موٹاپا—ایک عالمگیر مسئلہ؟
موٹاپا—ایک عالمگیر مسئلہ؟
”اکثر موٹاپا امیر اور ترقییافتہ ممالک کے جدید طرزِزندگی کی پیداوار سمجھا جاتا ہے مگر اب یہ ترقیپذیر ممالک میں بھی پھیل رہا ہے۔“ یہ بات برطانیہ کے میڈیکل جرنل دی لینسٹ نے بیان کی اور یہ واضح کِیا کہ آجکل ماہرینِغذائیات موٹاپے سے وابستہ ذیابیطس، بلند فشارِخون، سرطان اور دل کی بیماریوں کے ”عالمگیر مسئلے“ سے خبردار کر رہے ہیں۔
چین میں گزشتہ آٹھ سالوں میں موٹاپے کا شکار مردوں کی تعداد میں تین گُنا اور عورتوں کی تعداد میں دو گُنا اضافہ ہوا ہے جسکی وجہ سے یہاں بلند فشارِخون کی شرح ریاستہائےمتحدہ کے برابر ہو گئی ہے۔ ذیابیطس کے نئے مریضوں کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ انڈیا اور چین میں پایا جاتا ہے۔ مصر میں ذیابیطس کی شرح ریاستہائےمتحدہ کے برابر ہے اور اس مُلک کی نصف خواتین اب موٹاپے کا شکار ہیں۔ میکسیکو میں بھی موٹاپے کا مسئلہ سر اُٹھا رہا ہے اور اس کیساتھ ہی ساتھ ذیابیطس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ نیم صحرائی افریقہ کے مفلس ممالک میں بھی موٹاپے اور ذیابیطس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ بعض ممالک میں زیادہ چکنائی والی خوراک موٹاپے کا باعث بنتی ہے توبھی اس کی بنیادی وجہ صنعتکاروں کا کھانوں کو ”زیادہ لذیذ بنانے“ کے لئے کافی شکر ملانا ہے۔ علاوہازیں، ایشیائی اور افریقی خوراک میں زیادہ تیل شامل ہوتا ہے جس میں اضافی حرارے ہوتے ہیں۔ کارخانوں اور زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے اشیا کی پیداوار میں اب زیادہ جسمانی محنت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ لوگ کام کم اور آرام زیادہ کرنا چاہتے ہیں۔ آجکل کمپیوٹر اور ٹیلیویژن کی مقبولیت کے باعث کارکُن کی زیادہ ورزش نہیں ہوتی اور اُس پر طرہ یہ کہ ”ای-میل کی وجہ سے اب پیغام پہنچانے کے ئے دوسروں کے پاس چل کر جانے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔“
تفریح اور جسمانی ورزش میں کمی کے باعث اب سکول جانے والے بچے بھی موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں اسلئے اساتذہ کو فوراً غذائیت اور تعلیمی کارکردگی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سکول آف پبلک ہیلتھ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کا گائل ہیریسن آگاہ کرتا ہے کہ مقامی احتیاطی تدابیر کے علاوہ موٹاپے اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے ”عالمی پیمانے پر مخصوص حکمتِعملی، مہارت اور نظموضبط کی ضرورت ہے۔“