مطالعے کا مضمون نمبر 20
زیادتی کا شکار ہونے والوں کو تسلی کیسے دیں؟
”جب ہم طرح طرح کی مصیبتوں سے گزرتے ہیں تو خدا ہمیں تسلی دیتا ہے۔“—2-کُر 1:3، 4۔
گیت نمبر 22: ’یہوواہ میرا چوپان ہے‘
مضمون پر ایک نظر *
1، 2. (الف) مثال کے ذریعے واضح کریں کہ اِنسانوں کو فطری طور پر تسلی کی ضرورت ہوتی ہے اور اُن میں دوسروں کو تسلی دینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ (ب) کچھ بچوں کو گہری چوٹ کیسے پہنچائی جاتی ہے؟
تمام اِنسانوں کو فطری طور پر تسلی کی ضرورت ہوتی ہے اور اُن میں دوسروں کو تسلی دینے کی شاندار صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک بچہ کھیلتے کھیلتے گِر جاتا ہے اور اُس کے گھٹنے پر چوٹ لگ جاتی ہے تو وہ روتا روتا اپنی امی یا ابو کے پاس جاتا ہے۔ اُس کے ماں باپ اُس کی چوٹ کو تو ٹھیک نہیں کر سکتے لیکن وہ اُس کے ساتھ اِس طرح سے پیش آتے ہیں جس سے اُسے تسلی اور دِلاسا ملتا ہے۔ شاید وہ اُس کے آنسوؤں کو صاف کریں، اُس سے پوچھیں کہ اُسے چوٹ کیسے لگی ہے، اُسے لاڈ پیار کریں اور اُس کے زخم پر پٹی لگائیں۔ اِس پر بچہ تھوڑی ہی دیر میں چپ کر جاتا ہے اور شاید دوبارہ کھیلنے بھی لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ اُس کا زخم بھی ٹھیک ہو جاتا ہے۔
2 لیکن کبھی کبھار بچوں کو ایسی چوٹ لگتی ہے جس کا اُن پر بہت ہی گہرا اثر ہوتا ہے۔ کچھ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض بچوں کے ساتھ یہ گھٹیا کام ایک بار کِیا جاتا ہے جبکہ بعض کو کئی سال تک اِس کا شکار بنایا جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں بچے کو گہرے جذباتی گھاؤ لگ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار زیادتی کرنے والوں کا جُرم ثابت ہو جاتا ہے اور اُنہیں اپنے کیے کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسے اشخاص سزا سے بچتے دِکھائی دے سکتے ہیں۔ اگر زیادتی کرنے والے شخص کو اُس کے کیے کی سزا فوراً مل بھی جائے تو بھی بچے پر زیادتی کے نقصاندہ اثرات اُس کے بڑے ہونے کے بعد تک رہ سکتے ہیں۔
3. (الف) 2-کُرنتھیوں 1:3، 4 کے مطابق یہوواہ کیا چاہتا ہے؟ (ب) ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 اگر کلیسیا کے کسی رُکن کو بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ اب بھی اِس وجہ سے جذباتی تکلیف سے گزر رہا ہے تو وہ کس سے تسلی پا سکتا ہے؟ (2-کُرنتھیوں 1:3، 4 کو پڑھیں۔) یہوواہ چاہتا ہے کہ اُس کی عزیز بھیڑوں کو محبت اور تسلی ملے۔ لہٰذا آئیں، اِن تین سوالوں پر غور کریں: (1) جن اشخاص کو بچپن میں جنسی زیادتی کا سامنا ہوا ہے، اُنہیں تسلی کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ (2) اُنہیں تسلی کون دے سکتا ہے؟ (3) ہم اُن لوگوں کو مؤثر طریقے سے تسلی کیسے دے سکتے ہیں؟
اُنہیں تسلی کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟
4، 5. (الف) یہ سمجھنا کیوں ضروری ہے کہ بچوں اور بڑوں میں بہت فرق ہوتا ہے؟ (ب) جب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے تو اُنہیں اِس کا ایک نقصان کیا ہوتا ہے؟
4 بچپن میں زیادتی کا شکار ہونے والے کچھ اشخاص کو بہت سال گزرنے کے بعد بھی تسلی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اِس کی وجہ کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں اور بڑوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچوں پر بدسلوکی کے اثرات اَور ہوتے ہیں اور بڑوں پر اَور۔ آئیں، دیکھیں کہ بچوں پر زیادتی کے اثرات اِتنے سنگین کیوں ہوتے ہیں۔
5 بچوں کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کے اور اُن کی پرورش اور دیکھبھال کرنے والوں کے بیچ بھروسے کا رشتہ ہو۔ ایسے مضبوط رشتے کی بدولت بچوں کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور وہ دیگر ایسے لوگوں پر بھی بھروسا کرنا سیکھتے ہیں جو اُن سے پیار کرتے ہیں۔ (زبور 22:9) لیکن افسوس کی بات ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اکثر اُن کے گھر کے اندر ہوتے ہیں اور زیادتی کرنے والے زیادہتر لوگ قریبی رشتےدار اور واقفکار ہوتے ہیں۔ جب ایسے لوگ بچے کا بھروسا توڑتے ہیں تو اُس کے لیے کئی سال بعد بھی دوسروں پر بھروسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
6. بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک ظالمانہ اور نقصاندہ فعل کیوں ہے؟
6 بچے معصوم ہوتے ہیں اور اُن کے ساتھ جنسی زیادتی اِنتہائی ظالمانہ اور نقصاندہ فعل ہے۔ بچے جسمانی، جذباتی اور ذہنی لحاظ سے شادی اور جنسی تعلقات کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لہٰذا اُن کے ساتھ جنسی حرکتیں کرنا اُن کے لیے نہایت نقصاندہ ہوتا ہے۔ جنسی زیادتی کی وجہ سے ایک بچہ جنسی تعلقات کے بارے میں غلط سوچ کا شکار ہو سکتا ہے، خود کو گِرا ہوا محسوس کر سکتا ہے اور دوسروں پر اِعتبار کرنا مشکل پا سکتا ہے۔
7. (الف) جنسی درندوں کے لیے بچوں کو بہلانا پھسلانا آسان کیوں ہوتا ہے اور وہ اُنہیں اپنی باتوں میں کیسے لاتے ہیں؟ (ب) جنسی درندے بچوں سے جو جھوٹ بولتے ہیں، اُن کا بچوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
7 بچوں کا ذہن سوچنے سمجھنے، فیصلے کرنے، خطروں کو پہچاننے اور اُن سے بچنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ (1-کُر 13:11) اِسی وجہ سے جنسی درندوں کے لیے بچوں کو بہلا پھسلا کر اُن کا فائدہ اُٹھانا آسان ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بچے کے ذہن میں خطرناک جھوٹ بھرتے ہیں، مثلاً یہ کہ اِس سب میں اُسی کی غلطی ہے؛ اُسے اِس بارے میں کسی کو نہیں بتانا چاہیے؛ اگر اُس نے کسی کو بتایا تو اُس کی بات پر یقین نہیں کِیا جائے گا اور یہ کہ ایک بالغ اور بچے کے درمیان جنسی حرکتیں اِس بات کا اِظہار ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے ہیں۔ ایسی باتوں کا بچے پر اِتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ اُسے یہ سمجھنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کہ یہ ساری باتیں جھوٹ ہیں۔ ایسا بچہ بڑا ہونے کے بعد بھی اِس سوچ کا شکار رہ سکتا ہے کہ وہ غلیظ اور بےکار ہے اور کسی کی محبت کے لائق نہیں۔
8. ہم اِس بات پر پورا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ شکستہدل لوگوں کو تسلی دے سکتا ہے؟
8 لہٰذا یہ بات قابلِسمجھ ہے کہ بہت سے بچوں پر جنسی زیادتی کے نقصاندہ اثرات لمبے عرصے تک کیوں رہتے ہیں۔ جنسی زیادتی واقعی ایک گھناؤنا جُرم ہے! پوری دُنیا میں پھیلی یہ وبا اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں جب بہت سے لوگ ”خاندانی محبت سے خالی“ ہیں اور ”بُرے اور دھوکےباز آدمی بگڑتے چلے“ جا رہے ہیں۔ (2-تیم 3:1-5، 13) شیطان اِنسانوں کو چوٹ پہنچانے کے لیے نہایت ہی گھٹیا چالیں چلتا ہے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اُس کے ہاتھ کی کٹھپتلی بن جاتے ہیں۔ لیکن یہوواہ، شیطان اور اُس کی مرضی پر چلنے والوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ شیطان جو بھی چالیں چلتا ہے، یہوواہ سب دیکھتا ہے۔ ہم اِس بات کا پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری تکلیف سے اچھی طرح واقف ہے اور وہ ہمیں تسلی دے سکتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بڑی برکت ہے کہ ہم ایسے خدا کی عبادت کرتے ہیں جو ہمیں ”طرح طرح کی مصیبتوں“ میں تسلی دیتا ہے ”تاکہ جب دوسرے لوگ کسی مصیبت سے گزریں تو ہم اُن کو ویسی ہی تسلی دے سکیں جیسی خدا ہمیں دیتا ہے۔“ (2-کُر 1:3، 4) لیکن یہوواہ یہ تسلی کن کے ذریعے دیتا ہے؟
اُنہیں تسلی کون دے سکتا ہے؟
9. زبور 27:10 میں درج داؤد کے الفاظ کے مطابق یہوواہ اُن بچوں کے لیے کیا کرتا ہے جنہیں اپنے ماں باپ کی طرف سے تحفظ نہیں ملتا؟
9 جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ایسے اشخاص کو خاص طور پر تسلی کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں اپنے ماں باپ کی طرف سے تحفظ نہیں ملتا یا جنہیں ایسے لوگ زیادتی کا شکار بناتے ہیں جو اُن کے قریب ہوتے ہیں۔ زبورنویس داؤد اِس بات کو جانتے تھے کہ یہوواہ ہر صورتحال میں ہمیں تسلی دے سکتا ہے۔ (زبور 27:10 کو پڑھیں۔) اُنہیں یقین تھا کہ یہوواہ اُن لوگوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا ہے جن کے گھر والے اُنہیں بےآسرا چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن یہوواہ ایسا کیسے کرتا ہے؟ اپنے بندوں کے ذریعے۔ ہمارے ہمایمان ہمارے لیے ایک خاندان کی طرح ہیں۔ یسوع مسیح نے بھی اُن لوگوں کو اپنے بھائی، بہنیں اور مائیں کہا جنہوں نے یہوواہ کی عبادت کرنے میں اُن کا ساتھ دیا۔—متی 12:48-50۔
10. پولُس نے بزرگ کے طور پر اپنے کام کے بارے میں کیا کہا؟
10 ذرا ایک مثال پر غور کریں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کلیسیا کے ارکان میں خاندان کے افراد جیسا رشتہ ہوتا ہے۔ پولُس رسول ایک محنتی بزرگ تھے۔ اُنہوں نے بڑی عمدہ مثال قائم کی اور خدا کے اِلہام سے یہ لکھا کہ دوسرے اُن کی مثال پر چلیں جیسے وہ مسیح کی مثال پر چلتے ہیں۔ (1-کُر 11:1) ایک مرتبہ پولُس نے بزرگ کے طور پر اپنے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا: ”ہم آپ کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، بالکل ویسے ہی جیسے ماں بڑے پیار سے اپنے ننھے بچوں کو پالتی ہے۔“ (1-تھس 2:7) آج بھی شفیق بزرگ بہن بھائیوں کو پاک کلام سے تسلی دیتے وقت نرمی سے بات کرتے ہیں اور شفقت بھرے الفاظ اِستعمال کرتے ہیں۔
11. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ بزرگوں کے علاوہ دوسرے بہن بھائی بھی اپنے ہمایمانوں کو تسلی دے سکتے ہیں؟
11 کیا صرف بزرگ ہی اُن لوگوں کو تسلی دے سکتے ہیں جو بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں؟ جی نہیں۔ ہم سب کی ذمےداری ہے کہ ہم ”ایک دوسرے کو . . . تسلی دیتے رہیں۔“ (1-تھس 4:18) یہ قابلِغور بات ہے کہ یہوواہ نے خود کو ایک ایسی ماں سے تشبیہ دی جو اپنے بیٹے کو دِلاسا دیتی ہے۔ (یسع 66:13) لہٰذا جذباتی تکلیف کا سامنا کرنے والی بہنوں کے لیے پُختہ مسیحی بہنیں خاص طور پر تسلی کا باعث بن سکتی ہیں۔ بائبل میں ایسی عورتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہوں نے تکلیفزدہ لوگوں کو تسلی دی۔ (ایو 42:11) بےشک یہوواہ کو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ مسیحی عورتیں اپنی اُن ہمایمان بہنوں کو تسلی دیتی ہیں جن کا دل درد سے بھرا ہے۔ صورتحال کے پیشِنظر ایک یا دو بزرگ دوسروں پر ظاہر کیے بغیر کسی پُختہ بہن سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ فلاں بہن کو تسلی دے سکتی ہے۔ *
اُنہیں تسلی کیسے دی جا سکتی ہے؟
12. دوسروں کی مدد کرتے وقت ہمیں کس بات کا دھیان رکھنا چاہیے؟
12 جب ہم کسی مسیحی کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں اُس سے ایسے معاملات کے بارے میں نہیں پوچھنا چاہیے جن کے متعلق وہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ (1-تھس 4:11) لیکن جو مسیحی واقعی تسلی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ آئیں، اِس سلسلے میں پاک کلام سے پانچ طریقوں پر غور کریں۔
13. پہلا سلاطین 19:5-8 کو اِستعمال کرتے ہوئے بتائیں کہ یہوواہ کے فرشتے نے ایلیاہ کے لیے کیا کِیا اور ہم فرشتے کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
13 عملی طریقوں سے اُن کی مدد کریں۔ جب ایلیاہ نبی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے تو وہ اِتنے بےحوصلہ ہو گئے کہ مرنے کی خواہش کرنے لگے۔ یہوواہ نے اپنے ایک طاقتور فرشتے کو ایلیاہ کے پاس بھیجا۔ فرشتے نے عملی طریقے سے ایلیاہ کو مدد فراہم کی۔ اُس نے اُنہیں گرماگرم کھانا دیا اور بڑے پیار سے اُنہیں کہا کہ وہ اِسے کھائیں۔ (1-سلاطین 19:5-8 کو پڑھیں۔) اِس واقعے سے ایک اہم حقیقت نمایاں ہوتی ہے۔ کبھی کبھار ہمارے چھوٹے چھوٹے کام جن سے دوسروں کے لیے شفقت ظاہر ہو، بڑا اثر کرتے ہیں۔ ہم اپنے کسی شکستہدل بہن بھائی کے لیے کھانا بنا سکتے ہیں یا اُسے کوئی چھوٹا سا تحفہ یا کارڈ دے سکتے ہیں۔ اِس طرح وہ بہن یا بھائی ہماری محبت اور فکرمندی کو محسوس کر پائے گا۔ شاید ہمیں کسی بہن بھائی سے اُس کے تلخ تجربوں کے بارے میں بات کرنا مشکل لگے مگر ہم اِن عملی طریقوں سے اُس کی مدد ضرور کر سکتے ہیں۔
14. ہم ایلیاہ کے واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
14 اُنہیں تحفظ کا احساس دِلائیں اور ایسے ماحول کا اِنتخاب کریں جہاں اُن کے لیے بات کرنا آسان ہو۔ ہم ایلیاہ کے واقعے سے ایک اَور بات سیکھ سکتے ہیں۔ یہوواہ نے معجزانہ طور پر ایلیاہ کو طاقت دی تاکہ وہ کوہِحورب تک کا لمبا سفر کر سکیں۔ غالباً ایلیاہ خود کو اِس دُوردراز جگہ پر محفوظ محسوس کر رہے تھے جہاں یہوواہ نے صدیوں پہلے اپنے بندوں سے عہد باندھا تھا۔ شاید وہ سوچ رہے تھے کہ وہاں وہ اُن لوگوں کی پہنچ سے بہت دُور ہیں جو اُنہیں مارنا چاہتے ہیں۔ ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اگر ہم زیادتی کا شکار ہونے والوں کو تسلی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے اُنہیں تحفظ کا احساس دِلانا ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر بزرگوں کو کسی ایسی بہن کو تسلی دینی ہو جو ماضی کی تلخ یادوں کی وجہ سے پریشان ہے تو اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ شاید وہ بہن کنگڈم ہال کی بجائے اپنے گھر میں بات کرنا آسان پائے اور وہاں خود کو محفوظ محسوس کرے۔ اِس کے برعکس بعض صورتحال ایسی بھی ہو سکتی ہیں جن میں ایک بہن کے لیے کنگڈم ہال میں بات کرنا آسان ہو۔
15، 16. توجہ سے بات سننے میں کیا کچھ شامل ہے؟
15 دھیان سے اُن کی بات سنیں۔ بائبل میں یہ نصیحت کی گئی ہے: ”ہر ایک سننے میں جلدی کرے لیکن بولنے میں جلدی نہ کرے۔“ (یعقو 1:19) ہم سوچ سکتے ہیں کہ کیا ہم توجہ سے دوسروں کی بات سنتے ہیں؟ توجہ سے بات سننے میں صرف یہ شامل نہیں کہ ہم چپچاپ بیٹھ کر دوسرے شخص کی طرف دیکھیں۔ اِس میں کچھ اَور بھی شامل ہے۔ ذرا پھر سے ایلیاہ کی مثال پر غور کریں۔ آخرکار جب اُنہوں نے یہوواہ کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر ڈالا تو یہوواہ نے اُن کی بات کو پوری توجہ سے سنا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایلیاہ خوفزدہ ہیں، تنہا محسوس کر رہے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ اُن کی ساری محنت رائیگاں گئی ہے۔ یہوواہ نے بڑے پیار سے ایلیاہ کو ہر اُس بات کا جواب دیا جس کے حوالے سے وہ پریشان تھے۔ اُس نے اُنہیں یہ احساس دِلایا کہ وہ واقعی اُن کی بات سُن رہا ہے۔—1-سلا 19:9-11، 15-18۔
16 ہم دوسروں کی بات سنتے وقت یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمیں 1-کُر 13:4، 7۔
اُن سے محبت اور ہمدردی ہے؟ جب ہم سوچ سمجھ کر اپنائیت بھرے الفاظ اِستعمال کرتے ہیں تو اِن سے دوسرے شخص کے لیے ہمارے احساسات ظاہر ہوتے ہیں۔ ہم کچھ یوں کہہ سکتے ہیں: ”مجھے اِس بات کا بےحد دُکھ ہے کہ آپ کو اِس تکلیف سے گزرنا پڑا۔ کسی بھی بچے کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔“ آپ اُس شخص سے ایک یا دو ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں جن سے آپ جان سکیں کہ آپ اُس کی بات کو صحیح طرح سے سمجھ رہے ہیں۔ آپ کے پُرمحبت الفاظ سے اُس شخص کو احساس ہوگا کہ آپ اُسے سُن رہے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔—17. ہمیں صبر سے کام کیوں لینا چاہیے اور ”بولنے میں جلدی“ کیوں نہیں کرنی چاہیے؟
17 بےحوصلہ شخص سے بات کرتے وقت ”بولنے میں جلدی“ نہ کریں۔ اُسے کوئی مشورہ دینے یا اُس کی سوچ کو درست کرنے کے لیے اُس کی بات کو نہ کاٹیں۔ صبر سے کام لیں۔ جب ایلیاہ نے یہوواہ کے حضور اپنا دل اُنڈیلا تو اُنہوں نے ایسے الفاظ اِستعمال کیے جن سے اُن کا درد اور غم چھلک رہا تھا۔ بعد میں جب یہوواہ نے اپنی باتوں سے ایلیاہ کے ایمان کو مضبوط کِیا تو اُنہوں نے دوبارہ اپنے احساسات کا اِظہار کِیا اور پھر سے وہی الفاظ دُہرائے۔ (1-سلا 19:9، 10، 13، 14) اِس سے ایک اہم بات پتہ چلتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شکستہدل شخص اپنے درد کو ایک سے زیادہ بار بیان کرے۔ ایسی صورت میں ہمیں یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے صبر سے اُس کی بات سننی چاہیے۔ اُسے یہ بتانے کی بجائے کہ اُسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، ہمیں اُس کے لیے شفقت اور ہمدردی دِکھانی چاہیے۔—1-پطر 3:8۔
18. ہماری دُعائیں جذباتی تکلیف میں مبتلا اشخاص کے لیے تسلی کا باعث کیسے بن سکتی ہیں؟
18 اُن کے ساتھ مل کر دل کی گہرائیوں سے دُعا کریں۔ جو اشخاص جذباتی طور پر ٹوٹے ہوتے ہیں، وہ شاید دُعا کرنا مشکل پائیں۔ شاید وہ سوچیں کہ وہ یہوواہ سے بات کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ اگر ہم ایسے شخص کو تسلی دینا چاہتے ہیں تو ہم اُس کے ساتھ اُس کا نام لے کر یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں۔ ہم یہوواہ کو بتا سکتے ہیں کہ وہ شخص ہمیں اور کلیسیا کو کتنا عزیز ہے۔ ہم اُس سے اِلتجا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی اِس قیمتی بھیڑ کے دل کو آرام اور سکون بخشے۔ ایسی دُعائیں اُس شخص کے لیے بےحد تسلی کا باعث ہو سکتی ہیں۔—یعقو 5:16۔
19. ہم کسی شخص کو تسلی دینے سے پہلے کیا کر سکتے ہیں؟
امثا 12:18) لہٰذا یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ ایسے الفاظ تلاش کرنے میں آپ کی مدد کرے جن سے شفقت اور ہمدردی جھلکے اور دوسرے شخص کو تسلی ملے۔ اور یاد رکھیں کہ ایک شخص کو جتنی تسلی بائبل میں درج یہوواہ کے الفاظ سے مل سکتی ہے اُتنی کسی اَور کے الفاظ سے نہیں مل سکتی۔—عبر 4:12۔
19 ایسے الفاظ اِستعمال کریں جن سے اُن کے جذباتی گھاؤ بھر سکیں۔ بولنے سے پہلے سوچیں۔ بِلاسوچے سمجھے کہے گئے الفاظ زخموں پر نمک کا کام دیتے ہیں جبکہ شفقت بھرے الفاظ زخموں پر مرہم لگاتے ہیں۔ (20. زندگی میں ہونے والے بُرے واقعات کی وجہ سے کچھ لوگ کس سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہمیں اُنہیں کس بات کا یقین دِلانے کی ضرورت ہے؟
20 بچپن میں زیادتی کا شکار ہونے والے کچھ بہن بھائی شاید اب بھی یہ سوچتے ہوں کہ وہ غلیظ اور بےکار ہیں، کوئی اُن سے پیار نہیں کرتا اور وہ کسی کی محبت کے لائق نہیں۔ لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے! لہٰذا پاک کلام کے ذریعے اُنہیں یقین دِلائیں کہ یہوواہ اُن کی بڑی قدر کرتا ہے۔ (بکس ” صحیفوں سے ملنے والی تسلی“ کو دیکھیں۔) یاد کریں کہ جب دانیایل کمزور اور بےحوصلہ محسوس کر رہے تھے تو یہوواہ نے کیسے اُن کی ہمت بندھائی۔ اُس نے اُنہیں احساس دِلایا کہ وہ اُنہیں بہت عزیز خیال کرتا ہے۔ (دان 10:2، 11، 19) اِسی طرح ہمارے وہ بہن بھائی یہوواہ کو بےحد عزیز ہیں جو اپنے ماضی کی وجہ سے کرب سے گزرتے ہیں۔
21. (الف) اپنے گُناہوں پر توبہ نہ کرنے والوں کا کیا حشر ہوگا؟ (ب) ہمیں کیا عزم کرنا چاہیے؟
21 جب ہم دوسروں کو تسلی دیتے ہیں تو ہم اُنہیں یہ یاد دِلاتے ہیں کہ یہوواہ اُن سے بہت پیار کرتا ہے۔ ہمیں یہ بھی کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہوواہ اِنصاف کرنے والا خدا ہے۔ زیادتی کا کوئی بھی مکروہ فعل اُس کی نظروں سے چھپا نہیں رہتا۔ یہوواہ سب کچھ دیکھتا ہے اور وہ کسی بھی ایسے شخص کو بےسزا نہیں رہنے دے گا جو اپنے گُناہوں پر توبہ نہیں کرتا۔ (گن 14:18) لیکن اُس وقت کے آنے تک آئیں، اُن لوگوں کے لیے محبت ظاہر کرتے رہیں جنہیں جنسی زیادتی کا سامنا ہوا ہے۔ یہ کتنی تسلی کی بات ہے کہ یہوواہ اُن سب لوگوں کے زخموں کو مستقل طور پر بھر دے گا جو شیطان اور اُس کی دُنیا کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہوئے ہیں! وہ وقت دُور نہیں جب ہمارے ذہنوں سے ماضی کی تلخ یادوں کے نشان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں گے۔—یسع 65:17۔
گیت نمبر 25: سچے مسیحیوں کی پہچان
^ پیراگراف 5 جن لوگوں کو بچپن میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُنہیں شاید بہت سال بعد بھی طرح طرح کے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑے۔ اِس مضمون کے ذریعے ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ایسے اشخاص کو تسلی کون دے سکتا ہے۔ آخر میں ہم اُنہیں تسلی دینے کے کچھ مؤثر طریقوں پر غور کریں گے۔
^ پیراگراف 11 جس مسیحی کو ماضی میں زیادتی کا سامنا ہوا ہے، وہ چاہے تو جذباتی تکلیف سے نکلنے کے لیے ڈاکٹر سے مدد لے سکتا ہے۔
^ پیراگراف 75 تصویر کی وضاحت: ایک پُختہ بہن جذباتی تکلیف میں مبتلا ایک بہن کو تسلی دے رہی ہے۔
^ پیراگراف 77 تصویر کی وضاحت: دو بزرگ ایک شکستہدل بہن سے ملنے آئے ہیں اور اُس بہن نے ایک پُختہ بہن کو بھی بلایا ہوا ہے۔