ایسی جگہ کی تلاش جسے وہ اپنا گھر کہہ سکیں
ایسی جگہ کی تلاش جسے وہ اپنا گھر کہہ سکیں
”گھر، گھر ہی ہوتا ہے خواہ نہایت ادنیٰ ہی کیوں نہ ہو۔“—جان ہارورڈ پین۔
پہلے جنگ شروع ہوئی جو کبھی ختم نہ ہوئی۔ اسکے بعد ایسی خشکسالی آئی جو کبھی کم نہ ہوئی۔ اسکے پیچھے پیچھے فاقہزدگی چلی آئی۔ چنانچہ لوگوں کے پاس اسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے گھربار چھوڑ کر پانی، خوراک اور روزگار کی تلاش میں نکل پڑیں۔
وہ ہزاروں کی تعداد میں سرحدی چوکی پر پہنچ گئے۔ لیکن حالیہ برسوں میں لاکھوں پناہگزینوں کو پہلے ہی داخل ہونے کی اجازت مل چکی ہے اسلئے اب پڑوسی ممالک مزید لوگوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ سرحد پر تعینات مسلح پولیس اس بات کا خاص خیال رکھتی ہے کہ کوئی سرحد پار کرنے نہ پائے۔
امیگریشن کے ایک مقامی اہلکار نے مختلف وجوہات بیان کیں کہ وہ کیوں پناہگزینوں کی بڑی تعداد کو روک رہے ہیں۔ ”وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ وہ سڑکیں خراب کرتے ہیں۔ وہ درخت کاٹتے ہیں۔ وہ سارا پانی استعمال کر لیتے ہیں۔ اب ہمیں مزید لوگ نہیں چاہئیں۔“ *
ایسے المیے روزمرّہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ دنبدن بےگھر لوگوں کیلئے ایسی جگہ تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جسے وہ اپنا گھر کہہ سکیں۔ ”تحفظ کے خواہاں لوگوں کی تعداد میں اضافے کیساتھ ساتھ ایسا تحفظ فراہم کرنے والے ممالک کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے،“ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ نے بیان کِیا۔
جو لوگ کسی نہ کسی طرح پناہگزین کیمپ تک پہنچ جاتے ہیں ممکن ہے کہ اُنہیں کسی قسم کا تحفظ تو مِل جائے مگر اُنہیں گھر جیسا ماحول نہیں ملتا۔ علاوہازیں کیمپ کی حالتیں بھی اچھی نہیں ہوتیں۔
پناہگزین کیمپوں میں زندگی
ایک افریقی پناہگزین نے شکایت کی کہ ”گھر میں تو شاید آپ گولی کا نشانہ بنیں لیکن یہاں [پناہگزین کیمپ میں] آپکے بچے بھوک سے مر جائینگے۔“ جیسے اس پریشانحال باپ نے تجربے سے سیکھ لیا تھا ویسے ہی بیشتر کیمپوں میں خوراک اور پانی کیساتھ ساتھ مناسب پناہگاہ اور حفظانِصحت کی ہمیشہ کمی رہتی ہے۔ وجوہات بالکل سادہ ہیں۔ ترقیپذیر ممالک جو اچانک ہی ہزاروں پناہگزینوں کے شکنجے میں آ جاتے ہیں ممکن ہے کہ وہ پہلے ہی سے اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے سخت جدوجہد کر رہے ہوں۔ وہ اچانک وارد ہونے والے بیشمار لوگوں کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔ جہاں تک متموّل قوموں کا تعلق ہے تو وہ اپنے مسائل کے ہوتے ہوئے دوسرے ممالک سے آنے والے پناہگزینوں کی مدد کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔
سن ۱۹۹۴ میں جب دو ملین سے زیادہ لوگ ایک افریقی مُلک کو بھاگ گئے تو جلدی میں تعمیر کئے جانے والے پناہگزین کیمپوں میں پانی اور مناسب صفائیستھرائی کا انتظام بہت ناقص تھا۔ نتیجتاً، ہیضے کی وبا سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے لیکن بعدازاں اس پر قابو پایا گیا۔ معاملات اَور زیادہ خراب اُس وقت ہو گئے جب سپاہیوں نے مقامی پناہگزینوں کیساتھ مِل کر تمام امداد کی تقسیم کو اپنے قابو میں کر لیا۔ یہ صرف اسی مُلک کا مسئلہ نہیں تھا۔ ”پناہگزینوں کے درمیان مسلح افراد کی موجودگی نے شہریوں کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔“ یونائیٹڈ نیشنز کی ایک رپورٹ کے مطابق ”وہ دھمکیوں، اذیت اور جبری بھرتی کی زد میں ہیں۔“
مقامی لوگ بھی مفلس پناہگزینوں کی بڑی تعداد سے پریشانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ افریقہ کے خطے گریٹ لیکس میں بعض افسران شکایت کرتے ہیں:
”[پناہگزین] ہمارے خوراک کے ذخائر، ہمارے کھیت، ہمارے مویشی ہمارے قدرتی پارک تباہ کرنے کے علاوہ قحطسالی اور وبائیں پھیلانے کا باعث بنے ہیں . . . وہ خود تو خوراک کی امداد سے استفادہ کرتے ہیں مگر ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا۔“تاہم، مشکلترین مسئلہ یہ ہے کہ بہتیرے عارضی پناہگزین کیمپ مستقل پناہگزین کیمپ بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مشرقِوسطیٰ کے ایک ملک میں کوئی ۰۰۰،۰۰،۲ پناہگزین ایک ایسے کیمپ میں جمع ہیں جو بنیادی طور پر ایک چوتھائی تعداد کیلئے تعمیر کِیا گیا تھا۔ اِن پناہگزینوں میں سے ایک نے بڑی تلخی سے جواب دیا، ”ہمارے پاس اسکے علاوہ کوئی جگہ بھی تو نہیں ہے۔“ مشکلات کا شکار اِن پناہگزینوں کو میزبان ملک میں ملازمت کے سلسلے میں سخت پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے اور اِن میں سے ۹۵ فیصد بیروزگاری یا کم تنخواہ پر کام کرنے کیلئے مجبور ہوتے ہیں۔ پناہگزینوں کے ایک نگران نے تسلیم کِیا کہ ”دیانتداری کی بات تو یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔“
اگر پناہگزین کیمپوں میں حالت اتنی خراب ہے تو پھر اُن بےگھر لوگوں کی حالت تو اَور بھی زیادہ بدتر ہوگی جو اپنا ملک نہیں چھوڑ سکتے۔
بےگھر لوگوں کی مشکلات
پناہگزینوں کے لئے اقوامِمتحدہ کے ہائی کمشنر کے مطابق، ”اس مسئلے کا تسلسل اور وسعت اور اس کی پُشت پر موجود انسانی تکالیفاور بینالاقوامی امنوسلامتی پر اسکے اثر نے بجا طور پر داخلی طور پر بےگھر ہونے کو بینالاقوامی فکر کا مسئلہ بنا دیا ہے۔“ مختلف وجوہات کی بِنا پر، یہ بےگھر لوگ پناہگزینوں کی نسبت عموماً زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔
کوئی بھی بینالاقوامی تنظیم بےگھر لوگوں کی بہبود میں دلچسپی نہیں لیتی اور اُنکی خستہحالی پر اکثر ذرائعابلاغ بھی کوئی توجہ نہیں دیتا۔ کسی نہ کسی طرح کے عسکری اختلافات کا شکار اُنکی اپنی حکومتیں، شاید نہ تو اُنکا تحفظ کرنے کیلئے تیار ہوتی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ خطرناک علاقوں سے فرار کے دوران اکثر اپنے خاندانوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ جب اُنہیں پیدل چلنے پر مجبور کِیا جاتا ہے تو بعض بےگھر لوگ تحفظ کی جگہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
گھر سے بےگھر ہونے والے یہ لوگ اکثر شہروں میں پناہ حاصل کرنے کے لئے چھوٹی چھوٹی آبادیوں یا ٹوٹیپھوٹی عمارتوں میں تنگی سے گزارا کرتے ہیں۔ بعض عارضی کیمپوں میں جمع ہو جاتے ہیں جہاں وہ بعضاوقات مسلح حملے کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ عام طور پر، ملک کے دوسرے لوگوں کی نسبت اُن میں شرحِاموات زیادہ ہوتی ہے۔
اِن بےگھر لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے نیکنیتی پر مبنی امدادی کاوشیں بھی اُلٹی ہو سکتی ہیں۔ دی سٹیٹ آف دی ورلڈز رفیوجیز ۲۰۰۰ بیان کرتی ہے: ”۲۰ ویں صدی کے آخری عشرے میں، جنگ سے متاثرہ ممالک میں فلاحی تنظیموں نے ہزاروں جانیں بچائیں اور انسانی تکلیف کو کم کرنے کیلئے بہت کام کِیا تھا۔ تاہم، اس دہے کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ ناموافق حالات میں حریف گروہوں کو باآسانی فلاحی کاموں کی طرف مائل کِیا جا سکتا ہے اور اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی انسانی حقوق کی نافرمانی کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کو مضبوط کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ علاوہازیں، فلاحی تنظیموں کی طرف سے فراہمکردہ امداد جنگ کی وجہ سے کمزور پڑنے والی معیشت کو بہتر بنا سکتی ہے جو زیادہ عرصہ تک جنگ لڑنے میں معاون ہو سکتی ہے۔“
بہتر طرزِزندگی کی تلاش
پناہگزینوں اور داخلی طور پر بےگھر لوگوں کے علاوہ، معاشی پناہگزینوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ دُنیا کے اندر امیر اور غریب ممالک کے مابین فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے اور ٹیلیویژن پروگرام روزانہ بعض متموّل ممالک کے لوگوں کی طرزِزندگی کی تشہیر دُنیا کے بعض غریبترین شہریوں کے سامنے کرتے ہیں۔ دُنیا کا سفر آسان ہو گیا ہے اور سرحدیں پار کرنا مشکل نہیں رہا۔ نسلیاتی اور مذہبی تفریق کیساتھ ساتھ خانہجنگیاں بھی لوگوں کو زیادہ خوشحال ممالک میں نقلمکانی کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔
بالخصوص جن لوگوں کے رشتہدار پہلے ہی سے صنعتی ممالک میں ہیں وہ تو بڑی آسانی سے وہاں منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ دیگر باہر جانے کے چکر میں اپنی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔ غیرقانونی کام کرنے والوں کے ہاتھ لگ جانے والے لوگ بالخصوص خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔ (ساتھ دئے گئے بکس دیکھیں۔) اچھا ہوگا کہ معاشی وجوہات کی بِنا پر نقلمکانی کرنے والے خاندان اِن خطرات کا بغور جائزہ لیں۔
سن ۱۹۹۶ میں ایک پُرانی کشتی کے بحیرۂروم میں اُلٹ جانے سے ۲۸۰ لوگ ڈوب گئے۔ متاثرین میں انڈیا، پاکستان اور سریلنکا سے نقلمکانی کرنے والے لوگ شامل تھے جنہوں نے یورپ میں داخل ہونے کیلئے ۰۰۰،۶ سے ۰۰۰،۸ ڈالر ادا کئے تھے۔ جہاز کے ڈوبنے سے پہلے وہ کئی ہفتوں تک بھوکےپیاسے اور جسمانی اذیت کا شکار رہ چکے تھے۔ ”خوشحالی کی طرف اُنکا سفر“ ایک بھیانک خواب بن گیا جسکا انجام ایک حادثہ تھا۔
عملاً ہر پناہگزین، بےگھر یا غیرقانونی تارکینوطن کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے۔ اِن لوگوں کے اپنے گھروں کو خیرباد کہنے کی وجہ خواہ جنگ، اذیت یا غربت ہی کیوں نہ ہو، اُنکی تکلیف سے ایک سوال اُٹھتا ہے: کیا یہ مسئلہ کبھی ختم ہوگا؟ یا کیا پناہگزینوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہوتا رہیگا؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 مذکورہبالا صورتحال مارچ ۲۰۰۱ میں، ایک ایشیائی ملک میں رونما ہوئی تھی۔ لیکن بعض افریقی ممالک کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔
[صفحہ ۸ پر بکس/تصویر]
غیرقانونی تارکینِوطن کی خستہحالی
پناہگزینوں اور بےگھر لوگوں کے علاوہ دُنیابھر میں کوئی ۱۵ سے ۳۰ ملین کے قریب ”غیرقانونی تارکینوطن“ بھی موجود ہیں۔ ان میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو شاید غربت، تعصّب اور اذیت سے بچنے کے لئے متموّل ممالک میں بھاگ جاتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں قانونی طور پر ایک سے دوسرے مُلک میں جانے کے امکانات کم ہو جانے کی وجہ سے تارکینوطن کے سلسلے میں ایک نئی غیرقانونی تجارت وجود میں آ گئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آجکل جرم کی بینالاقوامی کمپنیوں کیلئے غیرقانونی تارکینوطن کو بھیجنا ایک نفعبخش کاروبار بن گیا ہے۔ تحقیقوتفتیش کرنے والے بعض اداروں کا خیال ہے کہ اس سے تقریباً ۱۲ بلین ڈالر سالانہ نفع ہوتا ہے جبکہ ایسا ناجائز کاروبار کرنے والوں کو اس میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اقوامِمتحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل، پینو آرلاکی نے اسے ”دُنیا میں مجرموں کی بڑی تیزی سے فروغ پانے والی تجارت“ کا نام دیا۔
غیرقانونی طور پر نقلمکانی کرنے والوں کے پاس عملاً کوئی قانونی تحفظ نہیں ہوتا اور اُنکے پاسپورٹ بھی غیرقانونی کام کرنے والے مستقل طور پر اپنی تحویل میں رکھتے ہیں۔ ایسے نقلمکانی کرنے والے چھوٹےکارخانوں، گھریلو ملازمت، ماہیگیری یا زرعی کام کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ بعض جسمفروشی میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ حکومت کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو اُنہیں غالباً بغیر کسی رقم کے وطن واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر وہ سخت کام کی شکایت کرتے ہیں تو اُنہیں مارپیٹ کے علاوہ، جنسی بدسلوکی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور پھر پیچھے وطن میں موجود اُنکے خاندانوں کو تشددآمیز دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
اکثر مجرمانہ گروہ نقلمکانی کرنے والوں کو بھاری تنخواہ والی ملازمتوں کا جھانسا دیتے ہیں۔ نتیجتاً، مفلسی کا شکار خاندان اپنے ایک فرد کو یورپ یا ریاستہائےمتحدہ بھیجنے کیلئے اپنا سب کچھ رہن رکھ دیتے ہیں۔ اگر نقلمکانی کرنے والا شخص اپنے اخراجات کی ادائیگی نہیں کر سکتا تو اُس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قرض ادا کرنے کیلئے ۰۰۰،۴۰ ڈالر کے لگبھگ کام کرے۔ جس ’نئی زندگی‘ کا وعدہ کِیا گیا تھا وہ غلامی میں بدل جاتی ہے۔
[تصویر]
سپین میں غیرقانونی پناہگزین
[صفحہ ۹ پر بکس/تصویر]
معصومیت کا خون
سری کا خاندان جنوبمشرقی ایشیا کے کوہستانی علاقے میں رہتا تھا جہاں اُس کے والدین چاول کے کھیتوں کی رکھوالی کرتے تھے۔ ایک دن ایک عورت نے اُسکے والدین کو بتایا کہ وہ سری کو شہر میں ایک اچھی تنخواہ والی ملازمت دلوا سکتی ہے۔ اُن کسانوں کیلئے ۰۰۰،۲ ڈالر کی بھاری رقم بہت مطلب رکھتی تھی لہٰذا وہ انکار نہ کر سکے۔ تاہم، جلد ہی سری نے خود کو ایک کوٹھے پر پایا۔ مالکان نے اُسے بتایا کہ یہاں سے جانے کیلئے اُسے ۰۰۰،۸ ڈالر ادا کرنے ہونگے۔ اُس وقت سری کی عمر صرف ۱۵ سال تھی۔
سری کے لئے یہ قرض ادا کرنا ناممکن تھا۔ مارپیٹ اور جنسی بدسلوکی نے اُسے تعاون کرنے پر مجبور کر دیا۔ جب تک وہ اُسے استعمال کر سکتے تھے اُس کے آزاد ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی بہت سی کسبیوں کو اُس وقت آزاد کر دیا جاتا ہے جب اُن کے پاس ایڈز سے مرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
اسی طرح کی تجارت دُنیا کے دیگر حصوں میں بھی زوروں پر ہے۔ سن ۱۹۹۹ کی ایک رپورٹ بعنوان انٹرنیشنل ٹریفکنگ اِن ویمن ٹو دی یونائیٹڈ سٹیٹس نے بیان کِیا کہ اندازاً ۰۰۰،۰۰،۷ سے ۰۰۰،۰۰،۲۰ عورتیں اور بچے ہر سال غیرقانونی طور پر اپنے مُلک سے باہر بھیجے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر سے عصمتفروشی کرائی جاتی ہے۔ بعض کو دھوکا دیا جاتا ہے، دیگر کو اغوا کر لیا جاتا ہے مگر عملاً اُن سب کو اپنی مرضی کے خلاف کام کرنے پر مجبور کِیا جاتا ہے۔ مشرقی یورپ میں کسبیوں کے گروہ سے رہائی پانے والی ایک جواںسال لڑکی نے اُسے قبضے میں رکھنے والوں کی بابت کہا: ”مَیں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ ممکن ہے۔ یہ لوگ درندے ہیں۔“
نشانہ بننے والے بعض لوگوں کو پناہگزین کیمپوں سے بھی اُٹھا لیا گیا ہے جہاں یورپ یا ریاستہائےمتحدہ میں ملازمت اور اچھی تنخواہ کے وعدوں کی مزاحمت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بیشمار خواتین کیلئے بہتر زندگی کی تلاش اُن کیلئے جنسی غلامی کا باعث بنی ہے۔
[صفحہ ۱۰ پر بکس/تصویریں]
معاشی وجوہات کی بِنا پر نقلمکانی کرنے سے پہلے لاگت کا حساب لگائیں
نقلمکانی کرنے والوں کو غیرقانونی طور پر لیجانے والے مجرمانہ گروہوں اور قانونی طور پر ترقییافتہ ممالک میں نقلمکانی کرنے کی مشکلات کے پیشِنظر، شوہروں اور والدوں کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے، مندرجہذیل سوالات پر غور کرنا چاہئے۔
۱. کیا ہماری معاشی حالت واقعی اتنی خراب ہے کہ خاندان کے کسی فرد یا سارے خاندان کو اچھی تنخواہ والے مُلک میں جانا چاہئے؟
۲. اس سفر کو ممکن بنانے کیلئے کتنا قرض اُٹھانا پڑیگا اور یہ قرض کیسے ادا کِیا جائیگا؟
۳. کیا ایسے غیرحقیقتپسندانہ معاشی فوائد کیلئے خاندان کو توڑنا واجب ہے؟ غیرقانونی طور پر نقلمکانی کرنے والے بیشتر لوگ ترقییافتہ ممالک میں مستقل ملازمت حاصل کرنا عملاً ناممکن پاتے ہیں۔
۴. کیا مجھے بھاری تنخواہوں اور معاشی فوائد سے متعلق کہانیوں کا یقین کرنا چاہئے؟ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“—امثال ۱۴:۱۵۔
۵. میرے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہم کسی مجرمانہ تنظیم کے قبضے میں نہیں آئینگے؟
۶. اگر کوئی مجرمانہ گروہ اس سفر کا بندوبست کرتا ہے تو کیا مَیں سمجھتا ہوں کہ میری بیوی یا بیٹی کو کسبی کے طور پر کام کرنے کیلئے مجبور کِیا جا سکتا ہے؟
۷. کیا مجھے پتا ہے کہ اگر مَیں غیرقانونی طور پر کسی مُلک میں داخل ہوتا ہوں تو مَیں مستقل ملازمت حاصل نہیں کر پاؤنگا اور ہو سکتا ہے کہ مجھے واپس بھیج دیا جائے اور میرا سفر پر خرچ ہونے والا سب پیسہ بھی ضائع ہو جائیگا؟
۸. کیا مَیں کسی متموّل مُلک میں داخل ہونے کے لئے غیرقانونی طور پر بددیانتی کیساتھ نقلمکانی کرنے کیلئے تیار ہوں؟—متی ۲۲:۲۱؛ عبرانیوں ۱۳:۱۸۔
[Diagram/Map on page 8, 9]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
تارکینِوطن ملازمین کی بنیادی تحریکیں
پناہگزینوں اور بےگھر اشخاص سے آباد علاقہجات
پناہگزینوں اور تارکینِوطن ملازمین کی ایک تحریک
[تصویروں کے حوالہجات]
Sources: The State of the World’s Refugees; The Global Migration
.1999 Crisis; and World Refugee Survey
.Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc
[صفحہ ۷ پر تصویر]
آباد ہونے کی منتظر ایک پناہگزین
[تصویر کا حوالہ]
UN PHOTO 186226/M. Grafman