کارلسباڈ کے غاروں کی زمیندوز شان
کارلسباڈ کے غاروں کی زمیندوز شان
نیو میکسیکو، یو.ایس.اے. کے کارلسباڈ کیورنز نیشنل پارک کے غاروں میں مکمل تاریکی اور سکوت کا عالم تھا۔ غاروں میں داخل ہونے کے بعد ہم نے سوچا: ’یہ غار کیسے وجود میں آئے؟ یہ کتنے وسیع ہیں؟ اِن کے اندر کونسی غیرمعمولی چیزیں چھپی ہیں؟ کیا اِنکی سیروسیاحت خطرے سے خالی ہے؟‘
غاروں کی سیر سے پہلے ہمارا چھوٹا سا گروپ ٹیکساس کے جنوبمغرب میں گواڈیلوپ کے ماؤنٹینز نیشنل پارک میں کیمپنگ اور ہائےکنگ سے لطفاندوز ہو چکا تھا۔ ٹیکساس کے بلندترین مقام یعنی گواڈیلوپ کی ۷۴۹،۸ فٹ اُونچی چوٹی سے نیچے اُترتے ہوئے ہم نے راستے میں چٹانوں سے چمٹے ہوئے بہت سے فوسل دیکھے۔ ماہرِارضیات کے مطابق، یہ فوسل کارلسباڈ کے غاروں کی ابتدا کا اشارہ دیتے ہیں۔ وہ کیسے؟
کافی عرصہ پہلے یہاں ہر طرف کائی، اسفنج اور گھونگھے تھے۔ پورا علاقہ سمندر سے دُور ایک گرم خطہ تھا۔ یہاں مونگے بہت ہی کم پائے جاتے تھے جو آجکل پتھریلے ساحلوں کا بنیادی حصہ ہیں۔ غیرمعمولی سمندری حیات میں ٹرائیلوبائٹس اور ایمونوئڈز شامل تھے جو کہ آجکل ناپید ہیں۔ بیشتر ایمونوئڈز بڑے بڑے کنڈلدار گھونگوں میں رہتے تھے جو موجودہ زمانے کے ناٹیلس کی طرح تھے۔ راستے میں ایک ایسے ہی گھونگے کو چٹان میں دھنسا ہوا دیکھ کر ہمیں بڑی حیرت ہوئی!
بظاہر سمندری جانداروں کے فوسلوں اور دیگر اجزا کا بہت بڑا انبار لگ جانے سے چونے کی ساحلی چٹانیں وجود میں آئیں۔ جب سمندر کی سطح نیچے چلی گئی تو یہ انبار ۵۰۰،۱ فٹ سے بھی زیادہ اُونچا ہو گیا۔ بالآخر، جب سمندر بہت پیچھے ہٹ گیا تو یہ انبار ریت اور آبی نباتات کے نیچے دب گیا۔ کافی عرصہ بعد
جب زمینی سطح بلند ہوئی تو ریت اور نباتات ختم ہو گئے اور اس انبار نے پہاڑوں کی شکل اختیار کر لی۔ تاہم، یہ انقلابی عمل کارلسباڈ کے غاروں کو تشکیل دینے میں کیسے معاون ثابت ہوا؟گیس، پانی، ہوا اور تیزاب
جب بارش کا پانی ہوا اور مٹی سے گزرتا ہے تو کاربن ڈائیآکسائڈ جذب کرنے کی وجہ سے پانی میں معمولی سی تیزابیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بظاہر اس خفیف سے تیزاب کی وجہ ہی سے دُنیا کے اندر چونے کے غار بنتے ہیں۔ تاہم، ماہرِارضیات کیرل ہل کے مطابق، ایک طاقتور تیزاب نے گواڈیلوپ کے پہاڑوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔
کیرل ہل کا خیال ہے کہ چونے کے ساحل کے نیچے چٹانوں میں تیل کے ذخائر کے اندر گندھک سے بھرپور گیس بن رہی تھی۔ جب چٹانیں اُبھرنے لگیں تو اس گیس کے نفوذ اور زمین کے نیچے آکسیجن والے پانی اور ہوا کیساتھ اسکے تعامل سے سلفیورک ایسڈ بنا۔ اس طاقتور تیزاب نے چونے کی چٹانوں کو بڑی حد تک تحلیل کر دیا۔
پہاڑوں کے اُبھرنے اور پانی کی سطح کم ہونے سے یہ غار بڑے ہوتے گئے۔ کارلسباڈ کے غاروں میں، آپس میں جڑے ہوئے وسیع شگافوں اور کشادہ دراڑوں نے بہت سے ٹیڑھےمیڑھے راستے تشکیل دئے ہیں۔ یہاں تقریباً ۳۷ کلومیٹر کی گزرگاہوں کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ تاہم اِن پہاڑوں
میں صرف یہی زمیندوز حجرے نہیں ہیں۔ سینکڑوں دیگر بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا لیچوگیولا غار کے نام سے مشہور ہے جو ۱۶۰ کلومیٹر طویل ہے!غاروں کی سجاوٹ
کارلسباڈ کے غاروں میں ہم سب سے پہلے ایک لفٹ کے ذریعے ۷۵۰ فٹ نیچے ایک حجرے میں پہنچے جسکا شمار دُنیا کے سب سے بڑے زمیندوز حجروں میں ہوتا ہے۔ یہ وسیع شگاف ۱۴ ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ بعض جگہوں پر اس کی چھت فرش سے سو فٹ سے زیادہ بلند ہے۔ مگر جس چیز نے ہمیں متاثر کِیا وہ غار کی قدرتی آرائش تھی جو ہر موڑ پر پوشیدہ روشنیوں سے جگمگا رہی تھی۔
جہاں کہیں غار میں داخل ہونے والا پانی بخارات بن کر اُڑ جاتا اور اپنے اندر موجود چونے کو وہیں جم جانے کیلئے چھوڑ دیتا ہے وہاں یہ سامانِآرائش پیدا ہو جاتا ہے۔ جہاں کہیں غار کی چھت کے ایک ہی حصے سے مسلسل پانی ٹپکتا رہا ہے وہاں کئی فٹ لمبی خالی ٹیوبنما اشکال بن گئی ہیں۔ انہیں سوڈا سٹرا کہا جاتا ہے جو انجامکار بند ہو کر برفنما کلسی رسوب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ڈھلوانی چھتوں سے نیچے کی طرف لٹکتے ہوئے تموجی ”جھالر“ کی وجہ سے بعض غار تھیٹر معلوم ہوتے ہیں۔
جہاں پانی زمین پر گِرتا ہے وہاں ستون بن کر اُوپر کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ فرشِغار پر بننے والا یہ کلسی رسوب مواد قلموں کی شکل میں اُٹھتا ہوا چھت سے لٹکنے والے کلسی رسوب سے بھی مل سکتا ہے۔ ہال آف جائنٹس میں موجود بعض ستونوں کی اُونچائی ۶۰ فٹ سے بھی زیادہ ہے! اگر ٹپکنے والا پانی چٹانوں کے چھوٹے شگافوں میں گِرتا ہے تو چٹانوں کے چھوٹے ٹکڑے چونے سے ڈھک جاتے ہیں اور غار کے اندر چمکیلے موتی بن جاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں اس سے بھی خوبصورت چیزیں وجود میں آئی ہیں۔ اِن میں سوئی کی طرح تیز اور خمدار کرسٹل، سنڈینما ٹیوبز بھی شامل ہیں جو ہیلکٹائٹس کہلاتی ہیں اور ہر سمت میں بڑھتی ہیں۔
چھت سے لٹکنے والی بیشمار کلسی رسوب کو دیکھ کر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کہیں یہ نیچے نہ گِر جائیں۔ ہمارا گائیڈ ہمیں بار بار تسلی دے رہا تھا کہ کارلسباڈ غاروں کی یہ آرائش کموبیش ہی گرتی ہے۔ ہمیں اُمید تھی کہ ہماری سیر کے دوران بھی ایسا ہی ہوگا!
غاروں کا ماحول
کھانے سے لطفاندوز ہونے کے بعد ہم قدرتی مدخل یعنی بڑے سے شگاف کے راستے غاروں کے اندر پھر داخل ہو گئے۔ ابتدائی مقامی امریکیوں نے مدخل کی دیوار کو مختلف تصاویر سے سجا رکھا ہے۔
جونہی ہم اندر داخل ہوئے تو ہمیں گوانو یعنی چمگادڑوں کی بیٹ کی باس آنے لگی۔ ہمیں یہ پتہ چلا کہ تقریباً سو سال قبل گوانو کو کھاد کے طور پر استعمال کِیا جاتا تھا۔ جس بالٹی اور رسے کو گوانو باہر نکالنے کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا وہی سیاحوں کو غاروں کے اندر اور باہر لانے لیجانے والی پہلی لفٹ بنے۔ گوانو ایک ساتھ والی گزرگاہ پر ملتا ہے جسے چمگادڑ غار کہتے ہیں جو کہ لاکھوں چمگادڑوں کیلئے موسمِگرما کا گھر ہے۔ غروبِآفتاب کے وقت وہ ہزاروں کی تعداد میں غار کے مدخل سے باہر نکلتی ہیں۔
پارک کے گشتی محافظوں نے ہمیں بتایا کہ یہ غار انتہائی نازک ہیں۔ غاروں میں داخل ہونے والے سیاح بڑی آسانی سے انہیں نقصان پہنچا سکتے اور آلودہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غار کی آرائشی چیزوں کو چُھونا اُن کی سطح کو چکنا بنا دیگا جو اُنہیں بڑھنے سے روک سکتا اور اُنکی رنگت خراب کر سکتا ہے۔ پس ہم مقررہ راستے پر ہی چلتے رہے اور غار کی چیزوں کو چُھونے سے گریز کِیا۔
جب ہم اس پوشیدہ خوبصورت عجوبے سے رُخصت ہو رہے تھے تو ہم واپس آکر دوسری غاروں کو بھی دیکھنے کی بابت سوچ رہے تھے۔ ہم چمگادڑوں کو اُڑتے ہوئے بھی دیکھنا چاہیں گے جو انسانی سیاحوں سے زیادہ اِن غاروں کا مزہ لیتی رہی ہیں۔ تاہم، انسانوں کی بدولت ہی ان غاروں کا رعبودبدبہ قائم ہے۔—اشاعت کیلئے عنایتکردہ مضمون۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
اُوپر: فانوسنما قلمیں
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
نیچے: بڑے حجرے کی سیر
[تصویر کا حوالہ]
Russ Finley/Finley-Holiday Films ©
[صفحہ ۲۵ پر تصویر کا حوالہ]
Russ Finley/Finley-Holiday Films ©
[صفحہ ۲۶ پر تصویر کا حوالہ]
Russ Finley/Finley-Holiday Films ©