دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
موٹاپے کے خطرات
لندن کے دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق، ”یورپ میں پھیلنے والی موٹاپے کی وبا“ کے نتیجہ میں ذیابیطس، امراضِقلب اور دیگر بیماریوں میں ڈرامائی اضافے کو قبلازوقت بھانپ لیا گیا ہے۔ میلان، اٹلی میں ۲۶ ممالک سے آنے والے طبّی ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، انٹرنیشنل اوبیسٹی ٹاسک فورس کے چیئرمین نے کہا: ”یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور سنگین نوعیت کی اس بیماری اور صحت کے اس بڑھتے ہوئے خطرے سے متعلق اس خاموش وبا کی روکتھام کیلئے اس وقت فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کوئی کارروائی نہیں کرتے تو ہمیں صحت کی مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑیگا۔“ تمام یورپی ممالک کو اس وبا کا سامنا ہے اور بعض علاقوں میں آبادی کا ۴۰ سے ۵۰ فیصد متاثر ہے۔ انگلینڈ میں ۱۹۸۰ سے لیکر، خواتین میں موٹاپے کی شرح میں ۸ سے ۲۰ فیصد اور مردوں میں ۶ سے ۱۷ فیصد اضافہ ہؤا ہے۔ اسکی بابت پیش کی جانے والی وجوہات میں زیادہتر بیٹھے رہنے والا طرزِزندگی اور مرغن غذا شامل ہیں—یہ دونوں بڑھتی ہوئی خوشحالی کی علامت ہیں۔ زیادہ تشویش کی بات زیادہ وزن والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہے۔ موٹاپے کا مطالعہ کرنے والی یورپی ایسوسیایشن کے صدر، پروفیسر یاپ زیڈیل کے مطابق، ”یہ علامات نظر آ رہی ہیں کہ آئندہ نسل کا بیشتر حصہ کمعمری میں ہی زیادہ وزن اور موٹاپے کا شکار ہو جائیگا۔“
گلوبلائزیشن میں مندی کا رُجحان
معاشرتی گلوبلائزیشن عالمی سطح پر ایسے تجارتی حلقے کو تشکیل دے رہی ہے جو بہتوں کے لئے زیادہ مواقع فراہم کر رہا ہے تاہم اس کیساتھ ہی یہ خطرات میں بھی اضافہ کر رہا ہے، برطانوی اخبار دی گارڈئین بیان کرتا ہے۔ ترقی کی راہ پر گامزن عالمی معیشت پر اقوام کا باہمی انحصار بدیہی طور پر کسی ایک ہی واقعہ سے—جیسےکہ تھائی کے بھات میں ۱۹۹۷ میں ہونے والی کمی—عالمی پیمانے پر مالی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ ”تیس سال پہلے،“ دی گارڈئین بیان کرتا ہے، ”دُنیا کے پانچویں نمبر پر آنے والے امیرترین اور غریبترین لوگوں میں تناسب کی شرح ۳۰ اور ۱ تھی۔ سن ۱۹۹۰ میں یہ شرح ۶۰ اور ۱ تھی اور آج یہ تناسب ۷۴ اور ۱ کو پہنچ گیا ہے۔ گلوبلائزیشن کا سب سے زیادہ فائدہ مجرموں کو ہؤا ہے جو اب عالمی منڈیوں میں منشیات، اسلحے اور کسبیوں کا کاروبار کر سکتے ہیں۔“
کیا آپ نزلےزکام سے بچ سکتے ہیں؟
شاید آپ مکمل طور پر تو نزلےزکام سے نہ بچ سکیں، تاہم آپ چند ایک احتیاطی تدابیر پر عمل کر سکتے ہیں، دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے۔ ذیل میں درج تدابیر اہمترین ہیں: جہاں تک ممکن ہو بھیڑبھاڑ سے بچیں اور جن لوگوں کو زکام ہے اُن کیساتھ ہاتھ ملانے سے گریز کریں۔ مزیدبرآں، اپنی آنکھیں اور ناک مسلنے سے پرہیز کریں اور اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔ ایسی تدابیر مفید ہیں کیونکہ نزلےزکام کے وائرس اکثر ہاتھوں کے ذریعے آنکھ اور ناک کی نازک جھلی تک پہنچ جاتے ہیں۔ زکام کے وائرس کسی بھی چیز کی سطح یا ہاتھوں پر کئی گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں اور جس شخص کو زکام ہے وہ اس بیماری کی علامات کے ظاہر ہو جانے سے پہلے اور بعد میں کافی دیر تک اپنے اندر جراثیم رکھتا ہے۔ دیگر احتیاطی تدابیر میں متوازن غذا کھانا اور بالخصوص بچوں کے درمیان زیادہ محتاط رہنا شامل ہے۔ کیوں؟ اسلئےکہ وہ سال میں پانچ سے آٹھ مرتبہ زکام کے وبائی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں!
افریقہ میں دماغی امراض
”افریقہ میں صحرائےاعظم کے زیریں علاقے کی ۶۰۰ ملین آبادی میں سے تقریباً ۱۰۰ ملین لوگ دماغی امراض میں مبتلا ہیں،“ جنوبی افریقہ کا اخبار دی سٹار بیان کرتا ہے۔ صحت کے عالمی ادارے کے مطابق، بنیادی طور پر جنگ اور غربت اس بڑی تعداد کی ذمہدار ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والا ایک اَور عنصر توسیعی خاندان کی حمایت میں بتدریج کمی ہے۔ نائجیریا کے پروفیسر مائیکل اولاٹاورا کے مطابق، ”افریقہ کا یہ روایتی حفاظتی نظام“ مغربی اقدار، منشیات کے ناجائز استعمال اور معاشری تشدد کی وجہ سے آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ مزیدبرآں، ملازمت کی تلاش میں خاندانی افراد بیرونِملک جا رہے ہیں۔ ”افریقی حکومتوں کے معاشرتی مسائل نے صحت کے سلسلے میں ہماری کاوشوں کو درہمبرہم کر دیا ہے،“ پروفیسر اولاٹاورا بیان کرتے ہیں۔
جنگ کی تصویرکشی کرنے والے قالین
افغانستان میں فن کے ذریعے ایک غیرمعمولی طریقے سے جنگ کی سفاکیوں کو ظاہر کِیا جا رہا ہے، میکسیکو سٹی کا دی نیوز بیان کرتا ہے۔ گزشتہ ۲۰ برس سے، دستکاری کے ماہر افغانیوں نے اپنے مشہور قالینوں پر جنگی ہتھیاروں کی تصویرکشی کی ہے۔ پرندوں، مساجد اور پھولوں کے روایتی نمونوں میں مشینگنوں، ہینڈگرینیڈز اور بکتربند ٹینکوں کے نمونے نظر آتے ہیں۔ قالین کے ماہر بیری اوکونل کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ نمونے ہمیشہ فوری طور پر تو نہیں پہچانے جا سکتے تاہم بیشتر ڈیزائنوں ”کی تصویرکشی اتنی عمدگی سے کی گئی ہے“ کہ اکثر ”47-AK اور 74-AK میں فرق محسوس کرنا“ ممکن ہوتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ قالین بُننے والوں میں اکثریت جنگ سے متاثرہ خواتین کی ہوتی ہے۔ اُن کیلئے، ان منفرد قالینوں کو بُننا دراصل اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا ایک خفیہ طریقہ ہے۔
زہریلی بارش
تحلیل ہو جانے والی کیڑےمار ادویات کی زیادہ مقدار نے یورپ میں بارش کے پانی کو پینے کیلئے کسی حد تک ناموزوں بنا دیا ہے، نیو سائنٹسٹ میگزین بیان کرتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے کیمیادان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بارش کے جو نمونے برسات کے اوائلی لمحوں کے دوران حاصل کئے گئے تھے اُن میں کیڑےمار ادویات کی مقدار اُن نمونوں کی نسبت زیادہ تھی جنہیں یورپین یونین یا سوئٹزرلینڈ نے قابلِقبول خیال کِیا تھا۔ اس کا الزام فصلوں پر کئے جانے والے اسپرے کو دیا جاتا ہے اور ایسے زہریلے کیمیاوی مرکبات کا ارتکاز کافی زیادہ خشک موسم رہنے کے بعد ہونے والی پہلی بارش میں نظر آتا ہے۔ اس دوران، سویڈش محققین نے بڑی تیزی سے پھیلتے ہوئے ایک قسم کے کینسر، نان ہاجکنز لمفوما کو فصلوں پر کئے جانے والے مختلف اسپرے کے وسیع استعمال سے منسلک کِیا ہے۔ کیمیاوی مرکبات جو چھت کے میٹرئیل پر اُگنے والی نباتات کو روکتے ہیں وہ عمارتوں پر سے بہنے والے بارش کے پانی کو بھی زہریلا بنا دیتے ہیں۔
زراعت سے وابستہ اموات
برطانیہ کے کھیتوں میں ہر ہفتے کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے کھیتیباڑی ملک کے انتہائی خطرناک کاموں میں سے ایک بن گئی ہے، لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے۔ سن ۱۹۹۸ میں متاثرین میں سب سے چھوٹا ایک چار سالہ بچہ تھا جو کہ ایک ٹریکٹر کے پہیوں کے نیچے آکر کچلا گیا تھا اور اسکے علاوہ دیگر سات اموات اُن ٹریکٹروں کے ذریعے واقع ہوئی تھیں جو ڈھلوان سے پھسل گئے تھے۔ کسانوں کو آگاہ کِیا جا رہا ہے کہ جس بھی کام میں خطرے یا نقصان کی گنجائش ہے اُس میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے خوب سوچبچار کریں نیز یہ کہ ڈھلوان پر ٹریکٹر چلانے سے پہلے حالات کا بخوبی جائزہ لیں۔ صحتوتحفظ کی مجلسِانتظامیہ کے چیف ایگریکلچرل انسپکٹر، ڈیوڈ میٹی نے کہا: ”اگر کسی نے چند لمحوں کیلئے اس بات پر دھیان دیا ہوتا کہ اُسکے کام میں کیا کچھ شامل ہے اور پھر ذرا مختلف طریقے سے کام کِیا ہوتا تو ان میں سے بیشتر حادثات سے بچا جا سکتا تھا۔“
توانائی کے غیرمعمولی ذرائع
▪ نیو کیلیڈونیا کے جزیرے اوویا میں پٹرولیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ بجلی پیدا کرنے کیلئے ناریل کا تیل استعمال کر رہا ہے، فرنچ میگزین سائنسز اٹ ایونی بیان کرتا ہے۔ فرنچ انجینئر ایلن لینارڈ نے ایک ایسا انجن تیار کرنے میں ۱۸ برس صرف کئے جو ناریل کے تیل سے چلتا ہے۔ انجن ایک جینیریٹر کو چلاتا ہے جو کہ ایک ڈیسالینائزیشن (نمکربائی) پلانٹ کو توانائی فراہم کرتا ہے جو جزیرے پر رہنے والے ۲۳۵ خاندانوں کو پینے کا پانی فراہم کرتا ہے۔ لینارڈ کہتا ہے کہ اُسکا ۱۶۵ کلوواٹ کا سسٹم قوت پیدا کرنے اور ایندھن استعمال کرنے میں ڈیزل انجن کے برابر ہے۔
▪ اسی دوران میں، انڈیا کی ریاست گجرات کے ایک گاؤں کولالی میں، بجلی پیدا کرنے کیلئے بیلوں کی قوت کو تصرف میں لایا جا رہا ہے۔ نئی دہلی کا میگزین ڈاؤن ٹو ارتھ بیان کرتا ہے کہ ایک سائنسدان اور اُسکی بھتیجی کے ذہن میں برقی توانائی پیدا کرنے کا خیال آیا۔ چار بیل ایک گیئربکس سے جڑے ہوئے دُھرے کو گھماتے ہیں جسکی مدد سے ایک چھوٹا سا جینیریٹر چلتا ہے۔ جینیریٹر بیٹریوں سے جڑا ہوا ہے جو پانی کے پمپ اور اناج پیسنے والی چکی کو قوت دیتی ہیں۔ ڈاؤن ٹو ارتھ کا کہنا ہے کہ سولرپینلز (دِلوں) کو استعمال کرتے ہوئے ۲۴ ڈالر فی یونٹ یا پونچکی استعمال کرتے ہوئے ۱ ڈالر فی یونٹ کے مقابلے میں اس توانائی کے ایک یونٹ کی قیمت تقریباً دس سینٹ ہے۔ تاہم، کسانوں کو چونکہ اپنے کھیتوں کے اندر کام کرنے کیلئے سال میں تین مہینے بیل درکار ہوتے ہیں اس لئے علاقے کی ترقی کے لئے ذمہدار لوگ، بیلوں کی غیرموجودگی میں استعمال کیلئے توانائی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کسی مؤثر طریقۂکار کی تلاش میں ہیں۔
متوازن غذا
لڑکیوں میں ۱۰ سے ۱۴ برس کی عمر میں قد اوسطاً ۲۵ سینٹی میٹر بڑھتا ہے اور اُنکے وزن میں ۱۸ سے ۲۲ کلوگرام کا اضافہ ہوتا ہے، جبکہ لڑکوں میں ۱۲ سے ۱۶ سال کی عمر میں قد تقریباً ۳۰ سینٹی میٹر بڑھتا ہے اور اُنکے وزن میں ۲۲ سے ۲۷ کلوگرام کا اضافہ ہوتا ہے۔ نشوونما کے اس تیزرفتار دور میں، نوعمر اشخاص کیلئے اپنے وزن کے سلسلے میں حد سے زیادہ پریشان رہنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے اور بیشتر اپنا وزن کم کرنے کی بابت سوچتے رہتے ہیں۔ ماہرِغذائیات لائینروبلن دی ٹرانٹو سٹار میں لکھتی ہے، ”تاہم ڈائٹنگ کرنا اور کم غذا کھانا کوئی صحتمندانہ حل نہیں ہے اور نہ ہی انکی حوصلہافزائی کی جاتی ہے۔“ روبلن مزید بیان کرتی ہے کہ ایسے اقدام بدن کو غذائیتبخش اجزا سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، خوراک کے سلسلے میں تجربات کرنا ”کھانے کی ناقص عادات کا باعث بن سکتا اور کھانے کی بابت سنگین مسائل پر منتج ہو سکتا ہے۔“ اُس کا کہنا ہے کہ اس لئے نوعمر لوگوں کو ”متوازن غذا کھانے، مستعد زندگی بسر کرنے اور اپنی بابت پُرسکون“ رہتے ہوئے اپنے جسم کی بابت زیادہ حقیقتپسندانہ نظریہ رکھنے اور اچھی صحت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔