کیا آپ یہوواہ کی سوچ کو اپنا رہے ہیں؟
”اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر خود کو مکمل طور پر بدل لیں۔“—رومیوں 12:2۔
1، 2. جوںجوں یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہوتی جاتی ہے، ہم کیا کرنا سیکھ جاتے ہیں؟ مثال دیں۔
فرض کریں کہ ایک چھوٹے بچے کو تحفہ ملتا ہے۔ اُس کے والدین اُسے کہتے ہیں کہ وہ تحفہ دینے والے کو شکریہ کہے۔ بچہ شکریہ ادا کرتا ہے کیونکہ اُس کے ماں باپ نے اُسے ایسا کرنے کو کہا ہے۔ لیکن جوںجوں بچہ بڑا ہوتا ہے، وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کے والدین کی نظر میں اُن لوگوں کا شکرگزار ہونا کیوں اہم ہے جو ہمارے لیے کچھ کرتے ہیں۔ آخرکار وہ دل سے دوسروں کا شکریہ ادا کرنے لگتا ہے کیونکہ شکرگزاری اُس کی سوچ کا حصہ بن گئی ہے۔
2 اِسی طرح شروع شروع میں جب ہم سچائی کے بارے میں علم حاصل کرنے لگے تو ہم نے سیکھا کہ یہوواہ کے حکموں کو ماننا کتنا اہم ہے۔ لیکن جوںجوں یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہوتی گئی، ہم اُس کی سوچ کو بہتر طور پر جاننے لگے اور اُس کے نظریات اور اُس کی پسند ناپسند سے واقف ہو گئے۔ جب ہم یہوواہ کی سوچ کو خاطر میں لا کر فیصلے کرتے ہیں تو ہم اُس کی سوچ کو اپنا رہے ہوتے ہیں۔
3. کبھی کبھار ہمارے لیے معاملوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنا آسان کیوں نہیں ہوتا؟
3 حالانکہ ہمیں یہوواہ کی سوچ کے بارے میں سیکھنا اچھا لگتا ہے لیکن کبھی کبھار ہمارے لیے
معاملوں کو اُس کی نظر سے دیکھنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ ہم خطاکار ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ پاکیزہ چالچلن، مالودولت، مُنادی کے کام، خون کے اِستعمال وغیرہ کے بارے میں یہوواہ کے نظریات کیا ہیں۔ لیکن شاید ہمارے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ وہ اِن چیزوں کے بارے میں ایسا کیوں محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا ہم اپنی سوچ کو یہوواہ کی سوچ کے مطابق اَور زیادہ ڈھالنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اور ایسا کرنے سے ہم ابھی اور مستقبل میں صحیح کام کرنے کے قابل کیسے ہوں گے؟ہم یہوواہ کی سوچ کو کیسے اپنا سکتے ہیں؟
4. اپنی سوچ کا رُخ موڑنے کا کیا مطلب ہے؟
4 رومیوں 12:2 کو پڑھیں۔ اِس آیت میں پولُس رسول نے بتایا کہ یہوواہ کی سوچ کو اپنانے میں کیا کچھ شامل ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں ”اِس زمانے کے طورطریقوں کی نقل“ کرنے سے بچنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں سیکھا، اِس کا مطلب ہے کہ ہم دُنیا کی سوچ اور نظریات کو رد کر دیں۔ لیکن پولُس رسول نے یہ بھی ہدایت دی کہ ہمیں ”اپنی سوچ کا رُخ موڑ“ لینا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے، اُس کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اِن پر سوچ بچار کرنی چاہیے اور یہوواہ کی سوچ کو اپنانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
5. مطالعہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
5 مطالعہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بس سرسری طور پر مواد کو پڑھیں یا جوابوں پر نشان لگائیں۔ پاک کلام کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں غور کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں، اِس سے یہوواہ، اُس کی سوچ اور اُس کے رویے کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہوواہ نے فلاں کام کا حکم کیوں دیا ہے جبکہ فلاں کام سے منع کیوں کِیا ہے۔ اِس کے علاوہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کے لیے اپنی زندگی اور سوچ میں کون سی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ سچ ہے کہ مطالعہ کرتے وقت شاید ہر بار اِن تمام نکتوں پر سوچ بچار کرنا ممکن نہ ہو۔ لیکن اچھا ہوگا کہ مطالعے کے دوران ہم آدھا وقت پڑھی ہوئی باتوں پر سوچ بچار کرنے میں صرف کریں۔—زبور 119:97؛ 1-تیمُتھیُس 4:15۔
6. جب ہم باقاعدگی سے خدا کے کلام پر سوچ بچار کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟
6 جب ہم باقاعدگی سے خدا کے کلام پر سوچ بچار کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ ہم جان جاتے ہیں کہ یہوواہ کامل سوچ کا مالک ہے۔ ہم یہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ وہ مختلف معاملوں کو کیسا خیال کرتا ہے۔ اور آخرکار ہم اُس کے نظریوں سے اِتفاق کرنے لگتے ہیں۔ یوں ہم اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر نئے زاویے سے سوچنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہوواہ کی سوچ کو اپنانے لگتے ہیں۔
ہماری سوچ کا ہمارے کاموں پر اثر
7، 8. (الف) مالودولت کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ کیا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویروں کو دیکھیں۔) (ب) اگر ہم مالودولت کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ اپنائیں گے تو ہم اپنی زندگی میں کس بات کو پہلا درجہ دیں گے؟
7 ہماری سوچ کا ہمارے کاموں پر اثر ہوتا ہے۔ (مرقس 7:21-23؛ یعقوب 2:17) آئیں، اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔ اناجیل سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا مالودولت کے بارے میں کیا نظریہ رکھتا ہے۔ یہوواہ خدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے کی پرورش کرنے کا شرف یوسف اور مریم کو دیا حالانکہ وہ مالدار نہیں تھے۔ (احبار 12:8؛ لُوقا 2:24) جب یسوع پیدا ہوئے تو مریم نے اُنہیں ”چرنی میں رکھ دیا کیونکہ مسافرخانے میں کوئی جگہ نہیں تھی۔“ (لُوقا 2:7) اگر یہوواہ خدا چاہتا تو وہ معاملات کو اِس طرح سے ڈھال سکتا تھا کہ یسوع زیادہ اچھی جگہ پیدا ہوتے۔ لیکن یہوواہ کی نظر میں یہ بات اہم نہیں تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ یسوع ایسے والدین کے ہاتھوں پرورش پائیں جو اُس کی عبادت کو پہلا درجہ دیتے ہیں۔
8 اِن باتوں سے مالودولت کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ واضح ہو جاتا ہے۔ بعض والدین اپنے بچوں کو پُرآسائش زندگی مہیا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، خواہ اِس سے بچے یہوواہ سے دُور ہونے کے خطرے میں کیوں نہ ہوں۔ لیکن یہوواہ کے نزدیک یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ہم اُس کی قُربت میں رہیں۔ کیا آپ نے اِس معاملے میں یہوواہ کی سوچ اپنا لی ہے؟ آپ کے کاموں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟—عبرانیوں 13:5 کو پڑھیں۔
9، 10. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ دوسروں کو گمراہ کرنے کے حوالے سے ہم یہوواہ کا نظریہ رکھتے ہیں؟
9 اُس شخص کے بارے میں یہوواہ کی سوچ کیا ہے جو دوسروں کو گمراہ کرتا ہے یعنی ایسا کام کرتا ہے جس سے دوسرے یہوواہ کی خدمت کرنا چھوڑ دیں یا گُناہ کریں؟ یسوع مسیح نے کہا: ”جو شخص اِن چھوٹوں میں سے جو ایمان لائے ہیں، کسی کو گمراہ کرے، اُس کے لیے بہتر ہوگا کہ اُس کے گلے میں ایک ایسی چکی کا پاٹ ڈالا جائے جسے گدھے کھینچتے ہیں اور پھر اُسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔“ (مرقس 9:42) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کی نظر میں دوسروں کو گمراہ کرنا بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اور یسوع کی سوچ اپنے آسمانی باپ کی سوچ سے میل کھاتی ہے۔ لہٰذا یہوواہ بھی ایسے شخص سے نفرت کرتا ہے جو یسوع مسیح کے کسی پیروکار کو گمراہ کرتا ہے۔—یوحنا 14:9۔
10 کیا ہم اِس معاملے میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کا نظریہ رکھتے ہیں؟ ہمارے کاموں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر شاید ہمیں کپڑوں یا بالوں کا کوئی سٹائل بہت اچھا لگے۔ لیکن اگر ہمیں پتہ ہے کہ یہ سٹائل کلیسیا کے کچھ بہن بھائیوں کو ناگوار گزرے گا یا اِس کی وجہ سے اُن کے دل میں غلط خواہشیں پیدا ہوں گی تو پھر ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم اپنے بہن بھائیوں سے اِتنی محبت کرتے ہیں کہ ہم اُن کی خاطر اِس سٹائل کو ترک کر دیں؟—1-تیمُتھیُس 2:9، 10۔
11، 12. بدی کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ اپنانے اور اپنے اندر ضبطِنفس پیدا کرنے سے ہم بُرے کاموں سے محفوظ کیوں رہیں گے؟
11 یہوواہ کی سوچ کے سلسلے میں ایک اَور مثال پر غور کریں۔ وہ بدی سے نفرت کرتا ہے۔ (زبور 5:4) اگرچہ وہ جانتا ہے کہ گُناہگار ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار ہمیں صحیح کام کرنا مشکل لگتا ہے لیکن پھر بھی وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح بدی سے نفرت کریں۔ (زبور 97:10 کو پڑھیں۔) اگر ہم اِس بارے میں سوچ بچار کریں گے کہ یہوواہ خدا بُرائی سے نفرت کیوں کرتا ہے تو ہمارے لیے اُس کا نظریہ اپنانا زیادہ آسان ہو جائے گا اور ہمیں بُرے کاموں سے بچنے کی ترغیب ملے گی۔
12 بائبل میں ہر غلط کام کا ذکر نہیں ہوا لیکن اگر ہم بدی سے نفرت کرنا سیکھیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آیا ایک کام غلط ہے یا نہیں۔ مثال کے طور پر آجکل دُنیا میں ایک فحش کام مقبول ہوتا جا رہا ہے جسے لیپ ڈانسنگ کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اِس کام کو کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ جنسی ملاپ نہیں کر رہے ہوتے۔ * لیکن کیا یہوواہ بھی اِس کام کو ایسا خیال کرتا ہے؟ یاد رکھیں کہ یہوواہ ہر طرح کی بدی سے نفرت کرتا ہے۔ لہٰذا آئیں، ہر بُرے کام سے دُور رہنے کے لیے اپنے اندر ضبطِنفس پیدا کریں اور اُن کاموں سے گھن کھانا سیکھیں جن سے یہوواہ گھن کھاتا ہے۔—رومیوں 12:9۔
ابھی سے سوچ بچار کریں
13. اچھے فیصلے کرنے کے لیے ہمیں پہلے سے یہوواہ کے نظریات پر سوچ بچار کیوں کرنی چاہیے؟
13 بائبل کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں یہوواہ کے نظریات پر اِس لیے بھی سوچ بچار کرنی چاہیے تاکہ ہم صحیح فیصلے کر سکیں۔ پھر جب آئندہ ہمیں کسی ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا جس میں ہمیں فوراً فیصلہ کرنا پڑے تو ہمیں پتہ ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ (امثال 22:3) آئیں، اِس سلسلے میں بائبل میں سے کچھ مثالوں پر غور کرتے ہیں۔
14. فوطیفار کی بیوی کی بات پر یوسف کا جو ردِعمل تھا، اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
14 جب فوطیفار کی بیوی نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی تو اُنہوں نے فوراً اُسے منع کر دیا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف نے پہلے سے ہی اِس بارے میں سوچ بچار کی تھی کہ یہوواہ شادی کے بندھن کو کیسا خیال کرتا ہے۔ (پیدایش 39:8، 9 کو پڑھیں۔) یوسف نے فوطیفار کی بیوی سے کہا: ”بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے خدا کی سوچ اپنائی ہوئی تھی۔ کیا آپ نے بھی ایسا کِیا ہے؟ آپ اُس صورت میں کیا کریں گے اگر آپ کے ساتھ کام کرنے والا شخص آپ سے فلرٹ کرے یا اگر کوئی شخص آپ کو فون پر ننگی تصویر یا گندا پیغام بھیجے؟ * اگر ہم نے ایسے معاملوں کے بارے میں پہلے سے ہی یہوواہ کا نظریہ جان لیا ہے، اِسے اپنا لیا ہے اور فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم کیا کریں گے تو ہمارے لیے اُس کا وفادار رہنا زیادہ آسان ہوگا۔
15. سدرک، میسک اور عبدنجو کی طرح ہم یہوواہ کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟
15 ذرا تین عبرانی لڑکوں سدرک، میسک اور عبدنجو کی مثال پر بھی غور کریں۔ جب بادشاہ نبوکدنضر نے اُنہیں اُس مورت کے سامنے سجدہ کرنے کو کہا جو اُس نے بنوائی تھی تو اُنہوں نے صاف اِنکار کر دیا۔ اُنہوں نے بادشاہ کو جو جواب دیا، اِس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ کے وفادار رہنے کا کیا انجام ہوگا۔ (خروج 20:4، 5؛ دانیایل 3:4-6، 12، 16-18) فرض کریں کہ آپ کا باس آپ کو ایک ایسی تقریب کے لیے عطیہ دینے کو کہے جس کا تعلق جھوٹے مذہب سے ہے۔ ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ یہ نہ سوچیں کہ ”جب ایسی صورتحال پیدا ہوگی تو تب مَیں اِس بارے میں سوچوں گا کہ مَیں کیا کروں۔“ اِس کی بجائے پہلے سے سوچ بچار کریں کہ اِن معاملوں میں یہوواہ کا نظریہ کیا ہے۔ پھر جب کبھی کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوگی تو سدرک، میسک اور عبدنجو کی طرح آپ کے لیے بھی صحیح کام کرنا آسان ہوگا۔
16. یہوواہ کی سوچ کو سمجھ لینے سے ہمیں کسی طبّی ایمرجنسی کی صورت میں فائدہ کیوں ہوگا؟
16 پہلے سے یہوواہ کے نظریوں پر سوچ بچار کرنے سے ہم اُس وقت بھی اُس کے وفادار رہ سکیں گے جب ہماری جان کسی حادثے یا صحت کے مسئلے کی وجہ سے خطرے میں ہو۔ ظاہری بات ہے کہ ہم کسی بھی حالت میں اِس بات کی اِجازت نہیں دیں گے کہ ہمیں خون یا اِس کے چار بنیادی حصے دیے جائیں۔ (اعمال 15:28، 29) لیکن علاج کے کچھ اَور طریقۂکار بھی ہیں جن میں خون کے بنیادی حصوں کے اجزا اِستعمال ہوتے ہیں۔ اِن کے بارے میں ہر مسیحی کو بائبل کے اصولوں پر سوچ بچار کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ایسا علاج کروائے گا یا نہیں۔ لیکن اُسے ایسا کب کرنا چاہیے؟ کیا اُس وقت جب وہ ہسپتال میں شدید تکلیف میں ہے اور اُس پر جلدی سے فیصلہ کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ ہر مسیحی کو ابھی سے تحقیق کرنی چاہیے، ایک قانونی دستاویز (جیسا کہ پیشگی ہدایات کی دستاویز) تیار کرنی چاہیے اور اپنے ڈاکٹر کو اپنے فیصلے کے بارے میں بتانا چاہیے۔ *
17-19. یہ کیوں اہم ہے کہ ہم ابھی سے مختلف معاملوں کے بارے میں یہوواہ کے نظریوں پر سوچ بچار کریں؟ اِس سلسلے میں کچھ مثالیں دیں۔
17 ذرا یسوع مسیح کی مثال پر بھی غور کریں۔ یاد کریں کہ جب پطرس نے اُن سے کہا: ”مالک! خود پر رحم کریں“ تو یسوع نے اُنہیں فوراً کیا جواب دیا۔ یسوع کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے پہلے سے ہی سوچ بچار کی تھی کہ یہوواہ اُن سے کیا چاہتا ہے۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اُن پیشگوئیوں پر بھی سوچ بچار کی تھی جو اُن کی زندگی اور موت کے بارے میں کی گئی تھیں۔ اِس علم کی بِنا پر وہ یہوواہ کے وفادار رہ سکے اور اپنی جان ہمارے لیے قربان کر سکے۔—متی 16:21-23 کو پڑھیں۔
18 یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے دوست ہوں اور دلوجان سے مُنادی کے کام میں حصہ لیں۔ (متی 6:33؛ 28:19، 20؛ یعقوب 4:8) لیکن کچھ لوگ اچھی نیت سے ہمیں خدا کی مرضی پر چلنے سے روکنا چاہتے ہیں، بالکل جیسے پطرس نے یسوع مسیح کے ساتھ کِیا تھا۔ فرض کریں کہ آپ کا باس آپ کو موٹی تنخواہ کی پیشکش کرتا ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اِسے قبول کرنے سے آپ کو دیر تک کام کرنا پڑے گا اور آپ کے پاس اِجلاسوں میں جانے اور مُنادی کے کام میں حصہ لینے کے لیے کم وقت رہے گا۔ یا اگر آپ نوجوان ہیں تو فرض کریں کہ آپ کو مزید پڑھائی کے لیے کسی اَور علاقے میں جانے کی پیشکش کی جاتی ہے لیکن اِسے قبول کرنے سے آپ کو اپنے والدین سے دُور جانا پڑے گا۔ جب آپ کو اِس طرح کی پیشکشیں کی جاتی ہیں تو کیا یہ دُعا کرنے، تحقیق کرنے اور اپنے گھر والوں اور کلیسیا کے بزرگوں سے مشورہ کرنے کا وقت ہوگا؟ نہیں بلکہ بہتر ہوگا کہ آپ پہلے سے ہی جان لیں کہ اِن معاملوں کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ کیا ہے۔ پھر اگر کبھی آپ کو کوئی ایسی پیشکش کی جائے گی تو آپ اِسے قبول کرنے کی آزمائش میں ہی نہیں پڑیں گے۔ آپ کو پتہ ہوگا کہ آپ کو کیا کرنا ہے کیونکہ آپ پہلے سے فیصلہ کر چُکے ہیں کہ آپ یہوواہ کی خدمت سے اپنا دھیان نہیں ہٹنے دیں گے۔
19 ایسی اَور بھی بہت سی صورتحال ہیں جن میں یہوواہ کے لیے ہماری وفاداری آزمائی جا سکتی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ ہم پہلے سے ہر صورتحال کے لیے تیاری نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم ذاتی مطالعہ کرتے وقت یہوواہ کے نظریوں پر سوچ بچار کریں گے تو ہم ہر صورتحال میں سیکھی ہوئی باتوں کو یاد کر پائیں گے اور ہمیں پتہ ہوگا کہ ہم اِن پر عمل کیسے کریں گے۔ لہٰذا مطالعہ کرتے وقت یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہوواہ مختلف معاملوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اُس کی سوچ اپنائیں اور فیصلہ کریں کہ آپ ابھی اور آئندہ اِن نظریات پر کیسے عمل کریں گے۔
یہوواہ کی سوچ اور آپ کا مستقبل
20، 21. (الف) نئی دُنیا میں ہم اپنی آزادی کا جس طرح سے اِستعمال کریں گے، اِس سے ہمیں خوشی کیوں ملے گی؟ (ب) ہمیں ابھی بھی خوشی کیسے مل سکتی ہے؟
20 ہم سب شدت سے نئی دُنیا کے آنے کا اِنتظار کر رہے ہیں۔ ہم میں سے زیادہتر زمین پر فردوس میں رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ جب خدا کی بادشاہت آئے گی تو ہمیں اُن تمام تکلیفوں اور دُکھوں سے آزادی ملے گی جو ہم ابھی سہہ رہے ہیں۔ بِلاشُبہ ہمیں اُس وقت بھی ذاتی معاملوں میں خود فیصلہ کرنے کی آزادی ہوگی اور ہم اپنی پسند ناپسند کے مطابق ایسے فیصلے کریں گے جن سے ہمیں خوشی ملے گی۔
21 یہ سچ ہے کہ ہمیں اُس وقت بھی لامحدود آزادی حاصل نہیں ہوگی۔ لیکن نئی دُنیا میں بھی ہم یہوواہ کے اصولوں اور سوچ کی بِنا پر فیصلے کریں گے جس کی وجہ سے ہمیں بہت خوشی اور اِطمینان حاصل ہوگا۔ (زبور 37:11) مگر جب تک وہ وقت نہیں آتا، آئیں، یہوواہ کی سوچ کو اپنانے کی پوری کوشش کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ہمیں ابھی بھی خوشی ملے گی۔
^ پیراگراف 12 لیپ ڈانسنگ ایک ایسا ڈانس ہے جس میں ایک شخص تقریباً ننگا ہو کر گاہک کی گود میں بیٹھ کر گندا ناچ ناچتا ہے۔ اگر ایک مسیحی نے ایسے ڈانس میں حصہ لیا ہے تو کلیسیا کے بزرگ تمام حقائق کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے کہ آیا عدالتی کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ یہ اِس بات پر منحصر ہے کہ ڈانس کے دوران جو کچھ کِیا گیا تھا، آیا وہ حرامکاری کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ جس مسیحی نے ایسے ڈانس میں حصہ لیا ہے، اُسے بزرگوں سے مدد مانگنے کی ضرورت ہے۔—یعقوب 5:14، 15۔
^ پیراگراف 14 موبائل فون کے ذریعے گندے پیغام، تصویریں یا ویڈیوز بھیجنے کو سیکسٹنگ کہا جاتا ہے۔ اگر کلیسیا میں کوئی ایسا کرے تو بزرگ تمام حقائق کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے کہ آیا عدالتی کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ کچھ ملکوں میں ایسے نوجوانوں پر مُقدمہ چلایا گیا جو سیکسٹنگ کرنے میں ملوث تھے۔
^ پیراگراف 16 علاج کے سلسلے میں بائبل کے اصولوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے کتاب ”خدا کی محبت میں قائم رہیں“ میں صفحہ 215-218 کو دیکھیں۔