علم کی پیاس
علم کی پیاس
”پرندے اُڑتے ہیں، مچھلیاں تیرتی ہیں، انسان سوچتا اور سیکھتا ہے۔“—جان ہولٹ، ایک مصنف اور اُستاد۔
پیدائش کے فوراً بعد ہرنی کے بچے کی ٹانگوں میں زیادہ طاقت تو نہیں ہوتی لیکن پھر بھی وہ اُٹھ کر اپنی ماں کے پیچھے ہو لیتا ہے۔ اسکے برعکس انسان اپنی زندگی کے پہلے سال میں شاید بالکل ہی نہ چل سکے۔ لیکن انسان کا ذہن کسی بھی جانور کے ذہن سے کہیں برتر ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کی برتری اس بات سے نمایاں ہوتی ہے کہ بچوں میں ہر چیز کے بارے میں سیکھنے اور ہر بات کو دریافت کرنے کی خواہش کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔
اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے بچہ اپنے گِردونواح کو ایک قسم کی تجربہگاہ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ننھا بچہ بڑے غور سے ہر چیز کی تحقیق کرتا ہے۔ اگر آپ اسکو کوئی بھی چیز پکڑوائینگے تو وہ اسے دیکھنے، چھونے، سونگھنے، سننے یہاں تک کہ چکھنے کی بھی کوشش کریگا۔ وہ اس چیز کی کھوج لگانے کیلئے اسے مروڑنے، ہلانے اور زمین پر دے مارنے لگے گا۔ اسطرح بچے اپنے گِردونواح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر جب بچہ بولنے لگتا ہے تو اُسکی علم کی پیاس اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اب تو وہ سوال ہی سوال کرنے لگتا ہے۔ ’یہ کیا ہے؟‘ ’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘ ایسے سوالات سُن سُن کر والدین کے سر چکرانے لگتے ہیں۔ مصنف ہولٹ کہتے ہیں کہ ”بچوں کو نئی چیزیں سیکھنے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ کم ہی عرصے میں بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں۔“
کچھ سال بعد بچے سکول جانے لگتے ہیں۔ اچانک اُنہیں اساتذہ، درسی کتابوں اور بہتیرے دوسرے بچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں علم حاصل کرنے کے ایک نئے طریقے کا تجربہ کرنا پڑتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ سکول جاتے جاتے بہتیرے بچے اپنے سیکھنے کے شوق کو کھو دیتے ہیں۔ کئی تو سکول جانے ہی کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید وہ کسی مضمون میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے یا پھر ہو سکتا ہے کہ بعض اُستادوں کے پڑھانے کا ڈھنگ اُنہیں اچھا نہ لگے۔ اسکے علاوہ بچے اکثر اچھے نمبر حاصل کرنے کے دباؤ کی وجہ سے بھی پریشان رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ ہر قسم کی پڑھائی سے تنگ آ جاتے ہیں۔
بعض بچے بالغ ہو کر بھی اس نظریے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہر قسم کی تحقیق، مطالعے یہاں تک کہ سوچبچار کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ سیکھنے کے سلسلے میں عمررسیدہ لوگوں کیلئے ایک اَور مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بڑھاپے میں انسان نئی باتیں بمشکل سیکھتا ہے۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے جیسا کہ ہم آگے بیان کرینگے۔
چاہے آپ جوان ہوں یا بوڑھے، کیا آپ اپنی سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے اچھے طالبعلم ہوں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے سیکھنے کے شوق کو برقرار رکھیں؟ پھر اگلے چند مضامین کو پڑھیں۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
بچوں کو سیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے
[صفحہ ۳ پر تصویر]
افسوس کی بات ہے کہ بہتیرے بچے سکول میں دباؤ اور پریشانی کا سامنا کرتے ہیں