دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
مدہوش جانور
دُنیابھر سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق، صرف انسان ہی الکحل کے مدہوش کرنے والے اثرات کا تجربہ نہیں کرتے۔ حال ہی میں، آسام، انڈیا کے ایک گاؤں میں بیئر پینے کے بعد ہاتھیوں کا ایک غول پاگلوں کی سی حرکتیں کرنے لگا اور کئی عمارتیں تباہ کر دیں۔ بوسنیا میں ایک ریچھ کو جب بیئر کے پھینکے ہوئے ڈبوں میں سے بچیکھچی بیئر پینے کا مزہ آ گیا تو اُس نے اَور مانگنا شروع کر دیا۔ اُسکے فتنےفساد سے تنگ آ کر گاؤں والوں نے اُسے الکحل کے بغیر بیئر دینے کا فیصلہ کِیا۔ یہ ترکیب کارگر ثابت ہوئی۔ ریچھ ابھی بھی بیئر شوق سے پیتا ہے مگر اب غصے میں نہیں آتا۔ شمالی کیلیفورنیا میں، پرندے جھاڑیوں میں لگی خمیرزدہ بیریز کھانے سے کاروں پر حملہ کرنے لگے۔ اسکا حل ان جھاڑیوں کو کاٹ دینا ہی تھا۔ خمیرزدہ شہد مکھیوں کو مدہوش کر دیتا ہے اور وہ یا تو درختوں پر یا پھر زمین پر گِر جاتی ہیں اور اپنا راستہ تلاش نہیں کر پاتیں۔ لیکن واپس پہنچنے میں کامیاب ہونے والی شہد کی مدہوش مکھیوں کو ایک اَور چیلنج کا سامنا بھی ہوتا ہے—اُنہیں پہرہ دینے والی مکھیوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو پورے چھتے کو نشے سے بچانے کیلئے کوشاں ہوتی ہیں۔
ہوا کے بگولے سے گرنے والی مچھلیاں
ایک یونانی اخبار بیان کرتا ہے کہ جھیل ڈوجرن یا جھیل کورونیا سے اُٹھنے والے پانی کیساتھ سینکڑوں مچھلیاں بھی اُوپر اُٹھ گئیں جو بعد میں کورونا کے گاؤں سے ملیں۔ ”دیہاتیوں کو ہر جگہ مچھلیاں مل رہی تھیں جوکہ آسمان سے گری تھیں۔“ تھسلنیکے میں میٹرولاجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کرستوس بیلافوتس کے مطابق یہ کوئی اِکادُکا واقعہ نہیں ہے۔ جس موسم میں ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اُس وقت طوفانی بادل ایسے بگولے پیدا کرتے ہیں جو جھیلوں کے پانی کیساتھساتھ مچھلی اور مینڈک بھی اُٹھا لیتے ہیں۔ رپورٹ بیان کرتی ہے، ”بگولے کی ہوا اُنہیں بہت اُونچا اور بہت دُور لیجاتی ہے،“ بعدازاں جب بگولے کا زور ٹوٹتا ہے تو مچھلیاں نیچے گِر جاتی ہیں۔
جواںسال بچوں کی اصل پریشانیاں
لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے، ”والدین اپنے جواںسال بچوں کے منشیات سے دل بہلانے کی بابت اسقدر پریشان ہیں کہ وہ اُنکے سنگین جذباتی اور ذہنی مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں جو اُنکے بچوں کیلئے پریشانی کا باعث ہیں۔“ کوئی ۵۰۰ سے زائد والدین اور جواںسال بچوں کا سروے ظاہر کرتا ہے کہ ۴۲ فیصد والدین کا خیال ہے کہ اُنکے بچوں کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ منشیات ہی ہیں۔ تاہم، صرف ۱۹ فیصد جواںسال بچے اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ تاہم ۳۱ فیصد بچے دوستوں اور خاندان کیساتھ اپنے تعلقات کی بابت زیادہ پریشان ہیں اور ۱۳ فیصد سکول میں غنڈہگردی کی بابت پریشان ہیں۔ ٹیلیفون ہیلپ لائن گیٹ کونیکٹڈ کے ڈائریکٹر جسٹن ارون نے والدین کی اپنے بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی مسائل کو نظرانداز کرنے کی عادت پر تشویش کا اظہار کِیا۔ وہ والدین کو تاکید کرتا ہے: ”قیاسآرائی کو چھوڑیں اور حقیقتپسند بننے کی کوشش کریں۔“
نیند پوری نہ کرنے کے مُضر اثرات
وارسا کا ہفتہوار رسالہ ویپروسٹ بیان کرتا ہے کہ ”پولینڈ کے ۹ فیصد باشندے رات کو پانچ گھنٹے سے کم سوتے ہیں۔ امریکی اور برطانوی لوگوں میں ہر ۳ میں سے ۱ شخص رات کو ۵.۶ گھنٹے سوتا ہے۔“ پولینڈ میں نیند کے عارضے کی کلینک کے ڈاکٹر مائیکل سکالسکی کے مطابق، ”جو شخص کم سوتا ہے وہ مستقل دباؤ کا شکار رہتا ہے۔“ جاپانی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ”رات کو آٹھ گھنٹے سونے والوں کی نسبت جو لوگ پانچ گھنٹے یا اس سے کم سوتے ہیں اُن میں ہارٹاٹیک کا خطرہ ۵۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔“ علاوہازیں، امریکن مطالعے ظاہر کرتے ہیں کہ نیند کی کمی کا تعلق ذیابیطس اور دیگر مسائل سے بھی ہے۔ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے کہ نیند کی کمی نہ صرف ”گلوکوز کی کارکردگی میں تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے“ بلکہ اسکا تعلق ”موٹاپے“ سے بھی ہے۔ رسالہ امریکن فٹنس بیان کرتا ہے، ”جب آپ تھکے ہوتے ہیں تو آپکا جسم توانائی کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جن لوگوں کی نیند پوری نہیں ہوتی وہ چوکس رہنے کیلئے زیادہ کھاتے پیتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپکا وزن کچھ کم ہو گیا ہے اور آپ دوبارہ وزن بڑھانا نہیں چاہتے تو نیند بھر کر سوئیں۔“
دفتر میں ایک دن
لندن میگزین نے ۵۱۱ اشخاص کا اُنکی دنبھر کی مصروفیات کی بابت سروے کِیا۔ لندن کے دی ڈیلی ٹیلیگراف اخبار نے بیان کِیا کہ کام کے اوقات کے دوران، لوگوں کی تقریباً نصف تعداد الکحل پئے ہوئے تھی، ۴۸ فیصد نے چوری کی تھی اور تقریباً ایک تہائی نے منشیات کا استعمال کِیا ہوا تھا۔ علاوہازیں، ۴۲ فیصد نے ”اپنے مالک کو قتل کرنے کا تصور کِیا،“ تقریباً ایک تہائی نے ”انٹرنیٹ پر فحاشی دیکھی،“ ”۶۲ فیصد نے اپنے ساتھی کارکن کو جنسی تعلقات کی دعوت دی اور تقریباً پانچ میں سے ایک نے دفتر میں جنسی مباشرت کی۔“ ان ملازموں میں سے چھتیس فیصد نے اپنے کاغذات میں جھوٹ لکھا تھا، ۱۳ فیصد نے کہا کہ وہ ترقی حاصل کرنے کیلئے اپنے مالک کیساتھ ہمبستر ہو سکتے ہیں اور ۴۵ فیصد نے کہا کہ وہ آگے بڑھنے کیلئے اپنے ساتھی کے خلاف کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سائیکوتھراپسٹ فلپ ہڈسن کے مطابق، یہ سب کچھ بااختیار لوگوں کے آزردہخاطر ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اُس نے کہا: ”ہم اُوپر پہنچنے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ نام، مرتبہ اور حیثیت ہی ہمارے لئے سب کچھ ہیں۔“
کھیل کے دوران اچانک موت
جاپان کے مختلف حصوں میں جب طویل دوڑ دوڑنے کے بعد ۵۰ برس کی عمر سے اُوپر کے تین آدمی اکٹھے ہارٹاٹیک سے وفات پا گئے تو ڈاکٹروں نے خبردار کرنا شروع کر دیا۔ کوبے سپورٹس اکیڈمی کے چیئرمین اور معالج ڈاکٹر ماساٹوشی کاکو آساہی شمبن اخبار میں لکھتا ہے: ”اچانک اموات کا ۸۰ فیصد تعلق دل سے ہوتا ہے۔ . . . جن لوگوں کو صحتمند قرار دیا گیا تھا اُنکا ۹۰ فیصد اچانک موت کا شکار ہوا ہے۔“ ڈاکٹر کاکو اس بات کی سفارش کرتا ہے کہ مریض کے آرامدہ حالت میں ہونے کے علاوہ ورزش کے دوران بھی ایسیجی کی جانی چاہئے۔ وہ مزید مشورہ دیتا ہے کہ خود کو زیادہ نہ تھکائیں اور اگر آپ ورزش کے دوران ہلکا بخار، متلی یا غنودگی محسوس کریں تو فوراً ورزش بند کر دیں۔ ڈاکٹر کاکو کہتا ہے، ”کھیل یا دوڑ کے دوران باہر نکل جانا کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔“ نیز ”کھلاڑی کو دوڑ مکمل کرنے کی بجائے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ ہر صورت میں ضروری ہے۔“
خاندان کے طور پر گفتگو کرنے کی اہمیت
لندن کا دی ٹائمز بیان کرتا ہے، ”خاندان کے اندر گفتگو اب صرف بڑبڑانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جسکی وجہ سے بچے صحیح طور پر باتچیت کرنا مشکل پاتے ہیں۔“ برطانیہ میں تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کی ذمہدار ایجنسی کے ڈائریکٹر ایلن ویلز نے اس کمی کو بچوں کے ”ٹیلیویژن اور کمپیوٹر کے سامنے زیادہ بیٹھنے اور خاندانوں کے ملکر کھانا کھانے میں کم وقت صرف کرنے کیساتھ منسوب کِیا ہے۔“ ویلز سنگل پیرنٹ فیملی میں اضافے اور اس میں بڑے بوڑھوں کے نہ ہونے نیز بہت کم والدین کے اپنے بچوں کو کچھ پڑھ کر سنانے کو بھی موردِالزام ٹھہراتا ہے۔ اُسکا خیال ہے کہ اس سے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ چار یا پانچ سال کی عمر میں سکول جانے والے بچے کیوں پہلے بچوں کی نسبت ”نہ تو اچھی طرح اظہارِخیال کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کیساتھ سماجی میلجول کے قابل ہوتے ہیں۔“ ویلز ایسے پروگرام ترتیب دینے کی سفارش کرتا ہے جنکے ذریعے والدین کو سکھایا جا سکتا ہے کہ اپنے بچوں کیساتھ کیسے زیادہ سے زیادہ رابطہ رکھا جا سکتا ہے۔
ایک متوازن زندگی
دی سڈنی مارننگ ہیرلڈ بیان کرتا ہے کہ آسٹریلیا کے ایک انسٹیٹیوٹ نے ایک سروے کِیا جس سے یہ پتہ چلا کہ ”گزشتہ دس سال کے اندر ۳۰ سے ۵۹ سال کے ۲۳ فیصد لوگوں نے متوازن طرزِزندگی کی خاطر اپنی آمدنی کو قربان کر دیا ہے۔“ یہ رُجحان جسے محققین واپسی کا عمل کہتے ہیں اور جسے بہتیرے اس اُمید کیساتھ اختیار کر رہے ہیں کہ وہ اپنا خیال رکھنے اور اپنے بچوں کو زیادہ وقت دینے کے قابل ہونگے۔ دی ہیرلڈ کا کہنا ہے کہ یہ کارکُن ”ایسے کام کی طرف رجوع کر رہے ہیں جس میں تنخواہ اگرچہ کم ہے مگر وہ کم وقت کیلئے کام کرینگے یا پھر ملازمت ہی ترک کر دینگے۔“ آسٹریلیا انسٹیٹیوٹ کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر کلائیو ہیملٹن کہتا ہے: ”اسکا مطلب زندگی کو آمدنی سے زیادہ اہمیت دینا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو بےکار خیال نہیں کرتے، وہ عام لوگ ہیں جو زیادہ چیزیں جمع کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور متوازن طرزِزندگی اختیار کرنے کیلئے اپنی آمدنی کو کم کرنے کیلئے تیار ہیں۔“