٹھا“ لے گا۔ اور ایسا تب ہوا جب یسوع نے اپنی جان فدیے کے طور پر دی۔ (یسع 53:8، 9، 12؛ متی 20:28؛ روم 5:8) لہٰذا یسوع مسیح کے جان دینے، اُن کے دفنائے جانے اور اُن کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی وجہ سے ہم یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ ہمیں گُناہ اور موت سے آزادی ملے گی اور ہم اپنے فوت ہو چُکے عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے۔
بہت سے لوگوں کی گواہی
7-8. ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ نے یسوع کو زندہ کر دیا تھا؟
7 مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید اور یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے میں گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا ہمیں اِس بات پر پورا یقین رکھنا چاہیے کہ یہوواہ نے یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا تھا۔ ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں؟
8 بہت سے لوگوں نے یسوع کے زندہ ہونے کے بعد اُنہیں دیکھا۔ (1-کُر 15:5-7) اِس حوالے سے پولُس نے اپنے خط میں سب سے پہلے جس شخص کا ذکر کِیا، وہ پطرس رسول (کیفا) تھے۔ کچھ شاگردوں نے بھی اِس بات کی تصدیق کی کہ پطرس نے یسوع کو اُن کے زندہ ہو جانے کے بعد دیکھا۔ (لُو 24:33، 34) اِس کے علاوہ ”12 رسولوں“ نے بھی یسوع کو اُن کے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا۔ پھر یسوع مسیح ”ایک ہی موقعے پر 500 سے زیادہ بھائیوں کو دِکھائی“ دیے۔ شاید یہ وہ موقع تھا جس کا ذکر متی 28:16-20 میں کِیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ یسوع، ’یعقوب کو دِکھائی دیے۔‘ یہ یعقوب غالباً وہ یعقوب تھے جو یسوع کے سوتیلے بھائی تھے۔ یعقوب پہلے اِس بات پر ایمان نہیں لائے تھے کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔ (یوح 7:5) لیکن جب اُنہوں نے یسوع کو مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا تو وہ اُن پر ایمان لے آئے۔ یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ جب تقریباً 55ء میں پولُس نے کُرنتھیوں کا پہلا خط لکھا تو اُس وقت اِن میں سے بہت سے شاگرد زندہ تھے۔ لہٰذا اگر کسی کو یسوع کے جی اُٹھنے پر شک تھا تو وہ اِن گواہوں سے بات کر سکتا تھا۔
9. اعمال 9:3-5 کے مطابق پولُس کے پاس یسوع کے زندہ ہو جانے کا ایک اَور ثبوت کیا تھا؟
9 بعد میں یسوع مسیح پولُس کو بھی دِکھائی دیے۔ (1-کُر 15:8) پولُس (ساؤل) اُس وقت دمشق کے راستے پر تھے جب اُنہیں یسوع کی آواز سنائی دی اور اُنہوں نے رُویا میں یسوع کو دیکھا۔ (اعمال 9:3-5 کو پڑھیں۔) پولُس کے ساتھ جو ہوا، وہ اِس بات کا ایک اَور ثبوت تھا کہ یسوع کو واقعی مُردوں میں سے زندہ کر دیا گیا ہے۔—اعما 26:12-15۔
10. جب پولُس کو پکا یقین ہو گیا کہ یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا گیا ہے تو اُنہوں نے کیا کِیا؟
10 کچھ لوگوں کے لیے پولُس رسول کی گواہی خاص طور پر قابلِغور تھی۔ کیوں؟ کیونکہ ایک وقت تھا جب پولُس خود بھی مسیحیوں کے خلاف تھے اور اُنہیں اذیت دیا کرتے تھے۔ لیکن جب پولُس کو اِس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا گیا ہے تو وہ دوسروں کو بھی اِس سچائی پر قائل کرنے کی جیتوڑ کوشش کرنے لگے۔ اِس سچائی کو بتانے کی خاطر اُنہوں نے بہت کچھ سہا۔ اُنہوں نے لوگوں کی مار پیٹ سہی، قید میں سزائیں کاٹیں اور سفر کے دوران کئی بار خطرناک سمندری طوفانوں کا سامنا کِیا۔ (1-کُر 15:9-11؛ 2-کُر 11:23-27) پولُس کو یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر اِتنا پکا یقین تھا کہ وہ اِس سچائی کی خاطر اپنی جان تک دینے کو تیار تھے۔ کیا اُن اِبتدائی مسیحیوں کی گواہی پر غور کرنے سے آپ کا یہ یقین مضبوط نہیں ہو جاتا کہ خدا نے یسوع کو زندہ کر دیا تھا اور وہ مستقبل میں بھی مُردوں کو زندہ کر دے گا؟
پہلی صدی عیسوی میں پھیلے غلط نظریات
11. یونانی شہر کُرنتھس میں رہنے والے کچھ مسیحی مُردوں کے زندہ ہو جانے کے بارے میں غلط نظریات کیوں رکھتے تھے؟
11 یونانی شہر کُرنتھس میں رہنے والے کچھ مسیحی مُردوں کے زندہ ہو جانے کے بارے میں غلط نظریات رکھتے تھے۔ وہ تو یہ تک کہتے تھے کہ ”مُردے زندہ نہیں ہوں گے۔“ وہ ایسا کیوں سوچتے تھے؟ (1-کُر 15:12) ایک اَور یونانی شہر ایتھنز کے فلاسفر اِس تعلیم پر ہنستے تھے کہ یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کر دیا گیا ہے۔ اِس سوچ سے کُرنتھس کے کچھ لوگ، یہاں تک کہ کچھ مسیحی بھی متاثر تھے۔ (اعما 17:18، 31، 32) بعض مسیحیوں کا خیال تھا کہ مُردوں کو حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں زندہ کِیا جاتا ہے یعنی ایک شخص گُناہ کی حالت میں مرا ہوتا ہے لیکن مسیحی بننے کے بعد وہ زندہ ہو جاتا ہے۔ چاہے یہ لوگ جس وجہ سے بھی مُردوں کے زندہ ہو جانے کے نظریے کو رد کرتے تھے، اُن کا ایمان فضول تھا۔ ذرا سوچیں، اگر خدا نے یسوع کو زندہ نہیں کِیا تو اِس کا مطلب ہے کہ فدیہ بھی نہیں دیا گیا اور ہم سب گُناہگار کے گُناہگار ہی رہیں گے۔ لہٰذا جن لوگوں نے مُردوں کے زندہ ہو جانے کی تعلیم کو رد کِیا، وہ اُمید سے بالکل خالی تھے۔—1-کُر 15:13-19؛ عبر 9:12، 14۔
12. پہلا پطرس 3:18، 22 کی روشنی میں بتائیں کہ یسوع کو کیسے بہتر لحاظ سے زندہ کِیا گیا۔
12 پولُس خود اِس بات کے گواہ تھے کہ ”مسیح کو مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا ہے۔“ یسوع کو بہتر لحاظ سے زندہ کِیا گیا کیونکہ اُن سے پہلے جن لوگوں کو زمین پر زندہ کِیا گیا تھا، وہ دوبارہ فوت ہو گئے۔ پولُس نے کہا کہ ”مسیح اُن لوگوں میں سے پہلا پھل ہے جو موت کی نیند سو رہے ہیں۔“ یسوع کس لحاظ سے پہلے پھل تھے؟ یسوع وہ پہلے شخص تھے جنہیں ”روح کے طور پر زندہ کِیا گیا“ اور آسمان پر اُٹھایا گیا۔—1-کُر 15:20؛ اعما 26:23؛ 1-پطرس 3:18، 22 کو پڑھیں۔
وہ لوگ جنہیں مُردوں میں سے ”زندہ کِیا جائے گا“
13. پولُس رسول نے آدم اور یسوع مسیح میں کیا موازنہ کِیا؟
13 یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کی موت سے کروڑوں لوگوں کو زندگی مل جائے؟ پولُس نے اِس سوال کے جواب کے لیے ایک بڑی اچھی دلیل دی۔ اُنہوں نے آدم اور یسوع کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ آدم کی وجہ سے اِنسانوں کے ساتھ کیا ہوا اور یسوع مسیح کی وجہ سے کیا ممکن ہوا۔ آدم کے بارے میں بات کرتے ہوئے پولُس نے کہا: ”ایک آدمی کے ذریعے لوگ مرتے ہیں۔“ جب آدم نے گُناہ کِیا تو وہ خود پر اور اپنی ہونے والی اولاد پر موت کا عذاب لے آئے۔ ہم آج بھی آدم کی نافرمانی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ لیکن جب خدا نے اپنے بیٹے کو زندہ کِیا تو ہمیں مستقبل کے حوالے سے ایک شاندار اُمید ملی۔ پولُس نے کہا: ”ایک آدمی [یعنی یسوع] کے ذریعے مُردے زندہ ہوں گے“ کیونکہ ”جیسے آدم کی وجہ سے تمام اِنسان مرتے ہیں، بالکل ویسے ہی مسیح کی وجہ سے تمام مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔“—1-کُر 15:21، 22۔
14. کیا آدم کو زندہ کِیا جائے گا؟ وضاحت کریں۔
14 غور کریں کہ پولُس نے کہا ”آدم کی وجہ سے تمام اِنسان مرتے ہیں۔“ آدم کی اولاد ہونے کے ناتے ہم نے اُن سے گُناہ کا ورثہ پایا ہے اور اِس وجہ سے ہم پر موت آتی ہے۔ (روم 5:12) آدم اُن لوگوں میں شامل نہیں ہوں گے جنہیں ”زندہ کِیا جائے گا۔“ یسوع کی قربانی آدم کے گُناہ کا کفارہ نہیں دیتی کیونکہ آدم ایک بےعیب اِنسان تھے جنہوں نے جان بُوجھ کر خدا کی نافرمانی کی۔ آدم کا وہی انجام ہوا جو اُن لوگوں کا ہوگا جنہیں ”اِنسان کا بیٹا“ بکریاں قرار دے کر ”ہمیشہ کی موت“ کی سزا دے گا۔—متی 25:31-33، 46؛ عبر 5:9۔
15. ”تمام مُردوں“ میں کون شامل ہیں جنہیں ”زندہ کِیا جائے گا“؟
15 پولُس نے یہ بھی کہا کہ ”مسیح کی وجہ سے تمام مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔“ (1-کُر 15:22) پولُس نے کُرنتھیوں کے نام خط مسحشُدہ مسیحیوں کو لکھا تھا جنہیں آسمان پر زندہ کِیا جانا تھا۔ اِن مسیحیوں کو ”مسیح یسوع کے پیروکاروں کے طور پر مخصوص کِیا گیا اور مُقدسوں کے طور پر بلایا گیا۔“ پولُس نے اُن مسحشُدہ مسیحیوں کا بھی ذکر کِیا جو ’مر چُکے تھے۔‘ (1-کُر 1:2؛ 15:18؛ 2-کُر 5:17) اپنے ایک اَور خط میں پولُس نے بتایا کہ ”اگر ہم [یسوع] کی طرح مر گئے تو اُن کی طرح زندہ بھی کیے جائیں گے اور اِس لحاظ سے ہم اُن کے شریک ہیں۔“ (روم 6:3-5) یسوع کو روحانی جسم کے ساتھ مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا تھا اور پھر وہ آسمان پر چلے گئے تھے۔ ایسا ہی اُن تمام مسحشُدہ مسیحیوں کے ساتھ ہوگا جو ”مسیح کے ساتھ متحد ہیں۔“
16. یسوع کو ”پہلا پھل“ کہنے سے پولُس نے کیا ظاہر کِیا؟
16 پولُس رسول نے لکھا کہ ”مسیح اُن لوگوں میں سے پہلا پھل ہے جو موت کی نیند سو رہے ہیں۔“ یاد رکھیں کہ دوسرے مُردوں کو جیسے کہ لعزر کو زمین پر زندہ کِیا گیا تھا۔ لیکن یسوع وہ سب سے پہلے اِنسان تھے جنہیں ایک روح کے طور پر مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا اور ہمیشہ کی زندگی دی گئی۔ وہ فصل کے اُن پہلے پھلوں کی طرح تھے جو بنیاِسرائیل خدا کے حضور پیش کرتے تھے۔ یسوع کو ”پہلا پھل“ کہنے سے پولُس نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ یسوع کے بعد اَور اِنسانوں کو بھی مُردوں میں سے زندہ کر کے آسمان پر زندگی دی جانی تھی۔ رسولوں اور ”مسیح کے ساتھ متحد“ دیگر مسحشُدہ مسیحیوں کو مقررہ وقت پر یسوع کی طرح مُردوں میں سے زندہ کر کے آسمان پر اُٹھایا جانا تھا۔
17. ”مسیح کے ساتھ متحد“ لوگوں کو کب مُردوں میں سے زندہ کر کے آسمان پر اُٹھایا جانے لگا؟
17 جب پولُس نے کُرنتھس کے مسیحیوں کے نام خط لکھا تھا تو اُس وقت ”مسیح کے ساتھ متحد“ لوگوں کو مُردوں میں سے زندہ کر کے آسمان پر نہیں اُٹھایا جا رہا تھا۔ در اصل پولُس نے مستقبل کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا: ”مُردوں کو ترتیب سے زندہ کِیا جائے گا: پہلا پھل مسیح ہے، پھر مسیح کی موجودگی کے دوران اُن مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا جو اُس کے ہیں۔“ (1-کُر 15:23؛ 1-تھس 4:15، 16) آج ہم ”مسیح کی موجودگی“ کے دَور میں رہ رہے ہیں۔ رسولوں اور دیگر مسحشُدہ مسیحیوں کو تب تک مُردوں میں سے زندہ نہیں کِیا گیا جب تک مسیح کی موجودگی نہیں ہوئی۔
ہماری اُمید پکی ہے!
18. (الف) ہم یہ نتیجہ کیوں اخذ کر سکتے ہیں کہ مسحشُدہ مسیحیوں کو آسمان پر زندگی دینے کے بعد اَور مُردوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا؟ (ب) 1-کُرنتھیوں 15:24-26 کے مطابق آسمان پر کیا کچھ ہوگا؟
18 لیکن اُن تمام وفادار مسیحیوں کا کیا جو یسوع کے ساتھ آسمان پر رہنے کی اُمید نہیں رکھتے؟ اِن مسیحیوں کو بھی یہ اُمید حاصل ہے کہ مُردے زندہ ہو جائیں گے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آسمان پر زندگی کی اُمید رکھنے والے ”اُن لوگوں میں شامل [ہیں] جنہیں سب سے پہلے زندہ کِیا جائے گا۔“ (فل 3:11) اِصطلاح ”سب سے پہلے“ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں اَور لوگوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا۔ اور اِسی وقت کے آنے کی اُمید ایوب کو تھی۔ (ایو 14:15) ”مسیح کی موجودگی کے دوران“ اُن کے ساتھی اُس وقت آسمان پر اُن کے ساتھ ہوں گے جب یسوع تمام حکومتوں اور طاقتوں کو ختم کر دیں گے۔ تب ”آخری دُشمن یعنی موت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔“ بِلاشُبہ جو لوگ آسمان پر زندہ ہوں گے، وہ دوبارہ کبھی نہیں مریں گے۔ لیکن زمین پر زندگی حاصل کرنے والوں کا کیا ہوگا؟—1-کُرنتھیوں 15:24-26 کو پڑھیں۔
19. جو لوگ زمین پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں، وہ کس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں؟
19 جو لوگ زمین پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں، وہ کس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ وہ پولُس کے اِن الفاظ سے حوصلہ پا سکتے ہیں کہ ”خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“ (اعما 24:15) ظاہری بات ہے کہ بد یا بُرے لوگ آسمان پر نہیں جا سکتے۔ لہٰذا پولُس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں زمین پر مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔
20. آپ کی یہ اُمید کیسے مضبوط ہوئی ہے کہ مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا؟
20 اِس میں کوئی شک نہیں کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔ جن مُردوں کو زمین پر زندہ کِیا جائے گا، اُن کے پاس زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع ہوگا۔ آپ اِس وعدے پر مکمل بھروسا کر سکتے ہیں۔ اِس اُمید سے آپ کو اُس وقت تسلی مل سکتی ہے جب آ پ کو اپنے وہ عزیز یاد آتے ہیں جو فوت ہو گئے ہیں۔ اُنہیں اُس وقت زندہ کر دیا جائے گا جب مسیح اور اُن کے ساتھی ”1000 سال تک . . . بادشاہوں کے طور پر حکمرانی کریں گے۔“ (مکا 20:6) آپ اِس بات کی بھی پکی اُمید رکھ سکتے ہیں کہ اگر آپ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے شروع ہونے سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں تو آپ کا مستقبل اُن کے ہاتھ میں محفوظ ہے۔ ایسا ”ہو [ہی]نہیں سکتا کہ یہ اُمید پوری نہ ہو۔“ (روم 5:5) اِس اُمید سے آپ مضبوط ہو سکتے ہیں اور خدا کی خدمت کرتے وقت آپ کی خوشی بڑھ سکتی ہے۔ ہم نے پہلا کُرنتھیوں 15 باب سے کئی حوصلہافزا باتیں سیکھی ہیں۔ لیکن ہم اِس باب سے اَور بھی بہت سی باتیں سیکھ سکتے ہیں جن پر اگلے مضمون میں بات کی جائے گی۔
گیت نمبر 147: ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ
^ پیراگراف 5 پہلا کُرنتھیوں 15 باب میں مُردوں کے زندہ ہو جانے کے موضوع پر بات کی گئی ہے۔ یہ تعلیم ہمارے لیے اِتنی اہم کیوں ہے اور ہم اِس بات پر پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا تھا؟ اِس مضمون میں اِن سوالوں اور مُردوں کے زندہ ہو جانے کے حوالے سے کچھ اَور اہم سوالوں کے جواب دیے جائیں گے۔
^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت: یسوع مسیح وہ پہلے شخص تھے جنہیں آسمان پر اُٹھا لیا گیا۔ (اعما 1:9) آسمان پر جانے والے کچھ شاگردوں میں توما، یعقوب، لِدیہ، یوحنا، مریم اور پولُس شامل تھے۔
^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت: ایک عمررسیدہ بھائی کی بیوی فوت ہو گئی ہے جس کے ساتھ اُس نے ایک لمبے عرصے تک یہوواہ کی خدمت کی۔ اُس بھائی کو پورا یقین ہے کہ اُس کی بیوی زندہ ہو جائے گی اور وہ دونوں پھر سے مل کر یہوواہ کی خدمت کریں گے۔