مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

عمر بڑھنے کیساتھ ساتھ بھی سیکھتے رہیں

اخبار،‏ ٹرانٹو سٹار کی رپورٹ کے مطابق،‏ ملازمت کی جگہ پر کمپیوٹر اور مواصلاتی نظام جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو سیکھنا بعض بڑی عمر کے کارکنوں کیلئے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔‏ پیشہ‌ورانہ انتخابات کی ماہر این ایبی کے بیان کے مطابق مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کیا سیکھ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ کیسے سیکھ رہے ہیں۔‏ ایکسزائم ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی صدر،‏ جولیا کینیڈی وضاحت کرتی ہے،‏ ”‏عمر بڑھنے کیساتھ ساتھ ہمارا اعصابی نظام سُست پڑ جاتا ہے مگر ہمارا ذہن صحتمند رہتا ہے۔‏“‏ کینیڈی نے بیان کِیا کہ مفہوم کو سمجھے بغیر دہرائی کیساتھ سیکھنے کی طرف مائل ہونے والے بچوں کی نسبت،‏ ”‏بالغ اشخاص کو پہلے سے معلوم (‏زندگی کے تجربات)‏ اور سیکھی ہوئی باتوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‏“‏ شاید بڑی عمر کے کارکن پیچیدہ کام سیکھنے میں زیادہ وقت لیں تاہم ان میں سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔‏ کینیڈی نئے اور پیچیدہ کام سیکھنے کی کوشش کرنے والے بڑی عمر کے کارکنوں کیلئے یہ تجاویز پیش کرتی ہے:‏ اگر ہو سکے تو اپنی تربیت کیلئے صبح کا وقت مخصوص کریں،‏ تمام تفصیلات کی بجائے بنیادی اصول یاد کریں اور دوسروں کیساتھ اپنا موازنہ کرنے سے گریز کریں۔‏

تیل کے ذخائر کا حالیہ عالمی تخمینہ

سائنٹیفک امریکن رسالے کی رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏پانچ سال کے مطالعے کے بعد،‏ یو.‏ایس.‏ کے جیولوجیکل سروے [‏یوایس‌جی‌ایس]‏ نے خام تیل کے ذخائر کے سابقہ تخمینے کو ۲۰ فیصد بڑھا کر اب اس کی کُل مقدار ۶۴۹ ارب بیرل کر دی ہے۔‏“‏ یوایس‌جی‌ایس ورلڈ پٹرولیم ایسس‌منٹ ۲۰۰۰ کی منتظم،‏ سوزانے ویڈمین بیان کرتی ہے کہ ”‏ہم نے مستقبل پر نگاہ رکھتے ہوئے پیشینگوئی کی ہے کہ اگلے ۳۰ سالوں میں کتنا [‏تیل]‏ دریافت کِیا جائیگا۔‏“‏ رسالہ بیان کرتا ہے،‏ نئے ذخائر ملنے کے علاوہ ڈرلنگ کی ٹیکنالوجی میں ترقی سے بھی دُنیا میں تیل کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جس نے پٹرول کی کمپنیوں کو ”‏موجودہ میدانوں سے اور بھی زیادہ تیل نکالنے“‏ کے قابل بنایا ہے۔‏

عام لباس—‏عام کام؟‏

دی سنڈے ٹیلی‌گراف کی رپورٹ کے مطابق،‏ آسٹریلیا کے ملک‌گیر سروے نے ظاہر کِیا کہ دفتری کام کرنے والے بعض کارکنوں کا یقین ہے کہ عام لباس پہن کر کام پر جانے سے سُستی پیدا ہوتی ہے۔‏ آسٹریلیا کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیوں میں کام کرنے والے کوئی ۴۲ فیصد کارندے اب روزانہ عام لباس پہنتے ہیں اور ۴۰ فیصد آسٹریلیوی کمپنیوں میں ”‏جمعے“‏ کے دن،‏ کارکن اگر چاہیں تو عام لباس پہن سکتے ہیں۔‏ اگرچہ کارکنوں میں عام لباس کا رُجحان مقبول ہو رہا ہے،‏ توبھی سروے کئے جانے والے ۱۷ فیصد آجروں کا خیال ہے کہ عام لباس کارکنوں کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتا ہے۔‏ اِن اعدادوشمار کے سلسلے میں آجروں اور کارکنوں کے نقطۂ‌نظر میں گہرا اتفاق پایا جاتا ہے اور ۲۱ فیصد خواتین اور ۱۸ فیصد مرد بیان کرتے ہیں کہ عام لباس کارکردگی پر منفی اثر ڈالتا ہے۔‏

موزمبیق میں سیلابی تباہ‌کاریاں

موزمبیق میں پچھلے سال اسی مہینے کے دوران،‏ سیلاب کے باعث نصف ملین سے زائد لوگ بےگھر ہو گئے،‏ پورے مُلک کی فصلوں کا تقریباً ایک تہائی حصہ تباہ ہو گیا اور کوئی ۰۰۰،‏۲۰ سے زائد مویشی غرقاب ہو گئے۔‏ سن ۱۹۴۸ سے پہلے تک کے سب سے تباہ‌کُن سیلاب کے اس حادثے کے بعد جب مُلک حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا تھا تو بہتیروں نے اس حادثے کی وجوہات پر تحقیق‌وتفتیش کی۔‏ رسالہ افریکن وائڈلائف نے بیان کِیا کہ موزمبیق کے قریبی ممالک میں شہری ترقی،‏ سبزہ‌زاروں میں کاشتکاری اور دریائی علاقوں میں جانوروں کی چرائی کی وجہ سے سبزہ‌زاروں اور دلدلی زمین کی پانی جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔‏ لہٰذا،‏ تیز بارش کا بہتا ہوا پانی شدت اختیار کر لیتا ہے۔‏ جنوبی افریقہ میں دلدلی زمینوں کے پروجیکٹ کے منتظم،‏ ڈیوڈ لنڈلی بیان کرتا ہے:‏ ”‏بےانتہا خودبینی اور دُوراندیشی میں کمی کی بدولت ہم نے اپنی زمینی رطوبت کو تباہ کر دیا ہے اور اپنے دریاؤں کے قدرتی نظام میں مداخلت کی ہے۔‏“‏

گائے اور سبزمکانی گیس

کاربن‌ڈائی‌آکسائڈ کی نسبت،‏ میتھین گیس عالمگیر درجۂ‌حرارت میں ۲۰ گُنا زیادہ اضافہ کرتی ہے۔‏ ایک تخمینے کے مطابق،‏ پوری دُنیا میں تقریباً دو بلین مویشی اور بھیڑبکریاں ہر سال ۱۰۰ ملین ٹن میتھین پیدا کرتے ہیں۔‏ دی کینبرا ٹائمز کے مطابق،‏ آسٹریلیا کے پالتو جانور ۱۳ فیصد سبزمکانی گیس خارج کرتے ہیں جبکہ نیوزی‌لینڈ میں اس کی مقدار تقریباً ۴۶ فیصد ہے۔‏ جگالی کے خوردبینی نامیات پیٹ میں موجود چارے کے اجزا علیٰحدہ کرتے وقت میتھین پیدا کرتے ہیں جو جانور کے مُنہ سے خارج ہوتی ہے۔‏ اب سائنسدان عالمگیر درجۂ‌حرارت میں اضافے کے سلسلے میں جانوروں کے کردار کو کم کرنے کیلئے دودھ کی پیداوار بڑھانے اور میتھین کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش میں تجربات کر رہے ہیں۔‏

سگریٹ‌نوشی کے افسانے بےنقاب

کینیڈا کے اخبار،‏ گلوب اینڈ میل کی رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏معاشی لحاظ سے یہ دلیل سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ سگریٹ‌نوش نظامِ‌صحت پر بوجھ نہیں ہوتے کیونکہ وہ جلد مر جاتے ہیں۔‏“‏ تقریباً ۰۰۰،‏۱۳ ڈچ اور امریکی شہریوں کی طبّی صحت کا مطالعہ کرنے والے ڈچ محققین نے دریافت کِیا کہ سگریٹ‌نوشی کرنے والوں کی نسبت،‏ سگریٹ‌نوشی نہ کرنے والے افراد کم وقت ناکارہ رہتے ہیں۔‏ روٹرڈم میں ایراسمس یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر ولما نس‌ایلڈر تحریر کرتی ہے:‏ ”‏سگریٹ‌نوشی سے پرہیز کرنے سے نہ صرف زندگی طویل ہوتی ہے بلکہ گزارے گئے تندرست سالوں میں اضافے کیساتھ ساتھ عارضی نااہلی بھی ختم ہو جاتی ہے۔‏“‏ گلوب کے مطابق،‏ ”‏پوری دُنیا کے تقریباً ۱۵.‏۱ بلین سگریٹ‌نوش اس زمین کی بالغ آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں۔‏ ان سگریٹ‌نوشوں کی کوئی ۹۴۳ ملین آبادی ترقی‌پذیر ممالک میں رہتی ہے۔‏“‏

جنسی بیماریاں اور بچے

لندن کے دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏۱۱ سال سے بھی کم‌عمر بچے جنسی بیماریوں کے لئے زیرِعلاج ہیں۔‏“‏ سوزاک انگلینڈ کے ایک شہر میں قومی اوسط سے دو گُنا زیادہ ہے اور ہر آٹھ نوجوان لڑکیوں میں سے ۱ کلےمیڈیا کا شکار ہے۔‏ انگلینڈ میں ۱۹۹۵ سے لیکر کلےمیڈیا کی بیماری میں تقریباً دو گُنا اضافہ ہوا ہے اور صرف پچھلے سال ہی نوجوانوں میں یہ بیماری پانچ گُنا بڑھ گئی ہے۔‏ پورے مُلک میں گزشتہ پانچ سالوں میں سوزاک میں ۵۶ فیصد اضافے نے خاص طور پر نوجوانوں کو متاثر کِیا ہے۔‏

اپنے سر کا استعمال کرنا

برازیل کے سوانا میں پائی جانے والی ملکہ چیونٹیوں کی قسم بلیفرائڈاٹا کونوپس کے بڑے،‏ چپٹے اور گول سر ہوتے ہیں۔‏ برازیل کے نیشنل جیوگریفک شمارے کے مطابق،‏ چیونٹیاں اپنے غیرمعمولی سر سے اُس سوراخ کے مدخل کو بند رکھتی ہیں جہاں انڈے،‏ لاروا اور پیوپا جمع ہوتے ہیں تاکہ اسے ممکنہ شکاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔‏ ملکہ کی رہائش‌گاہ کو کارکُن چیونٹیاں جمع‌کردہ کیڑےمکوڑوں کے حصوں سے بناتی ہے۔‏ انکے جسموں سے سیال مادہ نکالکر عضلے کو الگ کرنے کے بعد،‏ کارکُن چیونٹیاں ان حصوں سے ملکہ کے گرد ایک چوبارا بنا لیتی ہیں اور اُسکے سر کے برابر ایک حصہ کُھلا چھوڑ دیتی ہیں۔‏ اس خاص سوراخ میں داخل ہونے کیلئے کارکُن چیونٹیاں ملکہ کو اشارہ دینے کیلئے اُسکے سر پر ہلکے سے دستک دیتی ہیں۔‏

بجلی چور

ریاستہائےمتحدہ میں بل وصول کرنے والی تمام کمپنیاں بجلی کی چوری کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‏ دی وال سٹریٹ جرنل بیان کرتا ہے کہ سالوں پہلے،‏ بجلی جیسی سستی چیز کو چوری کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا مگر حالیہ برسوں کے دوران اسکی قیمت میں اضافے نے اسکی چوری عام کر دی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ڈیٹروئٹ ایڈیسن کمپنی نے تخمینہ لگایا کہ ۱۹۹۹ میں بجلی چوروں کی وجہ سے انہیں ۴۰ ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔‏ چور اکثر خطرات سے بےخبر ہوتے ہوئے بجلی چرانے کیلئے آٹوموبیل کے تار،‏ گھر پر استعمال ہونے والی بجلی کے تار اور تانبے کے پائپ جیسی خطرناک چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔‏ دیگر زمین کی کھدائی کر کے وہاں موجود کمپنی کی موصل تاروں سے بجلی چراتے ہیں۔‏

اسکی کمی بھی محسوس نہیں کی گئی؟‏

حال ہی میں ہیلسنکی فن‌لینڈ کے ایک گھر میں کسی مرد کی حنوط‌شُدہ لاش ملی۔‏ عمارت کا نگران جب دروازے پر فائر الارم نصب کرنے کیلئے رُکا تو وہاں سے آنے والی بدبُو اور خطوط کے ایک ڈھیر پر اُسکی نظر پڑی۔‏ اسکی اطلاع کے جواب میں آنے والی پولیس کو وہاں ایک ۵۵ سالہ پنشنر کی لاش ملی جو تنہا رہتا تھا اور چھ سال سے بھی زیادہ عرصہ سے مردہ پڑا تھا۔‏ اخبار ہیلسنگن سانوماٹ کی رپورٹ کے مطابق اس تمام عرصے کے دوران،‏ اسے سوشل انشورنس انسٹیٹیوشن سے پنشن ملتی رہی اور فلاحی ادارہ اسکے مکان کا کرایا ادا کرتا رہا تاہم کسی نے کبھی اس سے ملاقات نہیں کی تھی۔‏ اسکے علاوہ،‏ اسی شہر میں رہنے والے اسکے بالغ بچوں نے بھی اسکی کمی محسوس نہیں کی تھی۔‏ ہیلسنکی میں سوشل سروسز ڈیپارٹمنٹ کی منتظم،‏ محترمہ اولکی کنانوجا بیان کرتی ہے،‏ ”‏انسانی معاشرے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص چھ سال تک کسی ریگستانی جزیرے پر نہیں بلکہ ایک شہر میں پڑا رہا جسکی کسی نے کمی محسوس نہیں کی کہ اسکی بابت یہ سوچے کہ وہ کہاں ہے یا اُسے کیا ہو گیا ہے۔‏“‏