ایک بیشقیمت عضو
ایک بیشقیمت عضو
”علاج میں خون کا استعمال اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ گاڑیوں میں تیل۔“—آرتھر کیپلن، امریکہ میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر۔
آجکل تیل کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس لئے بہتیرے لوگوں کی نظروں میں تیل کا شمار دُنیا کی سب سے قیمتی چیزوں میں ہوتا ہے۔ لیکن تیل سے بھی زیادہ قیمتی ایک چیز ہر انسان کے اندر بہہ رہی ہے اور وہ ہے خون۔ ذرا سوچیں، جس طرح ہر سال زمین کے سینے میں سے تیل کے اربوں بیرل نکالے جاتے ہیں اسی طرح ہر سال تقریباً ۸ کروڑ خون کی بوتلیں عطیہ کے طور پر دی جاتی ہیں۔ * یہ اتنا خون ہے جتنا کہ ۸۰ لاکھ لوگوں کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ یہ خون علاج کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔
جس طرح تیل کی مانگ پوری نہیں ہو رہی ہے اسی طرح خون کے عطیات کی مانگ بھی پوری نہیں ہو رہی۔ دُنیابھر کے طبّی اداروں کو اس وجہ سے بڑی فکر ہے۔ (بکس ”سرتوڑ کوششیں“ کو دیکھئے۔) آئیں ہم دیکھتے ہیں کہ خون اتنا بیشقیمت کیوں ہے۔
ایک بےمثال عضو
چونکہ خون بہت ہی پیچیدہ ہے اِس لئے اسے جسم کا ایک عضو سمجھا جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے جاگو! کے نامہنگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”خون بدن کا ایک شاندار اور بےمثال عضو ہے۔“ خون واقعی بےمثال ہے۔ ایک کتاب کے مطابق: ”پورے جسم میں خون ہی ایک ایسا عضو ہے جو پانی کی طرح بہتا ہے۔“ یہی کتاب بتاتی ہے کہ خون ”مادہ کو جسم کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچاتا ہے۔“ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے؟
ایک سائنسدان اِس کی یوں وضاحت کرتا ہے: ”رَگیں اچھے مادے کو جسم کے مختلف اعضا تک لے جاتی ہیں اور فضلہ کو وہاں سے ہٹاتی ہیں۔“ جب خون ہماری ایک لاکھ کلومیٹر [۰۰۰،۶۰ میل] لمبی رَگوں میں گردش کرتا ہے تو وہ ہمارے پھیپھڑوں، گردوں، دل، کلیجے یعنی جسم کے تمام اعضا سے گزرتا ہے۔ ان اعضا کو صحیح طرح سے کام کرنے کے لئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔
خون کے ذریعے ہمارے خلیوں کو آکسیجن اور غذا فراہم ہوتی ہے۔ خون کی مدد سے ہی جسم میں داخل ہونے والے جراثیم تباہ کئے جاتے ہیں اور کاربنڈائیآکسائیڈ اور بیکار خلیوں کو جسم سے خارج کِیا جاتا ہے۔ چونکہ خون میں فضلہ بھی ہوتا ہے اِس لئے ایک بار یہ جسم سے نکل جائے تو اسے چُھونا تک نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ خون کی بوتل لگوانے سے پہلے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اِس میں سے نقصاندہ مادہ پوری طرح سے ہٹا لیا گیا ہے یا نہیں۔
بِلاشُبہ خون ہمارے زندہ رہنے کے لئے بہت اہم ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر عموماً اُن مریضوں کو خون دیتے ہیں جن کا خون بڑی مقدار میں بہہ چکا ہوتا ہے۔ خون کے اس استعمال کی وجہ سے بہتیرے ڈاکٹر خون کو بہت قیمتی خیال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے طبّی میدان میں تبدیلیاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ بہتیرے ڈاکٹر اور سرجن جو پہلے اپنے مریضوں کو فوراً خون لگوانے کے لئے تیار ہوتے، اب ایسا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ یہ تبدیلی کیوں آئی ہے؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 پاکستان میں خون کی ایک بوتل میں ۵۰۰ ملیلیٹر خون ہوتا ہے۔
[صفحہ ۴ پر بکس/تصویر]
سرتوڑ کوششیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال علاج کے سلسلے میں خون کی جتنی ضرورت پڑتی ہے اس سے ۲۰ کروڑ بوتلیں کم حاصل ہوتی ہیں۔ زمین کی کُل آبادی میں سے ۸۲ فیصد لوگ ترقیپذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ البتہ خون کے تمام عطیات میں سے صرف ۴۰ فیصد ان ممالک میں دئے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ترقیپذیر ممالک میں بہت سے ہسپتالوں میں ڈاکٹر خون استعمال کئے بغیر ہی مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ کینیا کے ایک اخبار میں لکھا تھا کہ ”خون کے عطیات کی کمی کی وجہ سے یہاں کے ہسپتالوں میں ہر روز ایسے مریضوں کی تعداد میں سے آدھے سے زیادہ کا علاج نہیں ہو سکتا جن کو خون کی ضرورت پڑتی ہے۔“
البتہ ترقییافتہ ممالک میں بھی خون ضرورت سے کم مقدار میں فراہم ہو رہا ہے۔ چونکہ لوگوں کی اوسطاً عمر بڑھ رہی ہے اور جدید قسم کے علاج دریافت ہو رہے ہیں اس لئے اُن لوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جن کا آپریشن کِیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں سے خون کا عطیہ نہیں لیا جاتا کیونکہ اُن کا خون یا تو اُن کی بُری عادتوں کی وجہ سے معیاری نہیں ہوتا یا پھر وہ بہت سے ممالک کا سفر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے خون میں طرح طرح کی بیماریوں کے جراثیم موجود ہوتے ہیں۔
بلڈ بینک نت نئے طریقوں سے خون کی اس کمی کو دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی ممالک میں بچوں سے خون کا عطیہ لیا جا رہا ہے کیونکہ وہ ایسی بُری عادتوں کے مالک نہیں جن سے اُن کا خون آلودہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مُلک زمبابوے میں جو خون عطیہ کے طور پر حاصل ہوتا ہے اس کا ۷۰ فیصد حصہ سکول کے بچوں ہی سے وصول ہوتا ہے۔ کئی بلڈ بینک اب رات گئے تک کھلے رہتے ہیں اور بعض ممالک میں خون کا عطیہ دینے والا شخص اس کے لئے پیسے بھی وصول کر سکتا ہے۔ چیک ریپبلک میں ایک مہم چلائی گئی جس میں لوگوں کو خون کے عطیہ کے بدلے میں شراب پیش کی گئی۔ اور حال ہی میں بھارت کے ایک علاقے میں سرکاری ملازموں نے گھر گھر جا کر لوگوں سے خون کا عطیہ دینے کی درخواست کی۔