فحشنگاری—متضاد نظریات
فحشنگاری—متضاد نظریات
”یہ ایسی شدید خواہش پیدا کرتی ہے جو پیدا نہیں ہونی چاہئے اور ایسی شہوت پیدا کرتی ہے جسے کبھی بھی پورا نہیں کِیا جانا چاہئے۔“—کالمنویس، ٹونی پارسنز۔
ایک شخص بیان کرتا ہے کہ اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اُسے انٹرنیٹ پر شہوتانگیز مواد دیکھنے کی عادت پڑ جائیگی۔ دیگر بہت سے لوگوں کی طرح انٹرنیٹ پر فحشنگاری اور فحشکلامی سے اس شخص کا آمناسامنا بھی اچانک ہی ہوا جب اُسکی نظر ایک ایسی سائیٹ پر پڑی جہاں یہ سب کچھ دستیاب تھا۔ بہت ہی جلد وہ انٹرنیٹ پر جنسی مواد سے محظوظ ہونے لگا۔ وہ کہتا ہے کہ ”مَیں اپنی بیوی کے کام پر جانے کا انتظار کرتا اور اُسکے جاتے ہی بستر سے نکل کر گھنٹوں کمپیوٹر کے آگے بیٹھا رہتا تھا۔“ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہوئے اُسے کھانےپینے کا بھی کوئی ہوش نہیں رہتا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ”مجھے بھوک ہی نہیں لگتی تھی۔“ وہ اپنی اس پوشیدہ حرکت کی بابت اپنی بیوی سے جھوٹ بھی بولنے لگا۔ اُسکا کام میں دھیان نہیں لگتا تھا اور وہ ناقابلِاعتماد اور خوفزدہ ہوتا جا رہا تھا۔ اُسکا ازدواجی بندھن خطرے میں پڑ گیا اور جب انٹرنیٹ پر جنسی گفتگو کرنے والوں سے حقیقت میں ملا تو اُسکی بیوی کو اسکا پتہ چل گیا۔ آجکل یہ شخص اپنی اس عادت کے باعث زیرِعلاج ہے۔
فحشنگاری کی مخالفت کرنے والے ایسی کہانیوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فحشنگاری کتنے بُرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اُنکا دعویٰ ہے کہ یہ رشتوں کو تباہ کرتی اور عورتوں کی تذلیل، بچوں سے بدسلوکی اور جنس کی بابت نقصاندہ اور گندے نظریے کو فروغ دیتی ہے۔ اسکے برعکس، فحشنگاری کے حمایتی اسے آزادانہ اظہارِخیال کا ذریعہ کہتے ہیں اور اسکے مخالفین کو جنس سے بیجا گریز کرنے والے خیال کرتے ہیں۔ اسکا ایک حمایتی لکھتا ہے: ”لوگوں کو ہمجنس یا مخالفجنس کیلئے رغبت یا خواہش سے شرمندہ نہیں ہونا چاہئے۔ جنس کے موضوع پر آزادانہ گفتگو کیلئے فحشنگاری استعمال کی جا سکتی ہے۔“ کچھ تو فحشنگاری کو صحتمند اور آزاد معاشرے کی خصوصیت خیال کرتے ہیں۔ ایک مصنف برائن میکنیئر لکھتا ہے کہ ”بالغوں میں جنسی فعل کی واضح تصویرکشی قبول کرنے والا معاشرہ ہی ہمجنسپسندی اور مساواتِنسواں کو بآسانی قبول کر سکتا ہے۔“
کیا معاشرے میں فحشنگاری سے متعلق مختلف نظریات اِسے قابلِقبول بناتے ہیں؟ یہ اسقدر عام کیوں ہے؟ کیا فحشنگاری واقعی خطرناک ہے؟ اگلے مضامین ان سوالات کے جواب دینگے۔