کیا خوراک میرے خیالات کا مرکز ہے؟
نوجوانوں کا سوال
کیا خوراک میرے خیالات کا مرکز ہے؟
”کبھیکبھار جب مَیں کھانا کھانے کیلئے بیٹھتی ہوں تو مَیں گھبرا کر کانپنے لگتی ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ میرا وزن بڑھ جائیگا۔ مَیں خود سے کہتی ہوں کہ ’اپنا وزن کم کرو۔‘“—ملیسا۔ *
”مَیں سمارٹ لگنا چاہتی ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ مَیں موٹی ہو جاؤنگی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ لوگوں کو اِس بات کا پتا چلے کہ اپنا وزن کم کرنے کیلئے مَیں کھانا کھانے کے بعد قے کرتی ہوں۔ مجھے اس بات پر بہت ہی شرم آتی ہے۔“—امبر۔
”مَیں خود سے کہتی ہوں . . . ’آج مَیں ایسا نہیں کرونگی۔‘ . . . لیکن پھر اُسی دن مجھے حد سے زیادہ کھانے کا دَورہ پڑتا ہے۔ ایسا کرنے کے بعد مَیں اتنا شرمندہ محسوس کرتی ہوں کہ مَیں مر جانا چاہتی ہوں۔“—جینیفر۔
اگر آپ سمارٹ لگنا چاہتی ہیں تو اِس میں کوئی ہرج نہیں۔ ایسا چاہنا انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ لیکن اگر آپ ان لڑکیوں کی طرح محسوس کرتی ہیں جنکا حوالہ ساتھ میں دیا گیا ہے تو یہ غیرفطرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لاکھوں نوجوان، خاص کرکے لڑکیاں ایسی سوچ کا شکار ہیں۔ کھانے کے معاملے میں ایسی غیرفطری سوچ دراصل ایک نفسیاتی بیماری کی علامت ہے۔ *
آئیں ہم اس سلسلے میں تین ایسی نفسیاتی بیماریوں پر غور کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر بیماری کی علامات مختلف ہیں۔ اگر آپکا خیال ہے کہ آپ بھی ان میں سے ایک بیماری میں مبتلا ہیں تو یقین کریں کہ آپکو مدد مل سکتی ہے۔
علامات
▪ اینوریکسیا۔ چاہے وہ کتنی ہی دُبلی پتلی کیوں نہ ہو اس بیماری میں مبتلا لڑکی خود کو بہت موٹا سمجھتی ہے۔ اپنا وزن گھٹانے کیلئے وہ ہر جتن آزماتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ایک لڑکی کا کہنا ہے: ”مجھے خوراک میں موجود کیلوریز گننے کا جنون سا ہو گیا تھا۔ مَیں پہلے سے ہی طے کر لیتی تھی کہ ہفتے کے دوران مَیں کتنا کھانا کھاؤنگی اور کب کھاؤنگی۔ اور اگر مجھے لگتا کہ مَیں نے ایسا کھانا کھا لیا ہے جس میں بہت زیادہ کیلوریز ہیں، مَیں اُس دن کھانے سے پرہیز کرتی اور اِسکے ساتھ ساتھ بہت زیادہ ورزش بھی کرتی۔ مَیں ایسی دوا بھی لیتی جسکے ذریعے کھانا ہضم ہونے سے پہلے ہی میرے جسم سے خارج ہو جاتا۔“
اینوریکسیا کی علامات ایک شخص میں جلد ہی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان علامات میں وزن کا گھٹنا، بالوں کا گِرنا، جِلد کا خشک ہو جانا، ہڈیوں کا کمزور ہو جانا اور شدید تھکاوٹ شامل ہیں۔ کچھ مہینوں کیلئے ماہواری یا تو بالکل بند ہو جاتی ہے یا پھر باقاعدگی سے نہیں آتی۔
شاید آپکو لگے کہ یہ علامات اتنے سنجیدہ نہیں ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اینوریکسیا سے آپکی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اِس بیماری میں مبتلا لوگوں میں سے ۱۰ فیصد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ اِسلئے ہوتا ہے کیونکہ خوراک کی کمی کی وجہ سے اُنکے اعضا کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔
▪ بُولمیا۔ کھانے سے پرہیز کرنے کی بجائے اس بیماری کی مریضہ حد سے زیادہ کھاتی ہے۔ مثال کے طور پر دو گھنٹوں کے اندر اندر وہ ۰۰۰،۱۵ کیلوریز پر مشتمل خوراک کھا لیتی ہے۔ اتنا زیادہ کھا لینے کے بعد یا تو وہ اپنے حلق میں انگلی ڈال کر قے کرتی ہے یا ایسی دوا لیتی ہے جسکے ذریعے کھانا ہضم ہونے سے پہلے ہی جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔
اِس بیماری میں مبتلا لڑکی اکثر دوسروں سے چھپ کر حد سے زیادہ کھاتی ہے۔ ایک لڑکی بتاتی ہے: ”سکول کے بعد اگر مَیں دوسروں سے پہلے گھر پہنچتی تو مَیں بہت زیادہ کھاتی۔ لیکن کسی کو اِسکے بارے میں پتا نہ چلتا کیونکہ کھانے کے بعد مَیں ہمیشہ برتن دھوتی اور باورچیخانہ صاف کرتی۔ اتنا زیادہ کھانے کے بعد مَیں بہت شرمندہ محسوس کرتی۔ مَیں اپنی ہی نظروں میں گِر جاتی۔ پھر مَیں حلق میں انگلی ڈال کر قے کرتی یا پھر ایسی دوا لیتی جسکے ذریعے کھانا ہضم ہونے سے پہلے ہی میرے جسم سے خارج ہو جاتا۔ ایسا کرنے کے بعد مجھے لگتا کہ مجھے خود پر قابو ہے اور مَیں سکون کا سانس لیتی۔“
ہضم کرنے سے پہلے خوراک کو اپنے جسم سے خارج کرنا ایک ایسی لڑکی کے نزدیک شاید اچھی تجویز ہے۔ لیکن باقاعدگی سے ایسا کرنے سے اُسکی انتڑیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بار بار قے کرنے سے جسم میں پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے، دانت خراب ہو سکتے ہیں، غذا کی نالی کو نقصان ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اُسکو دل کا شدید دَورہ بھی پڑ سکتا ہے۔
▪ کھانے کا دَورہ پڑنا۔ اِس بیماری میں مبتلا لڑکیاں بُولمیا کی مریضہ کی طرح حد سے زیادہ کھاتی ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ وہ خوراک کو جسم سے فوراً خارج نہیں کرتیں۔ اِسلئے اِنکا وزن بڑھ جاتا ہے۔ لیکن کئی لڑکیاں کھانے کا دورہ پڑنے کے بعد یا تو کچھ عرصے تک بالکل ہی کھانا بند کر دیتی ہیں یا پھر بہت زیادہ ورزش کرتی ہیں۔ اِسطرح اُنکا وزن برقرار رہتا ہے اور اُنکے عزیزوں کو اِس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں۔
اِس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ایک لڑکی کھانے کے بارے میں اپنی سوچ کو یوں بیان کرتی ہے: ”میرے لئے خوراک ایک دوست کی طرح ہے۔ اِسکے علاوہ شاید ہی میرا اَور کوئی دوست ہو۔“ ایک اَور لڑکی کا کہنا ہے: ”جب مجھے کھانے کا دَورہ پڑتا ہے تو مَیں اتنا زیادہ کھاتی ہوں اور کھانے میں اتنی مگن ہو جاتی ہوں کہ مجھے کسی دوسری بات کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ اُس وقت میرے لئے خوراک ہی سب سے اہم چیز ہوتی ہے اور میری تسلی کا باعث بھی ہوتی ہے۔ لیکن بعد میں مَیں بہت شرمندہ اور افسردہ محسوس کرتی ہوں۔“
یاد رکھیں کہ حد سے زیادہ کھانا کھانا خطرناک ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر (بیپی)، دل کی بیماری اور دوسری کئی بیماریاں لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اِسکے علاوہ مسلسل جذباتی اُونچنیچ سے گزرنے کی وجہ سے مریضوں پر بُرا اثر بھی پڑتا ہے۔
خود کو پرکھیں
یہ بات سچ ہے کہ زیادہتر لوگ جو اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں یا سمارٹ لگنا چاہتے ہیں، وہ کسی نفسیاتی بیماری کا شکار نہیں ہیں۔ لیکن اگر ان مختلف نفسیاتی بیماریوں کے بارے میں پڑھنے کے بعد آپکو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپکی سوچ ان میں مبتلا مریضوں سے ملتیجلتی ہے تو خود سے پوچھیں:
▪ کیا مَیں کھانا کھانے کی اپنی عادتوں کے بارے میں شرمندگی محسوس کرتی ہوں؟
▪ کیا مَیں ان عادتوں کو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتی ہوں؟
▪ کیا خوراک میرے تمام خیالات کا مرکز بن گئی ہے؟
▪ کیا مَیں دن میں ایک بار سے زیادہ اپنا وزن کرتی ہوں؟
▪ وزن کم کرنے کیلئے کیا مَیں اپنی صحت کو داؤ پر لگانے کو تیار ہوں؟
▪ کیا مَیں نے خوراک کو ہضم کرنے سے پہلے ہی اُسے جسم سے خارج کرنے کی کوشش کی ہے؟
▪ کیا مَیں کھانے کے سلسلے میں اپنی عادتوں کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ میلجول نہیں رکھتی؟ مثلاً حد سے زیادہ کھانے یا خوراک کو جسم سے خارج کرنے کی غرض سے کیا مَیں دوسروں سے کنارہ کرنے لگی ہوں؟
اگر ان سوالوں کے جواب سے آپکو لگتا ہے کہ خوراک کے معاملے میں آپکی سوچ بھی غیرفطری ہے تو خود سے پوچھیں:
▪ کیا مَیں اس صورتحال سے مطمئن ہوں؟
اِس بیماری کی گِرفت سے نکلنے کیلئے آپ کیا کر سکتی ہیں؟
آپ غالب آ سکتی ہیں!
پہلے تو آپکو اِس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ خوراک کے معاملے میں غیرفطری سوچ رکھتی ہیں۔ دنیلا نامی ایک لڑکی کہتی ہے: ”سوچبچار کرنے کے بعد مجھے اِس بات کا احساس ہوا کہ مَیں نہ صرف اینوریکسیا کے مریضوں کی طرح محسوس کرتی تھی بلکہ میری عادتیں بھی اُن جیسی تھیں۔ جب مَیں نے اس بات کو تسلیم کِیا کہ مَیں وہی حرکتیں کرتی ہوں جو اینوریکسیا کے مریض کرتے ہیں تو میرے دل میں ایک خوف سا اُٹھ گیا۔“
اپنی کیفیت کے بارے میں یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔ * اُس سے درخواست کریں کہ وہ آپکو سمجھ عطا فرمائے تاکہ آپ جان سکیں کہ آپکی بیماری کی وجہ کیا ہے اور آپ اِس سے کیسے نپٹ سکتی ہیں۔ آپ بھی داؤد بادشاہ کی طرح دُعا کر سکتی ہیں: ”اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان۔ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روِش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل۔“—زبور ۱۳۹:۲۳، ۲۴۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خوراک کے سلسلے میں غیرفطری سوچ اور عادات سے آپکا اِس حد تک لگاؤ ہو کہ آپ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش ہی نہیں رکھتیں۔ اسکے بارے میں بھی یہوواہ خدا سے دُعا کریں۔ دنیلا بتاتی ہے: ”پہلے تو مَیں اِس بیماری سے چھٹکارا نہیں حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اِسلئے مجھے یہوواہ خدا سے دُعا کرنی پڑی کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو۔“
مدد حاصل کرنے کیلئے اپنے والدین یا کسی دوسرے پُختہ شخص کو اپنی مشکلات کے بارے میں بتائیں۔ ایسے اشخاص جو آپکا بھلا چاہتے ہیں وہ آپکو شرمندہ نہیں کرینگے۔ بلکہ وہ آپکو ایسا خیال کرنے کی کوشش کرینگے جیسے یہوواہ خدا آپکو خیال کرتا ہے۔ زبور ۲۲:۲۴ میں ہمیں یہوواہ خدا کے بارے میں بتایا جاتا ہے: ”اُس نے نہ تو مصیبتزدہ کی مصیبت کو حقیر جانا نہ اُس سے نفرت کی۔ نہ اُس سے اپنا مُنہ چھپایا بلکہ جب اُس نے خدا سے فریاد کی تو اُس نے سُن لی۔“
یہ سچ ہے کہ ایسی نفسیاتی بیماریوں کی گِرفت سے آزاد ہونا آسان نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپکو کسی ڈاکٹر سے مشورہ لینا پڑے۔ * سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کیلئے قدم اُٹھائیں۔ بُولمیا کی ایک مریضہ کہتی ہے: ”ایک دن مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اس بیماری نے مجھے اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا ہے۔ لیکن مَیں نہیں جانتی تھی کہ اِس سے رِہائی حاصل کرنا میرے بس میں ہے یا نہیں۔ پھر مَیں نے سب سے مشکل قدم اُٹھایا یعنی اپنی بیماری سے رِہائی پانے کیلئے دوسروں سے مدد مانگی۔“
ہمت نہ ہاریں آپ بھی ایسا کر سکتی ہیں!
”نوجوانوں کے سوال“ کے سلسلے میں مزید مضامین ویب سائٹ www.watchtower.org/ype پر مل سکتے ہیں
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 اس مضمون میں چند نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
^ پیراگراف 6 چونکہ اکثر لڑکیاں ہی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں اِسلئے اس مضمون میں لڑکیوں کا ذکر کِیا جائیگا۔ لیکن اس میں پائے جانے والے اصول لڑکوں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
^ پیراگراف 32 جب آپ افسردہ محسوس کرتی ہیں تو نیچے دئے گئے حوالوں پر غور کریں۔ ایسا کرنے سے آپکو یقین ہو جائیگا کہ یہوواہ خدا آپ سے پیار کرتا ہے اور اُسے آپکی فکر ہے۔—خروج ۳:۷؛ زبور ۹:۹؛ ۳۴:۱۸؛ ۵۱:۱۷؛ ۵۵:۲۲؛ یسعیاہ ۵۷:۱۵؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۷؛ فلپیوں ۴:۶، ۷؛ ۱-پطرس ۵:۷؛ ۱-یوحنا ۵:۱۴۔
^ پیراگراف 35 مسیحیوں کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ جس علاج کا انتخاب کرتے ہیں وہ بائبل میں پائے جانے والے اصولوں کے خلاف نہ ہو۔
ذرا سوچیں
▪ اگر آپ خوراک کے سلسلے میں نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں تو آپ کس سے مدد حاصل کر سکتی ہیں؟
▪ اگر آپکی کوئی سہیلی خوراک کے سلسلے میں نفسیاتی بیماری کا شکار ہے تو آپ اُسکی مدد کیسے کر سکتی ہیں؟
[صفحہ ۱۹ پر بکس]
”مَیں آپکی وجہ سے فکرمند ہوں“
اگر آپ کے خاندان کا ایک فرد یا آپ کی کوئی سہیلی ایسا کہے تو اِس بات کا انکار کرنے کی کوشش نہ کریں کہ آپ کو مدد کی ضرورت ہے۔ فرض کریں کہ آپ کی ایک دوست آپ کو بتاتی ہے کہ آپ کی قمیض پیچھے سے پھٹی ہے۔ کیا آپ اُس کی شکرگزار نہ ہوں گی؟ پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ ”ایسا دوست بھی ہے جو بھائی سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔“ (امثال ۱۸:۲۴) جب ایک شخص یہ دیکھ کر کہ آپ کو ایک مسئلے کا سامنا ہے آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ آپ کے لئے بھائی جیسی محبت ظاہر کرتا ہے۔
[صفحہ ۱۹ پر بکس/تصویر]
”مَیں ہر قیمت پر سمارٹ لگنا چاہتی تھی“
”مَیں اپنا وزن کم کرنے لگی۔ پھر مجھے اپنے چند دانت نکلوانے پڑے جسکی وجہ سے مَیں کچھ عرصے کیلئے کھانا نہیں کھا سکتی تھی۔ اسطرح مَیں اینوریکسیا کی بیماری میں مبتلا ہونے لگی۔ مَیں اپنی شکلوصورت کے بارے میں جنونی ہو گئی تھی۔ حالانکہ مَیں بہت پتلی ہو گئی تھی لیکن پھر بھی مَیں خود کو بہت موٹی سمجھتی تھی۔ میرا وزن خطرناک حد تک کم ہو گیا۔ مَیں اپنا وزن کم کرتے کرتے اپنے جسم کو بہت نقصان پہنچا رہی تھی۔ اب میرے ناخن بڑھنا بند ہو گئے ہیں۔ میرے جسم نے ٹھیک طرح سے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ میرے چار بچے ضائع ہو چکے ہیں۔ میری ماہواری وقت سے پہلے بند ہو گئی ہے۔ میری بڑی آنت بھی سُوجھ جاتی ہے۔ اور مَیں کھانے کو اچھی طرح سے ہضم بھی نہیں کر سکتی۔ یہ سب کچھ اسلئے ہوا ہے کیونکہ مَیں ہر قیمت پر سمارٹ لگنا چاہتی تھی۔“—نکول۔
[صفحہ ۲۰ پر بکس/تصویر]
اگر آپ دوبارہ سے اس عادت میں پڑنے لگیں
شاید آپ کھانے کے معاملے میں اپنی غیرفطری سوچ پر غالب آ چکی ہیں۔ لیکن کچھ ہفتے یا مہینے بعد آپ دوبارہ سے اس عادت میں پڑنے لگتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہمت مت ہاریں۔ پاک صحائف میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ”صادق سات بار گِرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔“ (امثال ۲۴:۱۶) کھانے کے سلسلے میں دوبارہ سے اپنی عادت میں مبتلا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اِس بیماری پر کبھی غالب نہیں آئینگی۔ لیکن اِسکا مطلب ہے کہ آپکو اِس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا اپنا ارادہ مضبوط کرنا ہوگا۔ اِس بات کو پہچاننے کی بھی کوشش کریں کہ آپ کیوں پھر سے اِس عادت میں پڑنے لگی ہیں۔ اور پھر کسی سے مدد کی درخواست کریں۔
[صفحہ ۲۰ پر بکس/تصویر]
مزید پڑھیں
کھانے کے سلسلے میں اگر آپ ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں تو اِسکے بارے میں مزید پڑھیں۔ جتنا بھی آپ اِسکے بارے میں سیکھیں گی اتنا ہی اِس پر غالب آنا آپکے لئے آسان ہو جائیگا۔ مثال کے طور پر اویک! کے اِن شماروں کو پڑھنے سے آپکو فائدہ ہوگا: جنوری ۲۲، ۱۹۹۹، صفحہ ۳-۱۲ اور اپریل ۲۲، ۱۹۹۹، صفحہ ۱۳-۱۵۔
[صفحہ ۲۱ پر بکس]
والدین کیلئے ہدایت
اگر آپکی بیٹی کھانے کے سلسلے میں ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے تو آپ اُسکی مدد کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟ پہلے تو اِس مضمون پر غور کریں اور صفحہ ۲۰ پر جن مضامین کا حوالہ دیا گیا ہے انہیں بھی پڑھیں۔ پھر اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپکی بیٹی اس بیماری کا شکار کیوں بن گئی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ اِس قسم کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا لڑکیاں اکثر احساسِکمتری کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں چاہتی ہیں کہ اُنکا ہر کام معیاری ہو۔ اور جب وہ اپنی توقعات پر پورا نہیں اُترتیں تو وہ مایوس ہو جاتی ہیں۔ والدین، اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ اپنی بیٹی کی اس سوچ کا سبب نہ بنیں۔ بلکہ اپنی بیٹی کی منفی سوچ کے اثر کو مٹانے کیلئے ”نرم مزاجی“ سے کام لیں۔ (فلپیوں ۴:۵) اسکے علاوہ ہر مناسب موقعے پر اپنی بیٹی کو داد دیں۔—یسعیاہ ۵۰:۴۔
خوراک اور وزن کے معاملے میں آپ اپنی سوچ کو بھی پرکھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنی باتوں یا اپنے اعمال سے سمارٹ لگنے پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ نوجوان اپنی شکلوصورت کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ بچپن میں بچے قدرتی طور پر صحتمند نظر آتے ہیں۔ اگر آپ اپنی بچی کو اس وجہ سے چھیڑینگے تو شاید یہ بات اُسکے دل میں بیٹھ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اِسطرح اُسکے ذہن میں خوراک اور وزن کے معاملے میں غیرفطری سوچ کے بیج بوئے جائیں۔
ان باتوں پر غور کرنے کے بعد دُعا کریں اور پھر بڑی شفقت سے اپنی بیٹی کیساتھ بات کریں۔
▪ پہلے سے ہی اس بات پر غور کریں کہ آپ اُس سے کیا کہینگے اور کس موقعے پر اس موضوع پر بات چھیڑینگے۔
▪ اپنی بیٹی کو اِس بات کا احساس دلائیں کہ آپکو اُسکی فکر ہے اور آپ اُسکی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
▪ اگر آپکی بیٹی پہلے تو اِس بات کو ماننے سے انکار کرتی ہے کہ وہ ایک بیماری کا شکار ہے تو حیران نہ ہوں۔
▪ اپنی بیٹی کی باتوں پر کان لگائیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب آپکی بیٹی اس بیماری سے نپٹنے کی کوشش کرتی ہے تو تمام گھر والے اُسکا سہارا بنیں۔
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ آپکے دل میں اِس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو