کیا زندگی میں کامیاب ہونے کی خواہش رکھنا غلط ہے؟
بائبل کا نقطۂنظر
کیا زندگی میں کامیاب ہونے کی خواہش رکھنا غلط ہے؟
”دولت، رُتبہ اور اختیار حاصل کرنے کی خواہش رکھنے میں بھلا کیا خرابی ہے؟“ یہ سوال ایک مذہبی مضمون میں پوچھا گیا تھا۔ اسکے جواب میں پیدایش ۱۲:۲ کا حوالہ دیا گیا جہاں خدا نے ابرہام سے کہا تھا: ”مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔“
مضمون میں یہ تسلیم کِیا گیا کہ ”اپنی خواہشات پوری کرنے میں ہمیں دوسروں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔“ لیکن پھر پہلی صدی کے ایک یہودی مذہبی اُستاد کا حوالہ دیا گیا جس نے کہا تھا: ”اگر مَیں اپنے فائدے کا نہیں سوچوں گا تو مجھے کون پوچھے گا؟“ مضمون میں یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا کہ ”اگر ہم جدوجہد نہیں کریں گے تو ہم زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔“ کیا خدا کے خادموں کیلئے ہر صورت میں کامیابی، رُتبہ یا اختیار حاصل کرنے کی خواہش مناسب ہے؟ سچی کامیابی کا راز کیا ہے؟ خدا کے کلام میں اسکے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
کیا ابرہام خودغرض تھا؟
خدا کے کلام میں ابرہام کا ذکر خاص طور پر اُسکے مضبوط ایمان کی وجہ سے ہوا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۸، ۱۷) خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا تھا کہ اُسکا نام بڑا ہوگا اور اُسکی نسل سے ایک بڑی قوم پیدا ہوگی۔ لیکن خدا یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ابرہام خودغرضانہ اعمال سے اس بڑی حیثیت کو حاصل کرے۔ بلکہ خدا اپنے ہی مقصد کو بیان کر رہا تھا یعنی یہ کہ وہ ابرہام کی نسل کے ذریعے تمام نوعِانسان کو برکت پہنچائے گا۔—گلتیوں ۳:۱۴۔
ابرہام اپنے شہر اُور میں مالی لحاظ سے بہت کامیاب تھا۔ لیکن خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے وہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔ (پیدایش ۱۱:۳۱) اُسکا بھتیجا لوط بھی اُسکے ساتھ روانہ ہوا۔ جس علاقے میں وہ آباد ہوئے وہاں ابرہام نے اپنا اختیار جمانے کی بجائے لوط کو سب سے اچھی چراگاہیں پیش کیں۔ (پیدایش ۱۳:۸، ۹) پاک صحائف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابرہام نے کبھی خودغرضانہ طریقے سے کامیابی حاصل نہیں کی۔ خدا نے ابرہام کو اُسکی وفاداری، عاجزی اور ایمان کی وجہ سے اپنا ”دوست“ کہا۔—یسعیاہ ۴۱:۸۔
حیثیت اور اختیار
بادشاہ سلیمان حیثیت اور اختیار رکھنے کیساتھ ساتھ بہت دولتمند بھی تھا۔ (واعظ ۲:۳-۹) لیکن وہ حیثیت، دولت اور اختیار حاصل کرنے کا آرزومند نہیں تھا۔ توپھر سلیمان کس بات کی خواہش رکھتا تھا؟ جب خدا نے اُسکی ہر آرزو پوری کرنے کا وعدہ کِیا تو سلیمان نے خدا کی قوم کی حکمرانی کرنے کیلئے سمجھداری اور امتیاز کی درخواست کی۔ (۱-سلاطین ۳:۵-۹) بعد میں سلیمان نے بہت ساری دولت حاصل کی اور اُسکا اختیار بھی بڑھتا گیا۔ وہ اسکے بارے میں کیسا خیال رکھتا تھا؟ اُس نے کہا کہ یہ ”سب بطلان اور ہوا کی چران ہے۔“—واعظ ۲:۱۱۔
کیا سلیمان نے سچی کامیابی کا راز جان لیا تھا؟ جیہاں۔ اُس نے اپنی کامیابیوں کا خلاصہ دینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کِیا: ”خدا سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔“ (واعظ ۱۲:۱۳) اسکا مطلب ہے کہ رُتبہ حاصل کرنے اور دولت جمع کرنے سے انسان درحقیقت کامیاب نہیں ہوتا۔ سچی کامیابی کا راز خدا کی مرضی پوری کرنے میں ہے۔
کامیابی حاصل کرکے بھی عاجز رہیں
بائبل کے مطابق اپنے پڑوسی سے محبت رکھنے کیساتھ ساتھ خود سے بھی محبت رکھنا غلط نہیں۔ (متی ۲۲:۳۹) اسکے علاوہ خوشحال زندگی کی خواہش رکھنے میں بھی کوئی غلطی نہیں۔ اسلئے بائبل میں ہمیں محنت کرنے کی حوصلہافزائی دی جاتی ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں عاجز رہنا اور فروتنی سے چلنا چاہئے۔ (امثال ۱۵:۳۳؛ واعظ ۳:۱۳؛ میکاہ ۶:۸) ایک دیانتدار اور محنتی شخص کو اکثر نوکری حاصل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی اور لوگ اسکی عزت بھی کرتے ہیں۔ اگر ہم ان خوبیوں کی وجہ سے کامیاب ہوتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ اسکی بجائے اگر ہم مقابلہبازی اور خوشامد کرنے کی وجہ سے کامیابی حاصل کرتے ہیں تو یہ خدا کو پسند نہیں ہے۔
یسوع مسیح نے ایک تمثیل دے کر کہا کہ جب ہمیں کسی کی شادی پر بلایا جائے تو سب سے اچھی جگہ پر بیٹھنے کی بجائے ہمیں سب سے نیچی جگہ پر بیٹھنا چاہئے۔ پھر شاید میزبان ہمیں بہتر نشست پر بیٹھنے کو کہے جس سے ہماری عزت ہوگی۔ یسوع نے اس تمثیل میں پائے جانے والے اصول کو یوں بیان کِیا: ”جو اپنے آپکو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو کوئی اپنے آپکو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا۔“—لوقا ۱۴:۷-۱۱۔
اپنے دل سے غرور کو دُور کریں
بائبل ظاہر کرتی ہے کہ انسان اپنی فطرت کی وجہ سے غرور اور حسد جیسی خامیوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ (یعقوب ۴:۵، ۶) شروع میں یوحنا رسول بھی مغرور تھا۔ وہ یسوع کی بادشاہت میں خاص عہدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ اُس نے یسوع سے اِسکی درخواست بھی کی۔ (مرقس ۱۰:۳۷) لیکن بعد میں یوحنا کی سوچ بدل گئی۔ اپنے تیسرے خط میں اُس نے دیترفیس نامی ایک شخص کی سخت ملامت کی کیونکہ وہ ’کلیسیا میں بڑا بننا چاہتا تھا۔‘ (۳-یوحنا ۹، ۱۰) آجکل سچے مسیحی یسوع کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپکو چھوٹا بناتے ہیں یعنی اپنے دل سے غرور کو دُور کرتے ہیں۔ اگر یوحنا رسول اپنی سوچ میں تبدیلی لا سکتا تھا تو تمام مسیحی ایسا کر سکتے ہیں۔
ایک محنتی اور ہنرمند شخص عام طور پر کامیاب رہتا ہے لیکن آجکل ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ (امثال ۲۲:۲۹؛ واعظ ۱۰:۷) کبھیکبھار ایک ایسے شخص کو اختیار سونپا جاتا ہے جو اسکے لائق نہیں ہوتا جبکہ ایک قابل شخص کو نظرانداز کِیا جاتا ہے۔ اس بُری دُنیا میں ہم اکثر اپنی قابلیتوں کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
سچے مسیحی اپنے آپکو بڑا بنانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ وہ غرور پیدا کرنے سے خبردار رہتے ہیں۔ مسیحی ہر کام کو خدا کے جلال کیلئے کرتے ہیں اور اُس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱) سچے مسیحی جانتے ہیں کہ وہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
کیا خدا ابرہام کو اپنا رُتبہ بڑھانے کو کہہ رہا تھا؟