دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
مہنگا پانی
جرمنی کے ایک رسالے کے مطابق آجکل بوتل کا پانی پینے کا بڑا فیشن ہے۔ ”واقعی ہم عجیب دَور میں رہ رہے ہیں۔ بہتیرے طالبعلم صرف نامور کمپنیوں کا پانی ہی پیتے ہیں۔ نیو یارک کے کئی ریسٹورنٹس میں پینے کو شراب کی بجائے بوتل کا پانی ہی ملتا ہے۔ بڑے بڑے ہوٹل دُنیا کے ہر کونے سے بوتل کا پانی منگوا کر اسے اپنے گاہکوں کو پیش کر رہے ہیں۔“ ایسا پانی سستا نہیں ہوتا۔ رسالے کے مطابق ”خاص ڈیزائن کی بوتلوں میں بِکنے والے اعلیٰ درجے کے پانی کیلئے لوگ بہت پیسے خرچ کرنے کو تیار ہیں۔“ بعض ہوٹلوں میں پانی کے ایک لیٹر کا دام ۶۲ یورو [۷۴۰،۴ روپے] پر لگایا جاتا ہے۔ بوتل والے پانی کی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اُنکے پانی کو پینے سے ذہانت، صحت اور حسن پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق کچھ ملکوں میں بوتل کے پانی اور نلکے کے پانی میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر جرمنی میں نلکے کے پانی اور بوتل کے پانی کا معیار بالکل برابر ہے۔ لیکن نلکے کے پانی کی یہ سہولت ہے کہ اسے نہ تو بوتلوں میں خریدنا پڑتا ہے اور نہ ہی اسے دُور سے لانا پڑتا ہے۔
خوراک اور صحت کا تعلق
کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ”فرانس کے لوگوں کی خوراک میں کافی چکنائی ہوتی ہے۔ اسکے باوجود عموماً وہ امریکی لوگوں سے زیادہ دُبلے ہوتے ہیں۔ فرانس کی نسبت امریکہ کے دو گُنا زیادہ لوگ دل کی بیماریوں سے مرتے ہیں۔ اسی طرح یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی فرانس کی نسبت زیادہ لوگ اسی وجہ سے مرتے ہیں۔“ رپورٹ میں اس بات کی ایک ممکنہ وجہ یوں بیان کی جاتی ہے: ”فرانس کے لوگ اتنا نہیں کھاتے جتنا امریکی کھاتے ہیں۔“ ایک جائزے کے مطابق امریکہ کی نسبت فرانس کے ریسٹورنٹوں میں کم کھانا پیش کِیا جاتا ہے۔ اور فرانسیسی پکوان کی ترکیبوں میں گوشت کی فی شخص مقدار امریکی ترکیبوں سے کم دی جاتی ہے۔ جائزے کا سب سے دلچسپ نتیجہ یہ نکلا کہ ”حالانکہ فرانس کے لوگ امریکیوں کی نسبت کم کھانا کھاتے ہیں پھربھی وہ اس پر زیادہ وقت لگاتے ہیں۔ جبکہ فرانسیسی ہر روز تقریباً ۱۰۰ منٹ کھانا کھانے کیلئے صرف کرتے ہیں، امریکی اس پر صرف ۶۰ منٹ لگاتے ہیں۔“ اس سے کونسے سبق سیکھے جا سکتے ہیں؟ بھوک سے زیادہ کھانے سے گریز کریں۔ صحتمند خوراک کھائیں۔ کھانا کھاتے وقت جلدی نہ کریں۔ ریسٹورنٹ میں اگر آپ اپنے آرڈر کئے ہوئے کھانے کو ختم نہیں کر پاتے تو بقیے کو گھر لے جائیں۔ اسکے علاوہ ”کھانا کھاتے وقت اسکا پورا لطف اُٹھائیں۔“
کتابوں کو اچھی حالت میں رکھنے کا راز
میکسیکو کے ایک رسالے کے مطابق ”وقت اور نمی کتابوں کے جانی دُشمن ہوتے ہیں۔“ اسی مضمون میں کتابوں کی اچھی حالت کو برقرار رکھنے کا راز بتایا گیا ہے۔ ہر سال کمازکم ایک مرتبہ کتابوں سے گرد جھاڑیں۔ ایسا کرتے وقت کتاب کو مضبوطی سے دبا کر رکھیں تاکہ گرد صفحوں کے بیچ میں نہ پڑ جائے۔ اگر کتابوں کو نمی کی وجہ سے خراب ہونے کا خطرہ ہے تو آپ ہر صفحے پر ذرا سا ٹالکم پاؤڈر ڈال سکتے ہیں۔ پھر کتاب کو کچھ دنوں کیلئے کسی بھاری چیز کے نیچے رکھیں اور اسکے بعد پاؤڈر کو برش کیساتھ جھاڑ دیں۔ جب کتاب کے صفحوں پر پھپھوندی لگ جاتی ہے تو آپ اسے ریزر بلیڈ کیساتھ کھرچ کر ہٹا سکتے ہیں۔ اسکے بعد کتاب کو الکحل کیساتھ صاف کریں۔ کتاب کو الماری سے نکالنے کیلئے اسے کبھی اُوپر سے نہ پکڑیں۔ اسکی بجائے اسے جِلد کے بیچ والے حصے سے پکڑیں۔ اگر وہ دوسری کتابوں سے چپک گئی ہے تو اسے ہلکا سا ہلائیں اور آہستہ سے نکالیں۔ بہت موٹی کتابیں، خاص طور پر پُرانی کتابیں اپنے ہی وزن سے خراب ہو سکتی ہیں۔ اسلئے ایسی کتابوں کو الماری میں کھڑا کرنے کی بجائے انہیں لٹا کر رکھیں۔
وحدتپرستوں کا زوال
لندن کے ایک اخبار کے مطابق ”وحدتپرستوں کی تحریک جو برطانیہ کی سب سے پُرانی مذہبی تحریکوں میں سے ایک ہے، اب زوال پر ہے اور کچھ سال میں اسکا نامونشان ہی نہ رہے گا۔“ آجکل برطانیہ میں اس تحریک کے محض ۰۰۰،۶ رُکن ہیں اور آدھی تعداد کی عمر ۶۵ سال سے اُوپر ہے۔ ایک پادری نے شہر لِورپول میں اس تحریک کے بارے میں کہا: ”سن ۱۹۷۶ سے اسکے گرجاگھر میں کسی پادری نے خدمت نہیں کی ہے۔ لِورپول میں وحدتپرستوں کی تحریک کا خاتمہ ہو چکا ہے۔“ برطانیہ میں وحدتپرستوں کی تحریک کا آغاز ۱۶۷۳ میں ہوا۔ ”۱۸ ویں صدی میں چرچ آف انگلینڈ میں اس سوال پر کافی بحثوتکرار ہوئی کہ آیا یسوع مسیح خدا ہے یا نہیں۔ اس جھگڑے کے نتیجے میں پریسبٹیرین چرچ کے بہت سے رُکن تثلیث کے عقیدے کو رد کرکے وحدتپرستوں کی تحریک میں شامل ہو گئے۔“ اخبار میں آگے یوں بیان کِیا گیا ہے: ”آجکل ایسے لوگ جو تثلیث کے عقیدے پر ایمان نہیں رکھتے پھربھی چرچ کے رُکن رہ سکتے ہیں۔ چرچ کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں رہا کہ ہر شخص مذہب کے بارے میں اپنا ذاتی نظریہ رکھے۔ اسلئے وحدتپرستوں کی تحریک کی آج کوئی ضرورت نہیں رہی۔“
بڑھاپے کا قد پر اثر
عام طور پر بڑھاپے میں انسان کا قد کم ہو جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے ایک اخبار کے مطابق ”اس کی وجہ جسم کا اپنا وزن ہی ہوتا ہے۔“ جسم کے وزن کی وجہ سے ہمارا قد ہر روز صبح سے لے کر شام تک کم ہوتا جاتا ہے۔ لیکن رات کو لیٹتے وقت جسم دوبارہ اپنے پورے قد پر آ جاتا ہے۔ اخبار آگے بیان کرتا ہے کہ ”جب ہم بُوڑھے ہو جاتے ہیں تو رات کو جسم اپنے پورے قد پر نہیں آتا۔ اسلئے ہمارا قد کم ہو جاتا ہے۔ اس کی دیگر وجوہات ہوتی ہیں۔ بڑھاپے میں پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اکثر ریڑھ کی ہڈی بھی سکڑ جاتی ہے جسکے نتیجے میں اُس کی لمبائی ڈھائی سینٹیمیٹر [ایک اِنچ] کم ہو جاتی ہے۔“ اس کے علاوہ ایک ایسی بیماری جسکی وجہ سے ہڈیاں سکڑنے لگتی ہیں (آسٹیوپوروسس) بھی قد کے کم ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔
دو زبانیں بولنے والے بچے
”ایسے بچے جو بچپن ہی سے دو زبانیں سیکھ رہے ہیں وہ خود کو، اپنے خاندان کو اور معاشرے کو بھی بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اُن کی پرورش صبر اور پیار سے کی جائے۔“ یہ میکسیکو کے ایک اخبار کا بیان ہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ”دو زبانیں بولنے والے بچے سکول میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔“ بعض والدین فکر کرتے ہیں کیونکہ اُن کے بچے ایک ہی جملے میں دو زبانوں کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یا پھر وہ ایک زبان کے قواعد دوسری زبان پر عائد کرتے ہیں۔ لیکن ایک پروفیسر جو بچوں کے زبان سیکھنے پر تحقیق کرتا ہے، یوں بیان کرتا ہے: ”اس میں پریشانی کا کوئی باعث نہیں کیونکہ بچے جلد ہی ایسی غلطیاں کرنا بند کر دیتے ہیں۔“ جب بچے پیدائش ہی سے دو زبانیں سنتے ہیں تو وہ دونوں کو آسانی سے سیکھ جاتے ہیں۔ اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ دونوں کو الگ الگ زبانوں کے طور پر پہچاننے اور بولنے لگتے ہیں۔