کیا حقیقی اصلاح ممکن ہے؟
کیا حقیقی اصلاح ممکن ہے؟
”کوئی بھی شخص زبردستی کسی دوسرے کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ انسان میں تبدیلی اُسکی مرضی اور باطنی تحریک سے ہی ممکن ہے۔“—ویوئین سٹرن، اے سِن اگینسٹ دی فیوچر—امپریزنمنٹ اِن دی ورلڈ۔
قیدیوں میں حقیقی اصلاح کا دارومدار تعلیم، اقدار اور نظریے میں تبدیلی پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے خلوصدل اشخاص موجود ہیں جو قیدیوں کی مدد اور تعلیموتربیت کے لئے کوشاں ہیں۔ ایسے لوگوں کے بےغرضانہ اور عمدہ کام کے لئے بہت سے قیدیوں نے واقعی قدردانی کا اظہار کِیا ہے۔
بعض لوگ شاید یہ بحث کریں کہ مجموعی طور پر قید کا نظام ناقابلِاصلاح ہے اور ایسے ماحول میں قیدیوں کے لئے اپنے اندر تبدیلی لانا بہت مشکل ہے۔ یہ سچ ہے کہ مُجرموں کو قید میں ڈالنا اُن کے اندر نئی اقدار پیدا نہیں کرتا مگر بائبل کی تعلیم نے بعض کو اپنی زندگی تبدیل کرنے میں واقعی مدد دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انفرادی طور پر اصلاح ممکن ہے۔
آجکل، بائبل کی مدد سے، بعض قیدی اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں جو درست سوچ اور اچھے چالچلن کا باعث بنتی ہیں۔ وہ کیسے؟ بائبل کی اس نصیحت پر عمل کرنے سے: ”اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ رومیوں ۱۲:۲) یہ کیسے واقع ہوتا ہے؟
خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔“ (بائبل کا کردار
بیشتر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ مذہب قیدیوں کی اپنے سابقہ کاموں سے توبہ کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دراصل اس سلسلے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جیل کے اندر کردار میں لائی گئی کوئی بھی تبدیلی رہائی کیساتھ ہی ختم ہو سکتی ہے۔ ایک قیدی اسے یوں بیان کرتا ہے: ”یہاں آ کر بہت سے لوگوں کو مسیح مِل جاتا ہے مگر یہاں سے جاتے وقت وہ مسیح کو یہیں چھوڑ جاتے ہیں!“
تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ اصل تبدیلی باطن—مُجرم کے دلودماغ—میں ہونی چاہئے جسکی بنیاد ماضی کی غلطکاریوں پر حقیقی پچھتاوا ہو۔ بائبل تعلیم کا پروگرام کسی شخص کی یہ سیکھنے میں مدد کر سکتا ہے کہ خدا بدکاری کی بابت کیسا محسوس کرتا ہے اور بدکاری غلط کیوں ہے۔ یوں اُسے غلط روش کو ترک کرنے کیلئے ٹھوس وجہ مِل سکتی ہے۔
یہوواہ کے گواہ شاندار نتائج کے ساتھ دُنیابھر میں بیشمار قیدخانوں کے اندر بائبل تعلیم دے رہے ہیں۔ (صفحہ ۱۰ دیکھیں۔) ایک قیدی نے تبصرہ کِیا: ”ہمیں زندگی کے مقصد اور مستقبل میں انسان کو حاصل ہونے والی برکات کے سلسلے میں بائبل کی تعلیم کو سمجھنے میں مدد دی گئی ہے۔ یہ واقعی بیمثال تعلیم ہے!“ ایک دوسرے قیدی نے تبصرہ کِیا: ”ہم خدا کی مشورت پر مبنی فیصلے کر رہے ہیں۔ . . . ہم اپنے اندر تبدیلیاں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم یہ سمجھ گئے ہیں کہ زندگی میں کن چیزوں کو مقدم ہونا چاہئے۔“
بِلاشُبہ، قیدخانے کے درودیوار کے باہر بھی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ قیدخانوں کے بحران کا اصل حل یہ ہے کہ قیدخانوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ قیدیوں کے دل پر اثر کرنے والی بائبل کی شاندار سچائیوں میں سے ایک کا اظہار خدا کے اس وعدے میں کِیا گیا ہے: ”بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے . . . صادق زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“—زبور ۳۷:۹، ۲۹۔
جب ایسا ہوگا تو خدا کے اعلیٰ معیار اُس کی پُرمحبت، لازوال اور مستحکم حکومت کے ذریعے نافذ کئے جائیں گے۔ یہ خدا کی آسمانی بادشاہت ہے جس کا بادشاہ مسیح ہے۔ اسی حکومت کے لئے مسیحیوں کو دُعا کرنا سکھایا گیا ہے۔ (متی ۶:۱۰) اُس نئی دُنیا میں، خدا کے اعلیٰ قوانین کی تعلیم حاصل کرنے سے ہر باشندے کی اصلاح ہو جائے گی۔ اُس وقت یہ بات سچ ثابت ہوگی کہ ”جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [یہوواہ] کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ ۱۱:۹) اسکا نتیجہ کیا ہوگا؟ نئی دُنیا میں قانون کی تابعداری کرنے والے لوگ، ”سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے۔“—زبور ۳۷:۱۱۔
[صفحہ ۱۰ پر بکس/تصویریں]
اُمید کا دریچہ کھولنا
یہوواہ کے گواہوں کے رضاکار خادم ۲۰ سال سے اٹلانٹا جارجیا، یو.ایس.اے کے ایک وفاقی اصلاحی قیدخانے میں بائبل کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اُس وقت کے دوران، ۴۰ سے زائد قیدیوں کو یہوواہ کے بپتسمہیافتہ خادم بننے کیلئے مدد دی گئی ہے اور ۹۰ سے زائد قیدیوں نے باقاعدہ بائبل مطالعے سے استفادہ کِیا ہے۔
حال ہی میں، ”جاگو!“ نے اس قیدخانے میں بےلوث خدمت انجام دینے والے مختلف بائبل اساتذہ سے گفتگو کی۔
▪ بائبل کی تعلیم بعض قیدیوں کو اپنی زندگیاں تبدیل کرنے کی تحریک دینے کے سلسلے میں اتنی مؤثر کیوں ہے؟
ڈیوڈ: بیشتر قیدی بچپن ہی سے محبت سے محروم ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب اُنہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ خدا اُن سے محبت رکھتا ہے نیز جب وہ اُس کے حضور دلی دُعا کرتے ہیں اور وہ اُنکی دُعاؤں کے جواب دیتا ہے تو وہ اُن کیلئے حقیقی بن جاتا ہے۔ اسطرح اُنکے دل اُس سے محبت کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔
رے: ایک قیدی جس کیساتھ مَیں نے مطالعہ کِیا وہ بچپن میں جنسی بدسلوکی کا نشانہ بن چکا تھا۔ جب مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کس چیز نے اُسے یہوواہ کی جانب راغب کِیا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ جب آپ بائبل سچائی سیکھ جاتے ہیں تب آپکو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہوواہ واقعی آپکو سمجھتا ہے۔ اس بات نے اُسے ایسے شفیق خالق کی شخصیت کی بابت مزید سیکھنے کی تحریک دی۔
▪ بعض شاید یہ کہیں کہ قیدی درپردہ مقاصد—اپنی سزا کم کروانے یا محض وقت گزارنے—کے پیشِنظر مذہب کا سہارا لیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں آپ کا کیا تجربہ رہا ہے؟
فریڈ: جب قیدی ہمارے پاس مطالعہ کرنے کے لئے آتے ہیں تو ہم اُن کے جذبات اُبھارنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم اُن کے ساتھ صرف بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جلد ہی وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارا مقصد صرف اُنہیں بائبل کی تعلیم دینا ہے۔ بعض قیدیوں نے میرے پاس آ کر عدالتی مقدمات کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی ہے۔ لیکن مَیں اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ نتیجتاً جب ایک شخص کچھ عرصہ تک مطالعے کے گروپ میں متواتر آتا رہتا ہے تو وہ واقعی بائبل سیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔
نِک: ایک چیز جو مَیں نے دیکھی ہے وہ قیدخانے کے اندر ہی بعض قیدیوں میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔ اُن میں سے چند بپتسمہیافتہ خادم بن گئے ہیں اور اُنہیں دیگر قیدیوں کی طرف سے مشکلات بھی برداشت کرنی پڑی ہیں۔ یہ اُن کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر بائبل نے اُنکے دلوں پر اثر نہ کِیا ہو تو وہ ایسے حالات کے تحت وفادار رہنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔
ازرائیل: عموماً یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکے اندر یہوواہ کی بابت جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے اور وہ بڑے اچھے انداز میں اس کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اُنکی دلی خواہش ہے۔
جَو: مسیحی بننے والے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ اُنکی زندگی کیوں خراب ہوئی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تبدیلی ممکن ہے—اُنکے لئے اُمید کا دریچہ کُھلا ہے۔ اب وہ خلوصدلی سے مستقبل کیلئے یہوواہ کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کر سکتے ہیں۔
▪ صرف قیدخانوں کا نظام ہی مُجرموں کی اصلاح کیوں نہیں کر سکتا؟
جَو: تعزیراتی نظام کا مقصد بحالی کی بجائے مُجرموں کو معاشرے سے دُور رکھنا ہے۔ مسئلے کی اصل وجہ قیدخانوں کے نظام کا مُجرموں کے لئے بےلوچ نظریہ ہے۔
ہنری: قیدخانے مُجرموں کے دلوں کو تبدیل کرنے کے قابل نہیں۔ اِن میں سے بیشتر لوگ رہائی کے بعد دوبارہ جُرم میں ملوث ہونگے۔
[صفحہ ۸، ۹ پر تصویر]
بیشمار قیدیوں کی بائبل سچائی سیکھنے کیلئے مدد کی گئی ہے