کیا یہ خون واقعی محفوظ تھا؟
کیا یہ خون واقعی محفوظ تھا؟
نائیجیریا سے جاگو! کا نامہنگار
▪ حال ہی میں یہ سوال ملک نائیجیریا میں اُٹھایا گیا۔ اس کا پسمنظر یہ ہے کہ اینیاولا نامی ایک ننھی بچی کو ایسا خون لگوایا گیا جس سے اُس کے جسم میں ایڈز کا وائرس (جسے ایچآئیوی کہتے ہیں) منتقل ہو گیا۔ یہ خون ملک کے ایک بڑے ہسپتال کے بلڈ بینک سے وصول ہوا تھا۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ پیدائش کے بعد اینیاولا کو یرقان کی بیماری لگ گئی۔ ڈاکٹر نے علاج کے سلسلے میں اُس کا خون نکالنے اور اُسے کسی اَور کا خون دینے کا فیصلہ کِیا۔ اینیاولا کے والد نے اس مقصد کے لئے اپنے خون کا عطیہ دیا لیکن بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اُن کے خون کا گروپ اینیاولا کے خون کے گروپ سے نہیں ملتا۔ لہٰذا ہسپتال کے بلڈ بینک سے خون منگوایا گیا اور اینیاولا کو لگوایا گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی ظاہر ہوا کہ اینیاولا کو ایڈز کا وائرس لگ گیا ہے حالانکہ اُس کے والدین میں یہ وائرس موجود نہیں تھا۔ ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق: ”بچی کو جو خون لگوایا گیا اُس کا پہلے تو ٹیسٹ کروایا گیا، یہ دیکھنے کے لئے کہ اِس میں ایڈز کا وائرس ہے یا نہیں۔ اُس وقت اِس خون میں یہ وائرس بظاہر موجود نہیں تھا۔“
توپھر اِس بچی کو ایڈز کا وائرس کیسے لگ گیا؟ تحقیق کرنے کے بعد نائیجیریا کی حکومت اِس نتیجے پر پہنچی کہ بچی کو یہ بیماری اُسی خون سے لگ گئی تھی جو ہسپتال کے بلڈ بینک سے وصول ہوا تھا۔ اِس سلسلے میں نائیجیریا کے ایک اخبار نے وائرس پر تحقیق کرنے والے ایک سائنسدان کے اِس بیان کو شائع کِیا: ”جس شخص کا خون اِس بچی کو دیا گیا اُس نے اُس عرصے کے دوران اپنے خون کا عطیہ دیا جب اِس بات کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا تھا کہ اُس میں ایڈز کا وائرس موجود ہے۔“
اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتقالِخون کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ امریکہ میں بیماریوں کی روکتھام کرنے والے ادارے نے خون کو محفوظ قرار دینے والے ٹیسٹ کے بارے میں کہا: ”جب ایک شخص کو ایڈز کا وائرس لگ جاتا ہے تو یہ اُس کے خون سے فوراً دریافت نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدن کا دفاعی نظام اِس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے جو خاص مادہ (اینٹیباڈیز) تیار کرتا ہے اُس کی مقدار شروع میں بہت کم ہوتی ہے۔ اِس لئے اِس بات کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا کہ آیا خون میں ایڈز کا وائرس موجود ہے یا نہیں۔ جو لوگ ایڈز کے وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اُن میں سے بڑی تعداد کے خون میں ۲ تا ۸ ہفتے بعد (اوسطاً ۲۵ دن بعد) اینٹیباڈیز کی تعداد اِس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اِنہیں ٹیسٹ کے ذریعے دریافت کِیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ عرصہ ہر شخص میں فرق ہوتا ہے۔ . . . کئی لوگوں میں وائرس لگ جانے کے ۶ مہینے بعد ہی یہ دریافت کِیا جا سکتا ہے کہ اُنہیں ایڈز کا وائرس لگ گیا ہے۔“
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس خون کو ٹیسٹ کرنے کے بعد محفوظ قرار دیا جاتا ہے لازمی نہیں کہ وہ واقعی محفوظ ہو۔ شہر سانفرانسسکو کے ایڈز پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے نے اِس سلسلے میں یہ آگاہی دی: ”جب ایک شخص کو ایڈز کا وائرس لگ جاتا ہے تو وہ اُس وقت بھی دوسروں کو یہ بیماری منتقل کر سکتا ہے جب اُس کے خون سے ایڈز کے وائرس کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ دراصل اِس وائرس کے لگنے کے فوراً بعد کا جو عرصہ ہوتا ہے یہی اِس بیماری کو دوسروں میں منتقل کرنے کا سب سے خطرناک مرحلہ ہوتا ہے۔“
پاک صحائف میں خون کے سلسلے میں یہ حکم پایا جاتا ہے: ”لہو . . . سے پرہیز کرو۔“ (اعمال ۱۵:۲۹) یہوواہ کے گواہ اِس حکم پر عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہے ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کے احکام پر عمل کرنا ہمیشہ دانشمندی کی بات ہوتی ہے۔