مطالعے کا مضمون نمبر 6
کیا آپ کو بھروسا ہے کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟
”وہ وہی چٹان ہے۔ اُس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اُس کی سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“—اِست 32:4۔
گیت نمبر 3: یہوواہ، ہمارا سہارا اور آسرا
مضمون پر ایک نظر *
1-2. (الف) آج بہت سے لوگ اُن لوگوں پر بھروسا کیوں نہیں کرتے جن کے پاس اِختیار ہوتا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن تین صورتحال پر بات کریں گے؟
آج بہت سے لوگ اُن لوگوں پر بھروسا نہیں کرتے جن کے پاس اِختیار ہوتا ہے۔ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ حکومتیں اکثر امیروں اور رُتبے والوں کا تو ساتھ دیتی ہیں لیکن غریبوں کے ساتھ نااِنصافی کرتی ہیں۔ بائبل میں لکھی یہ بات بالکل سچ ہے کہ ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کر کے اُس کو ضرر [یعنی نقصان] پہنچاتا ہے۔“ (واعظ 8:9، کیتھولک ترجمہ) اِس کے علاوہ کچھ مذہبی رہنما بھی بہت سے غلط کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگوں کا خدا سے بھروسا اُٹھ گیا ہے۔ اِس لیے جب کوئی شخص ہم سے بائبل کورس کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اُسے یہوواہ پر اور اُن لوگوں پر بھروسا کرنا مشکل لگے جنہیں یہوواہ نے زمین پر ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔ اور اِس حوالے سے اُس کی مدد کرنا ہمارے لیے آسان نہیں ہوتا۔
2 بےشک صرف بائبل کورس کرنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ہم سب کو یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر اپنے بھروسے کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اگر ہم کئی سالوں سے یہوواہ کی عبادت کر رہے ہیں تو تب بھی ہمیں ا پنے اِس بھروسے کو کمزور نہیں پڑنے دینا چاہیے کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار کچھ ایسی صورتحال کھڑی ہو سکتی ہیں جن میں یہوواہ پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم ایسی ہی تین صورتحال پر بات کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان اُس وقت کیسے ہو سکتا ہے (1) جب ہم بائبل میں کچھ واقعات کو پڑھتے ہیں، (2) جب ہمیں یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ہدایتیں ملتی ہیں اور (3) جب ہمیں آگے چل کر مشکلوں کا سامنا ہوگا۔
یہوواہ پر بھروسا رکھیں—جب آپ بائبل میں لکھے واقعات کو پڑھتے ہیں
3. بائبل میں لکھے کچھ واقعات کی وجہ سے یہوواہ پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان کیوں ہو سکتا ہے؟
3 بائبل پڑھتے وقت شاید ہمارے ذہن میں یہ سوال آئیں کہ ”یہوواہ نے فلاں شخص کے ساتھ ایسا کیوں کِیا؟ یا یہوواہ نے فلاں فیصلہ کیوں کِیا؟“ مثال کے طور پر گنتی کی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں کہ یہوواہ نے ایک شخص کو اِس لیے موت کی سزا سنائی کیونکہ وہ سبت کے دن لکڑیاں چُن رہا تھا۔ سموئیل کی دوسری کتاب میں ہم ایک واقعہ پڑھتے ہیں جو اِس واقعے کے سینکڑوں سال بعد ہوا۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ بادشاہ داؤد نے حرامکاری کی اور قتل کِیا لیکن یہوواہ نے اُنہیں معاف کر دیا۔ (گن 15:32، 35؛ 2-سمو 12:9، 13) شاید ہم سوچیں: ”یہوواہ نے داؤد کو کیوں معاف کر دیا جبکہ اُنہوں نے تو قتل کِیا تھا اور حرامکاری کی تھی جو کہ اِتنے بڑے گُناہ ہیں اور اُس شخص کو موت کی سزا کیوں دی جس کا گُناہ اِتنا بڑا نہیں تھا؟“ اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے آئیں، تین ایسی باتوں پر غور کرتے ہیں جنہیں ہمیں بائبل پڑھتے وقت اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔
4. پیدایش 18:20، 21 اور اِستثنا 10:17 سے اِس بات پر ہمارا بھروسا کیوں بڑھتا ہے کہ یہوواہ کے فیصلے ہمیشہ صحیح ہوتے ہیں؟
4 بائبل میں ہمیشہ ہر واقعے کی ساری معلومات نہیں دی گئی۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ داؤد نے اپنے گُناہوں سے دل سے توبہ کی تھی۔ (زبور 51:2-4) لیکن جس آدمی نے سبت کے بارے میں حکم توڑا تھا، وہ کس طرح کا شخص تھا؟ کیا اُسے اپنی غلطی پر افسوس تھا؟ کیا اُس نے پہلے بھی یہوواہ کے قانون توڑے تھے؟ جب اُسے پہلے اُس کی غلطیوں پر سمجھایا گیا تھا تو کیا اُس نے بات ماننے سے اِنکار کر دیا تھا؟ بائبل میں اِن سوالوں کے جواب نہیں دیے گئے۔ لیکن ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کی ”سب راہیں اِنصاف کی ہیں۔“ (اِست 32:4) یہوواہ خدا اِنسانوں کی طرح نہیں ہے جو اکثر سنی سنائی باتوں یا تعصب کی وجہ سے غلط فیصلے سنا دیتے ہیں۔ یہوواہ ہمیشہ حقیقتوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ (پیدایش 18:20، 21 کو پڑھیں؛ اِستثنا 10:17 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔ *) جتنا زیادہ ہم یہوواہ اور اُس کے اصولوں کے بارے میں سیکھتے ہیں اُتنا زیادہ یہوواہ کے فیصلوں پر ہمارا بھروسا مضبوط ہوتا ہے۔ اگر بائبل میں لکھے کسی واقعے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ایسے سوال اُٹھتے ہیں جن کے جواب فیالحال ہمارے پاس نہیں ہیں تو تب بھی ہم اپنے خدا کو اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ’یہوواہ اپنی سب راہوں میں صادق ہے۔‘—زبور 145:17۔
5. عیبدار ہونے کی وجہ سے اِنصاف کے بارے میں ہماری سوچ پر کیا اثر پڑتا ہے؟ (بکس ” عیبدار ہونے کی وجہ سے ہم ہر بار یہوواہ کے فیصلوں کو صحیح طرح سے نہیں سمجھ پاتے“ کو بھی دیکھیں۔)
5 عیبدار ہونے کی وجہ سے ہم اکثر اِنصاف سے فیصلے نہیں کر پاتے۔ خدا نے ہم میں وہی خوبیاں ڈالی ہیں جو اُس میں ہیں۔ اِس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سب لوگوں کے ساتھ اِنصاف ہو۔ (پید 1:26) لیکن چونکہ ہم عیبدار ہیں اِس لیے ہم سے کسی معاملے کے بارے میں غلط فیصلے ہو سکتے ہیں اور ایسا اُس وقت بھی ہو سکتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس اُس معاملے کی ساری معلومات ہیں۔ مثال کے طور پر ذرا یاد کریں کہ جب یہوواہ نے نینوہ کے لوگوں پر رحم کرنے کا فیصلہ کِیا تو یُوناہ بہت ناراض ہوئے۔ (یُوناہ 3:10–4:1) لیکن سوچیں کہ یہوواہ کے فیصلے کا نتیجہ کیا نکلا؟ نینوہ کے 1 لاکھ 20 ہزار لوگوں کی جانیں بچ گئیں کیونکہ اُنہوں نے توبہ کر لی تھی۔ اصل میں یُوناہ کو اپنی سوچ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت تھی، یہوواہ کو نہیں۔
6. یہوواہ اِس بات کا پابند کیوں نہیں ہے کہ وہ ہمیں اپنے فیصلوں کی وجہ بتائے؟
6 یہوواہ اِس بات کا پابند نہیں ہے کہ وہ اِنسانوں کو اپنے فیصلوں کی وجہ بتائے۔ یہ سچ ہے کہ پُرانے وقتوں میں خدا نے اپنے بندوں کو اِس بات کا اِظہار کرنے دیا کہ وہ اُن فیصلوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں جو وہ کر چُکا تھا یا کرنے والا تھا۔ (پید 18:25؛ یُوناہ 4:2، 3) اور کبھی کبھار اُس نے اپنے فیصلوں کی وجہ بھی بتائی۔ (یُوناہ 4:10، 11) لیکن یہوواہ اِس بات کا پابند نہیں ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ اُس نے فلاں فیصلہ کیوں کِیا ہے۔ چونکہ یہوواہ نے ہمیں بنایا ہے اِس لیے اُسے کچھ کرنے سے پہلے ہماری اِجازت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کے بعد ہمیں اُس کی وجہ بتانے کی ضرورت ہے۔—یسع 40:13، 14؛ 55:9۔
یہوواہ پر بھروسا رکھیں—جب تنظیم کی طرف سے ہدایتیں ملتی ہیں
7. ہمیں کس مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے اور کیوں؟
7 ہمیں اِس بات پر کوئی شک نہیں کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اُن اِنسانوں پر بھروسا کرنا مشکل لگ سکتا ہے جنہیں خدا نے زمین پر ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔ شاید ہم سوچیں کہ خدا نے جن لوگوں کو اپنی تنظیم میں اِختیار دیا ہے، کیا وہ واقعی یہوواہ کی ہدایتوں پر چلتے ہیں یا پھر سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے ہیں؟ شاید پُرانے وقتوں میں بھی کچھ لوگوں نے ایسا ہی سوچا ہوگا۔ مثال کے طور پر ذرا اُن واقعات کے بارے میں سوچیں جن کا ذکر پیراگراف نمبر 3 میں ہوا تھا۔ جس شخص نے سبت کے بارے میں یہوواہ کا قانون توڑا تھا، شاید اُس کے کسی رشتےدار نے سوچا ہو کہ ”کیا موسیٰ نے اُسے موت کی سزا سنانے سے پہلے واقعی یہوواہ سے پوچھا تھا؟“ اور ذرا حتی اُوریاہ کے کسی دوست کے بارے میں سوچیں جسے پتہ چلا کہ داؤد نے اُوریاہ کی بیوی کے ساتھ حرامکاری کی اور بعد میں اُوریاہ کو مروا ڈالا۔ شاید اُس نے سوچا ہو کہ ”داؤد اپنے بادشاہ ہونے کے اِختیار کو اِستعمال کر کے اُس سزا سے بچ گئے ہیں جو اُنہیں واقعی ملنی چاہیے تھی۔“ صاف لفظوں میں کہیں تو اگر ہم اُن بھائیوں پر بھروسا نہیں کرتے جن پر یہوواہ بھروسا کرتا ہے تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں۔
8. پہلی صدی عیسوی اور آج کی کلیسیاؤں میں کون سی بات ایک جیسی ہے؟ (اعمال 16:4، 5)
8 آج یہوواہ ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کے ذریعے اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔ (متی 24:45) پہلی صدی عیسوی کی گورننگ باڈی کی طرح یہ غلام پوری دُنیا میں خدا کے بندوں کی پیشوائی کرتا ہے اور کلیسیا کے بزرگوں کو ہدایتیں دیتا ہے۔ (اعمال 16:4، 5 کو پڑھیں۔) اور پھر بزرگ اِن ہدایتوں پر پوری طرح سے عمل کرتے ہیں۔ جب ہم تنظیم اور بزرگوں کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کو مانتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں اِس بات پر پورا بھروسا ہے کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔
9. ہمیں بزرگوں کے کسی فیصلے کو ماننا کب مشکل لگ سکتا ہے اور کیوں؟
9 کبھی کبھار ہمیں بزرگوں کے فیصلوں کو ماننا مشکل لگ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے کچھ سالوں میں بہت سی کلیسیاؤں اور حلقوں میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ کچھ صورتوں میں بزرگوں نے مبشروں سے کہا کہ وہ ایسی کلیسیا میں چلے جائیں جہاں پر عبادت کے دوران بیٹھنے کی جگہ تو *
بہت ہوتی ہے لیکن وہاں مبشر کم ہیں۔ اِس طرح عبادتگاہوں میں بیٹھنے کی گنجائش کو پوری طرح سے اِستعمال کِیا جا سکتا ہے۔ اگر ہمیں کسی نئی کلیسیا میں جانے کو کہا جاتا ہے تو شاید ہمیں اپنے دوستوں اور گھر والوں کو چھوڑنا مشکل لگے۔ کیا یہوواہ بزرگوں کو بتاتا ہے کہ اُنہیں کس مبشر کو کس کلیسیا میں بھیجنا چاہیے؟ نہیں۔ اور شاید اِسی وجہ سے ہمیں اُن کی بات ماننا مشکل لگے۔ لیکن یہوواہ کو بزرگوں پر پورا بھروسا ہے کہ وہ ایسے معاملوں میں صحیح فیصلہ کریں گے۔ اِس لیے ہمیں بھی اُن پر بھروسا کرنا چاہیے۔10. ہمیں بزرگوں کے فیصلے کیوں ماننے چاہئیں؟ (عبرانیوں 13:17)
10 ہمیں بزرگوں کے فیصلے کیوں ماننے چاہئیں، خاص طور پر اُس وقت جب اُن کے فیصلے ہماری پسند کے مطابق نہیں ہوتے؟ کیونکہ ایسا کرنے سے یہوواہ کے بندے متحد رہ پائیں گے۔ (اِفس 4:2، 3) جب سب مبشر خاکساری سے بزرگوں کی جماعت کے فیصلوں کے مطابق چلتے ہیں تو کلیسیاؤں کو فائدہ ہوتا ہے۔ (عبرانیوں 13:17 کو پڑھیں۔) سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بزرگوں کے فیصلے ماننے سے ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ پر بھروسا ہے جس نے بزرگوں کو ہماری دیکھبھال کرنے کی ذمےداری دی ہے۔—اعما 20:28۔
11. ہم بزرگوں کے فیصلوں پر اپنے بھروسے کو مضبوط کیسے کر سکتے ہیں؟
11 ہم بزرگوں کے فیصلوں پر اپنے بھروسے کو مضبوط کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بزرگ کلیسیا کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ سے پاک روح کے لیے دُعا کرتے ہیں۔ وہ بڑے دھیان سے بائبل کے اصولوں اور تنظیم کی دی گئی ہدایتوں پر بھی غور کرتے ہیں۔ وہ پورے دل سے یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اُس کے بندوں کا اچھے سے خیال رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ جس طرح سے اپنی ذمےداریوں کو نبھائیں گے، اُس کے لیے وہ یہوواہ کے حضور جوابدہ ہیں۔ (1-پطر 5:2، 3) ذرا سوچیں کہ اِس دُنیا میں لوگ نسل، مذہب اور سیاست کی وجہ سے بٹے ہوئے ہیں۔ لیکن یہوواہ کے بندے ایک ہو کر اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ صرف اِس لیے ہو رہا ہے کیونکہ یہوواہ اپنی تنظیم کا ساتھ دے رہا ہے۔
12. جب بزرگ یہ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک شخص نے واقعی اپنے گُناہ سے توبہ کر لی ہے یا نہیں تو اُنہیں کن باتوں پر دھیان دینا چاہیے؟
12 یہوواہ نے بزرگوں کو یہ ذمےداری دی ہے کہ وہ کلیسیا کو پاک صاف رکھیں جو کہ ایک بہت بڑی ذمےداری ہے۔ اگر ایک مسیحی کوئی بہت بڑا گُناہ کرتا ہے تو یہوواہ بزرگوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اِس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ کلیسیا کا حصہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔ دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں کو یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا وہ مسیحی اپنے کیے پر دل سے شرمندہ ہے یا نہیں۔ شاید وہ کہے کہ اُس نے اپنے گُناہ سے توبہ کر لی ہے۔ لیکن کیا وہ سچ میں اُس کام سے نفرت کرتا ہے جو اُس نے کِیا ہے؟ کیا اُس نے پکا عزم کِیا ہے کہ وہ یہ گُناہ دوبارہ نہیں کرے گا؟ اگر اُس نے بُرے دوستوں میں اُٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے گُناہ کِیا ہے تو کیا وہ اُن سے دوستی توڑنے کو تیار ہے؟ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے بزرگ یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں، حقائق پر غور کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بائبل میں اِس سلسلے میں کیا بتایا گیا ہے اور اِس بات پر دھیان دیتے ہیں کہ گُناہ کرنے والا شخص اپنے گُناہ کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے۔ اِس کے بعد بزرگ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ شخص کلیسیا کا حصہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔ بعض صورتوں میں یہ لازمی ہوتا ہے کہ اُس شخص کو کلیسیا سے خارج کر دیا جائے۔—1-کُر 5:11-13۔
13. اگر ہمارے دوست یا رشتےدار کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں کون سے سوال آ سکتے ہیں؟
13 بزرگوں پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان کیسے ہو سکتا ہے؟ فرض کریں کہ اگر کسی ایسے شخص کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے جو ہمارا دوست یا رشتےدار نہیں ہے تو شاید ہمارے لیے بزرگوں کے فیصلے کو ماننا مشکل نہ ہو۔ لیکن اگر وہ شخص ہمارا قریبی دوست ہے تو ہمارے لیے بزرگوں کے فیصلے کو قبول کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ شاید ہم یہ سوچنے لگیں کہ ”پتہ نہیں، بزرگوں نے تمام حقائق پر غور کِیا ہے یا نہیں؟“ یا ”کیا اُنہوں نے واقعی یہوواہ کی سوچ کے مطابق فیصلہ کِیا ہے یا نہیں؟“ کیا چیز ہماری مدد کرے گی کہ ہم بزرگوں کے فیصلے پر بھروسا رکھیں؟
14. اگر بزرگ ہمارے کسی دوست یا رشتےدار کو کلیسیا سے خارج کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم کون سی باتیں یاد رکھ سکتے ہیں؟
گل 5:9) اِس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ اُس شخص کو یہ احساس نہ ہو کہ اُس کا گُناہ کتنا بڑا تھا اور اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ اُسے پھر سے یہوواہ کے قریب آنے کے لیے اپنی سوچ اور کاموں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ (واعظ 8:11) ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ جب بزرگ یہ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ گُناہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج کِیا جانا چاہیے یا نہیں تو وہ اپنی اِس ذمےداری کو بہت دھیان سے نبھاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بنیاِسرائیل کے قاضیوں کی طرح وہ بھی ”آدمیوں کی طرف سے نہیں بلکہ [یہوواہ] کی طرف سے عدالت“ کرتے ہیں۔—2-توا 19:6، 7۔
14 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے گُناہ سے توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج کرنے کا اِنتظام یہوواہ خدا نے کِیا ہے۔ اِس سے نہ صرف پوری کلیسیا کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ اُس شخص کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر گُناہ سے توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج نہ کِیا جائے تو وہ کلیسیا کے باقی لوگوں پر بُرا اثر ڈال سکتا ہے۔ (مستقبل میں یہوواہ پر بھروسا کرنے کے لیے ابھی سے اُس پر بھروسا کریں
15. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ابھی یہوواہ کی ہدایتوں پر اَور بھی زیادہ بھروسا رکھیں؟
15 جیسے جیسے اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے، ہمیں اِس بات پر اَور بھی زیادہ بھروسا کرنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ صحیح ہوتا ہے۔ مگر کیوں؟ بڑی مصیبت کے دوران ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایسی ہدایتیں ملیں جو ہمیں عجیب لگیں، جن کے بارے میں ہمیں سمجھ نہ آئے کہ یہ ہدایتیں کیوں دی گئی ہیں یا ہمیں اُن پر عمل کرنا مشکل لگے۔ ظاہری بات ہے کہ یہوواہ ہمیں خود آ کر ہدایتیں نہیں دے گا بلکہ وہ اُن لوگوں کے ذریعے ایسا کرے گا جنہیں اُس نے ہماری پیشوائی کے لیے چُنا ہوگا۔ وہ ایسا وقت نہیں ہوگا جب ہم ہدایتوں پر شک کریں اور یہ سوچنے لگیں کہ ”کیا یہ ہدایت سچ میں یہوواہ کی طرف سے آئی ہے یا پھر بھائی اپنی طرف سے فیصلہ کر کے ہمیں بتا رہے ہیں؟“ کیا آپ اُس اہم وقت میں یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر بھروسا کریں گے؟ اِس سوال کے جواب کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ابھی اُن لوگوں کی ہدایتوں کو فوراً مانتے ہیں یا نہیں جنہیں یہوواہ نے آپ کی پیشوائی کے لیے مقرر کِیا ہے۔—لُو 16:10۔
16. مستقبل میں یہوواہ کے فیصلوں پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان کیسے ہو سکتا ہے؟
16 ہمیں اِس بات پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ جب مستقبل میں یہوواہ بُری دُنیا کے بارے میں فیصلہ کرے گا تو اِس بارے میں ہماری سوچ کیا ہوگی۔ ابھی ہمیں اُمید ہے کہ اِس دُنیا کا خاتمہ آنے سے پہلے ہمارے غیرایمان رشتےدار اور بہت سے اَور لوگ یہوواہ کی عبادت کرنے کا فیصلہ کر لیں گے۔ لیکن ہرمجِدّؔون پر یہوواہ یسوع کے ذریعے اِن لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ کر دے گا۔ (متی 25:31-33؛ 2-تھس 1:7-9) یہ فیصلہ کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوگا کہ یہوواہ کو کس پر رحم کرنا چاہیے اور کس پر نہیں۔ (متی 25:34، 41، 46) کیا اُس وقت ہم یہوواہ کے فیصلوں پر بھروسا کریں گے یا پھر ہم یہ سوچ کر اُسے چھوڑ دیں گے کہ ہم اُس کے فیصلوں سے اِتفاق نہیں کرتے؟ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ابھی یہوواہ پر بھروسا کریں تاکہ ہم مستقبل میں بھی آنکھیں بند کر کے اُس پر بھروسا کر سکیں۔
17. جب یہ بُری دُنیا ختم ہو جائے گی تو ہمیں یہوواہ کے فیصلوں سے کیا فائدے ہوں گے؟
17 ذرا سوچیں کہ جب ہم نئی دُنیا میں دیکھیں گے کہ یہوواہ کے فیصلوں کے کتنے اچھے نتیجے نکلے ہیں تو ہمیں کتنی خوشی ہوگی۔ جھوٹا مذہب تباہ ہو گیا ہوگا۔ اور لالچ سے بھرا تجارتی نظام اور اِنسانوں کی حکومتیں ختم ہو چُکی ہوں گی جن کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف اُٹھانی پڑی ہے۔ بیماریاں اور بڑھاپا ختم ہو چُکے ہوں گے اور ہمارے عزیز موت کی وجہ سے ہم سے نہیں بچھڑیں گے۔ شیطان اور بُرے فرشتوں کو ایک ہزار سال کے لیے قید کر دیا جائے گا۔ اُن کی بغاوت کے بُرے اثرات ختم ہو چُکے ہوں گے۔ (مکا 20:2، 3) اُس وقت ہم یہ سوچ کر کتنے خوش ہوں گے کہ ہم نے اِس بات پر بھروسا کِیا کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، صحیح کرتا ہے۔
18. ہم گنتی 11:4-6 اور 21:5 میں لکھی باتوں سے کیا سیکھتے ہیں؟
18 کیا نئی دُنیا میں ہمیں کچھ ایسی مشکلوں کا سامنا ہوگا جن کی وجہ سے اِس بات پر ہمارے بھروسے کا اِمتحان ہوگا کہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟ ذرا سوچیں کہ جب بنیاِسرائیل مصر کی غلامی سے نکلے تو اِس کے کچھ عرصے بعد کِیا ہوا۔ کچھ لوگ یہ شکایت کرنے لگے کہ اُنہیں کھانے پینے کی وہ تازہ چیزیں یاد آتی ہیں جو وہ مصر میں کھایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے تو اُس خوراک کو گھٹیا کہا جو یہوواہ اُنہیں آسمان سے دے رہا تھا۔ (گنتی 11:4-6؛ 21:5 کو پڑھیں۔) جب بڑی مصیبت ختم ہو جائے گی تو کیا ہمارے ذہن میں بھی اِس طرح کی باتیں آئیں گی؟ ہمیں نہیں پتہ کہ اُس وقت ہمیں زمین کو صاف کرنے اور اِسے آہستہ آہستہ فردوس بنانے کے لیے کتنا کام کرنا پڑے گا۔ بےشک اُس وقت ہمیں بہت سارا کام کرنا ہوگا اور شروع شروع میں شاید زندگی اِتنی زیادہ آسان نہ ہو۔ اُس وقت یہوواہ ہمیں جو چیزیں دے رہا ہوگا، کیا ہم اُن کی وجہ سے شکایت کرنے لگیں گے؟ ایک بات تو پکی ہے کہ اگر ہم ابھی یہوواہ کی دی ہوئی چیزوں کی قدر کریں گے تو ہم مستقبل میں بھی اُس کی دی ہوئی چیزوں کی قدر کریں گے۔
19. اِس مضمون کا خلاصہ کیا ہے؟
19 یہوواہ جو بھی کرتا ہے، وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ اور ہمیں اِس بات پر پورا بھروسا ہونا چاہیے۔ ہمیں اُن لوگوں پر بھی بھروسا کرنا چاہیے جن کے ذریعے یہوواہ ہمیں ہدایتیں دیتا ہے۔ وہ بات کبھی نہ بھولیں جو یہوواہ نے یسعیاہ نبی کے ذریعے کہی تھی۔ اُس نے کہا تھا: ”پُرسکون رہو اور مجھ پر بھروسا ظاہر کرو تو تمہیں طاقت ملے گی۔“—یسع 30:15، ترجمہ نئی دُنیا۔
گیت نمبر 98: خدا کا پاک کلام
^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہمیں یہوواہ پر اور اُن لوگوں پر اپنے بھروسے کو مضبوط کیوں کرنا چاہیے جنہیں یہوواہ نے زمین پر ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ایسا کرنے سے ہمیں ابھی کیا فائدے ہوں گے اور ہم اُن مشکلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیوں تیار ہو جائیں گے جن کا ہمیں مستقبل میں سامنا ہوگا۔
^ پیراگراف 4 اِستثنا 10:17 (نیو اُردو بائبل ورشن): ”[یہوواہ] تمہارا خدا، خداؤں کا خدا ہے اور خداوندوں کا خداوند ہے۔ وہ عظیم، قادر اور مہیب خدا ہے جو کسی کی طرفداری نہیں کرتا اور نہ ہی رشوت لیتا ہے۔“
^ پیراگراف 9 کبھی کبھار کسی مبشر یا خاندان کے پاس اپنی موجودہ کلیسیا میں رہنے کی جائز وجہ ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں نومبر 2002ء کی ”ہماری بادشاہتی خدمتگزاری“ میں ”سوالی بکس“ کو دیکھیں۔