اسپنج—ادنیٰ مخلوق، پیچیدہ بناوٹ
اسپنج—ادنیٰ مخلوق، پیچیدہ بناوٹ
آسٹریلیا سے جاگو! کا نامہنگار
نہانے کے لئے کیا آپ ایک جانور کا ڈھانچا استعمال کرنا پسند کریں گے؟ زیادہتر لوگوں کو اس سوچ پر گھن آتی ہے۔ البتہ مغربی ممالک میں لوگ اکثر نہانے کے لئے اسپنج استعمال کرتے ہیں۔ اسپنج دراصل ایک سمندری جانور کا نام ہے جس کا ڈھانچا نہانے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔
ایک سائنسی رسالے کے مطابق ”اسپنج سب سے پہلے وجود میں آنے والے جانوروں میں سے ایک ہے۔“ اس وجہ سے خالق کا انکار کرنے والے کئی لوگ سوچنے لگے ہیں کہ اسپنج ہی سے تمام جانور اور انسان بھی وجود میں آئے ہیں۔ ایک ٹیلیویژن پروگرام میں سائنسدانوں نے اسپنج کو ”جانوروں کی اماں حوا“ کہا کیونکہ ان کے خیال میں اسپنج وہ جانور ہے ”جس نے زمین پر زندگی کا سلسلہ شروع کِیا تھا۔“
اسپنج کے بارے میں سائنسدانوں نے کونسے حقائق دریافت کئے ہیں؟ کیا اسپنج محض ادنیٰ درجے کا جانور ہے، یا کیا یہ ایک ذہین خالق کی دستکاری ہے؟
دلودماغ سے محروم
اگرچہ دیکھنے میں اسپنج ایک پودے کی طرح لگتا ہے لیکن قدیم زمانے کے سائنسدان ارسطو اور پلینی نے اسپنج کے بارے میں کہا کہ یہ اصل میں ایک جانور ہے۔ آجکل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دُنیا کے سمندروں اور جھیلوں میں کمازکم ۰۰۰،۱۵ مختلف قسم کے اسپنج پائے جاتے ہیں۔ کئی اسپنج پتلی پتلی اُنگلیوں کی طرح لگتے ہیں اور دوسرے موٹے موٹے پیپوں یا باریک کام والے پنکھوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض اسپنج ایک بچھے ہوئے قالین اور بعض ایک نازک گلدان کی طرح لگتے ہیں۔ اُن کا قد چاول کے دانے جتنا یا پھر ایک بڑے آدمی جتنا لمبا ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کئی اسپنج سینکڑوں سال تک جیتے ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق ”اسپنج کا جسم دوسرے جانوروں سے بہت فرق ہے۔“ دوسرے جانوروں کے برعکس اسپنج کے کوئی عضو نہیں ہیں۔ لیکن اسپنج دل، مغز اور اعصابی نظام وغیرہ کے بغیر کیسے جیتا ہے؟ اسپنج کی خلیاں ان تمام اعمال کو انجام دیتی ہیں جو دوسرے جانوروں کے عضو انجام دیتے ہیں۔ خوراک جمع کرنے، اسے تمام خلیوں تک پہنچانے اور فضلہ خارج کرنے کے لئے اسپنج میں خاص خلیاں موجود ہیں۔ دوسری قسم کی خلیاں ڈھانچا یا جِلد بنانے میں مصروف ہوتی ہیں۔ ضرورت کے مطابق ایک خلیہ خود کو دوسری قسم کی خلیہ میں تبدیل بھی کر سکتی ہے۔
اسپنج واقعی انوکھا جانور ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک زندہ اسپنج کو پیسا جائے تو اس کی خلیاں خودبخود پھر سے اسپنج کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ اگر دو مختلف اسپنج کو پیس کر ملایا جائے تو ہر ایک کی خلیاں دوسرے اسپنج کی خلیوں سے الگ ہو کر اپنے اپنے جسم میں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ ایک سائنسی رسالے نے بیان کِیا کہ ”کوئی اَور جانور یا پودا نہیں جو اسپنج کی طرح خود کو بحال کر سکتا ہے۔“
اسپنج بچے پیدا کرنے کے بھی انوکھے طریقے استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض اسپنج خلیوں کی گٹھڑیاں باندھتے ہیں جو پانی میں بہہ کر کہیں اَور پہنچ جاتی ہیں۔ پھر اِن خلیوں سے ایک نیا اسپنج اُگنے لگتا ہے۔ دوسری اقسام میں نر اور مادہ اسپنج بچے پیدا کرتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق ایک ہی اسپنج کبھی نر اور کبھی مادہ بن سکتا ہے۔ کئی اَور اسپنج انڈے دیتے ہیں۔ مصنف پال مورِس نے لکھا: ”اس ادنیٰ جانور پر تحقیق کرتے ہوئے ہم نے دریافت کِیا ہے کہ اُس کی بناوٹ بہت ہی پیچیدہ ہے۔“
سمندر کا بہترین جمعدار
حیوانیات کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ”اسپنج کا نظامِہضم تمام دوسرے جانوروں میں بےمثال ہے۔“ اسپنج میں چھوٹی چھوٹی سُرنگیں ہوتی ہیں جو جِلد پر ننھے سے سوراخ میں کھلتی ہیں۔ ان ہزاروں سُرنگوں کی دیواروں پر
لاکھوں ایسی خلیاں ہیں جو چھوٹے سے ریشے نکالی ہوئی ہیں۔ وہ ان ریشوں کو ہلاتی رہتی ہیں۔ ایک مصنف نے اس عمل کی یوں وضاحت کی: ”کشتی کے چپّوؤں کی طرح یہ ریشے پانی کو آگے کی طرف بڑھاتے ہیں۔ اس طرح پانی ایسی خلیوں تک پہنچتا ہے جو اس میں پائی جانے والی خوراک کو پکڑ کر جذب کر لیتی ہیں۔“ ایک ہی گھنٹے میں اسپنج کے جسم سے گزرنے والے پانی کی مقدار اسپنج کے اپنے وزن سے دس گُنا زیادہ ہوتی ہے۔ اسپنج پانی میں سے نہ صرف خوراک حاصل کرتا ہے بلکہ اِس میں سے زہریلا کیمیائی مادہ اور جراثیم بھی جذب کرتا ہے۔ جب اسپنج کے جسم میں زیادہ گند جمع ہو جاتا ہے تو وہ پانی خارج کرکے گند کو نکال لیتا ہے۔ ڈاکٹر جان ہوپر کا کہنا ہے کہ ”اسپنج . . . سمندر کا بہترین جمعدار ہے۔“چونکہ اسپنج میں سے پانی گزرتا رہتا ہے اس لئے جھینگے اور کیکڑے وغیرہ اِس میں اکثر اپنا گھر بناتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ۱۲۸،۱۷ جانوروں کو ایک ہی اسپنج میں پایا۔ جراثیم، سمندری کائی اور کھمبی وغیرہ بھی اسپنج میں پائے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور اسپنج کو دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اکثر اسپنج کے کُل وزن میں سے آدھا ایسی ہی مخلوقات کا ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اسپنج اور اس میں رہنے والی مخلوق سے نئی نئی دوائیاں دریافت کی جا سکتی ہیں۔ اُن کا یقین ہے کہ ایڈز، کینسر اور ملیریا جیسی بیماریوں کا علاج ان ہی دوائیوں سے ممکن ہوگا۔ ایک سائنسدان نے اسپنج سے بنائی جانے والی ایک ایسی دوا کے بارے میں یوں کہا: ”قدرت میں ایسے کیمیائی مُرکبات پائے جاتے ہیں جو ہم کمپیوٹر کی مدد سے بھی ایجاد نہیں کر سکتے۔“
خوبصورت ڈیزائن
جو اسپنج نہانے کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ نرم اور ملائم ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے ایسے اسپنج بھی ہیں جو سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔ یہ اسپنج لاکھوں چھوٹے چھوٹے دانوں سے بنے ہیں جو بلور کی طرح لگتے ہیں۔ جب ان دانوں کو خوردبین کے ذریعے دیکھا جاتا ہے تو وہ بہت خوبصورت نظر آتے ہیں۔ یہ دانے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اسپنج کا ڈھانچا یا اس کی جِلد اِن سے بنے ہیں۔ کبھیکبھار یہ دانے ایسی رسیوں کی شکل میں جڑے ہوتے ہیں جو ۳ میٹر [۱۰ فٹ] لمبی اور ۱ سینٹیمیٹر [ایک تہائی اِنچ] موٹی ہو سکتی ہیں۔ اسپنج کی ایک قسم میں ہکوں والا جال بھی ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ مچھلیاں پکڑتا ہے۔
”وینس کی ٹوکری“ نامی ایک اسپنج ان بلور والے دانوں سے ایک نہایت خوبصورت، باریک ڈھانچا بناتا ہے۔ اس کے شفاف ریشے ان شیشے کے ریشوں سے ملتےجلتے ہیں جو آجکل ٹیلیفون کی جدیدترین تاروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایک سائنسدان نے اسپنج کے ریشوں کے بارے میں یوں کہا: ”وہ بہت ہی مضبوط ہیں۔ شیشے کے ریشوں کے برعکس اسپنج کے ریشوں کو گِرہ لگایا جا سکتا ہے اور وہ پھر بھی ٹوٹتے نہیں۔“ ایسے انوکھے ریشے سمندر کے ٹھنڈے پانی میں کیسے بنتے ہیں، یہ سائنسدانوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ ایک سائنسدان نے کہا: ”ایک ادنیٰ جانور نے پیچیدہ ٹیکنالوجی کے ایک مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔“
خالق کی دستکاری
اسپنج پر تحقیق کرنے کے بعد ڈاکٹر ہوپر اس نتیجے پر پہنچے: ”اسپنج ادنیٰ جانور نہیں بلکہ دراصل بہت پیچیدہ ہے۔ آج بھی ہم اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔“ لہٰذا، یہ سوال مناسب ہوگا کہ اسپنج جیسے پیچیدہ جانور کس طرح وجود میں آئے؟
کیا وہ خودبخود وجود میں آئے ہیں؟ یا پھر کیا ایک ذہین خالق نے انہیں وجود دیا ہے؟ اسپنج کے پیچیدہ ڈیزائن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ خالق کی دستکاری ہے۔بعض لوگ خالق کے وجود کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ زبورنویس سے اتفاق کرتے ہیں، جس نے لکھا: ”اَے خداوند [یہوواہ]! تیری صنعتیں کیسی بےشمار ہیں! تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے۔ . . . یعنی چھوٹے اور بڑے جانور۔“—زبور ۱۰۴:۲۴، ۲۵۔
[صفحہ ۲۳ پر ڈائیگرام/تصویریں]
عام اسپنج کی بناوٹ۔ چھوٹی تصویر: پانی کو آگے بڑھانے والی خلیاں
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
دانہ جس سے اسپنج کا ڈھانچا بنتا ہے
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
وینس کی ٹوکری
[صفحہ ۲۳ پر تصویروں کے حوالہجات]
Sea horse: Rudie H Kuiter; 3 right-hand inset photos: Dr. John
Hooper, Queensland Museum
[صفحہ ۲۲ پر تصویروں کے حوالہجات]
/Top: Eye of Science/Photo Researchers, Inc.; bottom: Kim Taylor
Warren Photographic