مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کیسے مدد کر سکتے ہیں

آپ کیسے مدد کر سکتے ہیں

آپ کیسے مدد کر سکتے ہیں

‏”‏ڈپریشن کا شکار بچوں کو مدد کی ضرورت ہے۔‏ مگر بچے اپنے آپ ایسی مدد حاصل نہیں کر سکتے۔‏ پہلے کسی بالغ کو مسئلہ سمجھنے اور اسے سنجیدہ خیال کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہی کام سب سے مشکل ہے۔‏“‏—‏ڈاکٹر مارک ایس.‏ گولڈ۔‏

اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپکا جواں‌سال بچہ ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ پہلی بات تو یہ کہ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے میں جلدی نہ کریں۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام علامات کسی بالکل مختلف مسئلے کی نشاندہی کریں۔‏ * اس کے علاوہ،‏ تمام نوجوان کبھی‌کبھار آزردگی کے دَور سے گزرتے ہیں۔‏ لیکن اگر یہ حالت قائم رہتی ہے اور وقتی اُداسی سے زیادہ طول پکڑ جاتی ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا بہتر ہوگا۔‏ اس سلسلے میں یسوع کے الفاظ کو یاد رکھنا ضروری ہے:‏ ”‏تندرستوں کو طبیب درکار نہیں بلکہ بیماروں کو۔‏“‏—‏متی ۹:‏۱۲‏۔‏

جو کچھ آپکو معلوم ہے اپنے ڈاکٹر کو بتائیں جن میں نوجوان کی زندگی میں حال ہی میں واقع ہونے والی تبدیلیاں بھی شامل ہیں جو شاید اُسکی مایوسی کا سبب بن رہی ہیں۔‏ اس بات کا یقین کر لیں کہ ڈاکٹر تشخیص کرنے سے پہلے علامات سننے کیلئے کافی وقت صرف کرتا ہے۔‏ ڈاکٹر ڈیوڈ جی.‏ فاس‌لر آگاہ کرتا ہے:‏ ”‏ایک ہی ملاقات میں بیس منٹ کے اندر اندر ایک بچے کی تشخیص کیلئے درکار تمام معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔‏“‏

اسکی بابت اگر آپ ڈاکٹر سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو بِلاجھجک پوچھیں۔‏ مثلاً،‏ اگر ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپکا بچہ ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اُس نے باقی اقسام کی تشخیص کو کیوں خارج‌ازامکان قرار دے دیا ہے۔‏ اگر آپ کے ذہن میں ڈاکٹر کے معائنے کی بابت شکوک پیدا ہو گئے ہیں تو اُسے بتائیں کہ آپ کسی دوسرے ڈاکٹر سے بھی مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔‏ یقیناً کوئی بھی مخلص اور بااُصول ڈاکٹر آپ کو ایسا کرنے سے منع نہیں کریگا۔‏

صورتحال سے نپٹنا

اگر آپکا بچہ ڈپریشن کا شکار ہے تو اس سے پریشان نہ ہوں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی تندرست‌وتوانا نوجوان ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔‏ درحقیقت بائبل بیان کرتی ہے کہ تکلیف‌دہ جذبات نے اُن لوگوں کو بھی متاثر کِیا جو اپنی عمر سے قطع‌نظر خدا کی بہترین خدمت انجام دینے کیلئے کوشاں تھے۔‏ وفادار ایوب پر غور کریں جس نے اس احساس کیساتھ زندگی سے نفرت کا اظہار کِیا کہ خدا نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔‏ (‏ایوب ۱۰:‏۱؛‏ ۲۹:‏۲،‏ ۴،‏ ۵‏)‏ حنّہ بھی خدا کی خادمہ تھی جو اتنی زیادہ ”‏دلگیر“‏ تھی کہ اُسکا دل کھانےپینے سے بھی اُچاٹ ہو گیا تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱:‏۴-‏۱۰‏)‏ اس کے علاوہ خداپرست یعقوب اپنے بیٹے کی موت کے بعد،‏ کئی دن تک ماتم کرتا رہا ’‏اور اُسے تسلی نہیں ہوتی تھی۔‏‘‏ یعقوب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اب وہ قبر میں اپنے بیٹے کے پاس چلا جانا چاہتا ہے!‏ (‏پیدایش ۳۷:‏۳۳-‏۳۵‏)‏ لہٰذا،‏ یہ ضروری نہیں کہ جذباتی تکلیف کی اصل وجہ کوئی روحانی کمزوری ہی ہو۔‏

بہرحال جواں‌سال بچے میں ڈپریشن والدین کو مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے۔‏ ڈپریشن کے شکار ایک نوجوان کی ماں کہتی ہے:‏ ”‏مجھے پھونک‌پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے مَیں فکرمند،‏ خوفزدہ،‏ برہم اور ماندہ ہوں۔‏“‏ ایک دوسری ماں تسلیم کرتی ہے:‏ ”‏مَیں کسی ماں کو اپنی جوان بیٹی کیساتھ خریداری کرتے دیکھ کر بہت دلبرداشتہ ہو جاتی ہوں کیونکہ میرا خیال ہے کہ مَیں اور میری بیٹی کبھی ایسا نہیں کر سکیں گے۔‏“‏

ایسے احساسات فطری ہیں۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات یہ شدت اختیار کر سکتے ہیں۔‏ اگر ایسا ہے تو آپ کسی قابلِ‌بھروسا دوست کو اپنا ہمراز بنا سکتے ہیں۔‏ امثال ۱۷:‏۱۷ بیان کرتی ہے:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کے لئے پیدا ہؤا ہے۔‏“‏ علاوہ‌ازیں،‏ دُعا کرنا نہ بھولیں۔‏ بائبل ہمیں یقین‌دہانی کراتی ہے کہ اگر ہم اپنا سارا بوجھ خدا پر ڈال دیں تو وہ خود ہی ہمیں سنبھالیگا۔‏—‏زبور ۵۵:‏۲۲‏۔‏

الزام‌تراشی کا میلان

ڈپریشن کا شکار بچوں کے والدین اکثر بےحوصلہ ہو جاتے اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی حد تک وہ اس حالت کے ذمہ‌دار ہیں۔‏ ایک ماں تسلیم کرتی ہے:‏ ”‏جب آپکا بچہ ڈپریشن میں مبتلا ہو تو خود کو اس حالت کا ذمہ‌دار سمجھنا ایک عام بات ہے اور کوئی بھی آپکو یہ نہیں سمجھا پاتا کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔‏ آپ ہر وقت سوچتے رہتے ہیں کہ ’‏مجھ سے کہاں غلطی ہوئی ہے؟‏ یہ سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟‏ اس میں مَیں کیسے شریک ہوں؟‏‘‏“‏ اس سلسلے میں والدین کیسے اپنی سوچ متوازن رکھ سکتے ہیں؟‏

اس میں کوئی شک نہیں کہ گھر کا سخت‌گیر ماحول بچے پر ناموافق اثرات مرتب کر سکتا ہے۔‏ اسی لئے بائبل موزوں طور پر والدوں کو نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏اپنے فرزندوں کو دق نہ کرو تاکہ وہ بیدل نہ ہو جائیں۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۱‏)‏ لہٰذا والدین کیلئے یہ اچھا ہوگا کہ بچوں کیساتھ اپنے برتاؤ کا جائزہ لیں اور ضرورت کے تحت مناسب ردوبدل کرتے رہیں۔‏ تاہم،‏ ڈپریشن ہمیشہ والدین کی ناقص پرورش کا نتیجہ نہیں ہوتا۔‏ سچ تو یہ ہے کہ یہ مرض خوشحال خاندانوں میں بھی پایا جا سکتا ہے۔‏ پس جو والدین اپنے بچوں کی بھرپور مدد کر رہے ہیں اُنہیں خود کو مجرم خیال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏

ڈپریشن کا شکار بچے کو موردِالزام نہ ٹھہرانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔‏ کیونکہ بچے کو اس مرض پر کوئی اختیار نہیں ہے۔‏ ایک ماں کہتی ہے:‏ ”‏مَیں چیچک یا نمونیا کیلئے تو کبھی بھی اُسے موردِالزام نہیں ٹھہراتی۔‏ مگر ڈپریشن کی صورت میں مَیں نے ایسا کِیا۔‏ مَیں نے اپنے بچے پر الزام لگایا کہ وہ اس بیماری کا ذمہ‌دار ہے اور اس وجہ سے مَیں بہت پریشان ہوں۔‏“‏ ڈپریشن کو ایک کمزوری کی بجائے ایک بیماری خیال کرنا والدین اور دوسرے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیگا کہ متاثرہ شخص کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے۔‏

ڈپریشن کا شکار نوجوان کی پرورش کرنا والدین کے مابین رشتے پر شدید دباؤ ڈال سکتا ہے۔‏ ایک بیوی کہتی ہے:‏ ”‏بالخصوص جب ہم یہ سوچتے کہ ہم نے کیسی زندگی کی توقع کی تھی مگر ہمارے بیٹے کی وجہ سے ہماری زندگی کیسی بن گئی ہے تو ہم اکثر ایک دوسرے کو الزام دیتے تھے۔‏“‏ ٹم جسکی بیٹی ڈپریشن کا شکار ہے وہ تسلیم کرتا ہے:‏ ”‏اپنے ساتھی کو الزام دینا بڑا آسان ہے۔‏ اگر بچے کے ڈپریشن کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی والدین کے مابین ازدواجی مسائل ہیں تو بچے کا پریشان‌کُن رویہ جلتی پر تیل ڈالیگا۔‏“‏ بچے کے ڈپریشن کو اپنی بیاہتا زندگی میں انتشار پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں!‏ واقعی،‏ خود پر،‏ اپنے بچے پر یا اپنے ساتھی پر اُنگلی اُٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‏ اہم بات متاثرہ شخص کی حوصلہ‌افزائی اور مدد کرنا ہے۔‏

مدد فراہم کرنا

بائبل مسیحیوں کو نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏کم‌ہمتوں کو دلاسا دو۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏)‏ اگر ڈپریشن کا شکار نوجوان خود کو ناکارہ سمجھنے لگا ہے تو آپ مدد دے سکتے ہیں۔‏ کیسے؟‏ یقینی طور پر فیصلہ‌کُن جملے ادا کرنے سے نہیں جیسے کہ،‏ ”‏آپکو ایسا محسوس نہیں کرنا چاہئے“‏ یا ”‏ایسا رویہ رکھنا سراسر غلط ہے۔‏“‏ اس کی بجائے،‏ ’‏ہمدردی‘‏ ظاہر کرنے کی کوشش کریں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ پولس نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ ”‏رونے والوں کے ساتھ روؤ۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۵‏)‏ یاد رکھیں کہ حقیقت میں ڈپریشن کا شکار شخص واقعی بہت جلد مجروح ہو جاتا ہے۔‏ اُس کا دُکھ محض خیالی نہیں اور نہ ہی توجہ حاصل کرنے کیلئے تکلیف کا بہانہ کِیا گیا ہے۔‏ بڑے تحمل کیساتھ،‏ متاثرہ شخص کی بات سننے کے بعد اس کے دل کی بات اُگلوانے کی کوشش کریں۔‏ پوچھیں کہ وہ کیوں ایسا محسوس کرتا ہے۔‏ اسکے بعد،‏ بڑی نرمی اور تحمل کیساتھ نوجوان شخص کو یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ اپنے بارے میں ایسے غلط اندازے لگانا کیوں مناسب نہیں ہے۔‏ خدا کی محبت اور رحم کی یقین‌دہانی کرانا بھی مریض کی پریشانیوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏۔‏

شاید ایسے اَور اقدام بھی ہوں جو آپ اُٹھا سکتے ہیں۔‏ مثلاً،‏ آپکو اس بات کا یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ڈپریشن میں مبتلا آپکے بچے کو مناسب آرام،‏ ورزش نیز اچھی خوراک مل رہی ہے۔‏ (‏واعظ ۴:‏۶‏)‏ اگر ادویات تجویز کی گئی ہیں تو بچے کو یہ سمجھنے میں مدد دیں کہ اِنہیں باقاعدہ کھانا کیوں ضروری ہے۔‏ حمایت فراہم کرنے میں کوتاہی اور محبت ظاہر کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔‏

مانا کہ ایک نوجوان میں ڈپریشن کی موجودگی اُس کے اور باقی خاندان کیلئے ایک اذیتناک تجربہ ہے۔‏ مگر انجام‌کار،‏ برداشت،‏ مستقل‌مزاجی اور محبت ڈپریشن کا شکار نوجوان کی مدد کی بنیاد فراہم کرینگی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 رپورٹ کے مطابق،‏ تپِ‌غدی،‏ ذیابیطس،‏ خون کی کمی،‏ ناقص ورقیت اور کم‌شکردمویت جیسی بعض طبّی حالتیں ڈپریشن کی طرح کی علامات ظاہر کر سکتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر عبارت]‏

واقعی ڈپریشن میں مبتلا شخص بڑا دُکھی ہوتا ہے۔‏ اسکی تکلیف محض دکھاوا نہیں ہوتی

‏[‏صفحہ ۱۳ پر بکس]‏

اگر آپ ڈپریشن کا شکار نوجوان ہیں

ایسا صرف آپکے ساتھ ہی نہیں ہے اور نہ ہی آپکا مسئلہ ایسا ہے جسکا کوئی حل نہیں ہے۔‏ آپکے ڈپریشن کا تعلق یا تو (‏۱)‏ حیاتی کیمیائی عدمِ‌توازن یا پھر (‏۲)‏ ایسے حالاتِ‌زندگی سے ہے جن پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔‏ کسی بھی صورت میں آپ اپنی اس حالت کے ذمہ‌دار نہیں ہیں۔‏ تاہم،‏ آپ اسکی بابت کیا کر سکتے ہیں؟‏

بائبل بیان کرتی ہے،‏ ”‏ایسا دوست بھی ہے جو بھائی سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۲۴‏)‏ کیوں نہ کوئی ایسا دوست تلاش کر کے اُسے اپنے احساسات میں شریک کریں؟‏ آپکے والدین یا کوئی دوسرا پُختہ شخص ڈپریشن کے خلاف جدوجہد میں آپ کیلئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔‏

اگر آپ کے والدین کو یہ اندیشہ ہے کہ آپ ڈپریشن میں مبتلا ہیں تو وہ آپ کو ایسے ڈاکٹر کے پاس لیجا سکتے ہیں جو اس بیماری کے علاج کا ماہر ہے۔‏ یہ ایک دانشمندانہ قدم ہے کیونکہ علاج سے ڈپریشن میں خاطرخواہ افاقہ ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب کیمیائی عدمِ‌توازن پایا جاتا ہے تو کوئی نہ کوئی اینٹی‌ڈپریشن ادویہ تجویز کی جاتی ہے۔‏ اگر آپ کے سلسلے میں ایسا ہے تو دوائی کھانے میں شرم محسوس نہ کریں۔‏ یہ آپ کے جسم کے کیمیائی توازن کو بحال کرتی اور آپ کو زندگی میں کسی حد تک خوشی اور استحکام حاصل کرنے میں مدد دینے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‏

ڈپریشن میں مبتلا بیشتر لوگوں نے بائبل پڑھنے اور دُعا کے ذریعے خدا کے قریب جانے سے تسلی حاصل کی ہے۔‏ بائبل یقین‌دہانی کراتی ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏ *‏—‏زبور ۳۴:‏۱۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 28 مزید معلومات کیلئے اکتوبر ۲۲،‏ ۲۰۰۰ کے اویک!‏ کے شمارے میں شائع‌کردہ مضمون ”‏نوجوان لوگ پوچھتے ہیں .‏ .‏ .‏ کیا مجھے کسی کو بتانا چاہئے کہ مَیں ڈپریشن کا شکار ہوں؟‏“‏ کا مطالعہ کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر بکس/‏تصویر]‏

ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کے لئے مدد اور اُمید

چونکہ ڈپریشن ایک پیچیدہ موضوع ہے اس لئے مضامین کے اس مختصر سے سلسلے میں تمام پہلوؤں پر غور نہیں کِیا جا سکتا۔‏ بہرکیف،‏ جاگو!‏  کے ناشرین پُراعتماد ہیں کہ پیش‌کردہ نکات اس کمزور کر دینے والی بیماری کو برداشت کرنے میں نوجوانوں اور اُن کے والدین کی مدد کر سکتے ہیں۔‏

شاید آپ نے غور کِیا ہو کہ پچھلے مضمون میں بیشتر راہنمائی بائبل پر مبنی تھی۔‏ سچ ہے کہ یہ ایک قدیم کتاب ہے تاہم،‏ اس کی مشورت آج بھی اُتنی ہی عملی ہے جتنی کہ یہ اس کی تحریر کے وقت تھی۔‏ کیوں؟‏ اس لئے کہ وقت تو بیشک بدل چکا ہے مگر انسانی فطرت نہیں بدلی۔‏ ہمیں بھی اُنہی بنیادی مسائل کا سامنا ہے جو ماضی کی نسلوں کو درپیش تھے۔‏ فرق صرف اتنا ہے کہ آج یہ مسائل زیادہ بڑھ چکے ہیں اور انسانی دسترس سے باہر ہیں۔‏

تاہم بائبل کے اس قدر عملی ہونے کی ایک اَور وجہ بھی ہے:‏ یہ خدا کے الہام سے لکھی گئی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ خالق کے طور پر وہ جانتا ہے کہ زندگی سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے۔‏

بِلاشُبہ،‏ بائبل ایک طبّی درسی کتاب نہیں ہے۔‏ لہٰذا،‏ یہ ہمارے لئے ڈپریشن جیسی بیماری کا مناسب علاج کرانے کی ضرورت کو غیراہم قرار نہیں دیتی۔‏ تاہم،‏ بائبل میں ایسے اُصول پائے جاتے ہیں جو بیماروں کو تسلی دینے کے سلسلے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ اس میں خدا کا یہ وعدہ بھی موجود ہے کہ وہ بہت جلد تمام بیماریوں کو ختم کر دیگا۔‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کا مقصد ”‏شکستہ دلوں کو حیات“‏ بخشنا ہے۔‏—‏یسعیاہ ۵۷:‏۱۵‏۔‏

کیا آپ اس شاندار اُمید کی بابت مزید سیکھنا پسند کرینگے؟‏ براہِ‌مہربانی مقامی یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کریں یا پھر اس رسالے کے صفحہ ۵ پر درج کسی موزوں پتے پر لکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

ہمدردی ظاہر کرنے کی کوشش کریں

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

اگر نوجوان مسلسل افسردہ اور مایوس رہنے لگے تو کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا اچھا ہوگا

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویریں]‏

والدین کے طور پر خود کو،‏ اپنے ساتھی کو یا نوجوان شخص کو الزام دینے میں جلدبازی نہ کریں