خطرے سے دوچار نسل
خطرے سے دوچار نسل
”دو مہینے پہلے تک مَیں بالکل ہشاشبشاش تھا۔ لیکن اب مجھے اکثر ہی بہت تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے جسکی وجہ سے مَیں کوئی بھی کام نہیں کر پاتا۔ مَیں بہت اُداس رہتا ہوں اور نہایت چڑچڑا ہو گیا ہوں، پتہ نہیں لوگ مجھے کیسے برداشت کر لیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ اچانک مجھے کیا ہو گیا ہے۔“—پال۔
”مَیں بہت دُکھی ہوں اور روتی رہتی ہوں۔ جب مَیں غمزدہ ہوتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرے جسم میں جان ہی نہیں ہے۔ مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ اب مجھے دوستوں سے ملنے کا بھی کوئی اشتیاق نہیں رہا۔ مجھے نیند بہت آتی ہے۔ بیشتراوقات مَیں وقت پر نہ جاگنے کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتی جس سے میرے نمبر بھی اچھے نہیں آتے۔“—میلانی۔
یہ صرف پال اور میلانی کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستہائےمتحدہ میں تقریباً ۸ فیصد نوجوان کسی نہ کسی قسم کے ڈپریشن کا شکار ہیں اور ہر سال تقریباً ۴ فیصد سنگین ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ اعدادوشمار تمامتر تفصیل بیان نہیں کرتے کیونکہ اکثر ڈپریشن کی غلط تشخیص کی جاتی ہے یا پھر اسے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کا ماہرِنفسیات ڈیوڈ جی. فاسلر لکھتا ہے: ”حقیقت تو یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں پر کی جانے والی تحقیق پر غور کرنے کے بعد میرا خیال ہے کہ تقریباً چار نوجوانوں میں سے ایک اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ڈپریشن کے سنگین حملے کا نشانہ بنیں گے۔“
تباہکُن اثرات
ڈپریشن نوجوانوں پر تباہکُن اثرات مرتب کرتا ہے۔ دراصل، ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نوجوانوں کے اندر کھانےپینے کی ناقص عادات، ذہنیوجسمانی امراض، سکول میں مشکلات اور نشے کے عادی بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نوجوانوں میں خودکُشی کے بڑھتے ہوئے رُجحان کی ایک وجہ ڈپریشن ہے۔ یو. ایس. نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق، شدید مایوسی کا شکار نوجوانوں میں سے تقریباً ۷ فیصد خودکُشی کر لیتے ہیں۔ * اس سے مسئلہ پوری طرح واضح نہیں ہوتا کیونکہ یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ خودکُشی کرنے والے ایک نوجوان کی وجہ سے کئی دوسرے بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا، نوجوانوں کی نشوونما سے متعلق کارنج کونسل کی رپورٹ کیا خوب بیان کرتی ہے: ”نوجوانوں کے مسائل کو کماہم خیال کرنا آجکل تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایسی لاپروائی واقعی نوجوان نسل کو خطرے سے دوچار کر دیتی ہے۔“
تفکرات سے آزاد زندگی؟
بعض لوگوں کے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ جواںسال لوگ بھی ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بالغ اشخاص کہہ سکتے ہیں، ’وہ تو ابھی بچے ہیں۔ اُنکی زندگی تفکرات سے آزاد ہے اور اُنہیں بالغوں کی طرح پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘ تاہم، کیا وہ واقعی پریشانیوں سے نبردآزما ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایسے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسکی بابت بیشتر بالغ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ڈاکٹر ڈینئل گولمین بیان کرتا ہے: ”بیسویں صدی کے شروع سے لیکر عالمی پیمانے پر ہر آنے والی نسل زندگی میں اپنے والدین کی نسبت—نہ صرف غمگینی بلکہ مفلوج کرنے والی مُردہدلی، قنوطیت، خودرحمی اور سخت مایوسی—شدید ڈپریشن کا شکار رہی ہے۔ ڈپریشن کے یہ دَور اوائل عمری ہی میں شروع ہو جاتے ہیں۔“
تاہم، بہتیرے والدین یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ’ہم تو اپنی جوانی میں ڈپریشن کا شکار نہیں ہوئے تھے پھر ہمارا بچہ کیوں منفی احساسات کا شکار ہے؟‘ تاہم بالغوں کو اپنی جوانی کے ایّام کا موازنہ آجکل کے نوجوانوں کیساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ بہرکیف، لوگ اپنے اردگرد کی دُنیا کی بابت مختلف سوچ اور ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
علاوہازیں، آج کے نوجوانوں کو اضافی چیلنج کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر کیتھلین میککوئے اپنی کتاب انڈرسٹینڈنگ یوئر ٹینایجرز ڈپریشن میں لکھتی ہے: ”وہ ایک ایسے زمانے میں پرورش پا رہے ہیں جو اُنکے والدین کی جوانی کے زمانے سے بالکل مختلف ہے۔“ حالیہ عشروں میں رونما ہونے والی کئی ایک اہم تبدیلیوں کا ذکر کرنے کے بعد، ڈاکٹر میککوئے کہتی ہے: ”ہماری نسل کی نسبت آج کا نوجوان خود کو انتہائی غیرمحفوظ، کمزور اور نااُمید محسوس کرتا ہے۔“
نوجوانوں کے اندر ڈپریشن کے عام ہونے کے پیشِنظر اگلے مضامین میں مندرجہذیل تین سوالات زیرِبحث آئینگے:
• نوجوانوں میں ڈپریشن کی چند علامات کیا ہیں؟
• اس حالت کے اسباب کیا ہیں؟
• ڈپریشن کا شکار نوجوانوں کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 7 بعض ماہرین کا خیال ہے کہ درست اعدادوشمار کی شرح بہت زیادہ ہیں کیونکہ جن اموات کو حادثے کا نام دیا جاتا ہے وہ دراصل خودکُشی بھی ہو سکتی ہیں۔