دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
تاخیر اور صحت
وینکوئر سن اخبار میں متذکرہ ایک مضمون بیان کرتا ہے، ”تاخیر آپکی صحت پر ناموافق اثرات ڈال سکتی ہے۔“ جیسےکہ ۲۰۰ کینیڈین یونیورسٹی طالبعلموں کے سلسلے میں ٹرانٹو کینیڈا میں منعقدکردہ امریکن ساکولاجیکل سوسائٹی کے ایک حالیہ اجلاس میں بیان کِیا گیا، ”تاخیر کرنے والے خود کو اتنے زیادہ دباؤ کا شکار بنا لیتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نسبت دباؤ سے متعلقہ زیادہ امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ . . . امتحان کی تاریخ قریب آنے سے، تاخیر کرنے والوں کے اندر تناؤ بہت بڑھ جاتا ہے۔ سردرد، کمر کا درد، نزلہزکام، نیند کے مسائل اور الرجیز اُنکے لااُبالی رویے کی جگہ لے لیتی ہیں۔ وہ نظامِتنفّس کے مسائل، دیگر انفیکشن اور مائیگرینز [آدھے سر کے درد] میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔“
چٹانوں پر چڑھنے والی مچھلی!
نیچرل ہسٹری میگزین بیان کرتا ہے کہ مچھلیوں کا علم رکھنے والے ماہرین کی ایک برازیلی ٹیم نے جنوبی امریکہ کی خارماہی کی اقسام کا مطالعہ کِیا ہے جو کہ ایک آبشار کے نیچے پانچ منزلہ گیلی ڈھلوان پر چڑھتی ہے جو کہ بظاہر ایک ناممکن کام ہے۔ ”ماہرین نے آبشار کو سر کرنے والی اس ڈیڑھ انچ لمبی مچھلی کی اُونچائی پر چڑھنے کی صلاحیتوں کا مشاہدہ مشرقی برازیل میں واقع ایسپریٹو سانٹو کی تازہ پانیوں کی جھیل میں کِیا تھا۔“ اپنے دو بڑے پَروں کی مدد سے خارماہی آبشار کے نچلے حصے سے چمٹ جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ باقاعدہ وقفوں کیساتھ اور ”قوی آڑی حرکات“ کی مدد سے ۵۰ فٹ اُونچی چٹان کو سر کر لیتی ہیں۔ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”سائنسدانوں کا خیال ہے اس عمل کی بدولت بالائی علاقہجات میں خارماہی کی آبادکاری کو یقینی بنانا ممکن ہے۔“ تاہم صرف خارماہی میں ہی چٹانیں سر کرنے کی صلاحیتیں نہیں ہیں؛ ایسا کرنے والی دیگر اقسام میں گوبی مچھلی اور ایشیائی سیم مچھلیاں شامل ہیں۔
نمک کی مزاحمت کرنے والے ٹماٹر
”ماہرین نے جنیٹک انجینیئرنگ کے ذریعے مادے میں ردوبدل کے ساتھ دُنیا میں پہلے ایسے ٹماٹر تیار کئے ہیں جو نمکین پانیوں میں اُگ سکتے ہیں اور یہ ایک ایسی ترقی ہے جو ایک بڑے زرعی مسئلے کو حل کر سکتی ہے،“ واشنگٹنپوسٹ.کوم۔ بیان کرتا ہے۔ جنیٹک انجینیئرنگ کے ذریعے نمک کی مزاحمت کرنے والے ٹماٹر میں بندگوبھی سے تعلق رکھنے والے پودے کی جین ڈال دی گئی ہے۔ یہ جین ٹماٹر کے پودے کو ”نمکیات کو خالی جگہوں میں جذب کرنے کے قابل بناتا ہے جسکی بدولت ٹماٹر کی فصل ایسے علاقے میں بھی ہو سکتی ہے جہاں یہ شاید ہی اُگ سکتا تھا۔“ رپورٹ کے مطابق، ”جنیٹک انجینیئرنگ کے ذریعے تیارکردہ ٹماٹر ایسی زمین میں بھی اُگ سکتا ہے جہاں معمول سے ۵۰ گُنا زیادہ نمکین پانی دیا جاتا ہے۔“ توقع ہے کہ نمک کی مزاحمت کرنے والے پودے ایسی زمین میں بھی کاشت کئے جا سکیں گے جہاں بارش کا پانی باقاعدگی کیساتھ دستیاب نہیں ہے۔ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے کہ ”ردوبدل والے ٹماٹروں (یا اسی طرح کی نمک کی مزاحمت کرنے والی دیگر فصلوں) کی ایک اَور خصوصیت یہ ہے کہ نمکیات جذب کرنے سے یہ خراب ہو جانے والی زمین کو بھی قابلِاستعمال بنانے میں معاون ثابت ہونگے۔“
خودکشی پر مائل بچے
لندن کے دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، خودکشی پر مائل بچوں کی طرف سے برٹش چیرٹی چائلڈلائن کو مدد کیلئے موصول ہونے والی ٹیلیفون کالز کی تعداد ۱۹۹۱/۱۹۹۰ میں ۳۴۶ سے بڑھ کر ۱۹۹۹/۱۹۹۸ میں ۷۰۱ کو پہنچ گئی ہے۔ ”شدید مایوسی کی وجہ طالبعلموں میں لڑائیجھگڑے، جنسی اور جسمانی بدسلوکی، شدید صدمہ اور امتحانوں کا دباؤ ہے۔“ چیرٹی کے مطابق، ”ایک عام نظریہ ہے کہ خودکشی کی کوششیں محض توجہ حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہیں جوکہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ خودکشی کا دعویٰ کرنے والے ایسا نہیں کرتے۔ خودکشی پر مائل بیشتر بچے جنہوں نے چائلڈلائن کو فون کِیا اُنکا کہنا ہے کہ اُنکی پریشانی میں اضافہ والدین یا نگہداشت کرنے والوں کی طرف سے عدمتوجہی کی وجہ سے ہے۔“ پہلی مرتبہ خودکشی کی کوشش کرنے کے بعد، ”خاندان اس بات سے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اُنکا بچہ بچ گیا ہے . . . یعنی مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن افسوس کہ پہلی کوشش کے چند مہینے بعد یہ دوبارہ واقع ہوتا ہے۔“ اگرچہ خودکشی کی طرف مائل لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے یعنی ۴ اور ۱ لیکن لڑکے خود کو قتل کرنے کے زیادہ درپے ہوتے ہیں۔ خودکشی کی طرف مائل بچوں میں سے چائلڈلائن پر کال کرنے والے بچوں کی عمریں ۱۳ سے ۱۸ سال کی تھیں لیکن سب سے کمعمر صرف ۶ سال کے تھے۔
مچھروں کا خاتمہ
سنگاپور کی ایک فرم مچھرمار ادویات کے بغیر ہی اِنہیں مارنے کیلئے ایک آلہ تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لندن کا دی اکانومسٹ بیان کرتا ہے کہ یہ ۱۵ انچ اُونچا پلاسٹک کا سیاہ ڈبہ ہے جو ”انسانی بدن کے برابر گرمی اور کاربن ڈائیآکسائیڈ خارج کرتا ہے۔“ مچھر چونکہ اپنا شکار تلاش کرنے کیلئے جسم کی حرارت اور سانس میں کاربن ڈائیآکسائیڈ کی موجودگی پر انحصار کرتے ہیں، لہٰذا یہ آلہ ”مچھروں کو دھوکا دیتا ہے کہ اُنکا شکار موجود ہے۔“ ڈبے کو بجلی سے گرم کِیا جاتا ہے اور ایک کارٹیج کی مدد سے یہ کاربن ڈائیآکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ روشنی مچھر کو ڈبے کے اندر موجود جھری میں داخل ہونے کی تحریص دیتی ہے۔ اسکے بعد ایک پنکھا اسے نیچے موجود پانی میں پھینک دیتا ہے جہاں یہ ڈوب جاتا ہے۔ یہ آلہ ایک رات میں ۲۰۰،۱ مچھر پکڑ سکتا ہے نیز اس میں کچھ ردوبدل کے ذریعے رات کو حملہ کرنے والے ملیریا مچھر یا ایڈیز مچھر کو بھی جو زرد بخار یا لال بخار کا باعث بنتا ہے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسکا ایک اَور فائدہ یہ ہے کہ تتلیوں جیسے بےضرر حشرات اس سے نہیں مرتے۔
مرد زیادہ مچھلی کھائیں
سٹاکہولم میں کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو مرد سامن، رنکہ مچھلی (ہیرنگ) اور اسقمری مچھلی (میکرل) زیادہ کھاتے ہیں اُن میں کم مچھلی کھانے والے مردوں کی نسبت پروسٹیٹ کینسر کے امکانات دو سے تین گُنا کم ہوتے ہیں۔ تاہم، ۲۷۲،۶ مردوں پر کئے جانے والے ۳۰ سالہ مطالعے نے تمباکونوشی جیسے خطروں کو بھی ملحوظِخاطر رکھا ہے۔ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”اومیگا-۳ کہلانے والے روغنی ایسڈز [بالخصوص جو چکنائی والی مچھلی میں پائے جاتے ہیں] بدیہی طور پر پروسٹیٹ کینسر کی افزائش کو روکتے ہیں۔“ رپورٹ کے مطابق یہی روغنی ایسڈز ”دل کے دَورے کے خطرے کو بھی کم کرتے ہیں۔“ پس ماہرین لوگوں کو ”ہفتے میں ایک یا دو بار“ مچھلی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
چاول کا بھوسا درختوں کو محفوظ رکھتا ہے
پیرو کا اخبار ال کومرشیو بیان کرتا ہے، چاول کا بھوسا جسے شمالی پیرو میں اینٹوں کی فیکٹری میں ایندھن کے نعماُلبدل کے طور پر استعمال کِیا جاتا ہے، خروب کے خطرے سے دوچار بیشتر درختوں کو محفوظ رکھنے اور ایندھن کے طور پر جلائے جانے سے بچانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ تقریباً ۲۱ اینٹیں بنانے والوں کے ذریعے چاول کے زرعی بھوسے کا استعمال کاربن ڈائیآکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے میں معاون رہا ہے۔ علاوہازیں، دیواروں پر ریت، مٹی اور راب کے آمیزے کا پلاستر آفتابزدگی کو بہتر بنانے اور گرمی میں کمی کا سبب بنتا ہے، اسکی بدولت اونز کی کارکردگی ۱۵ فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ چاولوں کے بھوسے کی راکھ کو اینٹیں بنانے کے آمیزے میں ملانے کی بابت بھی تجربات کئے جا رہے ہیں جس سے اینٹیں زیادہ مضبوط ہونے کی توقع ہے۔ اخبار ال کومرشیو کا کہنا ہے کہ ”اس کے استعمال سے آلودگی اور بھوسے کو ذخیرہ کرنے کے مسائل سے بھی بچا جا سکتا ہے۔“
نفسیاتی مسائل اور بچے
مونٹریال کینیڈا کا اخبار دی گیزٹ بیان کرتا ہے، ”اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۱ برس کی عمر تک پانچ میں سے ایک بچہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائیگا۔ ”اچھی دماغی صحت کا مطلب ہے زندگی کے معاشرتی، جسمانی، روحانی اور جذباتی پہلوؤں کو متوازن رکھنا۔“ کینیڈین مینٹل ہیلتھ ایسوسیایشن کے کمیونٹی ایجوکیشن کوآرڈینیٹر، سینڈی بَرے کے مطابق، ہمیں اپنی دماغی صحت کیلئے بھی اُتنا ہی فکرمند ہونا چاہئے جتنا ہم اپنی جسمانی صحت کی بابت فکرمند ہوتے ہیں۔ بَرے بیان کرتا ہے: ”اگر ہم اپنی دماغی صحت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تو پھر ہم مایوسی، اضطراب اور تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔“ والدین کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شیڈول میں خاندان میں بچوں کیلئے وقت نکالنے اور ملکر کھانا کھانے پر زیادہ توجہ دیں۔ اچھی دماغی صحت برقرار رکھنے کیلئے دیگر تجاویز میں مناسب نیند، پیٹبھر کر کھانا کھانا، تندرست رہنا، مسرتبخش کام کرنا، دوستوں کیساتھ وقت گزارنا، ہنسنا، خوشی سے کام کرنا، شاباش دینا اور قبول کرنا، دوسروں کی بات کو توجہ سے سننا اور غلطی سرزد ہو جانے کی صورت میں خود کو الزام دینے سے گریز کرنا شامل ہے۔
زیادہ ماہیگیری کرنے کی بھاری قیمت چکانا
لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے، ”ایک سروے کے مطابق، وافر مقدار میں مچھلی کا شکار کرنے سے انسان ایسا بڑا بحری بحران لے آیا ہے جس میں ہزاروں اقسام ناپید ہو گئی ہیں۔“ ریسرچ رپورٹ کے مطابق، ”انسانوں کے بڑے آبی جانوروں کے شکار نے خوراک کے سلسلے کو انتشار میں ڈال دیا ہے اور ماحولیات کو اس حد تک متاثر کِیا ہے کہ سمندر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تبدیلی کا شکار ہو گئے ہیں۔“ رپورٹ کے مطابق جب کیپٹن جان سمتھ نے ۱۶۰۷ میں ریاستہائےمتحدہ کے مشرقی ساحل کیساتھ خلیج چسساپیک میں سفر کِیا تو پانی میں گر جانے والی توپ ”۳۰ فٹ گہرے پانی میں بھی صاف نظر آ رہی تھی۔“ ماہرین نے اس صافوشفاف پانی کا ذمہدار ”صدفوں کو ٹھہرایا جو آبی نامیات اور الجی پر قابو پانے سے ہر تین دن بعد خلیج کے تمام پانی کو فلٹر کرتے ہیں۔“ اس وقت اُس خطے میں ”بیشمار خاکستری ویلز، ڈولفنز، دریائی گائے، اودبلاؤ، سمندری کچھوے، مگرمچھ اور سنگماہی“ موجود تھیں۔ اب اس میں ”اِن اقسام کی صرف ایک محدود تعداد“ پائی جاتی ہے۔