مطالعے کا مضمون نمبر 50
”مُردے کیسے زندہ ہوں گے؟“
”موت، تیری فتح کہاں رہی؟ موت، تیرا ڈنک کہاں رہا؟“—1-کُر 15:55۔
گیت نمبر 141: زندگی—خدا کی بیشقیمت نعمت
مضمون پر ایک نظر *
1-2. تمام مسیحیوں کو اُن مسیحیوں کی اُمید میں دلچسپی کیوں لینی چاہیے جنہیں آسمان پر زندہ کِیا جائے گا؟
آج یہوواہ کے زیادہتر بندے زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ مسیحیوں کو آسمان پر زندگی دی جائے گی۔ پاک روح سے مسحشُدہ مسیحی اِس بات کو جاننے کا گہرا شوق رکھتے ہیں کہ آسمان پر اُن کی زندگی کیسی ہوگی۔ مگر زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والوں کو بھی اُن کی اُمید میں دلچسپی لینی چاہیے۔ کیوں؟ کیونکہ آسمان پر زندگی پانے والوں کے ذریعے اُنہیں برکتیں ملیں گی۔ لہٰذا چاہے ہم مسحشُدہ مسیحی ہوں یا مسیح کی اَور بھی بھیڑیں، ہمیں آسمان پر زندہ کیے جانے والے لوگوں کی اُمید میں دلچسپی لینی چاہیے۔
2 پہلی صدی عیسوی میں یسوع کے کچھ شاگردوں نے خدا کے اِلہام سے آسمان پر زندگی پانے کی اُمید کے بارے لکھا۔ یوحنا رسول نے اِس سلسلے میں کہا: ”اب ہم خدا کے بچے ہیں لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں ہم کیا ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوگا تو ہم اُس کی طرح ہوں گے۔“ (1-یوح 3:2) اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسحشُدہ مسیحی یہ نہیں جانتے ہیں کہ جب اُنہیں روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا جائے گا تو آسمان پر اُن کی زندگی کیسی ہوگی۔ لیکن وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ حقیقی معنوں میں یہوواہ کو دیکھیں گے۔ بائبل میں آسمان پر زندگی کی اُمید کے حوالے سے ہر چھوٹی بڑی معلومات نہیں دی گئی۔ لیکن پولُس رسول نے اِس حوالے سے کچھ باتیں بتائیں۔ مثال کے طور پر تمام مسحشُدہ مسیحی اُس وقت آسمان پر ہوں گے جب یسوع ”ہر طرح کی حکومت اور ہر طرح کے اِختیار اور طاقت“ کو اور ”آخری دُشمن یعنی موت“ کو ختم کر دیں گے۔ سب سے آخر میں وہ اور اُن کے ساتھی حکمران خود کو اور سب چیزوں کو یہوواہ کے تابع کر دیں گے۔ (1-کُر 15:24-28) وہ کیا ہی شاندار وقت ہوگا! *
3. پہلا کُرنتھیوں 15:30-32 کے مطابق مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید کی وجہ سے پولُس کیا کرنے کے قابل ہوئے؟
3 چونکہ پولُس یہ اُمید رکھتے تھے کہ مُردے زندہ ہو جائیں گے اِس لیے وہ مختلف مشکلات میں ثابتقدم رہ پائے۔ (1-کُرنتھیوں 15:30-32 کو پڑھیں۔) اُنہوں نے کُرنتھس کے مسیحیوں سے کہا: ”مَیں ہر روز موت کا سامنا کرتا ہوں۔“ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ اُنہوں نے ”اِفسس میں وحشی درندوں سے لڑائی کی۔“ شاید پولُس کو اِفسس کے کسی سٹیڈیم میں سچمچ جنگلی جانوروں سے لڑنا پڑا تھا۔ (2-کُر 1:8؛ 4:10؛ 11:23) یا شاید ”وحشی درندوں“ سے اُن کا اِشارہ اُن یہودیوں اور دیگر لوگوں کی طرف تھا جو اُن کی سخت مخالفت کر رہے تھے۔ (اعما 19:26-34؛ 1-کُر 16:9) چاہے پولُس جسے بھی ذہن میں رکھ کر بات کر رہے تھے، یہ صاف ظاہر تھا کہ اُنہیں بہت سی خطرناک صورتحال کا سامنا تھا۔ لیکن اِس کے باوجود اُن کا دھیان اِس بات پر تھا کہ اُن کا مستقبل کتنا شاندار ہے۔—2-کُر 4:16-18۔
4. مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید سے آج مسیحیوں کو کیسے حوصلہ ملتا ہے؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
4 ہم بھی ایک خطرناک دَور میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے کچھ بہن بھائیوں کو جُرم کا نشانہ بنایا گیا۔ دیگر ایسے ملکوں میں رہ رہے ہیں جہاں جنگیں لڑی جا رہی ہیں اور اُنہیں آئے دن موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض بہن بھائی ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہمارے مُنادی کے کام پر پابندی لگی ہوئی ہے اور اُنہیں یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے اپنی جان اور آزادی کو داؤ پر لگانا پڑ رہا ہے۔ یہ تمام بہن بھائی مشکلیں سہنے کے باوجود یہوواہ کی عبادت کرنے میں ہمت نہیں ہار رہے اور یوں ہمارے لیے عمدہ مثال قائم کر رہے ہیں۔ وہ اِس یقین کے ساتھ خطروں کا سامنا کر رہے ہیں کہ اگر وہ مر بھی گئے تو اُن کا مستقبل یہوواہ کے ہاتھ میں محفوظ ہے جو اُنہیں آج سے بھی بہتر زندگی دے سکتا ہے۔
5. کون سا نظریہ اپنانے سے ہمارا اِس بات پر ایمان کمزور پڑ سکتا ہے کہ مُردے زندہ ہو جائیں گے؟
5 پولُس رسول نے اپنے بہن بھائیوں کو خبردار کِیا کہ وہ اُن لوگوں جیسی سوچ نہ اپنائیں جو یہ کہتے تھے:”اگر مُردے زندہ نہیں ہوں گے تو ”آؤ، کھائیں پئیں کیونکہ کل تو ہم مر جائیں گے۔““ پولُس ایک ایسے نظریے کی بات کر رہے تھے جو اُن کے زمانے سے پہلے بھی عام تھا۔ شاید وہ یسعیاہ 22:13 سے حوالہ دے رہے تھے جس میں اِسرائیلیوں کی سوچ کی طرف اِشارہ کِیا گیا تھا۔ وہ لوگ خدا کے قریب جانے کے بجائے زندگی کی رنگرلیوں میں مست تھے۔ دراصل اِن اِسرائیلیوں کی یہ سوچ تھی کہ ”آج کے لیے جیو، کل کا کیا پتہ۔“ اور یہی سوچ آج بھی عام ہے۔ بائبل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اِس سوچ کی وجہ سے اِسرائیلیوں کا کیا انجام ہوا۔—2-توا 36:15-20۔
6. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اُمید کھوکھلی نہ ہو تو ہمیں کس طرح کے لوگوں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے؟
6 بِلاشُبہ کُرنتھس کے مسیحیوں کو ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے خبردار رہنا تھا جو اِس بات پر ایمان نہیں رکھتے تھے کہ مُردے زندہ ہو جائیں گے۔ یہ بات آج ہم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے دوستی کر کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جو آج کے لیے جیتے ہیں۔ اُلٹا اِن کے ساتھ وقت گزارنے سے ہماری اُمید کھوکھلی ہو سکتی ہے اور ہماری عادتیں بگڑ سکتی ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے ہم اُن کاموں میں پڑ سکتے ہیں جن سے یہوواہ کو نفرت ہے۔ اِسی لیے پولُس نے کھرے لفظوں میں یہ نصیحت کی کہ ”ہوش میں آئیں، نیکی کریں اور گُناہ نہ کریں۔“—1-کُر 15:33، 34۔
اُنہیں کس طرح کے جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے؟
7. پہلا کُرنتھیوں 15:35-38 کے مطابق بعض لوگوں کے ذہن میں مُردوں کے زندہ ہو جانے کے حوالے سے کیا سوال تھا؟
7 پہلا کُرنتھیوں 15:35-38 کو پڑھیں۔ شاید ایک شخص جو مُردوں کے زندہ ہو جانے پر یقین نہیں رکھتا تھا، دوسروں کے دل میں شک ڈالنے کے لیے یہ کہتا تھا: ”مُردے کیسے زندہ ہوں گے؟“ اِس سلسلے میں پولُس کے جواب پر غور کرنا اچھا ہوگا کیونکہ آج لوگ اِس بارے میں فرق فرق رائے رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ایک شخص کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ پولُس نے کیا کہا۔
8. کس مثال کے ذریعے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آسمان پر زندگی پانے والوں کو روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا جائے گا؟
8 جب ایک شخص مر جاتا ہے تو اُس کا جسم گل سڑ جاتا ہے۔ لیکن جس ہستی نے کائنات کو بنایا ہے، اُس کے لیے اُس شخص کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندہ کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ (پید 1:1؛ 2:7) پولُس نے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا ایک شخص کو اُسی جسم کے ساتھ زندہ کرے جس میں وہ مرا تھا۔ اُنہوں نے ایک گندم یا کسی اَور پودے کے بیج کی مثال دی۔ جب بیج کو زمین میں بویا جاتا ہے تو وہ بڑھنے لگتا ہے اور ایک نیا پودا بن جاتا ہے۔ نیا پودا اُس چھوٹے بیج سے بالکل فرق ہوتا ہے۔ اِس مثال کے ذریعے پولُس نے ظاہر کِیا کہ ہمارا خالق ایک مُردہ شخص کو ”اپنی مرضی کے مطابق“ جسم دے کر زندہ کر سکتا ہے۔
9. پہلا کُرنتھیوں 15:39-41 سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
9 پہلا کُرنتھیوں 15:39-41 کو پڑھیں۔ پولُس نے بتایا کہ خدا نے اپنی مخلوق کو فرق فرق طریقوں سے بنایا ہے، مثلاً مویشیوں، پرندوں، مچھلیوں وغیرہ کے جسم ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”سورج کی شان، چاند کی شان اور ستاروں کی شان میں فرق ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک ستارے کی شان بھی دوسرے ستارے سے فرق ہوتی ہے۔“ اور واقعی بھلے ہی ہم اپنی آنکھوں سے اِن ستاروں میں فرق نہ دیکھ پائیں۔ لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آسمان پر فرق فرق قسم کے ستارے ہیں جن میں سے کچھ بڑے تو کچھ چھوٹے، کچھ لال تو کچھ سفید اور کچھ پیلے ہوتے ہیں جیسے کہ سورج۔ پولُس نے یہ بھی بتایا کہ ”آسمانی چیزوں کے جسم زمینی چیزوں کے جسموں سے فرق ہوتے ہیں۔“ اِس کا کیا مطلب ہے؟ یہ کہ زمین پر گوشت پوست کے جسم ہوتے ہیں جبکہ آسمان پر روحانی جسم ہوتے ہیں جیسے کہ فرشتوں کے۔
10. آسمان پر زندگی پانے والوں کو کس طرح کے جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے؟
پید 3:19) ایسی صورت میں ایک شخص کو ”غیرفانی جسم“ کے ساتھ زندہ کرنا کیسے ممکن ہے؟ پولُس ایسے لوگوں کے زندہ ہونے کے بارے میں بات نہیں کر رہے تھے جنہیں ایلیاہ، اِلیشع، یسوع یا خدا کے دیگر بندوں نے زمین پر زندہ کِیا تھا۔ دراصل پولُس اُن لوگوں کے زندہ ہونے کی بات کر رہے تھے جنہیں آسمانی جسم یعنی ”روحانی جسم“ کے ساتھ زندہ کِیا جائے گا۔—1-کُر 15:42-44۔
10 غور کریں کہ پولُس نے کہا: ”یہی بات مُردوں کے زندہ ہونے کے سلسلے میں بھی سچ ہے۔ فانی جسم بویا جاتا ہے پھر غیرفانی جسم جی اُٹھتا ہے۔“ جب ایک اِنسان مر جاتا ہے تو اُس کا جسم گل سڑ کر مٹی میں فنا ہو جاتا ہے۔ (11-12. (الف) یسوع مسیح کو کس جسم کے ساتھ زندہ کِیا گیا؟ (ب) مسحشُدہ مسیحیوں کو کس جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے؟
11 جب یسوع زمین پر تھے تو اُن کا جسم گوشت پوست کا تھا۔ لیکن جب اُنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا تو وہ ”زندگی بخشنے والی روح“ بن گئے اور واپس آسمان پر چلے گئے۔ اِسی طرح مسحشُدہ مسیحیوں کو بھی روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے تاکہ وہ آسمان پر رہ سکیں۔ پولُس رسول نے بتایا: ”جیسے ہم اُس کی طرح ہیں جسے مٹی سے بنایا گیا تھا، بالکل ویسے ہی ہم اُس کی طرح ہوں گے جو آسمان سے ہے۔“—1-کُر 15:45-49۔
12 یہ بات قابلِغور ہے کہ یسوع کو اِنسانی جسم کے ساتھ زندہ نہیں کِیا گیا تھا۔ پہلا کُرنتھیوں 15 باب کے آخری حصے میں پولُس نے بتایا کہ ایسا کیوں تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”گوشت پوست کا جسم خدا کی بادشاہت کا وارث نہیں ہو سکتا۔“ (1-کُر 15:50) رسول اور دیگر مسحشُدہ مسیحیوں کو گوشت اور خون کے جسم کے ساتھ زندہ نہیں کِیا جانا تھا جو فانی ہے۔ اُنہیں کب زندہ کِیا جانا تھا؟ پولُس نے واضح کِیا کہ ایسا مستقبل میں کسی وقت ہونا تھا۔ اُنہیں فوراً اُن کی موت کے بعد زندہ نہیں کِیا جانا تھا۔ جب پولُس نے پہلا کُرنتھیوں کا خط لکھا تو اُس وقت کچھ شاگرد پہلے ہی ”موت کی نیند سو“ چُکے تھے۔ (اعما 12:1، 2) دوسرے رسول اور مسحشُدہ مسیحی بعد میں ”موت کی نیند سو گئے۔“—1-کُر 15:6۔
موت پر فتح
13. مسیح کی موجودگی کے دوران کیا کچھ ہونا تھا؟
13 یسوع اور پولُس دونوں نے ایک خاص وقت کی پیشگوئی کی۔ یہ مسیح کی موجودگی کی پیشگوئی تھی۔ اِس وقت کے دوران پوری دُنیا میں جنگیں لڑی جانی تھی، جگہ جگہ زلزلے آنے تھے، وبائیں پھیلنی تھیں اور بہت سی اَور بُری باتیں ہونی تھیں۔ ہم بائبل کی اِس پیشگوئی کو 1914ء سے پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اِس پیشگوئی میں ایک اَور اہم پہلو بھی تھا۔ یسوع مسیح نے بتایا کہ پوری دُنیا میں اِس بات کی مُنادی کی جائے گی کہ خدا کی بادشاہت نے حکمرانی کرنی شروع کر دی ہے۔ ”پھر خاتمہ آئے گا۔“ (متی 24:3، 7-14) پولُس نے واضح کِیا کہ ”مالک کی موجودگی“ کے دوران اُن مسحشُدہ مسیحیوں کو زندہ کِیا جانا تھا جو ”موت کی نیند سو“ چُکے تھے۔—1-تھس 4:14-16؛ 1-کُر 15:23۔
14. اُن مسحشُدہ مسیحیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جو مسیح کی موجودگی کے دوران فوت ہوتے ہیں؟
14 آج جب مسحشُدہ مسیحی فوت ہوتے ہیں تو وہ فوراً زندہ کیے جاتے ہیں تاکہ وہ آسمان پر رہ سکیں۔ یہ بات پولُس کے اُن الفاظ سے ثابت ہوتی ہے جو اُنہوں نے 1-کُرنتھیوں 15:51، 52 میں کہے۔ اُنہوں نے کہا: ”ہم سب موت کی نیند نہیں سوئیں گے بلکہ ہم سب بدل جائیں گے۔ ہاں، جب آخری نرسنگا بجے گا تو ہم ایک ہی لمحے میں پلک جھپکتے ہی بدل جائیں گے۔“ پولُس کے یہ الفاظ آج پورے ہو رہے ہیں۔ جب مسحشُدہ مسیحیوں کو زندہ کِیا جاتا ہے تو مسیح کے اِن بھائیوں کی خوشی مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ”ہمیشہ اپنے مالک کے ساتھ رہیں گے۔“—1-تھس 4:17۔
15. جو مسحشُدہ مسیحی ”پلک جھپکتے ہی بدل“ جاتے ہیں، وہ کیا کام کریں گے؟
15 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ مسحشُدہ مسیحی آسمان پر کیا کام کریں مکا 2:26، 27) لہٰذا مسحشُدہ مسیحی یسوع کی طرح لوہے کی لاٹھی سے قوموں پر حکومت کریں گے۔—مکا 19:11-15۔
گے جو ”پلک جھپکتے ہی بدل“ جاتے ہیں۔ یسوع نے اُن سے بات کرتے ہوئے کہا: ”جو شخص جیتے گا اور آخر تک میرے جیسے کام کرے گا، مَیں اُسے قوموں پر ویسا ہی اِختیار دوں گا جیسا باپ نے مجھے دیا ہے تاکہ وہ شخص لوہے کی لاٹھی سے قوموں پر حکومت کرے اور اُنہیں مٹی کے برتنوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔“ (16. بہت سے اِنسان موت پر فتح کیسے پائیں گے؟
16 بےشک مسحشُدہ مسیحی ”موت پر فتح“ پائیں گے۔ (1-کُر 15:54-57) چونکہ وہ آسمان پر ہوں گے اِس لیے وہ ہرمجِدّون کی جنگ کے دوران زمین سے بُرائی کا نامونشان مٹانے میں یسوع کا ساتھ دیں گے۔ لاکھوں لاکھ دیگر مسیحی ”بڑی مصیبت سے نکل“ آئیں گے اور نئی دُنیا میں رہیں گے۔ (مکا 7:14) جو مسیحی زندہ بچ نکلیں گے، وہ اپنی آنکھوں سے زمین پر اربوں لوگوں کو زندہ ہوتے دیکھیں گے۔ یہ واقعی موت پر ایک اَور فتح ہوگی۔ ذرا سوچیں کہ یہ کتنا خوشی کا سماں ہوگا! (اعما 24:15) اِس کے علاوہ وہ تمام لوگ جو خدا کے وفادار رہیں گے، آخرکار آدم سے ورثے میں ملنے والی موت پر فتح پا لیں گے۔ وہ ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔
17. پہلا کُرنتھیوں 15:58 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ ہمیں ابھی کیا کرنا چاہیے۔
17 پولُس نے پہلا کُرنتھیوں 15 باب میں مُردوں کے زندہ ہو جانے کے حوالے سے جو باتیں لکھیں، اُن سے آج تمام مسیحی حوصلہ پا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس پولُس کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کہ ہم ”مالک کی خدمت میں مصروف رہیں۔“ (1-کُرنتھیوں 15:58 کو پڑھیں۔) اگر ہم پوری وفاداری اور لگن سے خدمت کریں گے تو ہمارا مستقبل روشن اور خوشگوار ہوگا۔ یہ مستقبل اِتنا شاندار ہوگا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اُس وقت یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ آج ہم”مالک کے لیے جو خدمت کر رہے ہیں، وہ فضول نہیں ہے۔“
گیت نمبر 140: ہمیشہ کی زندگی کی اُمید
^ پیراگراف 5 پہلا کُرنتھیوں 15 باب کا باقی حصہ اِس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ مسحشُدہ مسیحیوں کو آسمان پر زندہ کِیا جائے گا۔ اِس باب میں لکھی باتیں یسوع کی اَور بھی بھیڑوں کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ مُردوں کے زندہ ہو جانے کی اُمید سے ہمیں ابھی کیا فائدہ ہوتا ہے اور ہمارا مستقبل کیسے روشن ہوتا ہے۔
^ پیراگراف 2 اِس شمارے میں ”قارئین کے سوال“ میں 1-کُرنتھیوں 15:29 میں درج پولُس کی بات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔