جوڑوں کا درد—معذور کر دینے والا مرض
جوڑوں کا درد—معذور کر دینے والا مرض
”آپ تو اس درد کا تصور بھی نہیں کر سکتے جبتک کہ آپکو خود اِسکا تجربہ نہ ہو۔ میرے خیال میں صرف موت ہی اسکا واحد علاج ہے۔“—سیتسوکو، جاپان۔
”اس بیماری نے ۱۶ سال کی عمر میں ہی مجھ سے میری جوانی چھین لی تھی۔“—ڈیرن، برطانیہعظمیٰ۔
”اس بیماری نے مجھے بستر سے لگا کر مجھے زندگی کے دو حسین سالوں سے محروم کر دیا۔“—کاتیا، اٹلی۔
”جب میرے تمام جوڑوں میں درد شروع ہوا تو میری زندگی ہی درد بن گئی۔“—جوئس، جنوبی افریقہ۔
یہ جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کے دردناک اظہارات ہیں۔ ہر سال جوڑوں کے درد میں مبتلا لاکھوں مریض اپنے ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں تاکہ کسی طرح اُنہیں درد، اعضا کی سختی اور بگاڑ سے نجات مل جائے۔
صرف ریاستہائےمتحدہ میں ۴۲ ملین سے زائد لوگ جوڑوں کے درد کا شکار ہوتے ہیں اور ہر ۶ میں سے ۱ اپاہج ہو جاتا ہے۔ دراصل، اس مُلک میں جوڑوں کا درد معذوری کا سب سے بڑا سبب ہے۔ نیشنل سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق یہ بیماری معیشت پر ”تقریباً درمیانے درجے کی کسادبازاری کے برابر“ اثر ڈالتی ہے کیونکہ اسکے باعث امریکیوں کو ہر سال طبّی اخراجات اور اُنکی متاثرہ کارکردگی کیلئے ۶۴ بلین ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، انڈونیشیا، انڈیا، برازیل، پاکستان، تھائیلینڈ، چلی، چین، فلپائن، ملائشیا اور میکسیکو میں کی جانے والی تحقیقات نے ظاہر کِیا ہے کہ ایسے ممالک میں بھی جوڑوں کے درد اور سوزش کی دیگر بیماریوں سے ہونے والا نقصان ”صنعتی دُنیا میں ہونے والے نقصان کے برابر“ ہے۔
یہ خامخیالی ہے کہ جوڑوں کا درد صرف عمررسیدہ اشخاص کی بیماری ہے۔ یہ سچ ہے کہ بوڑھے لوگ اس کا زیادہ
شکار ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی سب سے عام قسم، ریموٹک آرتھرائٹس (جوڑوں کا پتھرانا) عموماً ۲۵ تا ۵۰ سال کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ریاستہائےمتحدہ کے اندر جوڑوں کے درد میں مبتلا تقریباً ہر ۵ میں سے ۳ مریضوں کی عمر ۶۵ سال سے کم ہے۔ اسی طرح برطانیہ کلاں میں ۸ ملین مریضوں میں سے ۲.۱ ملین کی عمر ۴۵ سال سے کم ہے اور ۵۰۰،۱۴ سے زائد بچے ہیں۔ہر سال، جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کینیڈا میں اگلی دہائی تک جوڑوں کے درد میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں ایک ملین کا اضافہ ہو جائے گا۔ اگرچہ افریقہ اور ایشیا کی نسبت یورپ میں جوڑوں کے درد کا مرض زیادہ ہے توبھی اِن برّاعظموں میں یہ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔ لہٰذا، جوڑوں کے درد میں اضافے کے باعث ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ۲۰۰۰-۲۰۱۰ کو ہڈیوجوڑ کا عشرہ قرار دیا ہے۔ اس عرصے کے دوران پوری دُنیا کے ڈاکٹر اور طبّی ماہرین اُن لوگوں کے معیارِزندگی کو بہتر بنانے کے لئے متحدہ کوششیں کریں گے جو آرتھرائٹس جیسی عضلات اور ہڈیوں کو متاثر کرنے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
اس تکلیفدہ مرض کی بابت کیا کچھ دریافت ہو چکا ہے؟ کون اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں؟ جوڑوں کے درد میں مبتلا مریض اس کے معذور کر دینے والے اثرات کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا مستقبل میں اس سے شفا ممکن ہوگی؟ اگلے مضامین میں اِن نکات پر بحث کریں گے۔
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
X ray: Used by kind permission of the Arthritis Research
(Campaign, United Kingdom )www.arc.org.uk