انسان موت سے کیوں ڈرتے ہیں؟
انسان موت سے کیوں ڈرتے ہیں؟
”موت سب چیزوں سے زیادہ ہولناک ہے کیونکہ اس کے بعد کچھ نہیں رہ جاتا۔“ —ارسطو۔
اپنے ساتھیوں میں وہ ایک دیندار عورت مانی جاتی تھی۔ وہ دل سے اپنے مذہب کے عقیدوں کو مانتی تھی۔ کئی لوگ اُس کے بارے میں کہتے تھے کہ ”وہ اپنے چرچ کا بڑا سہارا ہے۔“ اُس کو سکھایا گیا تھا کہ موت انسان کے وجود کا خاتمہ نہیں بلکہ دوسری زندگی کی طرف لے جانے والی راہ ہے۔ لیکن جب اُس کے مرنے کے دن قریب آئے تو اُس پر موت کا خوف چھا گیا۔ اُس نے ایک مذہبی رہنما سے کہا: ”انسان کے مرنے کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، اس کے بارے میں لوگ اتنے مختلف نظریے رکھتے ہیں۔ لیکن ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟“
زیادہتر مذاہب اور ثقافتوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ موت کے بعد انسان کی زندگی جاری رہتی ہے یا پھر کہ وہ مرنے کے بعد جی اُٹھتا ہے۔ لیکن موت کے بارے میں مختلف عقیدوں میں سے سچا کون سا ہے؟ کئی لوگ تو یہ بات بالکل نہیں مانتے کہ مرنے کے بعد انسان پھر سے زندہ ہو سکتا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کو سکھایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی زندگی جاری رہتی ہے؟ کیا آپ اِس عقیدے کو مانتے ہیں؟ کیا آپ کو مرنے سے ڈر لگتا ہے؟
لوگ مرنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟
حال ہی میں اِس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ انسان کو موت سے اتنا خوف کیوں ہے اور سائنسدانوں نے بھی اِس موضوع پر تحقیق کی ہے۔ اس کے باوجود زیادہتر لوگ موت کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتے۔ لیکن موت ایک حقیقت ہے اس لئے ہم اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہر دن اوسطاً ۰۰۰،۶۰،۱ لوگ موت کا شکار بن جاتے ہیں۔ زندگی آج ہے تو کل نہیں۔ ایسا کوئی انسان نہیں ہے جس پر موت نہیں آ سکتی ہے اور یہ حقیقت بعض لوگوں کے لئے خوف کا باعث ہے۔
ماہرینِنفسیات کا کہنا ہے کہ لوگ مختلف وجوہات سے موت سے ڈرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ اس لئے خوفزدہ ہیں کیونکہ اُنہیں مرتے وقت شاید تکلیف سہنی پڑے۔ دوسرے لوگ خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد اُن کے ساتھ کیا واقع ہوگا۔ بعض لوگ اپنے کسی عزیز کو موت کے ہاتھ کھو دینے سے ڈرتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کو یہ خوف ستاتا ہے کہ اُن کے مرنے کے بعد اُن کے خاندان اور دوستوں کو کن مشکلات کا سامنا ہوگا۔
موت کے بارے میں چاہے لوگ کسی بھی عقیدے کو مانتے ہوں اُن کو اس بات کا خوف ستاتا ہے کہ موت کے بعد اُن کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ سائنس کے میدان نے لوگوں کے دلوں سے اس خوف کو مٹانے کی بجائے اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ وہ کیسے؟ سائنسدانوں نے انسانی جسم کے بارے میں بہت کچھ دریافت کر لیا ہے۔ لیکن اس میدان کا کوئی بھی ماہر اس
بات کا ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے کہ انسان کے جسم میں ایک ایسی اَندیکھی شے ہے جو مرنے کے بعد زندہ رہتی ہے۔ اس لئے سائنسدان موت کو ایک قدرتی عمل سمجھتے ہیں۔حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ ایسے لوگ جو اس بات کو مانتے ہیں کہ موت کے بعد زندگی جاری رہتی ہے وہ بھی ڈرتے ہیں کہ مرنے پر کہیں اُن کا وجود ختم نہ ہو جائے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ خدا کے کلام میں بادشاہ سلیمان نے کہا تھا کہ موت کے بعد انسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔
’انسان پھر خاک سے جا ملتے ہیں‘
تین ہزار سال پہلے بادشاہ سلیمان نے واعظ کی کتاب میں لکھا کہ ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے اور اُن کے لئے اَور کچھ اجر نہیں کیونکہ اُن کی یاد جاتی رہی ہے۔ اب اُن کی محبت اور عداوتوحسد سب نیست ہو گئے۔“ اُس نے آگے کہا: ”جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدور بھر کر کیونکہ پاتال میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“—واعظ ۹:۵، ۶، ۱۰۔
یہاں تک کہ بادشاہ سلیمان نے یہ بھی کہا: ”جو کچھ بنیآدم پر گذرتا ہے وہی حیوان پر گذرتا ہے۔ ایک ہی حادثہ دونوں پر گذرتا ہے جس طرح یہ مرتا ہے اُسی طرح وہ مرتا ہے . . . سب کے سب ایک ہی جگہ جاتے ہیں۔ سب کے سب خاک سے ہیں اور سب کے سب پھر خاک سے جا ملتے ہیں۔“—واعظ ۳:۱۹، ۲۰۔
یہ الفاظ بادشاہ سلیمان نے خدا کے الہام سے لکھے تھے۔ خدا کے کلام میں درج دوسری آیتوں کی طرح بادشاہ سلیمان کے الفاظ بھی یہ نہیں سکھاتے کہ مرنے کے بعد انسان کے اندر ایک ایسی شے ہے جو زندہ رہتی ہے۔ (پیدایش ۲:۷؛ ۳:۱۹؛ حزقیایل ۱۸:۴) کیا اس کا مطلب ہے کہ جب ہم مرتے ہیں تو ’خاک میں مل جانا‘ ہی ہمارا انجام ہوتا ہے؟ بالکل نہیں۔
خدا کے کلام میں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ مرنے کے بعد انسان میں موجود ایک اَندیکھی شے زندہ رہتی ہے۔ لیکن اِس میں مُردوں کے لئے یہ اُمید ضرور پائی جاتی ہے کہ ایک دن خدا اُنہیں زندہ کر دے گا۔ اگلے مضمون میں ہمیں بتایا جائے گا کہ ہمیں موت سے کیوں نہیں ڈرنا چاہئے۔
[صفحہ ۳ پر بکس]
جانی دُشمن
موت کو انسان کا دُشمن کہا گیا ہے۔ اور یہ واقعی ایک دُشمن ثابت ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً ۵ کروڑ ۹۰ لاکھ لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر دو سیکنڈ کے بعد ایک انسان مر جاتا ہے۔ غور کریں کہ موت لوگوں کو اپنا نشانہ کیسے بناتی ہے۔
▪ ہر ۱۰۲ سیکنڈ بعد ایک شخص جنگ کی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے۔
▪ ہر ۶۱ سیکنڈ بعد ایک شخص کا قتل کر دیا جاتا ہے۔
▪ ہر ۳۹ سیکنڈ بعد ایک شخص خودکشی کر لیتا ہے۔
▪ ہر ۲۶ سیکنڈ بعد ایک شخص سڑک پر حادثے کی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے۔
▪ ہر ۳ سیکنڈ بعد ایک شخص بھوک کی وجہ سے مر جاتا ہے۔
▪ ہر ۳ سیکنڈ بعد ایک ایسا بچہ مر جاتا ہے جس کی عمر پانچ سال سے کم ہے۔
[صفحہ ۴ پر بکس]
بیکار کوششیں
سن ۱۹۴۹ میں جیمز کڈ نامی ایک ۷۰ سالہ امریکی کانکُن، ایریزونا کے پہاڑی علاقے میں لاپتہ ہو گیا۔ کئی سال گزرنے کے بعد اُسے مُردہ قرار دیا گیا۔ اُس کی دستاویزات میں ایک وصیتنامہ شامل تھا۔ اِس میں جیمز کڈ نے لکھا تھا کہ اُس کے ورثے میں سے لاکھوں ڈالر کی رقم ایسی سائنسی تحقیق پر خرچ کی جائے جس سے یہ بات ثابت ہو کہ انسان کے جسم میں ایک اَندیکھی شے ہے جو کبھی نہیں مرتی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ہزاروں نے دعویٰ کِیا کہ وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ موت کے بعد انسان کی روح زندہ رہتی ہے اور ایک سو سے زائد سائنسدانوں نے اس رقم کی درخواست دی۔ کئی مہینوں تک عدالت میں اس سلسلے پر بحث جاری رہی کہ تحقیق کے لئے کس سائنسدان کو یہ رقم دی جائے۔ آخرکار جج نے تحقیق کرنے والی دو نامور تنظیموں کو یہ رقم دلوائی۔ لیکن آج تقریباً پچاس سال بعد بھی ان تحقیقدانوں کو اِس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ انسان کے جسم میں ایک اَندیکھی شے ہے جو کبھی نہیں مرتی۔