مطالعے کا مضمون نمبر 51
یہوواہ بےحوصلہ لوگوں کی مدد کرتا ہے
”[یہوواہ] شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔“—زبور 34:18۔
گیت نمبر 30: یہوواہ، میرا باپ اور دوست
مضمون پر ایک نظر *
1-2. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
کبھی کبھار شاید ہمیں لگے کہ ہماری زندگی کتنی مختصر اور ’دُکھ سے بھری ہے۔‘ (ایو 14:1) ہو سکتا ہے کہ اِس وجہ سے ہم کافی بےحوصلہ ہو جائیں۔ قدیم زمانے میں رہنے والے یہوواہ کے بندے بھی بعض اوقات بےحوصلہ ہو گئے تھے۔ اِن میں سے کچھ تو مر جانا چاہتے تھے۔ (1-سلا 19:2-4؛ ایو 3:1-3، 11؛ 7:15، 16) لیکن وہ یہوواہ اپنے خدا پر بھروسا کرتے تھے جس نے بار بار اُن کا حوصلہ بڑھایا اور مشکلوں سے نمٹنے کے لیے اُنہیں طاقت بخشی۔ پاک کلام میں خدا کے اِن وفادار بندوں کی زندگی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ باتیں ’ہماری ہدایت کے لیے لکھی گئی ہیں تاکہ ہم اِن سے تسلی پائیں۔‘—روم 15:4۔
2 اِس مضمون میں ہم خدا کے کچھ ایسے بندوں کی مثال پر غور کریں گے جنہیں ایسی صورتحال کا سامنا ہوا جس کی وجہ سے وہ بےحوصلہ ہو سکتے تھے۔ ہم یعقوب کے بیٹے یوسف، نعومی اور اُس کی بہو رُوت، زبور 73 کو لکھنے والے لاوی اور پطرس رسول کی مثال پر غور کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ نے اُن کی ہمت کیسے بڑھائی اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ اِن باتوں پر غور کرنے سے ہمارا یہ یقین اَور مضبوط ہو جائے گا کہ ”[یہوواہ] شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔“—زبور 34:18۔
یوسف کو نااِنصافیوں کا سامنا کرنا پڑا
3-4. جب یوسف نوجوان تھے تو اُن کے ساتھ کیا کیا ہوا؟
3 جب یوسف 17 سال کے تھے تو اُنہوں نے دو خواب دیکھے جو یہوواہ کی طرف سے تھے۔ اِن خوابوں میں یہ ظاہر کِیا گیا کہ ایک دن یوسف ایک بہت بڑے عہدے پر فائز ہو جائیں گے جس کی وجہ سے اُن کے گھر والے اُن کی عزت کریں گے۔ (پید 37:5-10) لیکن اِن خوابوں کو دیکھنے کے تھوڑے عرصے بعد یوسف کی زندگی میں ایک کے بعد ایک بُرے واقعات پیش آئے۔ اُن کے بھائیوں نے اُن کی عزت کرنے کی بجائے اُنہیں اِسمٰعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور بعد میں اِسمٰعیلیوں نے اُنہیں ایک غلام کے طور پر فوطیفار نامی مصری افسر کو بیچ دیا۔ (پید 37:21-28) یوسف کی زندگی کچھ ہی لمحوں میں بدل گئی۔ ایک وقت تھا جب وہ اپنے باپ کے لاڈلے بیٹے ہوا کرتے تھے اور اب وہ ایک بُتپرست مصری افسر کے گھر معمولی سے غلام بن گئے تھے۔—پید 39:1۔
4 مصر آ کر یوسف کی مشکلیں اَور بڑھ گئیں۔ فوطیفار کی بیوی نے اُن پر عزت لوٹنے کا جھوٹا اِلزام لگایا۔ فوطیفار نے معاملے کی تفتیش کرنے کی بجائے یوسف کو قیدخانے میں ڈلوا دیا جہاں اُنہیں لوہے کی زنجیروں میں جکڑا گیا۔ (پید 39:14-20؛ زبور 105:17، 18) ذرا سوچیں کہ یوسف کو اپنے اُوپر لگے اِس جھوٹے اِلزام کی وجہ سے کتنی ذِلت محسوس ہوئی ہوگی اور اُنہیں اِس بات کا کتنا دُکھ ہوا ہوگا کہ اِس اِلزام کی وجہ سے یہوواہ کا نام بدنام ہوا ہے۔ بےشک ایسی صورتحال میں یوسف آسانی سے مایوس ہو سکتے تھے۔
5. یوسف نے کیا کِیا تاکہ وہ مایوسی کی دَلدل میں دھنس نہ جائیں؟
5 جب یوسف، فوطیفار کے گھر میں غلام تھے اور جب بعد میں اُنہیں قید میں ڈالا گیا تو وہ چاہ کر بھی اپنی صورتحال کو بدل نہیں سکتے تھے۔ لیکن اِن کٹھن صورتحال میں بھی اُنہوں نے اپنی سوچ کو مثبت رکھا۔ کیسے؟ اُنہوں نے اپنا دھیان اِس بات پر نہیں رکھا کہ اب وہ کون سے کام نہیں کر سکتے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے دل لگا کر وہ کام کیے جو اُنہیں سونپے گئے تھے۔ سب سے بڑھ کر اُنہوں نے یہوواہ کو خوش کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ بدلے میں یہوواہ نے بھی یوسف کے ہر اُس کام پر برکت ڈالی جو وہ کرتے تھے۔—پید 39:21-23۔
6. یوسف نے جو خواب دیکھے، اُن سے اُنہیں حوصلہ کیسے ملا ہوگا؟
6 یوسف کو اپنے اُن خوابوں سے بھی بڑا حوصلہ ملا ہوگا جو یہوواہ نے اُنہیں سالوں پہلے دِکھائے تھے۔ اِن خوابوں سے اُنہیں یہ اُمید ملی کہ ایک دن وہ اپنے گھر والوں سے دوبارہ ملیں گے اور اُن کی صورتحال بدل جائے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جب یوسف تقریباً 37 سال کے تھے تو اُن کے خواب بڑے حیرتانگیز طریقے سے پورے ہونے لگے۔—پید 37:7، 9، 10؛ 42:6، 9۔
7. پہلا پطرس 5:10 کے مطابق ہم مشکلات کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟
زبور 62:6، 7؛ 1-پطرس 5:10 کو پڑھیں۔) یاد کریں کہ جب یہوواہ نے یوسف کو خواب دِکھائے تھے تو وہ تقریباً 17 سال کے تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کو اپنے نوجوان بندوں پر پورا بھروسا ہے۔ آج بھی بہت سے نوجوان، یوسف کی طرح یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں۔ اِن میں سے بعض نوجوانوں کو تو بڑی نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنہیں محض اِس وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا کیونکہ وہ اپنے ایمان پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے۔—زبور 110:3۔
7 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یوسف کی طرح ہم بھی ایسے لوگوں کے بیچ رہتے ہیں جو ہمارے ساتھ نااِنصافی سے پیش آتے ہیں۔ کبھی کبھار تو ہمارے ہمایمان بھی ہمارے ساتھ نااِنصافی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہوواہ کو اپنی چٹان اور نجات سمجھتے ہیں تو ہم کبھی بھی ہمت ہار کر اُس کی خدمت کرنا نہیں چھوڑیں گے۔ (دو عورتوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا
8. نعومی اور رُوت کے ساتھ کیا ہوا؟
8 جب ملک یہوداہ میں سخت قحط پڑا تو نعومی اور اُن کا گھرانہ ملک موآب میں آ کر بس گیا۔ وہاں نعومی کے شوہر الیملک فوت ہو گئے اور وہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ اکیلی رہ گئیں۔ بعد میں نعومی کے دونوں بیٹوں نے موآبی عورتوں سے شادی کر لی۔ اِن عورتوں کے نام رُوت اور عرفہ تھے۔ تقریباً دس سال بعد نعومی کے دونوں بیٹے بھی فوت ہو گئے اور چونکہ اِن بیٹوں کی کوئی اولاد نہیں تھی اِس لیے اُن کی بیویاں بھی بالکل تنہا رہ گئیں۔ (رُوت 1:1-5) ذرا سوچیں کہ اِن تینوں عورتوں پر دُکھ کا کتنا بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑا! سچ ہے کہ رُوت اور عرفہ جوان تھیں اور دوبارہ شادی کر سکتی تھیں لیکن نعومی کا کیا جو بوڑھی ہو چُکی تھیں؟ نعومی اپنے شوہر اور بیٹوں کو کھونے پر اِتنی مایوس ہو گئیں کہ اُنہوں نے کہا: ”مجھ کو نعوؔمی نہیں بلکہ ماؔرہ کہو اِس لئے کہ قادرِمطلق میرے ساتھ نہایت تلخی سے پیش آیا ہے۔“ غم سے چُور نعومی نے بیتلحم جانے کا فیصلہ کِیا جہاں رُوت بھی اُن کے ساتھ گئیں۔—رُوت 1:7، 18-20۔
9. رُوت 1:16، 17، 22 کے مطابق رُوت نے نعومی کو حوصلہ کیسے دیا؟
9 دُکھ کی اِس گھڑی میں کس بات نے نعومی کو سہارا دیا؟ رُوت کی محبت نے۔ رُوت نے بُرے وقت میں بھی نعومی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ (رُوت 1:16، 17، 22 کو پڑھیں۔) جب وہ دونوں بیتلحم آئیں تو رُوت اپنا اور نعومی کا پیٹ پالنے کے لیے بڑی محنت سے جَو کی بالیں چُننے لگیں۔ رُوت کی محنت لوگوں کی نظروں سے چھپی نہیں رہی اور جلد ہی وہ ایک نیک عورت کے طور پر مشہور ہو گئیں۔—رُوت 3:11؛ 4:15۔
10. یہوواہ نے نعومی اور رُوت جیسے ضرورتمند لوگوں کا خیال رکھنے کے لیے کیا بندوبست کِیا تھا؟
10 شریعت میں یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو ایک ایسا حکم دیا جس سے ظاہر ہوا کہ اُسے غریبوں اور ضرورتمند لوگوں کی کتنی فکر ہے۔ اُس نے اپنی قوم سے کہا کہ وہ فصل کی کٹائی کرتے وقت کھیتوں کے کناروں پر اُگنے والے اناج کو چھوڑ دیں تاکہ غریب لوگ آ کر اِنہیں چُن سکیں۔ (احبا 19:9، 10) اِس بندوبست کی وجہ سے رُوت اور نعومی کو دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے۔
11-12. بوعز کی وجہ سے نعومی اور رُوت کی زندگی میں خوشیاں کیسے آئیں؟
11 جس کھیت میں رُوت بالیں چُننے کے لیے گئیں، وہ بوعز نامی ایک امیر آدمی کا کھیت تھا۔ بوعز یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے کہ رُوت اپنی ساس سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے نعومی کے گھرانے کی جائیداد کو خرید لیا اور رُوت سے شادی کر لی۔ (رُوت 4:9-13) یہوواہ نے رُوت اور بوعز کو ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام اُنہوں نے عوبید رکھا۔ عوبید بعد میں داؤد کے دادا بنے۔—رُوت 4:17۔
12 ذرا نعومی کی خوشی کا تصور کریں جو اُنہیں عوبید کو اپنی بانہوں میں لے کر ہوئی ہوگی! اُنہوں نے یقیناً یہوواہ کا دل سے شکر ادا کِیا ہوگا۔ لیکن مستقبل میں نعومی اور رُوت کو اِس سے بھی بڑھ کر خوشی ملے گی۔ جب اُنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا جائے گا تو وہ یہ جان کر بہت خوش ہوں گی کہ یسوع مسیح عوبید کی نسل سے آئے تھے۔
13. ہم نعومی اور رُوت کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟
امثا 17:17۔
13 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ جب ہمیں مشکلوں کا سامنا ہو تو ہم اِتنے مایوس ہو جائیں کہ ہماری ہمت جواب دے جائے۔ شاید ہمیں لگے کہ ہماری مشکلوں کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن ایسی صورت میں ہمیں اپنے آسمانی باپ پر پورا بھروسا کرنا چاہیے اور اُس کے بندوں سے مدد اور سہارا لینا چاہیے۔ سچ ہے کہ یہوواہ ہماری ہر مشکل کو چٹکی بجا کر دُور نہیں کر دیتا۔ غور کریں کہ اُس نے نعومی کے شوہر اور دونوں بیٹوں کو دوبارہ زندہ نہیں کر دیا تھا۔ لیکن وہ مشکلوں سے نمٹنے میں ہماری مدد ضرور کرتا ہے اور ایسا وہ اکثر ہمارے بہن بھائیوں کے ذریعے کرتا ہے۔—ایک لاوی جو یہوواہ کی خدمت چھوڑنے ہی والا تھا
14. ایک زبورنویس کس وجہ سے بہت بےحوصلہ ہو گیا؟
14 زبور 73 کو لکھنے والا شخص ایک لاوی تھا۔ لاوی ہونے کی وجہ سے اُسے یہوواہ کے گھر میں خدمت کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔ لیکن ایک وقت آیا کہ وہ اپنی زندگی سے بہت مایوس ہو گیا۔ کیوں؟ وہ بُرے اور مغرور لوگوں پر رشک کرنے لگا کیونکہ وہ اپنی زندگی میں بہت کامیاب نظر آ رہے تھے۔ (زبور 73:2-9، 11-14) ایسا لگتا تھا جیسے وہ پیسوں میں کھیل رہے ہیں، اُن کی زندگی خوشیوں سے بھری ہوئی ہے اور وہ ہر غم اور فکر سے آزاد ہیں۔ وہ اُن کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر اِتنا بےحوصلہ ہو گیا کہ اُس نے کہا: ”یقیناً مَیں نے عبث اپنے دل کو صاف اور اپنے ہاتھوں کو پاک کِیا۔“ بِلاشُبہ یہ زبورنویس یہوواہ کی خدمت چھوڑنے کے خطرے میں تھا۔
15. زبور 73:16-19، 22-25 کے مطابق لاوی نے اپنی مایوسی پر قابو کیسے پایا؟
15 زبور 73:16-19، 22-25 کو پڑھیں۔ پھر وہ لاوی ”خدا کے مقدِس میں“ گیا۔ وہاں اپنے ہمایمانوں کے بیچ رہ کر اُس نے پُرسکون ہو کر اور یہوواہ سے دُعا کر کے اپنی صورتحال کا جائزہ لیا۔ یوں وہ یہ دیکھ پایا کہ اُس کی سوچ کتنی احمقانہ تھی اور وہ ایک ایسے خطرناک راستے پر چلنے والا تھا جس سے وہ یہوواہ سے دُور ہو سکتا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ بُرے لوگ”پھسلنی جگہوں“ پر رہتے ہیں اور وہ ’فنا ہو جائیں گے۔‘ اپنی مایوسی کو دُور کرنے کے لیے اُس لاوی نے معاملوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھا۔ یوں اُس کا دل پھر سے پُرسکون ہو گیا اور وہ دوبارہ سے خوش رہنے لگا۔ اُس نے کہا: ”زمین پر [یہوواہ کے] سوا مَیں کسی کا مشتاق نہیں۔“
16. ہم ایک لاوی سے کیا سیکھتے ہیں؟
واعظ 8:12، 13) اگر ہم اُن پر رشک کریں گے تو ہم بےحوصلہ ہو جائیں گے، یہاں تک کہ یہوواہ کے ساتھ دوستی کھو بیٹھیں گے۔ لہٰذا اگر آپ کا دل بُرے لوگوں کی کامیابی پر رشک کرنے لگے تو وہی کریں جو لاوی نے کِیا۔ خدا کی ہدایت پر عمل کریں اور اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو یہوواہ کی مرضی پر چل رہے ہیں۔ اگر آپ یہوواہ سے سب سے زیادہ محبت کریں گے تو آپ کو سچی خوشی ملے گی اور آپ ”حقیقی زندگی“ کی راہ پر چلتے رہیں گے۔—1-تیم 6:19۔
16 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بُرے لوگ اپنی زندگی میں خوش اور کامیاب نظر آ رہے ہیں تو ہمیں کبھی بھی اُن پر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ اُن کی خوشی کھوکھلی اور عارضی ہے اور اُن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ (پطرس اپنی خامیوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو گئے
17. پطرس کن باتوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو گئے؟
17 پطرس رسول بڑے ہی جوشیلے شخص تھے۔ لیکن کبھی کبھار وہ جلدبازی میں ایسی باتیں یا کام کر جاتے تھے جس پر بعد میں اُنہیں پچھتاوا ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر جب یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کو بتایا کہ اُنہیں اذیت دی جائے گی اور مار ڈالا جائے گا تو پطرس نے اُن سے کہا: ”آپ کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔“ (متی 16:21-23) اِس پر یسوع نے اُن کی اِصلاح کی۔ پھر جب لوگوں کا ایک ہجوم یسوع کو گِرفتار کرنے آیا تو پطرس نے جذبات میں آ کر کاہنِاعظم کے ایک غلام کا کان اُڑا دیا۔ (یوح 18:10، 11) پطرس کی اِس حرکت پر بھی یسوع نے اُن کی اِصلاح کی۔ اِس کے علاوہ پطرس نے یہ شیخی ماری تھی کہ بھلے ہی سب رسول یسوع سے مُنہ موڑ لیں لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔ (متی 26:33) مگر پطرس اِتنے مضبوط نہیں تھے جتنا وہ خود کو سمجھ رہے تھے۔ اُسی رات بعد میں اُنہوں نے اِنسانوں سے ڈر کر تین بار یسوع کو جاننے سے اِنکار کر دیا۔ پطرس اِس قدر مایوس اور بےحوصلہ ہو گئے کہ وہ ”باہر جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔“ (متی 26:69-75) اُس وقت اُنہوں نے یقیناً یہ سوچا ہوگا کہ یسوع اُنہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔
18. یسوع نے پطرس کی مدد کیسے کی تاکہ وہ اپنی مایوسی سے نمٹ سکیں؟
18 لیکن پطرس نے ہمت نہیں ہاری۔ جلد ہی وہ دوبارہ سے رسولوں کے ساتھ مل کر یہوواہ کی خدمت کرنے لگے۔ (یوح 21:1-3؛ اعما 1:) وہ مایوسی سے کیسے نمٹ پائے؟ اُنہوں نے یاد کِیا کہ یسوع نے اُن کے لیے دُعا کی تھی کہ اُن کا ایمان کمزور نہ پڑے اور اُنہیں یہ نصیحت کی تھی کہ ’جب وہ واپس آئیں تو اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔‘ یہوواہ نے یسوع کی اِس دُعا کا جواب دیا۔ بعد میں جب یسوع، پطرس کو اکیلے میں دِکھائی دیے تو اُنہوں نے اُن کی حوصلہافزائی کی۔ ( 15، 16لُو 22:32؛ 24:33، 34؛ 1-کُر 15:5) یسوع اُس وقت تمام رسولوں کو نظر آئے جب وہ ساری رات مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے تھے لیکن اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔ اُس وقت یسوع نے پطرس کو یہ موقع دیا کہ وہ اُن کے لیے اپنی محبت کا اِظہار کریں۔ یسوع نے اپنے اِس عزیز دوست کو معاف کر دیا تھا اور اُسے اَور ذمےداری سونپی۔—یوح 21:15-17۔
19. زبور 103:13، 14 کے مطابق یہوواہ ہمیں ہمارے گُناہوں کے باوجود کیسا خیال کرتا ہے؟
19 ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یسوع جس طرح سے پطرس کے ساتھ پیش آئے، اُس سے ظاہر ہوا کہ اپنے باپ کی طرح وہ بھی کتنے رحمدل ہیں۔ لہٰذا جب ہم سے غلطیاں ہو جاتی ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہوواہ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ہم ایسا سوچیں اور ہمت ہار بیٹھیں۔ اِس لیے آئیں، اِس بات کو یاد رکھیں کہ یہوواہ ہم سے بےحد محبت کرتا ہے، وہ ہماری کمزوریوں سے واقف ہے اور ہمیں معاف کرنا چاہتا ہے۔ یہوواہ کی طرح ہمیں بھی دوسروں کو معاف کر دینا چاہیے۔—زبور 103:13، 14 کو پڑھیں۔
20. اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
20 یوسف، نعومی، رُوت، ایک لاوی اور پطرس رسول کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ’یہوواہ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے۔‘ (زبور 34:18) کبھی کبھار وہ ہمیں مشکلوں سے گزرنے دیتا ہے جس کی وجہ سے ہم بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب ہم اُس کی مدد سے مشکلوں میں ثابتقدم رہتے ہیں تو ہمارا ایمان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ (1-پطر 1:6، 7) اگلے مضمون میں ہم مزید دیکھیں گے کہ یہوواہ اپنے اُن بندوں کو سہارا کیسے دیتا ہے جو اپنی خامیوں یا دیگر مشکلوں کی وجہ سے مایوس ہو گئے ہیں۔
گیت نمبر 7: یہوواہ ہماری نجات ہے
^ پیراگراف 5 یوسف، نعومی، رُوت، ایک لاوی اور پطرس رسول کو زندگی میں ایسی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی وجہ سے وہ یقیناً بےحوصلہ ہو گئے ہوں گے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ نے اُن کا حوصلہ کیسے بڑھایا اور اُنہیں مشکلوں سے نمٹنے کی طاقت کیسے بخشی۔ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ ہم اُن سے اور جس طرح سے یہوواہ اُن کے ساتھ پیش آیا،اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت: نعومی، رُوت اور عرفہ اپنے اپنے شوہر کی موت پر دُکھی ہیں۔ بعد میں نعومی، رُوت اور بوعز، عوبید کی پیدائش پر خوش ہو رہے ہیں۔