سلک—”کپڑوں کی ملکہ“
سلک—”کپڑوں کی ملکہ“
جاپان سے جاگو! کا نامہنگار
دُنیا کے خوبصورتترین ملبوسات میں سے جاپانی کیمونو، ہندوستانی ساڑھی اور کوریا کے ہنبک میں ایک بات مشترک ہے۔ یہ تینوں اکثر سلک یا ریشم کے بنے ہوتے ہیں جسے کپڑوں کی ملکہ کہا جاتا ہے۔ سلک کی خوبصورتی نے ماضی کے شاہی خاندانوں سے لیکر آج کے عام آدمی تک پوری دُنیا میں لوگوں کے دلوں کو موہ لیا ہے۔ لیکن سلک ابتدا میں اتنے وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھی۔
پُرانے وقتوں میں سلک کی پیداوار صرف چین میں ہوتی تھی۔ کوئی دوسرا مُلک اس کی تیاری کے طریقۂکار سے واقف نہ تھا۔ اگر یہاں کا کوئی باشندہ ریشم کے کیڑے سے سلک تیار کرنے کا راز بتاتا تو اسے غدار قرار دیا جاتا تھا۔ صرف چین میں تیار ہونے کی وجہ سے ریشم بہت مہنگا تھا۔ مثال کے طور پر، پوری رومی سلطنت میں سلک سونے کے برابر خیال کی جاتی تھی۔
ایک وقت ایسا آیا کہ فارسی حکومت یعنی ایران نے چین سے آنے والی تمام سلک پر قبضہ کر لیا۔ لیکن یہ بہت زیادہ مہنگی تھی اس لئے فارسی تاجروں کی سلک کی صنعت میں آگے نکلنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس کے بعد بزنطین (موجودہ استنبول) کے شہنشاہ جسٹن نے ایک منصوبہ بنایا۔ تقریباً ۵۵۰ عیسوی میں، اُس نے دو راہباؤں کو ایک خفیہ مشن پر چین بھیجا۔ دو سال کے بعد اپنی واپسی پر وہ اپنے ساتھ ایک بہت اہم چیز یعنی ریشم کے کیڑوں کے انڈے بانسوں میں بھر کر لائے۔ یوں سلک کی تیاری کا راز کُھل گیا اور دوسرے مُلک بھی سلک تیار کرنے لگے۔
سلک کی تیاری کا راز
ریشم کا کیڑا سلک تیار کرتا ہے۔ ریشم کے کیڑوں کی سینکڑوں اقسام ہیں لیکن سب سے بہترین سلک تیار کرنے والی قسم کا سائنسی نام بومبیکس موری ہے۔ سلک بنانے کے لئے ریشم کے بیشمار کیڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ریشم کے کیڑوں کی افزائش کی صنعت کو فروغ دیا گیا ہے۔ جاپان کے علاقے گینما میں رہنے والے شوشی کاواحاراڈا کا خاندان اُن ۰۰۰،۲ جاپانی خاندانوں میں سے ایک ہے جو اس محنتطلب کام کو کرتے ہیں۔ اس نے اپنا دو منزلہ گھر خاص طور پر کیڑوں کی افزائش کے لئے تعمیر کِیا ہے۔ یہ ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے، جہاں شہتوت کے بہت زیادہ درخت ہیں (۱)۔
مادہ ریشم کا کیڑا ۵۰۰ سے زائد انڈے دیتا ہے۔ ایک انڈہ سوئی کے سرے جتنا بڑا ہوتا ہے (۲)۔ تقریباً ۲۰ دنوں کے بعد، ان انڈوں میں سے چھوٹے چھوٹے کیڑے نکلتے ہیں۔ ان کیڑوں کو بہت زیادہ بھوک لگتی ہے۔ وہ دن رات شہتوت کے درختوں کے پتے کھاتے رہتے ہیں (۳، ۴)۔ اٹھارہ دن کے اندر اندر ریشم کے کیڑے کی جسامت اپنی ابتدائی جسامت سے تقریباً ۷۰ گُنا بڑھ جاتی ہے اور اس دوران چار دفعہ اِس کی جِلد بھی جھڑتی ہے۔
مسٹر شوشی کے فارم پر ریشم کے تقریباً ۰۰۰،۲۰،۱ کیڑوں کی افزائش ہوتی ہے۔ جب یہ کیڑے شہتوت کے پتے کھا رہے ہوتے ہیں تو ایسی آواز پیدا ہوتی ہے ہے جیسے پتوں پر تیز بارش پڑ رہی ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریشم کے کیڑے کا وزن اسکی پیدائش کے وقت کی نسبت ۰۰۰،۱۰ گنا زیادہ ہو جاتا ہے! اب یہ کیڑا اپنا کویا یعنی خول تیار کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
خاموش تارکش
ریشم کے کیڑے کی نشوونما مکمل ہو جانے کے بعد اس کا رنگ زردی مائل ہو جاتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب دھاگہ بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ جب ریشم کے کیڑے کویا خارج کرنے کے لئے جگہ ڈھونڈتے ہیں تو انہیں سوراخدار خانوں والے بڑے بڑے ڈبوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کیڑے انہی ڈبوں میں نفیس سفید دھاگہ خارج کرتے ہیں (۵) جو ان کے گرد ہی لپٹتا جاتا ہے۔
یہ مسٹر شوشی کے لئے مصروفترین وقت ہوتا ہے۔ اسلئےکہ ریشم کے ۰۰۰،۲۰،۱ کیڑے تقریباً ایک ہی وقت میں تارکشی شروع کر دیتے ہیں۔ جن ڈبوں میں ان کیڑوں کو رکھا جاتا ہے انہیں گھر کی دوسری منزل پر قطاردرقطار ٹھنڈی جگہ پر لٹکا دیا جاتا ہے (۶)۔
اس دوران ڈبوں میں بند ریشم کے کیڑوں میں ایک حیرانکُن تبدیلی ہو رہی ہوتی ہے۔ ان کیڑوں کے معدے میں موجود شہتوت کے پتے پروٹین کی ایک قسم فائبرون میں تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ فائبرون ان کے غدودوں میں ذخیرہ ہو جاتی ہے جوکہ ان کے پورے جسم کے برابر ہوتے ہیں۔ ان غدودوں سے نکلنے والی فائبرون پر ایک گوندنما مرکب چڑھا ہوتا ہے جسے سریش کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کیڑے کے منہ سے نکلنے والے تار ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں۔ منہ میں سے نکلنے والے یہ مائعنما تار ہوا لگتے ہی خشک ہوتے جاتے ہیں۔ یوں ریشم کا ایک تار تیار ہوتا ہے۔
جب ریشم کا کیڑا ایک مرتبہ ریشم نکالنا شروع کر دیتا ہے تو وہ رکتا نہیں۔ یہ ایک منٹ میں ۱۰ سے ۱۵ انچ دھاگہ بناتا ہے اور اس دوران اپنا سر ہلاتا رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کویا مکمل ہونے تک ریشم کا کیڑا تقریباً ۰۰۰،۵۰،۱ مرتبہ اپنا سر ہلاتا ہے۔ دو دن اور دو رات میں ریشم کا کیڑا ۰۰۰،۵ فٹ لمبا دھاگہ تیار کرتا ہے۔ جو ایک فلکبوس عمارت کا چار گنا ہے!
مسٹر شوشی کا خاندان ایک ہفتے میں ۰۰۰،۲۰،۱ کوئے جمع کرتا ہے اور انہیں سلک تیار کرنے کے لئے آگے بھیج دیتا ہے۔ ایک کیمونو تیار کرنے کے لئے ۰۰۰،۹ اور ایک ٹائی کے لئے ۱۴۰ نیز ایک سلکی سکارف کے لئے ۱۰۰ کوئے درکار ہوتے ہیں۔
ریشم سے کپڑا تیار کرنا
دھاگہ کوئے سے علیٰحدہ کرکے پھرکی پر چڑھانے کا عمل ریلنگ کہلاتا ہے۔ یہ عمل کیسے شروع ہوا؟ اس کے بارے میں بہت سی داستانیں مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک چینی شہزادی حسی لنگشی شہتوت کے درخت کے نیچے بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ اس کے کپ میں ایک کویا گرا۔ اسے نکالتے وقت اُس نے دیکھا کہ اس میں سے ایک نفیس دھاگہ نکل رہا ہے۔ اس طرح ریلنگ کے عمل کی ابتدا ہوئی۔ اب یہ کام مشینوں کے ذریعے کِیا جاتا ہے۔
کوئیوں کو مہنگے داموں بیچنے کے لئے ان کے اندر موجود پیوپا کو انڈے دینے سے پہلے ہی ختم کر دیا جانا چاہئے۔ ایسا کرنے کے لئے عموماً گرم پانی یا بھاپ استعمال کی جاتی ہے۔ خراب کوئیوں کو نکال دیا جاتا ہے جبکہ دیگر کوئے سلک بنانے کے عمل سے گزرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے، ریشم کے تاروں کے اُوپر لگی گوند کو نرم کرنے کے لئے انہیں گرم پانی یا بھاپ دی جاتی ہے۔ اس کے بعد دھاگے کے سرے کو گھومنے والے برشوں کے ذریعے لپیٹ لیا جاتا ہے (۷)۔ دھاگے کا ایک تار بنانے کے لئے حسبِضرورت دو یا اس سے زیادہ کوئیوں کے ریشوں کو ایک ساتھ بل دیا جاتا ہے۔ جیسےجیسے دھاگہ نلکیوں پر چڑھتا ہے خشک ہوتا جاتا ہے۔ خام ریشم کو دوبارہ ایک بڑی پھرکی پر چڑھایا جاتا ہے اور پھر ان کے سائز یا وزن کے مطابق لچھے بنائے جاتے ہیں (۸، ۹)۔
سلک اتنا نرموملائم ہوتا ہے کہ اسے اپنے گالوں پر لگانا اچھا لگتا ہے۔ کونسی چیز اس کی ایسی بناوٹ کا تعیّن کرتی ہے؟ اس بات کا تعیّن سریش ہٹانے کے عمل سے ہوتا ہے۔ جس دھاگے پر سے گوند نہیں ہٹائی جاتی، وہ کھردرا رہ جاتا ہے اور آسانی سے رنگا نہیں جاتا۔ جبکہ جس دھاگے پر کچھ گوند باقی رہ جاتی ہے وہ دانےدار ہوتا ہے اور شفون کہلاتا ہے۔
اس کی بناوٹ کا تعیّن اس بات سے بھی کِیا جا سکتا ہے کہ دھاگے کو کتنے بل دئے گئے ہیں۔ جاپانی کپڑا چھونے پر نرموملائم ہوتا ہے۔ اسلئےکہ اس میں بہت کم یا بالکل بل نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس، کریپ میں زیادہ بل ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ تھوڑا سخت ہوتا ہے اور اس میں ہلکی ہلکی سلوٹیں ہوتی ہیں۔
سلک کی رنگائی ایک اَور اہم عمل ہے۔ اسے رنگنا آسان ہوتا ہے کیونکہ رنگ اس کے اندر جذب ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا رنگ پکا ہوتا ہے۔ مصنوعی کپڑے کے برعکس سلک پر ہر طرح کا رنگ کِیا جا سکتا ہے۔ ریشم کو بُننے سے پہلے بھی رنگا جا سکتا ہے (۱۰)۔
اگرچہ زیادہتر سلک چین اور انڈیا میں بنائی جاتی ہے توبھی فرانس اور اٹلی کے فیشن ڈیزائنر پوری دُنیا میں سلک کے ملبوسات بنانے کے لئے مشہور ہیں۔ آجکل مارکیٹ میں نقلی ریشم اور نائلون جیسے دھاگوں سے تیارکردہ سستا کپڑا بھی دستیاب ہے۔ مگر اب تک سلک کی برابری کوئی نہیں کر سکا۔ جاپان کے شہر یوکوہاما کے سلک میوزیم کے محافظ کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے توبھی مصنوعی سلک تیار نہیں کی جا سکتی۔ ہم اسے بنانے کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں لیکن اس کی نقل تیار نہیں کر سکتے۔ اسی کو مَیں سلک کا راز کہتا ہوں۔“
[صفحہ ۲۶ پر بکس/تصویر]
سلک کی خوبیاں
مضبوط: ریشم کے تار سٹیل کے تار کی طرح مضبوط ہوتے ہیں۔
خوبصورت: سلک موتی کی مانند چمکیلا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ فائبرون کی بناوٹ ہے، جو تکونی شیشے کی مانند ہوتی ہے اور یہ مختلف رنگوں کو منعکس کرتی ہے۔
نرموملائم: سلک بنانے والے امینو ایسڈز جِلد کے لئے نقصاندہ نہیں ہوتے۔ سلک جِلد کی مختلف بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ میکاپ کی بعض چیزیں سلک پاؤڈر سے تیار کی جاتی ہیں۔
نمی جذب کرنے والا: سلک کے کپڑے میں موجود ننھے ننھے سوراخ اور امینو ایسڈز پسینہ جذب کرتے اور گرمی میں ٹھنڈک کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
آگ نہیں پکڑتا: سلک آسانی سے آگ نہیں پکڑتا اور نہ ہی آگ لگنے کی صورت میں زہریلی گیسیں خارج کرتا ہے۔
محفوظ: سلک سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے سے جِلد کی حفاظت کرتا ہے۔
رگڑ سے پیدا ہونے والے چارج سے متاثر نہیں ہوتا: سلک میں مثبت اور منفی دونوں برقپارے ہوتے ہیں اور یہ نمی بھی جذب کرتا ہے اس لئے اس میں رگڑ سے چارج پیدا نہیں ہوتا جیسےکہ بعض کپڑوں میں ہوتا ہے۔
سلک کی حفاظت کرنا
دُھلائی: سلک کے کپڑوں کو ڈرائیکلین کرانا زیادہ بہتر ہے۔ گھر پر دھونے کے لئے سرف اور گرم پانی جس کا درجہحرارت تقریباً ۸۵ ڈگری فارنہائیٹ ( ۳۰ ڈگری سینٹیگریڈ) ہو استعمال کریں۔ نچوڑنے سے گریز کریں۔ کھلی ہوا میں خشک کریں۔
استری: سلکی کپڑوں کو استری کرتے وقت ان پر ایک کپڑا رکھیں۔ سلک کو اس کی بنائی کی سمت میں ۲۶۰ ڈگری فارنہائیٹ (۱۶۰ ڈگری سینٹیگریڈ) پر استری کریں۔ اگر ضرورت ہو تو ہلکا سا نم لگا لیں۔
داغ دھبے دُور کرنا: داغ لگ جانے کی صورت میں اسے فوری طور پر کسی خشک کپڑے پر سیدھا رکھیں۔ پچھلی طرف سے گیلے کپڑے سے ہلکا سا مسلیں۔ اس کے بعد اسے ڈرائی کلین کے لئے بھیج دیں۔
الماری میں رکھنا: نمی اور تیز روشنی والی جگہ پر نہ رکھیں، ٹڈیوں سے بچائیں۔ لٹکانے کے لئے تار والے ہینگر استعمال نہ کریں۔ اگر تہہ لگاکر رکھنا ہو تو کم سے کم تہیں لگائیں اور سیدھا رکھیں۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
سلک کے کوئے
[صفحہ ۲۶ پر تصویروں کے حوالہجات]
;Photos 7-9: Matsuida Machi, Annaka City, Gunma Prefecture, Japan
10 and close-up pattern: Kiryu City, Gunma Prefecture, Japan