ہمارے قارئین کی رائے
ہمارے قارئین کی رائے
دائمی امراض ہمارے تین بچے ہیں جن میں سے ایک ڈاؤنز سنڈروم اور دوسرا سکلسیل انیمیا کے مرض میں مبتلا ہے۔ حال ہی میں سکلسیل کے عارضے میں مبتلا بچے کی طبیعت اچانک بگڑ گئی جسکی وجہ سے اُسے ہسپتال میں داخل کرانا پڑا جو کہ ہم سب کیلئے انتہائی مشکل تھا۔ جب مجھے ”دائمی مرض—خاندان کے طور پر نپٹنا“ کے موضوع پر سلسلہوار مضامین پر مشتمل جولائی–ستمبر ۲۰۰۰ کا جاگو! ملا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہوواہ نے میری دُعاؤں کا جواب دے دیا ہے۔ اِن مضامین نے مجھے اور میری بیوی کو برداشت کی طاقت بخشی۔ اس نے ہماری اس اُمید کو بھی مضبوط کِیا کہ جلد ہی ”کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۴۔
ای.جے.ایم.، برازیل
ہمارا ایک ۱۹ سالہ بیٹا شیزوفرنیا [اختلالِدماغ] کے مرض میں مبتلا ہے۔ ہم نے بیماریوں کیساتھ نپٹنے کی بابت بہت سی کُتب دیکھی ہیں مگر اِن مضامین جیسا کوئی اَور مواد ہماری نظر سے کبھی نہیں گزرا جس نے خاندانی نقطۂنظر سے بیماری کے موضوع پر اتنی جامع معلومات پیش کی ہوں۔ اِنہوں نے میری باطنی کشمکش اور تکلیف کو اتنی خوبصورتی سے بیان کِیا کہ جیسے میرے دلی کرب کو کاغذ پر تحریر کر دیا گیا ہو۔
ایچ.ٹی.، جاپان
گزشتہ دس سال سے مَیں ایک ایسے دائمی مرض میں مبتلا ہوں جو روزبروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن آپ نے ایک شخص کے احساسات کو جس عمدگی سے بیان کِیا ہے اُس نے واقعی مجھ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ کبھیکبھار اپنا ذہنی اور روحانی توازن کھو بیٹھنا بڑا آسان ہوتا ہے مگر میری کلیسیا کے بہنبھائیوں نے یہ ظاہر کِیا ہے کہ وہ میری تکلیف کو جاننا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی دانشمندانہ باتوں سے مجھے زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔
ایم.ایم.، اٹلی
ہم نے خاندانی طور پر اِن مضامین کو پڑھا۔ میری بیٹی کے گردوں میں نقص پڑ گیا جس کے باعث وہ گزشتہ پانچ سال سے کڈنی ڈایالائسس پر ہے۔ ہمارے لئے اس صورتحال کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل رہا ہے۔ کئی مرتبہ تو وہ مرتے مرتے بچی ہے، لہٰذا ہم ہمیشہ اسی ششوپنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ جانے کب اُسکی حالت دوبارہ بگڑ جائیگی۔ تاہم آپکی مشورت بہت اچھی تھی۔ واقعی، ہمیں ہر دن کیلئے شکرگزار ہونا چاہئے۔ دُعا بھی اشد ضروری ہے۔ اس بات سے واقفیت میرے لئے تقویتبخش ہے کہ یہوواہ میرے احساسات کو سمجھتا ہے۔
ایس.جے.، ریاستہائےمتحدہ
یہ جان کر میرا دل باغ باغ ہو گیا کہ کوئی تو دائمی مرض کے درد کو سمجھتا ہے! یکےبعددیگرے، مَیں نے اپنی تینوں بیٹیوں کو اپنی طرح مرگی کے عارضے میں مبتلا ہوتے دیکھا ہے۔ اس طرح کے مضامین ہمیں فہم حاصل کرنے اور مسیح جیسا میلان ظاہر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
جی.ایل.، ریاستہائےمتحدہ
ایناکونڈاز مَیں ایک ایسے خطے میں رہتا ہوں جہاں ایناکونڈاز پائے جاتے ہیں۔ لوگ اکثر اِن سانپوں کی بابت مختلف واقعات بیان کرتے ہیں مگر سمجھ نہیں آتی کہ اُنکا یقین کِیا جائے یا نہیں۔ آپکا مضمون ”ایناکونڈاز—اُنکے راز کیا ہیں؟“ (جولائی–ستمبر ۲۰۰۰) نے مجھے حقیقت اور افسانے میں فرق کرنے کے علاوہ اس عجوبۂتخلیق کی بابت میرے تمام سوالات کے جواب بھی دئے ہیں۔
جے.ایس.پی.، برازیل
مفرور باپ مَیں گزشتہ ۲۵ سال سے اویک! پڑھ رہی ہوں اور میرا خیال ہے کہ یہ مضمون اس سے پہلے کبھی زیرِبحث نہیں آیا۔ (”نوجوان لوگ پوچھتے ہیں . . . مفرور باپ—کیا وہ واقعی فرار حاصل کر سکتے ہیں؟“ مئی ۲۲، ۲۰۰۰) صرف تنہا ماں ہی پستی ہے اور باپ کی کوئی ذمہداری نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دو لوگ حرامکاری کرتے ہیں مگر مصیبتیں صرف ماں اور بچے کو اُٹھانی پڑتی ہیں۔ مَیں بھی ۱۹ سال کی عمر میں حاملہ ہو گئی تھی۔ وہ لڑکا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ براہِمہربانی نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ کرتے رہیں کہ ’حرامکاری سے بھاگیں۔‘—۱-کرنتھیوں ۶:۱۸۔
سی.سی.، سپین
یونانی تھیئٹر مَیں آپکو بتا نہیں سکتا کہ مجھے یہ مضمون ”اپیدورس کا تھیئٹر—صدیوں سے سالم“ (جون ۸، ۲۰۰۰) کتنا پسند آیا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ مضمون واقعی نہایت خیالآفرین تھا۔ تاہم، میرے وہموگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس میں اتنی زیادہ روحانی معلومات بھی ہونگی!
کے.ایس.، ریاستہائےمتحدہ