مطالعے کا مضمون نمبر 7
’داناؤں کی باتیں سنیں‘
”اپنا کان جھکا اور داناؤں کی باتیں سُن۔“—امثا 22:17۔
گیت نمبر 123: تابعدار ہوں
مضمون پر ایک نظر *
1. (الف) ہم سب کی اِصلاح یا درستی کس کس طرح سے ہوتی ہے؟ (ب) اِصلاح کو قبول کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
ہم سب کو کبھی نہ کبھی اِصلاح یا درستی کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی کبھار شاید ہم خود کسی سے اِس حوالے سے مشورہ مانگیں۔ یا شاید کبھی کبھار کوئی بہن یا بھائی ہمیں بتائے کہ ہم کون سا ”غلط قدم“ اُٹھانے والے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں ہمیں پچھتانا پڑے گا۔ (گل 6:1) یا پھر ہو سکتا ہے کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہو جائے اور کوئی ہمیں یہ سمجھائے کہ ہمیں اپنی درستی کرنی چاہیے۔ چاہے ہماری اِصلاح کسی بھی وجہ سے کی جائے، ہمیں اِسے قبول کرنا چاہیے۔ اِس میں ہمارا ہی بھلا ہے اور اِس سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے۔—عبر 12:11۔
2. امثال 12:15 کے مطابق ہمیں اِصلاح کو کیوں قبول کرنا چاہیے؟
2 اِس مضمون کی مرکزی آیت میں ہم سے کہا گیا ہے کہ ہم ’داناؤں کی باتیں سنیں۔‘ (امثا 22:17) کوئی بھی اِنسان ایسا نہیں ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہو۔ ہمیں زندگی میں ہمیشہ ایسے لوگ ضرور ملیں گے جن کے پاس ہم سے زیادہ علم اور تجربہ ہے۔ (امثال 12:15 کو پڑھیں۔) تو اگر ہم اِصلاح کو قبول کرتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم خاکسار ہیں۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ کون سے کام ہمارے بس میں ہیں اور کون سے نہیں اور ہمیں اپنے منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی مدد چاہیے۔ بادشاہ سلیمان نے خدا کے اِلہام سے یہ بات لکھی: ”جہاں صلاح مشورہ نہیں ہوتا وہاں منصوبے ناکام رہ جاتے ہیں، جہاں بہت سے مشیر ہوتے ہیں وہاں کامیابی ہوتی ہے۔“—امثا 15:22، اُردو جیو ورشن۔
3. ہماری اِصلاح یا درستی کن دو طریقوں سے ہو سکتی ہے؟
3 ہماری اِصلاح فرق فرق طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بائبل سے کوئی بات پڑھیں یا پھر ہماری کتابوں، ویڈیوز یا اِجلاسوں میں کوئی ایسی بات بتائی جائے جس سے ہمیں پتہ چلے کہ ہمیں فلاں معاملے میں خود میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ (عبر 4:12) ایک اَور طریقے سے بھی ہماری اِصلاح ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ہماری اِصلاح کرے۔ مثال کے طور پر کلیسیا کا کوئی بزرگ یا کوئی اَور پُختہ مسیحی ہمیں بتائے کہ ہمیں کہاں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص ہم سے پیار کرنے کی وجہ سے بائبل کے ذریعے ہماری اِصلاح کرتا ہے تو ہمیں اُس کی بات سننی چاہیے اور اِس پر عمل کرنا چاہیے۔
4. جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو واعظ 7:9 کے مطابق ہمیں کیا نہیں کرنا چاہیے؟
4 کبھی کبھار جب کوئی ہماری اِصلاح کرتا ہے تو شاید ہمیں اُس کی بات سننا اور اُس کے مطابق عمل کرنا مشکل لگے۔ یا پھر شاید ہم بُرا منا جائیں۔ کیوں؟ ہم یہ بات تو مانتے ہیں کہ ہم عیبدار ہیں اور ہم سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی اَور آ کر ہمیں بتائے کہ ہم سے کون سی غلطی ہوئی ہے اور ہمیں خود میں بہتری لانے کی ضرورت ہے تو شاید ہمیں اچھا نہ لگے۔ (واعظ 7:9 کو پڑھیں۔) شاید ہم اُسے صفائیاں دینے لگیں۔ شاید ہم یہ سوچنے لگیں کہ اُس نے ہماری اِصلاح صحیح نیت سے نہیں کی ہے یا پھر جس طرح سے اُس نے ہماری اِصلاح کی ہے، اُس کی وجہ سے ہم بُرا منا جائیں۔ یا پھر شاید ہم اِصلاح کرنے والے شخص میں ہی غلطیاں نکالنا شروع کر دیں اور یہ سوچنے لگیں: ”اِسے ہماری اِصلاح کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ اِس میں تو خود اِتنی خامیاں ہیں؟“ اِس طرح ہم اُس شخص کی بات سُن کر خود میں بہتری نہیں لائیں گے۔ اِس کی بجائے ہم کسی ایسے شخص کے پاس مشورہ لینے جائیں گے جس کے بارے میں ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہم سے وہ بات کہے گا جو ہمیں اچھی لگے گی۔
5. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
5 اِس مضمون میں ہم بائبل سے کچھ ایسے لوگوں کی مثالوں پر غور کریں گے جنہوں نے اِصلاح کو قبول نہیں کِیا اور کچھ ایسے لوگوں کی مثالوں پر بھی جنہوں نے اِصلاح کو قبول کِیا۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے تاکہ ہم اِصلاح کو قبول کریں اور اِس سے فائدہ حاصل کریں۔
اِصلاح کو قبول نہ کرنے والے لوگ
6. رحبُعام نے مشورہ ملنے پرجو کچھ کِیا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
6 ذرا رحبُعام کی مثال پر غور کریں۔ جب وہ اِسرائیل کے بادشاہ بنے تو لوگ اُن کے پاس ایک درخواست لے کر آئے۔ اُنہوں نے رحبُعام سے کہا کہ وہ اُس بوجھ کو کم کر دیں جو اُن کے والد سلیمان نے اُن پر ڈالا تھا۔ رحبُعام نے بنیاِسرائیل کے کچھ بوڑھے لوگوں سے مشورہ کِیا کہ اُنہیں اِن لوگوں کی درخواست کا کیا جواب دینا چاہیے۔ یہ بہت اچھی بات تھی۔ اِن بوڑھے لوگوں نے رحبُعام کو مشورہ دیا کہ اگر وہ لوگوں کی بات مان لیں گے تو لوگ ہمیشہ اُن کا ساتھ دیں گے۔ (1-سلا 12:3-7) لیکن رحبُعام کو اُن بوڑھے آدمیوں کا مشورہ پسند نہیں آیا۔ اِس لیے اُنہوں نے ایسے آدمیوں سے مشورہ کِیا جو اُن کے ساتھ پلے بڑھے تھے۔ اِن آدمیوں کی عمر شاید 40 کے لگ بھگ تھی جس کا مطلب ہے کہ اُن کے پاس زندگی کا کچھ نہ کچھ تجربہ ضرور تھا۔ (2-توا 12:13) لیکن اِس موقعے پر اُنہوں نے رحبُعام کو بہت بُرا مشورہ دیا۔ اُنہوں نے رحبُعام سے کہا کہ وہ لوگوں کا بوجھ بڑھا دیں۔ (1-سلا 12:8-11) رحبُعام کو دو فرق فرق مشورے دیے گئے تھے۔ وہ یہوواہ سے دُعا کر سکتے تھے اور اُس سے پوچھ سکتے تھے کہ اُنہیں کس کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن اُنہوں نے وہ مشورہ قبول کِیا جو اُنہیں اچھا لگا اور اپنے ہمعمروں کی بات سنی۔ اِس وجہ سے رحبُعام اور ملک اِسرائیل کے لوگوں کو بہت زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ ایسے مشورے نہ ملیں جو ہمیں پسند ہوں۔ لیکن اگر وہ مشورے بائبل کے مطابق ہیں تو ہمیں اُنہیں قبول کرنا چاہیے۔
7. ہم بادشاہ عُزیاہ کی مثال سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟
7 اب ذرا بادشاہ عُزیاہ کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے بھی اِصلاح کو قبول نہیں کِیا۔ وہ یہوواہ کی ہیکل کے اُس حصے میں داخل ہو گئے جہاں صرف کاہنوں کو جانے کی اِجازت تھی اور وہاں اُنہوں نے بخور جلانے کی کوشش کی۔ کاہنوں نے اُن سے کہا: ”اَے عزؔیاہ [یہوواہ] کے لئے بخور جلانا تیرا کام نہیں بلکہ کاہنوں . . . کا کام ہے۔“ اِس پر عُزیاہ نے کیا کِیا؟ اگر اُنہوں نے خاکساری سے کاہنوں کی اِصلاح کو قبول کِیا ہوتا اور فوراً ہیکل سے نکل گئے ہوتے تو شاید یہوواہ اُنہیں معاف کر دیتا۔ لیکن اِس کی بجائے وہ ’غصہ ہوئے۔‘ عُزیاہ نے اِصلاح کو قبول کیوں نہیں کِیا؟ شاید اُنہیں لگا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ جو چاہیں، کر سکتے ہیں۔ لیکن یہوواہ کو اُن کی یہ حرکت پسند نہیں آئی۔ عُزیاہ نے غرور میں آ کر جو کچھ کِیا، اُس کی وجہ سے اُنہیں یہوواہ کی طرف سے کوڑھ ہو گیا اور وہ ’اپنے مرنے کے دن تک کوڑھی رہے۔‘ (2-توا 26:16-21) عُزیاہ کی بُری مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ چاہے ہمارے پاس جتنا بھی اِختیار ہو، اگر ہم اُس اِصلاح کو قبول نہیں کرتے جو بائبل کے ذریعے کی جاتی ہے تو یہوواہ ہم سے ناراض ہو جائے گا۔
اِصلاح کو قبول کرنے والے لوگ
8. جب ایوب کی اِصلاح کی گئی تو اُنہوں نے کیا کِیا؟
8 بائبل میں ایسے لوگوں کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جنہوں نے اِصلاح کو قبول کِیا اور اِس وجہ سے یہوواہ نے اُنہیں برکتیں دیں۔ اِن میں سے ایک ایوب ہیں۔ ایوب یہوواہ سے بہت پیار کرتے تھے اور اُسے خوش کرنا چاہتے تھے لیکن اُن سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ بہت زیادہ پریشانی کی حالت میں وہ کچھ ایسی باتیں کہہ گئے جو صحیح نہیں تھیں۔ اِس وجہ سے یہوواہ اور اِلیہو دونوں نے اُن کی اِصلاح کی۔ اِس پر ایوب نے کیا کِیا؟ وہ خاکسار تھے اِس لیے اُنہوں نے اِصلاح کو قبول کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں نے جو نہ سمجھا وہی کہا۔ . . . مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں۔“ ایوب کی خاکساری کی وجہ سے یہوواہ نے اُنہیں برکتیں دیں۔—ایو 42:3-6، 12-17۔
9. موسیٰ نبی نے اِصلاح کو قبول کرنے کے سلسلے میں ہمارے لیے اچھی مثال کیسے قائم کی؟
9 موسیٰ نبی نے بھی اُس وقت اِصلاح کو قبول کِیا جب اُن سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی۔ ایک موقعے پر اُنہیں بہت زیادہ غصہ آ گیا اور اُنہوں نے یہوواہ کی تعریف نہیں کی۔ اِس وجہ سے یہوواہ نے اُنہیں اُس ملک میں جانے کی اِجازت نہیں دی جسے اُس نے اپنے بندوں کو دینے کا وعدہ کِیا تھا۔ (گن 20:1-13) جب موسیٰ نے یہوواہ سے درخواست کی کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لے تو یہوواہ نے کہا: ”بس کر۔ اِس مضمون پر مجھ سے پھر کبھی کچھ نہ کہنا۔“ (اِست 3:23-27) اِس وجہ سے موسیٰ غصہ نہیں ہوئے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ کے فیصلے کو قبول کِیا اور یہوواہ اُن کے ذریعے بنیاِسرائیل کی رہنمائی کرتا رہا۔ (اِست 4:1) ایوب اور موسیٰ دونوں نے اِصلاح کو قبول کِیا اور ہمیں بھی اُن کی طرح بننا چاہیے۔ ایوب نے اپنی سوچ کو درست کِیا اور اپنی صفائیاں پیش نہیں کیں۔ موسیٰ اُس وقت بھی یہوواہ کے وفادار رہے جب یہوواہ نے اُنہیں وہ موقع نہیں دیا جس کا اُنہیں شدت سے اِنتظار تھا۔ اِس طرح اُنہوں نے ثابت کِیا کہ اُنہوں نے یہوواہ کی طرف سے اِصلاح کو قبول کِیا ہے۔
10. (الف) امثال 4:10-13 کے مطابق اِصلاح کو قبول کرنے کے کیا فائدے ہوتے ہیں؟ (ب) کچھ بہن بھائیوں نے اُس وقت کیا کِیا جب اُن کی اِصلاح کی گئی؟
10 اگر ہم بھی ایوب اور موسیٰ کی طرح بنیں گے تو ہمیں فائدہ ہوگا۔ (امثال 4:10-13 کو پڑھیں۔) ہمارے بہت سے بہن بھائیوں نے خدا کے اِن بندوں کی طرح اِصلاح کو قبول کِیا ہے۔ اِن میں سے ایک بھائی کا نام عمانوئیل ہے۔ وہ کانگو میں رہتے ہیں۔ ایک بار کلیسیا کے پُختہ بھائیوں نے اُنہیں ایک بات سے خبردار کِیا گیا۔ وہ کہتے ہیں: ”میری کلیسیا کے بھائیوں نے دیکھا کہ میرے ایمان کا جہاز غرق ہونے والا ہے اور اُنہوں نے فوراً میری مدد کی۔ مَیں نے اُن کی اِصلاح کو قبول کِیا اور اِس سے مَیں ایک بہت بڑی مشکل میں پڑنے سے بچ گیا۔“ * ذرا غور کریں کہ میگن نامی بہن نے اِصلاح کے بارے میں کیا کہا۔ وہ کینیڈا میں رہتی ہیں اور پہلکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مجھ سے جو کہا گیا، وہ مَیں سننا تو نہیں چاہتی تھی مگر مجھے واقعی اِس کی ضرورت تھی۔“ کروشیا سے بھائی مارکو کہتے ہیں: ”مجھ سے میری ذمےداری لے لی گئی۔ لیکن اب جب مَیں اُس وقت کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اِصلاح کو قبول کرنے کی وجہ سے مَیں یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی پھر سے مضبوط کر پایا ہوں۔“
11. بھائی کلائن نے اِصلاح کو قبول کرنے کے بارے میں کیا کہا؟
11 ایک اَور شخص جسے اِصلاح کو قبول کرنے کا بہت فائدہ ہوا، وہ تھے بھائی کارل کلائن۔ بھائی کلائن گورننگ باڈی کے رُکن تھے۔ اپنی آپبیتی میں بھائی کلائن نے بتایا کہ اُن کی اور بھائی جوزف رتھرفرڈ کی بہت اچھی دوستی تھی۔ لیکن ایک بار بھائی رتھرفرڈ نے اُن کی بڑی سختی سے اِصلاح کی۔ بھائی کلائن نے تسلیم کِیا کہ جب اُن کی اِصلاح کی گئی تو اُنہیں شروع میں بالکل اچھا نہیں لگا۔ وہ کہتے ہیں: ”اگلی بار جب بھائی رتھرفرڈ نے مجھے دیکھا تو اُنہوں نے بڑے اچھے موڈ میں مجھ سے کہا: ”کیسے ہو کارل؟“ اِفس 4:25-27) بھائی کلائن نے بھائی رتھرفرڈ کی طرف سے اِصلاح کو قبول کِیا اور وہ دونوں بہت اچھے دوست رہے۔
لیکن چونکہ مَیں بڑے غصے میں تھا اِس لیے مَیں نے بس ہلکی سی آواز میں اُنہیں سلام کر دیا۔ اُنہوں نے فوراً مجھ سے کہا: ”دھیان رکھو کارل! شیطان تمہیں پھنسانے کی کوشش میں ہے۔“ مَیں نے تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا: ”سب ٹھیک ہے بھائی رتھرفرڈ۔“ لیکن وہ جانتے تھے کہ مَیں اُن سے ناراض ہوں۔ اِس لیے اُنہوں نے پھر سے مجھے خبردار کرتے ہوئے کہا: ”چلو ٹھیک ہے۔ لیکن بس دھیان رکھو، شیطان تمہیں پھنسانے کی کوشش میں ہے۔“ وہ بالکل صحیح کہہ رہے تھے۔ جب ہم اپنے کسی بھائی کے لیے دل میں غصہ رکھتے ہیں، خاص طور پر اُس وقت جب اُس نے صحیح بات کی ہو تو ہم شیطان کو موقع دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے پھندے میں پھنسا لے۔“ (کیا چیز اِصلاح کو قبول کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
12. اِصلاح کو قبول کرنے میں خاکساری ہماری مدد کیوں کر سکتی ہے؟ (زبور 141:5)
12 کیا چیز اِصلاح کو قبول کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ ہمیں خاکسار ہونا چاہیے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم عیبدار ہیں اور اکثر احمقانہ کام کر دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا تھا کہ ایوب کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت تھی۔ اور جب اُنہوں نے ایسا کِیا تو یہوواہ نے اُنہیں برکت دی۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ کیونکہ ایوب خاکسار تھے۔ اِسی وجہ سے اُنہوں نے اِلیہو کی طرف سے اِصلاح کو قبول کِیا حالانکہ اِلیہو اُن سے عمر میں بہت چھوٹے تھے۔ (ایو 32:6، 7) خاکسار ہونے کی وجہ سے ہم اُس وقت بھی اِصلاح کو قبول کریں گے جب ہمیں لگے گا کہ ہمیں اِس کی ضرورت نہیں ہے یا جب کوئی ایسا شخص ہماری اِصلاح کرے گا جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے۔ کینیڈا سے کلیسیا کے ایک بزرگ کہتے ہیں: ”جو خامیاں دوسرے ہم میں دیکھتے ہیں، شاید وہ ہمیں نظر نہ آئیں۔ اِس لیے اگر ہم اُن کی طرف سے اِصلاح کو قبول نہیں کریں گے تو ہم خود میں بہتری کیسے لائیں گے؟“ ہم سب کو ہی اپنے اندر روح کے پھل کی خوبیوں کو نکھارنے اور خوشخبری کا بہتر مُناد اور اُستاد بننے کی ضرورت ہے۔—زبور 141:5 کو پڑھیں۔
13. جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں کیسا محسوس کرنا چاہیے؟
13 اِصلاح کو محبت کا ثبوت سمجھیں۔ یہوواہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ (امثا 4:20-22) اِس لیے جب وہ اپنے کلام،اپنی تنظیم کی ویڈیوز اور کتابوں کے ذریعے یا پھر کسی پُختہ مسیحی کے ذریعے ہماری اِصلاح کرتا ہے تو وہ دراصل ہمارے لیے محبت ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ عبرانیوں 12:9، 10 کے مطابق وہ ”ہمارے فائدے کے لیے“ ایسا کرتا ہے۔
14. جب کوئی ہماری اِصلاح کرتا ہے تو ہمیں کس بات پر دھیان دینا چاہیے؟
14 ہمیں اِس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ ہمیں کیا سمجھایا جا رہا ہے نہ کہ اِصلاح کرنے کے طریقے پر۔ شاید کبھی کبھار ہمیں لگے کہ جس طرح سے ہماری اِصلاح کی گئی ہے، وہ طریقہ صحیح نہیں تھا۔ بےشک ایک شخص کو دوسروں کی اِصلاح اِس طرح سے کرنی چاہیے کہ اُنہیں اِسے قبول کرنا آسان لگے۔ * (گل 6:1) لیکن اگر ہماری اِصلاح کی جا رہی ہے تو ہمیں اِس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ ہمیں کیا سمجھایا جا رہا ہے پھر چاہے ہمیں یہ کیوں نہ لگ رہا ہو کہ جو شخص ہماری اِصلاح کر رہا ہے، اُس کا طریقہ صحیح نہیں ہے۔ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنے چاہئیں: ”بھلے ہی مجھے اُس شخص کے سمجھانے کا طریقہ اچھا نہیں لگا لیکن کیا اُس کی بات کسی حد تک ٹھیک ہے؟ کیا مَیں اُس کی خامیوں کو نظرانداز کر سکتا ہوں اور اُس بات پر عمل کر سکتا ہوں جو اُس نے مجھے سمجھائی ہے؟“ چاہے ہماری اِصلاح کسی بھی وجہ سے کی جائے، ہمیں اِس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ ہم اِس کے ذریعے خود میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں۔—امثا 15:31۔
مشورہ مانگیں اور فائدہ حاصل کریں
15. ہمیں خود دوسروں سے کیوں پوچھنا چاہیے کہ ہم کہاں پر بہتری لا سکتے ہیں؟
15 بائبل میں ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ ہم خود میں بہتری لانے کے لیے دوسروں سے مشورہ مانگیں۔ امثال 13:10 میں لکھا ہے: ”مغروروں میں ہمیشہ جھگڑا ہوتا ہے جبکہ دانشمند صلاح مشورے کے مطابق ہی چلتے ہیں۔“ (اُردو جیو ورشن) یہ بات بالکل صحیح ہے۔ جو لوگ اِس بات کا اِنتظار نہیں کرتے کہ دوسرے آ کر اُنہیں مشورہ دیں بلکہ وہ خود اُن کے پاس جا کر مشورہ لیتے ہیں، وہ اچھے فیصلے کرتے ہیں۔ اِس لیے خود جا کر دوسروں سے پوچھیں کہ آپ کہاں پر بہتری لا سکتے ہیں۔
16. ہم کن صورتوں میں خود میں بہتری لانے کے لیے دوسروں سے مشورہ مانگ سکتے ہیں؟
16 ہم خود میں بہتری لانے کے لیے اپنے ہمایمانوں سے کب مشورہ مانگ سکتے ہیں؟ اِن میں سے کچھ صورتحال یہ ہو سکتی ہیں: (1) ایک بہن ایک تجربہکار مبشر سے کہتی ہے کہ وہ اُس کے ساتھ بائبل کورس کرانے جائے اور بعد میں اُس سے پوچھتی ہے کہ وہ اَور بہتر طریقے سے تعلیم کیسے دے سکتی ہے۔ (2) ایک غیرشادیشُدہ بہن اپنے لیے کچھ کپڑے خریدنا چاہتی ہے اور وہ ایک پُختہ مسیحی سے اِس سلسلے میں مشورہ لیتی ہے۔ (3) ایک بھائی پہلی بار عوامی تقریر کرنے والا ہے۔ اِس لیے وہ ایک تجربہکار مقرر سے کہتا ہے کہ وہ اُس کی تقریر سنے اور پھر اُسے بتائے کہ وہ کہاں بہتری لا سکتا ہے۔ چاہے ایک بھائی کئی سالوں سے تقریریں کر رہا ہو، وہ بھی تجربہکار مقرروں سے پوچھ سکتا ہے کہ اُسے کہاں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور پھر وہ اُن کے مشوروں پر عمل کر سکتا ہے۔
17. ہم اُن مشوروں سے فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو ہمیں اپنے اندر بہتری لانے کے لیے دیے جاتے ہیں؟
17 آگے چل کر ہم سب کو خود میں بہتری لانے کے لیے اَور بھی مشورے ملتے رہیں گے۔ یہ مشورے ہمیں کلیسیا کے کسی بزرگ یا پُختہ مسیحی کی طرف سے مل سکتے ہیں یا پھر بائبل پڑھنے یا تنظیم کی کتابوں، ویڈیوز یا اِجلاسوں کے ذریعے مل سکتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اُن باتوں کو یاد رکھیں جو ہم نے اِس مضمون میں سیکھی ہیں۔ خاکسار رہیں۔ اِس بات پر دھیان دیں کہ آپ کو کیا سمجھایا جا رہا ہے نہ کہ اِس بات پر کہ آپ کو کیسے سمجھایا جا رہا ہے۔ اور پھر اُن مشوروں پر عمل کریں جو آپ کو خود میں بہتری لانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی پیدائشی طور پر دانشمند نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہم ’اچھا مشورہ اپناتے اور تربیت قبول کرتے ہیں‘ تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہم ’دانشمند ہو جائیں گے۔‘—امثا 19:20، اُردو جیو ورشن۔
گیت نمبر 124: وفادار ہوں
^ پیراگراف 5 یہوواہ کے بندے جانتے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہے کہ جب اُنہیں خود میں بہتری لانے کے لیے بائبل سے کوئی مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ اِسے قبول کریں اور اِس کے مطابق عمل کریں۔ لیکن ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اُن مشوروں سے فائدہ حاصل کریں جو ہمیں اپنے اندر بہتری لانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔
^ پیراگراف 10 کچھ نام فرضی ہیں۔
^ پیراگراف 14 اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ سمجھداری سے دوسروں کی اِصلاح کیسے کی جا سکتی ہے۔