دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
شارک کے پَر کاٹنا
پوری دُنیا میں تجارتی ماہیگیر سمندر میں شارک کی تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اسکے پَر کاٹ کر لاش سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ سائنس نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ”یہ سفاکانہ کام صرف شارک کے پَروں سے بننے والے قیمتی سوپ کو حاصل کرنے کیلئے کِیا جاتا ہے۔“ اگست ۲۰۰۲ میں، امریکہ کے ساحلی حفاظتی دستے نے میکسیکو کے ساحل پر ہوائی کا ایک بحری جہاز پکڑا جس میں اُنہیں شارک کے ۳۲ ٹن پَر ملے۔ اس جہاز میں شارک کے اَور اعضا نہیں تھے۔ یہی رسالہ بیان کرتا ہے کہ ”شارک کے ۳۲ ٹن پَروں کا مطلب ہے کہ کمازکم ۰۰۰،۳۰ شارک ہلاک کی گئی ہونگی اور کوئی ۰۰۰،۸۰،۵ کلوگرام مچھلی کا کچرا استعمال کِیا گیا ہوگا۔ پوری دُنیا میں اب ماہیگیروں کے بیڑے اندازاً ۱۰۰ ملین شارک ہر سال ہلاک کرتے ہیں۔“ اب بازار میں شارک کے پَروں کی قیمت ۴۵۰ گرام کیلئے ۲۰۰ ڈالر سے بھی زیادہ ہے اسلئے اسکی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔
انڈیا میں ذیابیطس میں اضافہ
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں ۱۷۰ ملین سے زائد لوگ ذیابیطس کا شکار ہیں۔ انڈیا میں اس وقت سب سے زیادہ یعنی ۳۲ ملین اشخاص ذیابیطس کے مریض ہیں اور ایک اخبار کے مطابق سن ۲۰۰۵ تک یہ تعداد بڑھکر ۵۷ ملین ہو جائیگی۔ ایشیا میں ذیابیطس کے سلسلے میں ایک بینالاقوامی اجلاس سریلنکا میں منعقد ہوا جس میں ماہرین نے بتایا کہ اس اچانک اضافے کی وجہ غذا اور طرزِزندگی میں تبدیلی کے علاوہ توارثی عناصر، پیدائش کے وقت وزن میں کمی اور نوزائیدہ کو زیادہ دودھ پلانا ہے۔ انڈیا میں ذیابیطس کا علاج سب سے سستا ہے۔ لیکن ذیابیطس سے متعلقہ مسائل اور شرحِاموات پھربھی بہت زیادہ ہے جسکی وجہ کسی حد تک اس مرض سے آگہی کی کمی اور تشخیص میں تاخیر ہے۔ انڈیا کے بڑےبڑے شہروں میں تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ بالغوں کی ۱۲ فیصد آبادی ذیابیطس میں مبتلا ہے اور ۱۴ فیصد میں گلوکوز کو جزوِبدن بنانے کی صلاحیت کم ہوتی ہے جو بعد میں ذیابیطس پر منتج ہوتی ہے۔
دہشتزدہ جنگی اخباری رپورٹر
ایک اخبار بیان کرتا ہے کہ ”جنگی اخباری رپورٹروں کی بڑی تعداد جنگ کے مناظر دیکھنے اور اُنکے تجربے میں آنے والی دیگر باتوں سے بہت زیادہ دہشتزدہ ہو گئی ہے۔“ یہ اخبار ”جنگ اور دیگر فسادات کی رپورٹ دینے والے چھ بڑی نیوز کمپنیوں کے [۱۴۰] غیرملکی اخباری رپورٹروں پر کی گئی تحقیق“ پر تبصرہ کر رہا تھا۔ اخبار بیان کرتا ہے کہ ”یہ رپورٹر بہت زیادہ افسردگی اور ذہنی تناؤ کا شکار تھے جبکہ انکی نسبت جنگ پر رپورٹ نہ دینے والے [۱۰۷] رپورٹر اچھی حالت میں تھے۔“ ان رپورٹروں کو ”تلخ یادوں، ڈراؤنے خوابوں، چڑچڑےپن، توجہ لگانے میں مشکل اور حد سے زیادہ چاقوچوبند رہنے کا مسئلہ درپیش تھا۔“ علاوہازیں، ”ان رپورٹروں نے کچھ سماجی مسائل پر بھی توجہ دلائی جیسےکہ دیگر شہریوں کیساتھ گزربسر میں مشکل، دوستوں کی رفاقت سے ہچکچاہٹ، رشتوں میں تناؤ اور الکحل کا استعمال۔“ جن مردوں اور عورتوں پر تحقیق کی گئی وہ اوسطاً، ”بوسنیا، روانڈا، چیچنیا، صومالیہ اور افغانستان کی جنگ میں ۱۵ سال گزار چکے تھے۔“
یورپی بوڑھے ہو رہے ہیں
ایک ہسپانوی اخبار بیان کرتا ہے کہ ”قدیم یورپ بالکل اپنے نام پر پورا اُترا رہا ہے۔“ تمام یورپی ممالک کی آبادی کا ۲۰ فیصد حصہ اب ۶۰ سال سے اُوپر ہے۔ مردمشماری کا ریکارڈ رکھنے والوں کے مطابق، ۲۰۵۰ تک آسٹریا، اٹلی اور سپین جیسے بعض ممالک میں ہر ۱۰ میں سے ۴ کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہوگی۔ آبادی میں عمر کے بڑھنے کی وجہ سے کچھ سماجی اور معاشی تبدیلیاں کرنا ضروری ہوگا۔ پینشن اور ہیلتھ انشورنس کا انتظام مشکل ہو جائیگا۔ مثال کے طور پر، آجروں کو زیادہ عمر والے ملازمین رکھنے پڑینگے، کام کے اوقات میں لچک پیدا کرنی
پڑیگی اور ریٹائرمنٹ کیلئے مناسب منصوبہسازی کرنی پڑیگی۔ مزیدبرآں، ایک ہسپانوی بزنسمین نے کہا: ”نوجوانوں کے کم ہونے کی وجہ سے ترقی کرنے کی خواہاں کمپنیوں کو اپنی خدمات اور مصنوعات عمررسیدہ کو ہی پیش کرنی ہونگی۔“آجکل جنسیات کی تعلیم زیادہ ضروری ہے
جرمنی میں ۱۹۹۶ اور ۲۰۰۱ کے دوران سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، ۱۵-۱۷ سال کی لڑکیوں کے اسقاط میں ۶۰ فیصد اور اس سے بھی چھوٹی لڑکیوں کے اسقاط میں ۹۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ بچے اب پہلے کی نسبت جنسی طور پر جلدی بڑے ہو جاتے ہیں لیکن اُنہیں جنسی معاملات کی بابت کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ بچوں کو دس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کے حقائق کی بابت سکھانا چاہئے لیکن بہتیرے والدین اپنی اس ذمہداری کو پورا کرنے سے شرماتے ہیں۔ ایک ادارے کا ڈائریکٹر مشورہ دیتا ہے کہ والدین کو جذباتی معاملات پر زیادہ زور دینا چاہئے اور جنسیات کی بابت تعلیم دیتے ہوئے اُنہیں تولیدی نظام کی بجائے ”محبت اور رشتوں“ کے موضوع کو اُجاگر کرنا چاہئے۔
ای-میل اور معاشرتی مہارتیں
دو محققین کے مطابق، آجکل ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے دو ملازم ای-میل پر ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ کسی دوسرے مُلک میں کام کرنے والے کسی ملازم سے ای-میل پر بات کرتے ہیں۔ معاشرتی مہارتوں پر ای-میل کے اثر کو واضح کرتے ہوئے ایک پروفیسر نے کہا: ”فوری جواب گفتگو کی اہم خصوصیت ہوتی ہے“ لیکن ای-میل سے ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ پیغام ملنے اور جواب دینے میں وقت لگتا ہے۔ مزیدبرآں، ای-میل بھیجنے والا بِلارکاوٹ ساری بات خود ہی کرتا ہے۔ ”باری باری گفتگو کرنا اہم معاشرتی مہارت ہے۔“
دو قِسم کے اعصاب؟
انسانوں کو محبت اور شفقت کو محسوس کرنے کیلئے خاص اعصابی نظام سے نوازا گیا ہے۔ سویڈن کے سائنسدانوں نے دریافت کِیا کہ ایک عورت جو لمس محسوس کرنے کی صلاحیت کھو چکی تھی جب اُسے ایک نرم پینٹبرش سے چھوا گیا تو اُسے اسکا خوشگوار احساس ہوا۔ سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ اُسکے اندر یہ خوشگوار احساس جِلد میں موجود دوسرے اعصابی نظام سے پیدا ہوا تھا جو ٹیکٹائل سی کہلانے والے سُسترو ریشوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نظام صرف ہلکے لمس کو محسوس کرتا ہے اور جذبات کو اُبھارنے والے دماغی حصوں کو تحریک دیتا ہے۔ انسانوں میں دو قِسم کے اعصاب ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹرائبیون کہتا ہے: ”سُسترو ریشے پیدائش کے فوراً بعد حتیٰکہ رحم سے ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ تیزرو ریشے پیدائش کے بعد آہستہآہستہ بڑھتے ہیں۔ نوزائیدہ بچے ماںباپ کے چُھونے سے بھی پہلے اُنکی محبت کو محسوس کر لیتے ہیں۔“
وقت کا اچھا استعمال
دی آسٹریلین اخبار کی رپورٹ کے مطابق حالیہ تحقیق نے ظاہر کِیا کہ ”جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اُنکے پاس وقت نہیں، درحقیقت وہ گمراہ ہیں۔“ اخبار مزید بیان کرتا ہے کہ ”ہم میں سے بیشتر اپنی ملازمت اور گھریلو کام کیلئے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔“ محققین نے ضروریاتِزندگی حاصل کرنے کیلئے ملازمت پیشہ جوڑے کے وقت کا اندازہ لگایا ہے جنکے بچے نہیں ہیں۔ پھر اُنہوں نے اس وقت کا موازنہ اُن کاموں پر صرف ہونے والے اصل وقت کیساتھ کِیا۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ وہ ملازمت پیشہ جوڑے جنکے بچے نہیں ہیں، ”ہفتے میں کُل ۷۹ گھنٹے ملازمت کیلئے، ۳۷ گھنٹے گھریلو کام کیلئے اور ۱۳۸ گھنٹے ذاتی دیکھبھال کیلئے خرچ کرتے ہیں لیکن اُنہیں صرف ۲۰ گھٹنے ملازمت کیلئے [ہر ایک ۱۰ گھنٹے]، ۱۸ گھنٹے گھریلو کام کیلئے اور ۱۱۶ گھنٹے ذاتی دیکھبھال [بشمول کھاناپینا اور سونا] کیلئے درکار ہوتے ہیں۔“ اگر ایسا جوڑا اپنے طرزِزندگی کو ذرا سادہ بنا لے تو اُسے ہر ہفتے ۱۰۰ اضافی گھنٹے مِل سکتے ہیں۔ یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ایسے ملازمت پیشہ جوڑے ”دعویٰ کرتے ہیں کہ دوسروں کی نسبت اُنکے پاس وقت کی زیادہ کمی ہے لیکن درحقیقت اُنکے پاس کافی زیادہ وقت ہوتا ہے۔ وقت کا مسئلہ تو اولاد والے جوڑوں کو درپیش ہوتا ہے۔“