والدین! بپتسمے کے لائق بننے میں اپنے بچوں کی مدد کریں
”آپ دیر کیوں کر رہے ہیں؟ اُٹھیں! بپتسمہ لیں۔“—اعمال 22:16۔
1. بچوں کے بپتسمہ لینے سے پہلے مسیحی والدین کس بات کو پرکھتے ہیں؟
بلاسم برانٹ نامی بہن نے بتایا: ”مَیں کئی مہینوں تک اپنے امی ابو کو بتاتی رہی کہ مَیں بپتسمہ لینا چاہتی ہوں اور وہ اکثر اِس حوالے سے مجھ سے بات کرتے رہے۔ دراصل وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا مَیں واقعی اِس بات کو اچھی طرح سے سمجھتی ہوں کہ بپتسمہ لینا کتنا سنجیدہ معاملہ ہے۔ آخرکار 31 دسمبر 1934ء کو میری زندگی میں وہ یادگار دن آ گیا جب میرا بپتسمہ ہوا۔“ آج بھی والدین کو اچھے فیصلے کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر ایک بچہ بِنا کسی جائز وجہ کے بپتسمہ لینے سے باز رہتا ہے تو یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی کمزور پڑ سکتی ہے۔ (یعقوب 4:17) لہٰذا اِس سے پہلے کہ بچہ بپتسمہ لے، سمجھدار والدین اِس بات کو پرکھتے ہیں کہ آیا اُن کا بچہ مسیح کا شاگرد بننے کے لیے تیار بھی ہے یا نہیں۔
2. (الف) کچھ حلقے کے نگہبانوں نے کلیسیاؤں میں کون سا مسئلہ دیکھا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کس بارے میں بات کریں گے؟
2 کچھ حلقے کے نگہبانوں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ایسے نوجوانوں نے ابھی تک بپتسمہ نہیں لیا جن کی عمریں 20 سال کے لگ بھگ ہیں حالانکہ اُن کی پرورش یہوواہ کے گواہوں کے گھرانوں میں ہوئی
ہے۔ اِن نوجوانوں میں سے زیادہتر اِجلاسوں میں جاتے ہیں، مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں اور خود کو یہوواہ کا گواہ خیال کرتے ہیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے اُنہوں نے ابھی تک یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف نہیں کی اور بپتسمہ نہیں لیا۔ بعض اوقات اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کچھ والدین کو لگتا ہے کہ ابھی اُن کے بچے بپتسمے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ بعض والدین بپتسمہ لینے کے حوالے سے اپنے بچوں کی حوصلہافزائی کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم چار وجوہات پر غور کریں گے۔کیا اُسے اِتنی چھوٹی عمر میں بپتسمہ لینا چاہیے؟
3. بہن بلاسم کے والدین کس بات کو لے کر فکرمند تھے؟
3 بہن بلاسم کے والدین جن کا پہلے پیراگراف میں ذکر ہوا ہے، اُنہیں لگ رہا تھا کہ شاید اُن کی بیٹی بپتسمے کی اہمیت کو نہیں سمجھتی کیونکہ ابھی وہ بہت چھوٹی ہے۔ والدین یہ اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ آیا اُن کا بچہ یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟
4. متی 28:19، 20 میں درج حکم سے والدین بچوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
4 متی 28:19، 20 کو پڑھیں۔ بائبل میں بپتسمہ لینے کی کوئی خاص عمر نہیں بتائی گئی۔ لیکن والدین کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ شاگرد بنانے کا کیا مطلب ہے۔ متی 28:19 میں جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”شاگرد بنائیں“ کِیا گیا ہے، اُس میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ہم اِس مقصد سے دوسروں کو تعلیم دیں کہ وہ مسیح کے شاگرد بن سکیں۔ مسیح کا شاگرد وہ ہوتا ہے جو اُس کی سکھائی ہوتی باتوں کو سمجھتا ہے اور اُن پر عمل کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا والدین کو اِس مقصد سے اپنے بچوں کو تعلیم دینی چاہیے کہ وہ خود کو یہوواہ کے لیے وقف کر سکیں اور مسیح کے شاگرد بن سکیں۔ اُنہیں اپنے بچوں کو اُن کی پیدائش سے ہی یہوواہ کے بارے میں سکھانا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ ننھے بچے بپتسمہ لینے کے لائق نہیں ہوتے لیکن بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے بچے بھی بائبل کی سچائیوں کو سمجھ سکتے ہیں اور اِن کی قدر کر سکتے ہیں۔
5، 6. (الف) بائبل میں تیمُتھیُس کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، اُس سے ہم بپتسمے کے حوالے سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟ (ب) سمجھدار والدین اپنے بچوں کی مدد کیسے کرتے ہیں؟
5 تیمُتھیُس یسوع مسیح کے ایک ایسے شاگرد تھے جنہوں نے چھوٹی عمر میں ہی یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کے بارے میں کہا کہ وہ ”بچپن سے پاک صحیفوں سے واقف“ تھے۔ حالانکہ تیمُتھیُس کے والد یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن تیمُتھیُس کی ماں اور نانی نے اُنہیں پاک صحیفوں کی اچھی طرح سے تعلیم دی۔ یوں تیمُتھیُس کے دل میں بائبل کی سچائیوں کے لیے قدر پیدا ہوئی اور اُن کا ایمان مضبوط ہوا۔ (2-تیمُتھیُس 1:5؛ 3:14، 15) تیمُتھیُس اُس وقت تقریباً 20 سال کے تھے جب وہ خدا کی خدمت کے حوالے سے ایک خاص ذمےداری اُٹھانے کے لائق ٹھہرے۔—اعمال 16:1-3۔
6 بِلاشُبہ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ بچے جلدی روحانی لحاظ سے پُختہ ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ کو وقت لگتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ بچے چھوٹی عمر میں ہی بائبل کی سچائیوں کو سمجھ جاتے ہیں، اچھے فیصلے کرتے ہیں اور بپتسمہ لینا چاہتے ہیں جبکہ بعض بچے تھوڑے بڑے ہو کر بپتسمہ لینے کے لائق بنتے ہیں۔ سمجھدار والدین اپنے بچوں پر بپتسمہ لینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے۔ اِس کی بجائے وہ اپنے ہر بچے کی صلاحیت کو ذہن میں رکھ کر اُس کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ خدا کے زیادہ قریب ہو جائے۔ جب والدین دیکھتے ہیں کہ اُن کے بچے خدا کی خدمت میں بہتری لا رہے ہیں تو اُن کا دل خوش ہوتا ہے۔ (امثال 27:11 کو پڑھیں۔) لیکن اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مسیح کا شاگرد بننے میں مدد کریں۔ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا میرے بچے کو بائبل کی سچائیوں کا اِتنا علم ہے کہ وہ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر سکے اور بپتسمہ لے سکے؟“
کیا وہ بائبل کا بنیادی علم رکھتا ہے؟
7. کیا بپتسمہ لینے سے پہلے ایک شخص کو بائبل کی تعلیمات کی ہر تفصیل سے واقف ہونا چاہیے؟ وضاحت کریں۔
مسیح کے ہر شاگرد کو بپتسمہ لینے کے بعد بھی بائبل کا علم حاصل کرتے رہنا چاہیے۔
7 بچوں کو تعلیم دیتے وقت والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اُن کے بچے بائبل کی سچائیوں سے اچھی طرح واقف ہو جائیں۔ پاک کلام کا علم حاصل کرنے سے اُن کو یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کی ترغیب ملے گی۔ لیکن کیا خدا کے لیے زندگی وقف کرنے اور بپتسمہ لینے سے پہلے بچوں کو بائبل کی تعلیمات کی ہر تفصیل سے واقف ہونا چاہیے؟ نہیں۔ مسیح کے ہر شاگرد کو بپتسمہ لینے کے بعد بھی بائبل کا علم حاصل کرتے رہنا چاہیے۔ (کُلسّیوں 1:9، 10 کو پڑھیں۔) لیکن سوال یہ ہے کہ بپتسمے کے لائق ٹھہرنے کے لیے ایک شخص کے پاس بائبل کا کتنا علم ہونا چاہیے؟
8، 9. شہر فِلپّی میں حوالدار کے ساتھ کون سا واقعہ پیش آیا اور ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
8 آئیں، پہلی صدی کے ایک خاندان کی مثال پر غور کریں جس سے والدین اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ (اعمال 16:25-33) 50ء میں پولُس رسول اپنے دوسرے مشنری دورے پر شہر فِلپّی گئے۔ وہاں اُن پر اور اُن کے ساتھی سیلاس پر جھوٹے اِلزام لگا کر اُنہیں قیدخانے میں ڈال دیا گیا۔ لیکن رات کے وقت اِتنا بڑا زلزلہ آیا کہ قیدخانے کے سارے دروازے کُھل گئے۔ حوالدار نے سوچا کہ سارے قیدی بھاگ گئے ہیں اِس لیے وہ خودکُشی کرنے لگا لیکن پولُس نے اُسے روک لیا۔ پھر پولُس اور سیلاس نے اُسے اور اُس کے گھر والوں کو یسوع مسیح کے بارے میں گواہی دی۔ وہ اُن کی باتوں پر ایمان لے آئے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے کون سا قدم اُٹھایا؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اُن سب نے ”فوراً بپتسمہ لے لیا۔“ ہم اِس خاندان کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9 ہو سکتا ہے کہ یہ حوالدار ایک ریٹائرڈ رومی سپاہی تھا۔ وہ خدا کے کلام سے بالکل ناواقف تھا۔ لہٰذا مسیحی بننے کے لیے اُسے سیکھنا تھا کہ بائبل کی بنیادی سچائیاں کیا ہیں اور یہوواہ اپنے بندوں سے کن باتوں کی توقع کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُسے مسیح کی تعلیمات پر عمل کرنے کی خواہش بھی پیدا کرنی تھی۔ تھوڑے سے وقت میں اُس نے جو کچھ سیکھا، اُس سے اُسے بپتسمہ لینے کی ترغیب ملی۔ یقیناً بپتسمہ لینے کے بعد بھی وہ بائبل کا علم حاصل کرتا رہا ہوگا۔ لہٰذا اگر آپ کا بچہ آپ سے کہتا ہے کہ وہ اِس لیے بپتسمہ لینا چاہتا ہے کیونکہ وہ یہوواہ خدا سے پیار کرتا ہے اور اُس کے حکموں کو ماننا چاہتا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ اُسے کلیسیا کے بزرگوں سے بات کرنے کو کہہ سکتے ہیں تاکہ بزرگ یہ فیصلہ کر سکیں کہ آیا وہ بپتسمہ پانے کے لائق ہے یا نہیں۔ * دوسرے بپتسمہیافتہ مبشروں کی طرح آپ کا بچہ بھی عمر بھر، یہاں تک کہ ہمیشہ تک یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھتا رہے گا۔—رومیوں 11:33، 34۔
کیا اُسے پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے؟
10، 11. (الف) بعض والدین کیا سوچتے ہیں؟ (ب) کون سی چیز بچے کے لیے حقیقی تحفظ کا باعث ہوتی ہے؟
10 کچھ والدین یہ سوچتے ہیں کہ اچھا ہوگا اگر اُن کا بچہ پہلے اعلیٰ تعلیم واعظ 12:1 کو پڑھیں۔
اور اچھی ملازمت حاصل کرے اور پھر بپتسمہ لے۔ بِلاشُبہ یہ والدین اپنے بچوں کی بہتری چاہتے ہیں۔ لیکن اُنہیں خود سے پوچھنا چاہیے: ”کیا اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمت سے میرے بچے کو حقیقی کامیابی مل سکتی ہے؟ کیا میری سوچ بائبل کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ بائبل میں کس راہ پر چلنے کی حوصلہافزائی کی گئی ہے؟“—11 ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اِس دُنیا اور اِس کی چیزوں کی وجہ سے یہوواہ کی مرضی پر عمل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ (یعقوب 4:7، 8؛ 1-یوحنا 2:15-17؛ 5:19) یہوواہ کے ساتھ مضبوط دوستی رکھنے سے آپ کا بچہ شیطان، اِس بُری دُنیا اور اِس کی سوچ سے محفوظ رہے گا۔ اگر والدین اپنے بچوں کی حوصلہافزائی کریں گے کہ وہ اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمت حاصل کریں تو اُن کے بچے یہ سوچنے لگیں گے کہ یہ چیزیں یہوواہ کی دوستی سے زیادہ ضروری ہیں۔ ایسی سوچ خطرے سے خالی نہیں۔ یقیناً آپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ کا بچہ خوشی حاصل کرنے کے حوالے سے دُنیا کی سوچ اپنائے۔ یاد رکھیں کہ حقیقی کامیابی اور خوشی صرف یہوواہ کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے سے ہی ملتی ہے۔—زبور 1:2، 3 کو پڑھیں۔
اگر اُس نے کوئی سنگین غلطی کر لی تو؟
12. بعض والدین ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ اُن کے بچے کو بپتسمے کے لیے تھوڑا اَور اِنتظار کرنا چاہیے؟
12 ایک ماں نے بتایا کہ وہ یہ کیوں نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی بیٹی بپتسمہ لے۔ اُس نے کہا: ”مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ مَیں نے اُسے بپتسمہ لینے سے صرف اِس لیے روکا کہ کہیں کسی سنگین غلطی کی وجہ سے اُسے کلیسیا سے خارج نہ کر دیا جائے۔“ اِس بہن کی طرح بہت سے والدین سوچتے ہیں کہ اچھا ہوگا کہ اُن کا بچہ اُس وقت بپتسمہ لے جب اُس کی سوچ پُختہ ہو جائے تاکہ وہ نادانی میں کوئی غلط حرکت نہ کرے۔ (پیدایش 8:21؛ امثال 22:15) شاید یہ والدین سوچتے ہیں کہ ”اگر ہمارا بچہ بپتسمہیافتہ نہیں ہوگا تو غلطی کرنے پر اُسے کلیسیا سے خارج بھی نہیں کِیا جائے گا۔“ لیکن کیا یہ سوچ درست ہے؟—یعقوب 1:22۔
13. اگر ایک بچہ بپتسمہیافتہ نہیں ہے تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ وہ یہوواہ کے حضور جوابدہ نہیں ہے؟ وضاحت کریں۔
13 اگر ایک بچہ خود کو یہوواہ کے لیے وقف کرنے کے لیے تیار نہیں یعقوب 4:17 کو پڑھیں۔) لہٰذا سمجھدار والدین اپنے بچوں کی حوصلہافزائی کرتے ہیں کہ وہ بپتسمے کی طرف قدم بڑھائیں۔ وہ بچپن سے ہی بچوں کو یہوواہ کے معیاروں سے محبت کرنا سکھاتے ہیں اور خود بھی اِس سلسلے میں اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔ (لُوقا 6:40) اگر آپ کا بچہ یہوواہ سے محبت کرتا ہے تو وہ ایسے کام کرے گا جن سے یہوواہ خوش ہوتا ہے اور یوں وہ سنگین گُناہ کرنے سے بچا رہے گا۔—یسعیاہ 35:8۔
ہے تو بِلاشُبہ اُس کے ماں باپ نہیں چاہیں گے کہ وہ بپتسمہ لے۔ لیکن یہ سوچنا غلط ہے کہ بپتسمہ لینے سے پہلے ایک بچہ یہوواہ کے سامنے اپنے کاموں کے لیے جوابدہ نہیں ہوتا۔ دراصل ایک بچہ اُسی وقت یہوواہ کے سامنے جوابدہ ہو جاتا ہے جب وہ جان جاتا ہے کہ یہوواہ کی نظر میں کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ (دوسرے کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
14. کلیسیا کے بزرگ والدین کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
14 کلیسیا کے بزرگ بھی بچوں کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں کہ وہ بپتسمے کی طرف قدم بڑھائیں۔ یوں وہ والدین کی مدد کر سکتے ہیں۔ وہ بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ خدا کی خدمت کے حوالے سے منصوبے بنانے سے کون سے فائدے ہوتے ہیں۔ ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو 70 سال سے بھی زیادہ عرصے تک پہلکار کے طور پر خدمت کرتی رہیں۔ جب وہ چھ سال کی تھیں تو بھائی رسل نے اُن سے باتچیت کی جو اُنہیں ساری عمر یاد رہی۔ وہ بتاتی ہیں: ”اُنہوں نے 15 منٹ تک مجھ سے خدا کی خدمت کے حوالے سے میرے منصوبوں پر بات کی۔“ اِس تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ مثبت باتچیت اور حوصلہافزائی کا اثر عمر بھر رہتا ہے۔ (امثال 25:11) کلیسیا کے بزرگ اَور کیا کر سکتے ہیں؟ وہ والدین اور بچوں کو کنگڈم ہال میں کچھ کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔ وہ بچوں کو اُن کی عمر اور صلاحیت کے مطابق کوئی کام دے سکتے ہیں۔
15. کلیسیا کے دوسرے بہن بھائی بچوں اور نوجوانوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
15 کلیسیا کے دوسرے بہن بھائی بچوں اور نوجوانوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ اِس حوالے سے وہ اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ اُن کی کلیسیا کے بچے اور نوجوان یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے کون سے کام کر رہے ہیں۔ کیا آپ کسی ایسے بچے یا زبور 35:18۔
نوجوان کو جانتے ہیں جس نے حال ہی میں اِجلاس میں اچھا جواب دیا؛ مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس میں اپنا حصہ پیش کِیا؛ سکول میں دوسروں کو گواہی دی یا پھر کسی آزمائش کے وقت ثابتقدمی کا مظاہرہ کِیا؟ اگر ایسا ہے تو اُس کی تعریف ضرور کریں۔ کیوں نہ اِجلاس شروع ہونے سے پہلے یا ختم ہونے کے بعد بچوں اور نوجوانوں سے بات کریں؟ جب ہم ایسا کریں گے تو وہ خود کو ایک ”بڑے مجمع“ یعنی کلیسیا کا حصہ سمجھیں گے۔—بپتسمے کی طرف قدم بڑھانے میں اپنے بچے کی مدد کریں
16، 17. (الف) یہ کیوں اہم ہے کہ بچے بپتسمہ لیں؟ (ب) والدین کو کون سی خوشی مل سکتی ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
16 والدین کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہوواہ سے محبت کرنا سکھائیں۔ (زبور 127:3؛ اِفسیوں 6:4) بنیاِسرائیل میں تو بچے اپنی پیدائش کے وقت سے ہی یہوواہ کے لیے وقف ہوتے تھے لیکن آج یہوواہ کے گواہوں کے بچوں کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ لازمی نہیں کہ اگر والدین یہوواہ اور اُس کے کلام سے پیار کرتے ہیں تو اُن کے بچے بھی کریں۔ لہٰذا مسیحی والدین کا عزم ہونا چاہیے کہ وہ بچے کی پیدائش کے دن سے ہی اُس کی مدد کریں تاکہ وہ بڑا ہو کر مسیح کا شاگرد بنے، یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے اور بپتسمہ لے۔ بھلا اِس سے اہم بات اَور کیا ہو سکتی ہے؟ اگر ایک شخص نے یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہے، بپتسمہ لیا ہے اور وفاداری سے اُس کی خدمت کر رہا ہے تو وہ بڑی مصیبت میں اپنی جان بچانے کے قابل ہوگا۔—متی 24:13۔
17 جب بہن بلاسم بپتسمہ لینا چاہتی تھیں تو اُن کے والدین یہ پرکھنا چاہتے تھے کہ کیا وہ واقعی بپتسمے کے لیے تیار ہیں۔ جب اُنہیں اِس بات کا یقین ہو گیا تو اُنہوں نے اپنی بیٹی کے اِس فیصلے میں اُس کا ساتھ دیا۔ بہن بلاسم نے بتایا کہ بپتسمے سے ایک رات پہلے اُن کے ابو نے کیا کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”ابو نے ہم سب کو گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو کہا اور پھر یہوواہ سے دُعا کی۔ اُنہوں نے یہوواہ سے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ اُن کی بیٹی نے اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔“ اِس بات کو 60 سال سے زیادہ عرصہ گزر چُکا ہے۔ بہن بلاسم کہتی ہیں: ”مَیں اُس رات کو کبھی نہیں بھولوں گی!“ دُعا ہے کہ آپ کو بھی یہ خوشی ملے کہ آپ کے بچے خود کو خدا کے لیے وقف کریں اور بپتسمہ لیں۔
^ پیراگراف 9 اِس سلسلے میں ”ہماری بادشاہتی خدمتگزاری،“ اپریل 2011ء، صفحہ 2 پر ”سوالی بکس“ کو دیکھیں۔