عالمی اُفق
عالمی اُفق
▪ ”جس حد تک اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ سگریٹ پینے سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوتا ہے، اسی حد تک یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ خبروں اور فلموں میں تشدد بھرے مناظر دیکھنے کے بعد نوجوان لوگ تشدد کرنے پر اُتر آتے ہیں۔“—آسٹریلیا کے ایک طبی جریدے کی خبر۔
▪ افریقہ کے کچھ علاقوں میں چمگادڑ خوراک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن سائنسدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ ان کو کھانے سے ”ایبولا نامی جانلیوا بیماری لگنے کا خطرہ ہے۔“—کینیڈا کے ایک جریدے کی خبر۔
▪ میکسیکو کی عدالت کی اطلاع کے مطابق پچھلے ۸ سال کے دوران اس مُلک میں کم سے کم ایک لاکھ تیس ہزار بچے اغوا ہوئے ہیں۔ انہیں یا تو غلام کے طور پر بیچ دیا جاتا ہے یا پھر ان سے جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ اور کئی بچوں کے اعضا کو نکال کر فروخت بھی کِیا جاتا ہے۔—میکسیکو کے ایک اخبار کی خبر۔
بارہ سال قید
مشرقی افریقہ کے مُلک اریٹریا میں تین یہوواہ کے گواہ پچھلے ۱۲ سال سے جیل میں قید ہیں۔ ان کے خلاف نہ تو کوئی رپورٹ درج کروائی گئی ہے اور نہ ہی اُن پر مقدمہ چلایا گیا ہے۔ اُن کے رشتہدار تک اُن سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ ان تینوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں برتا جا رہا ہے؟ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کِیا ہے کیونکہ ایسا کرنا اُن کے مذہبی عقیدوں کے خلاف ہے۔ اریٹریا کی حکومت فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس مُلک میں جوان آدمیوں کو گرفتار کرکے اکثر اُنہیں چھاؤنی پہنچایا جاتا ہے جہاں اُن پر طرح طرح کے تشدد ڈھائے جاتے ہیں۔
جنگلی جانوروں کو انٹرنیٹ سے خطرہ
امریکہ کے ایک اخبار میں یہ سوال کِیا گیا تھا کہ ”کیا انٹرنیٹ کی وجہ سے افریقہ کے ہاتھیوں کا وجود ختم ہو جائے گا؟“ جانوروں کے تحفظ کے لئے جدوجہد کرنے والے چند لوگوں کا خیال ہے کہ افریقہ میں نہ صرف ہاتھی بلکہ جنگلی جانوروں کی اَور بھی اقسام کو انٹرنیٹ کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔ دُنیابھر میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان جانوروں کی غیرقانونی خریدوفروخت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں تین مہینوں تک انٹرنیٹ پر انگریزی زبان کی ویب سائٹس کا جائزہ لیا گیا۔ اس جائزے کے مطابق اس عرصے کے دوران ”ان ویب سائٹس پر جنگلی جانوروں سے بنائی گئی ۰۰۰،۶ سے زیادہ ایسی اشیا دستیاب تھیں جن کی خریدوفروخت غیرقانونی ہے۔“ ان اشیا میں کچھووں کے کھپرے اور ہاتھیدانت کے بنے ہوئے مجسّمے شامل تھے۔ اس کے علاوہ کالی رنگت والے زندہ چیتوں کو بھی بیچا جا رہا تھا۔
انوکھا ایندھن
”زیتون کے بیجوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کِیا جانے لگا ہے۔“ یہ تھی سپین کے ایک اخبار کی خبر۔ سپین کے شہر میڈرڈ میں کم سے کم ۳۰۰ گھروں کو اس ایندھن کے ذریعے گرمائش اور گرم پانی مہیا کِیا جا رہا ہے۔ زیتون کے بیج کا ایندھن، تیل کی نسبت ۶۰ فیصد اور کوئلے کی نسبت ۲۰ فیصد سستا ہے۔ اس ایندھن کے استعمال سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا کیونکہ زیتون کے بیجوں کو جلانے سے اتنا ہی کاربنڈائیآکسائیڈ پیدا ہوتا ہے جتنا کہ اگر یہ بیج قدرتی طور پر سڑ کر ختم ہو جاتے۔ اس کے علاوہ سپین میں زیتون کے بیجوں کی کمی نہیں ہے کیونکہ یہ مُلک زیتون کے تیل کی پیداوار کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔ زیتون سے تیل حاصل کرنے کے بعد اس کے بیج باقی بچتے ہیں جن کو پھر ایندھن کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔
چار ہزار سال پُرانی سویّاں
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ”دُنیا کی سب سے پُرانی سویّاں“ دریافت کر لی ہیں۔ یہ خبر امریکہ کے ایک اخبار میں درج تھی۔ پیلے رنگ والی ان سویوں کی لمبائی ۵۰ سینٹیمیٹر [۲۰ اِنچ] ہے اور یہ چین میں پائے جانے والے ایک خاص غلے سے بنی ہوئی ہیں۔ انہیں شمالمغربی چین میں ہُوانگ دریا کے علاقے میں زمین کی سطح کے ۳ میٹر [۱۰ فٹ] نیچے ایک مٹی کے پیالے میں دریافت کِیا گیا۔ ایک انگریزی جریدے کے مطابق یہ جگہ تقریباً ۰۰۰،۴ سال پہلے ”شدید سیلابوں“ اور زلزلوں کی وجہ سے تباہ ہو گئی تھی۔ سویوں (یعنی نوڈلز) کے بارے میں خیال کِیا جاتا ہے کہ یہ یا تو اٹلی یا مشرقِوسطیٰ یا پھر ایشیا میں ایجاد ہوئی تھیں اور اس موضوع پر کافی بحث بھی ہو چکی ہے۔ لیکن چین کے ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ ”اِن پُرانی سویوں کی دریافت سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس صنعت کا آغاز چین ہی میں ہوا تھا۔“