دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
اپنے بچوں کے لئے پڑھائی کو پُرلطف بنائیں
میکسیکو کے اخبار ریفارما کی رپورٹ کے مطابق: ”یہ دیکھا گیا ہے کہ اچھا پڑھنے والوں کے بچے اپنے والدین کے نمونے کی نقل کرتے ہیں۔“ چونکہ بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا حروف کی آوازوں کی پہچان سے پہلے پڑھنے کے لئے اُن کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اُن کے سامنے کہانیاں پڑھی جا سکتی ہیں جس سے انہیں تصور کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ اخبار بچوں کے لئے پڑھائی کو پُرلطف بنانے کے لئے درجذیل تجاویز پیش کرتا ہے: ”اُنہیں صفحے اُلٹنے، ضرورت کے مطابق بات کاٹنے اور سوال پوچھنے دیں۔ . . . اُن سے کہانی کی چیزوں اور کرداروں کی بابت باتچیت کرنے کے لئے کہیں۔ اُن کے تمام سوالوں کے جواب دیں۔ . . . پڑھائی کو اُن کے ذاتی تجربوں سے جوڑیں۔“
ہاتھی اور لال مرچ
افریقہ کے گیم پارکس کے ہاتھی کافی دیر سے جنگلی حیوانات کے تحفظ کے حامیوں اور کسانوں کے درمیان اختلاف کا سبب رہے ہیں۔ جنگلے، آگ اور ڈھول کی آوازیں بھی ہاتھیوں کو پارک کی حدود کے اندر رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ اِدھراُدھر گھومنےپھرنے والے ہاتھی اکثر فصلیں برباد کرتے اور لوگوں کو پاؤں تلے روند کر مار ڈالتے ہیں۔ بالآخر، ہاتھیوں کو دُور رکھنے والی چیز لوگوں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے اخبار دی وٹنس کی رپورٹ کے مطابق پارک کی حدود کے پاس جہاں لال مرچوں کے پودے لگائے گئے ہیں اس طرف سے ہاتھی حقارت سے مُنہ موڑ لیتے ہیں کیونکہ وہ پودے کی خوشبو کو پسند نہیں کرتے۔ اب پارک کے سنتریوں کو ہاتھیوں کو واپس پارک میں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے اور مقامی کسانوں کی فصلوں کا نقصان بھی کم ہو گیا ہے۔ اِس کے علاوہ لال مرچیں نفع کمانے کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
عمررسیدہ بوجھ نہیں ہیں
آسٹریلین انسٹیٹیویٹ آف فیملی سٹڈیز کی شائعکردہ ایک رپورٹ بیان کرتی ہے: ”عمررسیدہ اشخاص کی نگہداشت پر اُٹھنے والے اخراجات کی بجائے ان سے حاصل ہونے والے مفید کاموں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے جن کے لئے کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی۔ ایسے کام جو عمررسیدہ بِلامعاوضہ کرتے ہیں اُنہیں اُجرت دے کر کرانا مشکل ہے۔“ تحقیق کے مطابق: ”آسٹریلیا میں ۶۵ سال سے بڑی عمر کے لوگ خاندانوں کے اندر بِلامعاوضہ ۲۷ بلین یو.ایس ڈالر کی رضاکارانہ خدمت انجام دیتے ہیں۔“ اِس رضاکارانہ خدمت میں بچوں کی دیکھبھال اور بیمار لوگوں کی تیمارداری کرنے کے علاوہ گھریلو کامکاج بھی شامل ہیں۔ مصنّفین نشاندہی کرتے ہیں کہ ایسی بِلامعاوضہ خدمت ”معاشرے کو متحد رکھ سکتی ہے۔“ اِس خدمت کی قدر کا اندازہ روپےپیسے سے نہیں لگایا جا سکتا۔
ایڈز کے مریضوں کی انتہائی تعداد
سن ۲۰۰۳ میں ایڈز سے پانچ ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق: ”سن ۱۹۸۱ میں اس بیماری کے پہلی مرتبہ انکشاف ہونے کے بعد سے ایک سال میں متاثر ہونے والے مریضوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ ترقیپذیر ممالک میں ایچآئیوی کے خلاف وسیع کامیابی حاصل کرنے کے باوجود ایڈز ہر سال لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔“ یونائیٹڈ نیشنز اور دیگر گروپوں کے ایڈز پروگرام یو.این ایڈز کے شائعکردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر سال تقریباً ۳ ملین لوگ ایڈز سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اب تک اس بیماری سے ۲۰ ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ یو.این ادارے کے حالیہ جائزے کے مطابق ۳۸ ملین لوگ ایچآئیوی سے متاثر ہیں۔ افریقہ کے جنوبی علاقے صحارا میں ۲۵ ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اِس کے بعد جنوب اور جنوبمشرقی ایشیا کا نمبر آتا ہے جہاں ۵.۶ ملین لوگ اِس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اخبار بیان کرتا ہے کہ ”تمام دُنیا میں ایچآئیوی سے متاثر ہونے والوں میں تقریباً نصف نوجوان ہیں جن کی عمر ۱۵ سے ۲۴ سال کے درمیان ہے۔“
انتہائی قدآور درخت
ایک اخبار بیان کرتا ہے: ”کیلیفورنیا کے صنوبری درخت زمین پر جاندار چیزوں میں سب سے زیادہ قدآور ہیں۔ اُن کے قد کی بھی ایک حد ہے جس کو عبور نہیں کِیا جا سکتا۔“ دُنیا کے موجودہ قدآور درختوں (۳۷۰ فٹ، جو تقریباً ۳۰ منزلہ عمارت کی طرح بلند) اور اِس قسم کے چار اَور صنوبر کے درختوں کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایک صنوبر کا درخت زیادہ سے زیادہ ۴۲۰ فٹ تک جا سکتا ہے۔ جب اِس کے پتوں کی رطوبت بخارات بن کر اُڑ جاتی ہے تو کششِثقل کے اصول کے خلاف جڑوں سے پانی درخت کی چوٹی تک پہنچ جاتا ہے۔ محققین کا اندازہ ہے کہ اِس عمل میں ۲۴ دن لگ سکتے ہیں۔ جب پانی چھال کے نیچے نالیوں کے ذریعے اُوپر پہنچتا ہے تو پانی کا وزن بڑھتا جاتا ہے۔ جب پانی کا وزن بہت بڑھ جاتا ہے تو درخت کی نشوونما رُک جاتی ہے۔ ڈگلس صنوبر کو انتہائی قدآور درخت خیال کِیا جاتا ہے۔ یہ درخت ۴۱۵ فٹ بلند ہوتا ہے۔
پانڈا اور بانس
لندن کے دی ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق: ”پانڈا چین اور جنگلی حیوانات کے تحفظ کی علامت ہے، جس کی نسل ختم ہونے کا تصور غلط ہے۔“ فطرت کے تحفظ کے لئے عالمی فنڈ اور چینی حکومت کی چار سالہ تحقیق کے مطابق جنگل میں پہلے تقریباً ۰۰۰،۱ سے ۱۰۰،۱ پانڈے تھے۔ اب ان کی تعداد ۵۹۰،۱ سے زیادہ ہے۔ سیٹلائٹ سمیت جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لگایا گیا یہ اندازہ درست ہے۔ جنگلی حیوانات کے تحفظ کے حامیوں کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے۔ تاہم، کیمبرج، انگلینڈ میں فطرت کے تحفظ کا مرکز آگاہ کرتا ہے کہ پانڈے کی بنیادی خوراک، بانس کے جنگلات کاٹنے کی وجہ سے اس کی نسل ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر بانس کے جنگلات کو اسی طرح کاٹا جاتا رہا تو اس کے مکمل طور پر ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق: ”تمام قسم کے بانس ہر ۲۰ سے ۱۰۰ سال تک تمام دُنیا میں بیک وقت پھول دینے کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔“
مچھر بھگانے کے لئے احتیاط
انڈیا کا ڈاؤن ٹو ارتھ میگزین بیان کرتا ہے کہ مچھر بھگانے والے گلوب ایشیا میں سب سے زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مچھروں سے بچنے کے لئے اِن گلوب کا استعمال بچوں کے لئے خاص طور پر مُضر ہے۔ اس سلسلے میں دو مشاہدے کئے گئے ہیں۔ پہلے مشاہدے کے مطابق کیلیفورنیا یونیورسٹی، یو.ایس.اے کے سائنسدان بیان کرتے ہیں کہ آہستہ آہستہ جلنے والے گلوب پھیپھڑوں کے کینسر کا سبب بننے والا طاقتور مواد چھوڑتے ہیں۔ ترقیپذیر ممالک میں بہت سے لوگ اپنے گھروں میں مچھروں کو مار بھگانے والے گلوب استعمال کرتے ہیں۔ محققین بیان کرتے ہیں کہ ”اس کے علاوہ لوگ سوتے وقت کھڑکیاں بند رکھتے ہیں۔“ دوسرے مشاہدے کے مطابق ملائیشیا اور امریکہ کے سائنسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ آٹھ گھنٹے تک جلنے والا ایک گلوب ”۷۵ سے ۱۳۷ سگریٹوں کے برابر مواد چھوڑتا ہے۔“ ماہرین اِس کے متبادل کے طور پر نیم جیسے درختوں سے حاصل ہونے والی نباتاتی چیزیں استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ ”نباتاتی اشیا نہ صرف صحت کے لئے اچھی اور مؤثر ہیں بلکہ قیمتی بھی نہیں ہیں۔“