دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
آکسیجن سے محروم آنکھیں
دی گلوب اینڈ میل کی رپورٹ کے مطابق، کونٹیکٹ لینز استعمال کرنے والے بعض لوگوں کی آنکھیں آکسیجن سے محروم رہتی ہیں۔ ”جب قرنیہ [آنکھ کی پتلی کے اوپر شفاف پردہ] کو ہوا کے سطحی لمس سے درکار آکسیجن نہیں ملتی تو یہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے خون کی وریدیں بنانے لگتا ہے جس سے عروقسازی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔“ یہ بصری کمزوری یا کورچشمی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ ٹرانٹو ہسپتال میں امراضِچشم کے شعبے کے چیف ڈاکٹر رےمنڈ سٹین کا کہنا ہے کہ ”جب کوئی مریض اپنے لینزز کی حفاظت نہیں کرتا اور دوبارہ چیک کروانے بھی نہیں آتا تو مسئلہ زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔“ بصری معائنہ کرنے والے ماہرین مریضوں کو اس بات کی یقیندہانی کرنے کیلئے آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ آیا اُنکے کونٹیکٹ لینز اُنکی آنکھوں کیلئے موزوں ہیں نیز وہ لینز لگانے کے اوقات اور اُنکی دیکھبھال کے سلسلے میں پیش کی جانے والی ہدایات کی پابندی کرنے کی سفارش بھی کرتے ہیں۔
برازیل میں دوستی کا فقدان
او گلوبو اخبار بیان کرتا ہے کہ برازیلی لوگوں کا دوستی کی طرف میلان اب دس سال پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے۔ ساؤ پولو یونیورسٹی کی ماہرِنفسیات ماریا ابیجیل ڈیسوزا کے مطابق، حصولِملازمت کیلئے مقابلہبازی، مخصوص طرزِزندگی قائم رکھنے کی جدوجہد اور فرصت کے لمحات میں کمی جیسے عناصر اس مسئلے کی اصل وجہ ہیں۔ ساؤ پولو میں ہی ایڈوینٹسٹ ہیلتھی لائف سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر، سیزر ویسکونسلوز ڈیسوزا بیان کرتا ہے: ”سچے دوست بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اُنکے سامنے اپنے دلی جذبات کا اظہار کریں، اُنہیں اپنی غمیخوشی اور دُکھسکھ میں شریک کریں۔ اس کیلئے وقت اور جذباتی بندھن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ بیشتر لوگ دوسروں کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کرنا تو چاہتے ہیں مگر اُنکے اندر کوئی انجانا سا خوف ہوتا ہے۔ خطرات سے بچنے کیلئے وہ سطحی دوستی رکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔“
غم اور افسردگی
تقریباً ۷۰ سے ۷۹ سال کے مردوزن پر کئے گئے ایک سروے کے مطابق شریکِحیات سے جدائی کے کوئی دو سال بعد تک بعض بیواؤں اور رنڈوؤں میں افسردگی کی علامات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اس تحقیق میں شامل لوگوں کو شریکِحیات کی موت کے دن سے گزرے ہوئے وقت کے حساب سے چھ گروہوں میں تقسیم کِیا گیا تھا۔ افسردگی کی علامات کا تعیّن کرنے کے لئے انٹرویوز اور تحریری سوالات کو استعمال کِیا گیا۔ جوابدہندگان میں ۳۸ فیصد مرد اور ۶۲ فیصد خواتین تھیں۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ حال ہی میں شریکِحیات کی موت کا تجربہ کرنے والوں میں افسردگی کی شرح اُن شادیشُدہ لوگوں کی نسبت ۹ گُنا زیادہ ہے جنہیں ایسے المیے کا سامنا نہیں ہوا۔
انٹرنیٹ پر فحاشی کی رغبت
دی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق محققین نے دریافت کِیا ہے کہ ”انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تقریباً ۰۰۰،۰۰،۲ لوگ اسکے مخصوص سائٹس پر فحشنگاری، فحشکلامی اور دیگر اقسام کے جنسی مواد کی طرف راغب ہیں۔“ یہ تحقیق سٹینفورڈ اور ڈیوکیوایسن یونیورسٹیز کے ماہرینِنفسیات نے کی تھی جو انٹرنیٹ پر ”جنسی فحاشی کی طرف راغب لوگوں“ کی تعداد کا تعیّن کرنے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جنسی مواد کو نمایاں کرنے والے ویب سائٹس پر ایک ہفتے میں ۱۱ سے زائد گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ اخبار کے مطابق محققین نے بیان کِیا: ”یہ لوگوں کی صحت کیلئے ایسا پوشیدہ خطرہ ہے جس میں ہمہوقت اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ اکثریت کے نزدیک یہ معاملہ سنجیدہ غوروفکر کا حامل نہیں ہے۔“
افریقہ میں ایڈز کی تباہکاریاں
اقوامِمتحدہ کے سیکرٹری جنرل، کوفی عنان نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ سال افریقہ میں جنگوجدل کی نسبت ایڈز کی وجہ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ جنگوجدل سے مُراد ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، سیرا لیون، انگولا، ریپبلک آف کانگو، ایتھیوپیا، صومالیہ، ایرٹریا اور سوڈان میں ہونے والی جنگیں ہیں۔ پوری دُنیا کے ۳۶ ملین ایڈز کے مریضوں کا تقریباً دو تہائی حصہ نیمصحارائی افریقہ میں رہتا ہے۔ کوٹ ڈیآئیوری میں، ہر روز سکول کا ایک ٹیچر ایڈز کا لقمہ ہو جاتا ہے جبکہ بوٹسوآنا میں عرصۂحیات ۷۰ سے کم ہو کر ۴۱ سال ہو گیا ہے۔ زمبابوے کا خیال ہے کہ سن ۲۰۰۵ تک، اُن کے طبّی بجٹ کا ۶۰ فیصد حصہ ایچآئیوی اور ایڈز کی نظر ہو جانے کے باوجود ناکافی رہے گا۔ لندن کا اخبار دی گارڈین رپورٹ دیتا ہے کہ ملاوی اور زمبیا میں تو ایڈز کے موضوع ہی سے احتراز کِیا جاتا ہے حالانکہ وہاں اس کی شرح بہت زیادہ ہے اور جنوبی افریقہ میں اس کے متاثرین سے لوگ کوسوں دُور رہتے ہیں۔ کوفی عنان کے مطابق ”ابھی تک ہم افریقہ کے معیارِزندگی، معاشی ترقی اور معاشرتیوسیاسی استحکام پر اِس بلائےعظیم کے اثر کو سمجھ نہیں پائے۔“
شہروں کا تبدیلشُدہ موسم
”شہری آبادی میں تیزرَو اضافے کے باعث ایسے ’حرارتی خطے‘ وجود میں آ رہے ہیں جو اپنا علیٰحدہ موسمی نظام ترتیب دے رہے ہیں،“ لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے۔ شہر دن کے دوران تمام حرارت اکٹھی کرتے رہتے ہیں اور رات کو پھر فضائےبسیط میں خارج کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے بیجنگ اور اٹلانٹا جیسے شہروں میں درجۂحرارت ۵.۵ ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ ۱۹ برسوں میں اٹلانٹا سڑکوں اور رہائشگاہوں کی تعمیر کے باعث ۰۰۰،۸۰،۳ ایکٹر جنگلات سے محروم ہو گیا ہے۔ شہری پھیلاؤ کی وجہ سے ہوائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے جو غیرموسمی گرجچمک کے ساتھ بارشوں پر منتج ہوتی ہے جس سے عملِضیائیتالیف کے سلسلے میں ارضِمزروعہ کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ نیشنل ایروناؤٹکس اور سپیس ایڈمنسٹریشن کے سائنسدان ڈاکٹر مارک اموف نے کہا: ”انسانی بقا کا دارومدار زمین کی پیداواری صلاحیت پر ہے۔ اگر زمین کی عملِضیائیتالیف کو جاری رکھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے تو ہمارا سیارہ انسانی زندگی کو قائمودائم رکھنے کے قابل بھی نہیں رہیگا۔“ اکثراوقات زرعی علاقہ ہی شہری توسیع کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
آلودگی کے باعث ویلز کی مانگ میں کمی
آلودگی ویل مچھلیوں کے تحفظ کیلئے جدوجہد کا بنیادی محرک ہے۔ حالیہ تحقیقات نے آشکارا کِیا ہے کہ جاپانی ساحل سے پکڑی گئی ویل اور ڈالفن مچھلیاں ڈیڈیٹی، ڈائیوکسن، پیسیبی اور متھائلمرکیوری سے آلودہ تھیں۔ ایک تجزیے سے معلوم ہوا کہ آلودہ ڈالفن کا ۵۰ گرام گوشت کھانے سے بھی کوئی شخص سخت بیمار ہو سکتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ ایسی خبروں کی وجہ سے ویل مچھلی کے گوشت کی مانگ ختم ہو سکتی ہے۔
کنول—”قدرتی صفائی“ کا پیکر
مشرقی مذاہب میں عرصۂدراز سے مُقدس سمجھا جانے والا کنول کا پودا ہمیشہ صاف کیوں دکھائی دیتا ہے؟ جرمن سائنسدانوں نے اب اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے جس نے ماہرینِحیاتیات کو مدتوں سے تجسّس میں ڈال رکھا تھا۔ ڈبلیو. بارتھلوٹ اور سی نینہیوز دونوں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ”پودوں میں آبی مزاحمت کا عمل تو کافی عرصے سے دریافت ہو چکا ہے مگر قدرتی صفائی کی خصوصیات کو بالکل نظرانداز کِیا گیا ہے۔“ دی سنڈے ٹائمز آف انڈیا کی وضاحت کے مطابق، ”جب پانی کے قطرے کنول کے پتوں سے نیچے کی طرف پھسل جاتے ہیں تو مُضر ذرات کو بہا لیجاتے ہیں جس سے انکی سطح بالکل صاف ہو جاتی ہے۔“ ایسا ہموار سطح کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ خردبین سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پتے کی سطح ”تہدار اور خمدار“ ہونے کے باعث ناہموار ہوتی ہے مگر اس میں ”گول گنبدنما حلقوں کی موجودگی کے باعث آبی اخراج“ کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ علاوہازیں، آبگریز مومی بلورین بھی اس عمل میں معاون ثابت ہوتی ہیں جن سے پودا ڈھکا ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ ”کنول کی اس خصوصیت“ سے پانی اور مٹی کے ذرات کی پیوستگی بہت کم ہو جاتی ہے۔ اُنکی رائے میں یہ پودا ناموافق ماحول کے باوجود ازسرِنو نامیاتی سیال مادے پیدا کر لیتا ہے۔ یوں، کنول کی یہ قدرتی صلاحیت انسانساختہ واٹرپروف رنگ یا واشنگ ڈیٹرجنٹ سے کہیں افضل ہے۔
موزوں مشروب؟
ورلڈوائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیوڈبلیوایف) کے انتباہ کے مطابق اس سے پہلے کہ فرانس میں پانی ”ناقابلِاصلاح حد تک خراب“ ہو جائے ”احتیاطی تدابیر کرنا نہایت ضروری ہے۔“ ڈبلیوڈبلیوایف نے کہا کہ فرانس کا زیریں اور بالائی پانی کیڑے مار کیمیائی مادوں اور نائٹریٹ سے آلودہ ہو چکا ہے۔ سوأر اور دیگر مویشیوں کے فضلے کی پانی میں آمیزش کی وجہ سے نائٹریٹ آلودگی واقع ہوتی ہے۔ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”برٹنی کے علاقے میں آٹھ ملین سوأروں کا فضلہ نکاسی سہولیات کے بغیر کسی شہر کے ۲۴ ملین باشندوں کے فضلے کے برابر ہے!“ مزیدبرآں، ڈبلیوڈبلیوایف کی رپورٹ کے مطابق ”وسیع پیمانے پر کھیتیباڑی کیلئے کھاد کے بھاری استعمال“ سے بھی پانی نائٹریٹ سے آلودہ ہوتا ہے۔ علاوہازیں، مکئی کی فصل پر ادویات کے حد سے زیادہ چھڑکاؤ سے پانی میں کیمیائی اجزاء کی مقدار معمول سے ۴۰ فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ ڈبلیوڈبلیوایف اراضیتری اور لکڑی کے بند باندھنے کی سفارش کرتی ہے جو قدرتی فلٹروں کا کام انجام دینگے۔