اپنے اندر ضبطِنفس پیدا کریں
”روح کا پھل . . . ضبطِنفس . . . ہے۔“—گلتیوں 5:22، 23۔
1، 2. (الف) ضبطِنفس کی کمی کے کون سے نتائج نکل سکتے ہیں؟ (ب) ضبطِنفس کی خوبی پر بات کرنا کیوں ضروری ہے؟
ضبطِنفس ایک ایسی خوبی ہے جسے پیدا کرنے میں یہوواہ خدا ہماری مدد کر سکتا ہے۔ (گلتیوں 5:22، 23) چونکہ یہوواہ خدا ہر لحاظ سے کامل ہے اِس لیے وہ ضبطِنفس کی اعلیٰترین مثال ہے۔ لیکن ہم عیبدار ہیں اِس لیے ہم اکثر ضبطِنفس کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ دراصل آجکل ضبطِنفس کی کمی کی وجہ سے ہی لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں میں ضبطِنفس نہیں ہوتا، شاید وہ اہم کاموں کو لٹکائے رکھیں یا سکول میں یا ملازمت کی جگہ پر اچھی کارکردگی نہ دِکھا پائیں۔ ضبطِنفس کی کمی کی وجہ سے شاید ایک شخص گالی گلوچ کرے، شراب کے نشے میں دُھت ہو جائے، دوسروں پر تشدد کرے، قرضے میں ڈوب جائے یا نشے کا عادی بن جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس کی طلاق ہو جائے، اُسے جیل جانا پڑے یا جذباتی تکلیف سے گزرنا پڑے۔ ضبطِنفس سے کام نہ لینے کے اَور بھی بہت سے نقصان ہو سکتے ہیں، مثلاً جنسی تعلقات کی وجہ سے کوئی بیماری لگ جانا یا غیراِرادی طور پر حمل ٹھہر جانا۔—زبور 34:11-14۔
2 جن لوگوں میں ضبطِنفس نہیں ہوتا، وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ضبطِنفس کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہ کوئی 2-تیمُتھیُس 3:1-3۔
حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ بائبل میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ لوگوں میں ضبطِنفس کی کمی اِس بات کا ایک ثبوت ہوگی کہ ہم ”آخری زمانے“ میں رہ رہے ہیں۔—3. ہمیں اپنے اندر ضبطِنفس کیوں پیدا کرنا چاہیے؟
3 ہمیں اپنے اندر ضبطِنفس کیوں پیدا کرنا چاہیے؟ اِس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ جو لوگ اپنے جذبات اور احساسات کو قابو میں رکھ سکتے ہیں، اُنہیں زیادہ مسئلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، اُن کے لیے دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا آسان ہوتا ہے اور وہ غصے، پریشانی یا افسردگی جیسے احساسات سے بچ جاتے ہیں۔ دوسری یہ کہ خدا کی قربت میں رہنے کے لیے ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے اور غلط خواہشات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ آدم اور حوا ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ (پیدایش 3:6) اُن کی طرح آج بھی بہت سے لوگوں کو اِس لیے سنگین مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اُن میں ضبطِنفس نہیں ہوتا۔
4. جن لوگوں کو اپنی غلط خواہشات پر قابو پانا مشکل لگتا ہے، اُنہیں کس بات سے حوصلہ مل سکتا ہے؟
4 یہوواہ خدا جانتا ہے کہ ہم عیبدار ہیں اور ہمارے لیے ضبطِنفس سے کام لینا مشکل ہے۔ لیکن وہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اپنی غلط خواہشات پر قابو پا سکیں۔ (1-سلاطین 8:46-50) ایک سچے دوست کی طرح وہ بڑی شفقت سے اُن لوگوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے جو کبھی کبھار اپنے احساسات اور خواہشات کو قابو میں نہیں رکھ پاتے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم ضبطِنفس کے سلسلے میں یہوواہ خدا سے کیا سیکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم بائبل سے کچھ اچھی اور بُری مثالوں پر غور کریں گے اور کچھ عملی مشوروں پر بھی بات کریں گے۔
یہوواہ خدا—ضبطِنفس کی اعلیٰترین مثال
5، 6. یہوواہ خدا نے ضبطِنفس کی کیسی مثال قائم کی ہے؟
5 چونکہ یہوواہ ہر لحاظ سے بےعیب ہے اِس لیے وہ ضبطِنفس کی بہترین مثال ہے۔ (اِستثنا 32:4) البتہ ہم عیبدار ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یہوواہ خدا ضبطِنفس کا مظاہرہ کیسے کرتا ہے۔ یوں ہم اُس کی مثال پر اچھی طرح عمل کر پائیں گے۔ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی سیکھ پائیں گے کہ جب ہمیں کسی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم صحیح ردِعمل کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔ آئیں، اب دیکھیں کہ یہوواہ خدا ضبطِنفس سے کام کیسے لیتا ہے۔
چونکہ یہوواہ ہر لحاظ سے بےعیب ہے اِس لیے وہ ضبطِنفس کی بہترین مثال ہے۔
6 ذرا غور کریں کہ جب شیطان نے یہوواہ خدا کے خلاف بغاوت کی تو یہوواہ نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا۔ بِلاشُبہ شیطان کے جھوٹے اِلزامات کو سُن کر آسمان پر خدا کے وفادار فرشتوں کو نہ صرف دھچکا لگا ہوگا بلکہ اُنہیں شیطان پر بہت غصہ بھی آیا ہوگا اور اُن کے دل میں اُس کے لیے نفرت پیدا ہو گئی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ بھی یہ سوچتے ہوں کہ شیطان کی وجہ سے دُنیا میں اِتنی مصیبتیں ہیں تو آپ کے دل میں بھی اُس کے لیے ایسے ہی احساسات پیدا ہوتے ہوں۔ لیکن یہوواہ خدا اِتنے غصے میں نہیں آیا کہ شیطان کو فوراً ہلاک کر دے بلکہ اُس نے دیکھا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا صحیح ہوگا۔ شیطان کی بغاوت سے نمٹتے وقت یہوواہ قہر کرنے میں دھیما رہا ہے اور اُس نے اِنصاف سے کام لیا ہے۔ (خروج 34:6؛ ایوب 2:2-6) لیکن کیوں؟ یہوواہ خدا نے اِتنا وقت اِس لیے گزرنے دیا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی اِنسان ہلاک ہو بلکہ ”وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں۔“—2-پطرس 3:9۔
7. ہم یہوواہ خدا سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
7 یہوواہ خدا سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں کوئی بھی بات کہنے سے پہلے سوچنا سمجھنا چاہیے اور فوری ردِعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔ لہٰذا جب آپ زبور 141:3) جب ہم پریشان یا غصے میں ہوتے ہیں تو ہمارے لیے خود پر قابو رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اِسی وجہ سے بہت سے لوگ کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں یا کوئی ایسا کام کر دیتے ہیں جس کے لیے اُنہیں بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔—امثال 14:29؛ 15:28؛ 19:2۔
کو کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو خوب سوچ بچار کریں۔ یہوواہ خدا سے دانشمندی مانگیں تاکہ آپ صحیح بات کہہ سکیں اور صحیح کام کر سکیں۔ (خدا کے بندوں کی اچھی اور بُری مثالیں
8. (الف) ہمیں ضبطِنفس کی اچھی مثالیں کہاں سے ملتی ہیں؟ (ب) جب فوطیفار کی بیوی نے یوسف کو اُکسانے کی کوشش کی تو یوسف نے اِس آزمائش کا مقابلہ کیسے کِیا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
8 بائبل میں کون سی ایسی مثالیں درج ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ضبطِنفس کی خوبی بہت ضروری ہے؟ ایک مثال یعقوب کے بیٹے یوسف کی ہے۔ اُنہوں نے اُس وقت آزمائش کا مقابلہ کِیا جب وہ فرعون کے محافظوں کے سردار فوطیفار کے گھر میں کام کر رہے تھے۔ فوطیفار کی بیوی کا دل یوسف پر آ گیا تھا کیونکہ یوسف ”خوبصورت اور حسین“ تھے۔ اُس نے کئی مرتبہ یوسف کو اپنے ساتھ ہمبستر ہونے کے لیے اُکسانے کی کوشش کی۔ یوسف اِس آزمائش کا مقابلہ کیسے کر پائے؟ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے پہلے سے سوچا ہو کہ اگر وہ اُس عورت کی بات مان لیں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ پھر جب اُس عورت نے یوسف کے کپڑے پکڑ لیے تو یوسف وہاں سے بھاگ گئے۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“—پیدایش 39:6، 9؛ امثال 1:10 کو پڑھیں۔
آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے یہوواہ خدا سے دانشمندی اور ضبطِنفس مانگیں۔
9. آپ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو کیسے تیار کر سکتے ہیں؟
9 ہم یوسف سے کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ہم پر خدا کے کسی حکم کو توڑنے کی آزمائش آئے تو ہمیں اُس آزمائش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ کچھ بہن بھائی یہوواہ کے گواہ بننے سے پہلے حد سے زیادہ کھانا کھاتے تھے، بےتحاشا شراب پیتے تھے، سگریٹنوشی کرتے تھے، منشیات لیتے تھے، حرامکاری کرتے تھے یا دیگر بُرے کاموں میں ملوث تھے۔ ہو سکتا ہے کہ بپتسمے کے بعد بھی اُنہیں کبھی کبھار بُرے کام کرنے کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہو تو ذرا رُکیں اور سوچیں کہ اگر آپ آزمائشوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے تو یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کتنی کمزور پڑ جائے گی۔ آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ کن صورتحال میں آپ آزمائش میں پڑ سکتے ہیں اور آپ ایسی صورتحال سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ (زبور 26:4، 5؛ امثال 22:3) اگر آپ کو کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے تو اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے یہوواہ خدا سے دانشمندی اور ضبطِنفس مانگیں۔
10، 11. (الف) بہت سے نوجوانوں کو سکول میں کون سی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ (ب) نوجوان کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ خدا کے حکموں کو توڑنے کی آزمائش کا مقابلہ کر سکیں؟
10 یوسف کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ آجکل بہت سے مسیحی نوجوانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ذرا کیم نامی یہوواہ کی گواہ کی مثال پر غور کریں۔ اُن کے ہمجماعت اکثر ہفتے اِتوار کی چھٹی میں جنسی فعل کرتے تھے اور پھر سکول آ کر اِس پر شیخی بگھارتے تھے۔ لیکن کیم کے پاس اُنہیں بتانے کے لیے ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ وہ مانتی ہیں کہ دوسروں سے فرق ہونے کی وجہ سے وہ اکثر خود کو اکیلا اکیلا محسوس کرتی تھیں اور اُن کے ہمجماعت اُنہیں بےوقوف سمجھتے تھے کیونکہ وہ کسی کے ساتھ ڈیٹ پر نہیں جاتی تھیں۔ لیکن اصل میں کیم سمجھداری کا ثبوت دے رہی تھیں۔ اُنہیں پتہ تھا کہ نوجوانوں کے لیے جنسی فعل کرنے کی آزمائش سے بچنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔ (2-تیمُتھیُس 2:22) دوسرے طالبِعلم اکثر اُن سے پوچھتے تھے کہ کیا اُنہوں نے کبھی کسی کے ساتھ جنسی فعل نہیں کِیا۔ یوں اُنہیں دوسروں کو یہ بتانے کا موقع مل جاتا تھا کہ اُنہوں نے جنسی تعلقات قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیوں کِیا ہے۔ ہمیں اُن مسیحی نوجوانوں پر ناز ہے جنہوں نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ وہ حرامکاری کرنے کی آزمائش کا مقابلہ کریں گے۔ اور یہوواہ خدا کو بھی اُن پر بڑا ناز ہے۔
11 بائبل میں ایسے لوگوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں جنہوں نے حرامکاری کرنے کی آزمائش کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اِس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ضبطِنفس سے کام نہ لینے کے کون سے نقصان ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کیم جیسی صورتحال کا سامنا ہو تو اُس نوجوان کے بارے میں سوچیں جس کا ذکر امثال 7 باب میں کِیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ امنون کے بارے میں بھی سوچیں اور یاد رکھیں کہ اُس کی بُری حرکت کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔ (2-سموئیل 13:1، 2، 10-15، 28-32) والدین خاندانی عبادت میں اِن مثالوں پر بات کر سکتے ہیں تاکہ وہ ضبطِنفس اور دانشمندی جیسی خوبیاں پیدا کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کر سکیں۔
12. (الف) یوسف نے اپنے بھائیوں کے لیے اپنے جذبات کو قابو میں کیسے رکھا؟ (ب) کن صورتحال میں ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے؟
12 یوسف نے ایک اَور موقعے پر بھی ضبطِنفس کی اچھی مثال قائم کی۔ اُنہوں نے ایسا تب کِیا جب اُن کے بھائی مصر میں کھانا لینے کے لیے آئے۔ یوسف یہ جاننا چاہتے تھے کہ اُن کے بھائیوں کے دل میں کیا ہے اِس لیے اُنہوں نے اُن سے اپنی شناخت چھپائی۔ مگر جب اُن کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا ممکن نہ رہا تو وہ اپنے بھائیوں کو چھوڑ کر اکیلے میں جا کر رونے لگے۔ (پیدایش 43:30، 31؛ 45:1) اگر کوئی بہن یا بھائی آپ کا دل دُکھاتا ہے تو آپ بھی یوسف کی طرح ضبطِنفس سے کام لے سکتے ہیں۔ یوں آپ کوئی بھی ایسی بات یا کام کرنے سے بچ جائیں گے جس کے لیے آپ کو بعد میں پچھتانا پڑے۔ (امثال 16:32؛ 17:27) یا ہو سکتا ہے کہ آپ کا کوئی رشتےدار خارجشُدہ ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ غیرضروری طور پر اُس سے رابطہ نہ کریں۔ ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ یہ یاد رکھیں گے کہ اِس طرح آپ یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور اُس کا حکم مانتے ہیں تو آپ کے لیے ایسا کرنا قدرے آسان ہوگا۔
ہم میں سے کسی کو بھی حد سے زیادہ پُراعتماد ہو کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی بھی آزمائش ہمیں گِرا نہیں پائے گی۔
13. ہم بادشاہ داؤد کی زندگی سے کون سے سبق سیکھ سکتے ہیں؟
13 ہمیں ضبطِنفس کے سلسلے میں بادشاہ داؤد کی مثال پر غور کرنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ جب ساؤل اور سمعی نے اُنہیں غصہ دِلانے والے کام کیے تو وہ نہ تو طیش میں آئے اور نہ ہی طاقت کا اِستعمال کرتے ہوئے اُن سے بدلہ لیا۔ (1-سموئیل 26:9-11؛ 2-سموئیل 16:5-10) لیکن داؤد نے ہمیشہ ضبطِنفس سے کام نہیں لیا۔ اُنہوں نے بتسبع کے ساتھ زِناکاری کی اور نابال کی بدتمیزی پر سخت ردِعمل ظاہر کِیا۔ (1-سموئیل 25:10-13؛ 2-سموئیل 11:2-4) ہم داؤد کی مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ خدا کی تنظیم میں کام کی نگرانی کرنے والے بھائیوں کو ضبطِنفس سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ اپنے اِختیار کا غلط اِستعمال نہ کریں۔ دوسرا یہ کہ ہم میں سے کسی کو بھی حد سے زیادہ پُراعتماد ہو کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی بھی آزمائش ہمیں گِرا نہیں پائے گی۔—1-کُرنتھیوں 10:12۔
ضبطِنفس پیدا کرنے کے لیے کچھ عملی اِقدام
14. (الف) ایک بھائی کے ساتھ کون سا واقعہ پیش آیا؟ (ب) اگر آپ کو بھی ایسی صورتحال سامنا ہو تو آپ کا ردِعمل اُس بھائی جیسا کیوں ہونا چاہیے؟
14 آپ ضبطِنفس کی خوبی کو نکھارنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ ذرا 2-کُرنتھیوں 6:3، 4 کو پڑھیں۔
ایک واقعے پر غور کریں جو لویجی نامی یہوواہ کے گواہ کے ساتھ پیش آیا۔ ایک آدمی نے اُن کی گاڑی کو پیچھے سے ٹھوک دیا۔ حالانکہ غلطی اُس آدمی کی تھی لیکن پھر بھی وہ لویجی پر چیخنے چلّانے لگا اور اُن سے لڑنے لگا۔ لویجی نے یہوواہ سے دُعا کی تاکہ وہ خود بھی غصے میں نہ آئیں اور اُس آدمی کو بھی ٹھنڈا کر سکیں۔ لیکن وہ آدمی پھر بھی لویجی پر چلّاتا رہا۔ لویجی نے اُس کی گاڑی کی اِنشورنس کی تفصیلات لکھ لیں اور وہاں سے چلے گئے جبکہ وہ آدمی چپ نہیں ہوا۔ ایک ہفتے کے بعد لویجی ایک عورت سے واپسی ملاقات کرنے گئے۔ اُس کا شوہر وہی ڈرائیور تھا۔ وہ آدمی بہت شرمندہ تھا اور اُس نے لویجی سے اپنے بُرے رویے کے لیے معافی مانگی۔ اُس نے لویجی سے کہا کہ وہ اُن کی اِنشورنس کمپنی سے رابطہ کرے گا تاکہ وہ اپنی گاڑی جلدی ٹھیک کروا سکیں۔ پھر اُس نے لویجی سے بائبل پر باتچیت بھی کی اور اُسے یہ باتچیت بہت اچھی لگی۔ اِس واقعے سے لویجی سمجھ گئے کہ حادثے کے وقت اُنہوں نے خود پر قابو رکھ کر کتنا اچھا کِیا اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اِس کا کتنا نقصان ہوتا۔—15، 16. بائبل کا مطالعہ کرنے سے آپ اور آپ کا خاندان ضبطِنفس کی خوبی کیسے پیدا کر سکتا ہے؟
15 باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے یشوع 1:8) لیکن بائبل کا مطالعہ کرنے سے آپ اپنے اندر ضبطِنفس کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
سے ہم اپنے اندر ضبطِنفس پیدا کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہوواہ خدا کے اِن الفاظ کو یاد رکھیں جو اُس نے یشوع سے کہے تھے: ”شریعت کی یہ کتاب تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دن اور رات اِسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اِس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو احتیاط کر کے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اِقبالمندی کی راہ نصیب ہوگی اور تُو خوب کامیاب ہوگا۔“ (باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرنے سے ہم اپنے اندر ضبطِنفس پیدا کر سکتے ہیں۔
16 ہم نے بائبل سے ایسی مثالوں پر غور کِیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ ضبطِنفس سے کام لینے کے کون سے فائدے ہیں اور اِس سے کام نہ لینے کے کون سے نقصان ہیں۔ یہوواہ خدا نے یہ مثالیں ہمارے فائدے کے لیے لکھوائی ہیں۔ (رومیوں 15:4) لہٰذا دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ہم اِن مثالوں کو پڑھیں اور اِن پر سوچ بچار کریں۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو اِس بات پر غور کریں کہ آپ اور آپ کا خاندان اِن مثالوں سے کون سے سبق سیکھتا ہے۔ یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ وہ بائبل میں درج ہدایات پر عمل کرنے میں آپ کی مدد کرے۔ اگر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کچھ حلقوں میں ضبطِنفس کا مظاہرہ نہیں کر رہے تو اِس بات کو تسلیم کریں۔ پھر اِس کے بارے میں دُعا کریں اور اپنے اندر بہتری لانے کی پوری کوشش کریں۔ (یعقوب 1:5) ہماری مطبوعات سے ایسے مضامین تلاش کریں جو اِس سلسلے میں آپ کے لیے فائدہمند ثابت ہو سکتے ہیں۔
17. والدین کن طریقوں سے اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے اندر ضبطِنفس پیدا کر سکیں؟
17 آپ ضبطِنفس پیدا کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ والدین جانتے ہیں کہ اُن کے بچوں میں یہ خوبی پیدائشی طور پر نہیں ہوتی۔ لہٰذا اُنہیں دوسری خوبیوں کی طرح ضبطِنفس سے کام لینے کے سلسلے میں بھی بچوں کے لیے مثال قائم کرنی چاہیے۔ (اِفسیوں 6:4) اگر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے بچوں میں ضبطِنفس کی کمی ہے تو خود سے پوچھیں کہ کیا آپ اِس سلسلے میں اچھی مثال قائم کر رہے ہیں۔ آپ باقاعدگی سے مُنادی کرنے، اِجلاسوں میں جانے اور خاندانی عبادت کرنے سے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ اور اگر بچے کوئی ایسی فرمائش کریں جسے آپ کو نہیں ماننا چاہیے تو اُنہیں صاف منع کریں۔ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کے لیے حدیں مقرر کی تھیں۔ اِن حدوں کی وجہ وہ یہوواہ کے اِختیار کا احترام کرنا سیکھ سکتے تھے۔ اِسی طرح جب والدین اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور اُن کے لیے اچھی مثال قائم کرتے ہیں تو بچے ضبطِنفس سے کام لینا سیکھ سکتے ہیں۔ جو اچھی باتیں آپ اپنے بچوں کو سکھا سکتے ہیں، اُن میں خدا کے اِختیار اور اُس کے معیاروں کے لیے احترام اور محبت شامل ہے۔—امثال 1:5، 7، 8 کو پڑھیں۔
18. ہمیں سمجھداری سے دوستوں کا اِنتخاب کیوں کرنا چاہیے؟
18 چاہے ہم والدین ہیں یا نہیں، ہم سب کو سمجھداری سے دوستوں کا اِنتخاب کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے دوست یہوواہ سے محبت کرتے ہیں تو وہ اچھے منصوبے بنانے اور مشکلات سے بچنے میں آپ کی مدد کریں گے۔ (امثال 13:20) اُن کی اچھی مثال سے آپ کو ترغیب ملے گی کہ آپ اُن کی طرح ضبطِنفس سے کام لیں۔ اور بِلاشُبہ آپ کے اچھے چالچلن سے اُن کی حوصلہافزائی ہوگی۔ ضبطِنفس کی خوبی کا مظاہرہ کرنے سے ہم خدا کی خوشنودی حاصل کریں گے، زندگی سے لطف اُٹھا پائیں گے اور اُن لوگوں کو خوش رکھ پائیں گے جن سے ہم پیار کرتے ہیں۔